Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1437ھ

ہ رسالہ

12 - 17
بدلہ

مولانا سید محمد ماجد حسن مظاہری
	
بیت الله شریف کی زیارت کی غرض سے تین خوب صورت نوجوان، چمک دار پیشانی والے، جن کو دیکھتے ہی خدا یاد آجائے، یا د خدا میں مستغرق چلے جارہے تھے، راستے میں نہ جانے کس طرح ان کے سامان کے اونٹ ان سے جدا ہو گئے۔ اب حال یہ کہ عرب کی تیزدھوپ اور سفر کی تکان سے تینوں بھوک وپیاس کی شدت میں بے حال ہو گئے، مگر رحمت خدا وندی ان کے ساتھ تھی، اچانک دور سے ان کو ایک خیمہ نظر آیا، جب اس کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت اور ایک نہایت کم زور بکری کے علاوہ وہاں کوئی نہیں ہے۔

ایک نے آگے بڑھ کر اس عورت سے معلوم کیا، اے بزرگ خاتون! ہم حج کے ارادے سے جارہے ہیں، راستے میں سامانِ سفر گم ہو گیا ہے، اگر آپ کے پاس ہمارے پینے کے لیے کوئی چیز پانی، لسی یا دودھ وغیرہ ہو تو ہمیں دے دو۔ بوڑھی عورت نے کہا میرے پاس اس معمولی سی بکری کے علاوہ کچھ نہیں، اگر مناسب سمجھو تو اس کا دودھ نکال لو اور تھوڑا تھوڑا تینوں پی لو۔ یہ سن کر ان کے چہرے فرط مسرت سے کھل اٹھے، تینوں اپنی اپنی سواری سے اتر گئے، اس بکری سے دودھ نکالا او رپیا، اس سے فراغت کے بعد کہا کہ بزرگ خاتون! آپ کے پاس ہمارے کھانے کے لیے بھی کچھ ہو گا، ہمیں بہت بھوک لگی ہے؟

بوڑھی عورت نے کہا کہ میرے پاس تمہاری مہمان نوازی کے لیے اس بکری کے علاوہ او رکچھ نہیں، میں تم کو اجاز ت دیتی ہوں کہ اس کو ذبح کر لو، میں تمہارے لیے پکا دوں گی۔ تیار ہونے کے بعد بعد سب نے خوب سیر ہو کر کھایا۔

جب دھوپ کی تمازت کم ہوئی، تو یہ حضرات وہاں سے رخصت ہوئے، چلتے وقت ایک نوجوان نے کہا کہ ہم لوگ ہاشمی ہیں، یہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار حضرت حسن اور حضرت حسین رضی الله عنہما ہیں اور میں عبدالله بن جعفر اس وقت ہم حج کے ارادے سے جارہے ہیں ،اگر ہم زندہ وسلامت مدینہ واپس پہنچ جائیں، تواے بزرگ عورت! آپ ہمارے پاس آنا ہم آپ کے اس احسان کا بدلہ دیں گے۔ پھر یہ حضرات وہاں سے رخصت ہو گئے…!

ان حضرات کے چلے جانے کے بعد جب اس کا شوہر آیا تو اس عورت نے ان محترم ہاشمی مہمانوں کا ذکر کیا، سنتے ہی وہ غصہ سے بھر گیا، اس کا چہرہ خشک ہو گیا، بے انتہا خفگی کے ساتھ کہنے لگا کہ تونے اجنبی لوگوں کے واسطے بکری ذبح کر ڈالی، معلوم نہیں کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے اور پھر کہتی ہے کہ ہاشمی تھے، غرض بہت خفا ہونے کے بعد وہ خاموش ہو گیا۔ کچھ دن بعد دونوں کو غربت وافلاس نے آگھیرا، جب رہا نہ گیا او رمصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹتے نظر آئے تو ان دونوں نے محنت ومزدوری کی غرض سے مدینہ جانے کا قصد کیا او رکئی دن کی مسافت طے کرکے مدینہ منورہ پہنچ گئے، دن بھر مینگنیاں۔ چگا کرتے اور ان کو بیچ کر گذر کیا کرتے۔ ایک دن وہ بوڑھی عورت مینگنیاں چگتی ہوئی حضرت حسن رضی الله کے مکان کے قریب سے گذری، حضرت حسن  دروازے پر تشریف رکھتے تھے۔جب اس بوڑھی عورت پر نگاہ پڑی تو فوراً اپنے غلام کو بلایا اور فرمایا کہ اس بوڑھی عورت کو بلا کر لاؤ ، جب وہ آئی، تو فرمایا، اے الله کی بندی! آپ مجھ کو پہچانتی ہیں؟ بوڑھی عورت نے کہا، میں آپ کو نہیں جانتی، حضرت حسن  نے فرمایا بزرگ خاتون! بلاشک میں وہی ہوں، دودھ او ربکری والا مہمان، بوڑھی عورت نے پھر بھی نہ پہچانا اور کہا، کیا خدا کی قسم تم وہی ہو؟ حضرت حسن نے فرمایا کہ میں وہی ہوں اور یہ فرما کر اپنے غلاموں کوحکم دیا کہ ان بزرگ خاتون کے لیے ایک ہزار بکریاں خریدی جائیں۔ غلاموں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوتے فوراً بکریاں خرید دیں۔ پھر حضرت حسن  نے بوڑھی عورت کو بکریوں کے ساتھ ایک ہزار اشرفیاں بھی عطا فرمائیں اور اپنے غلام کو حکم دیا کہ ان بزرگ خاتون کو میرے چھوٹے بھائی حسین کی خدمت میں لے جاؤ۔حضرت حسین رضی الله عنہ بوڑھی عورت کو دیکھتے ہی پہچان گئے اور فرمایا کہ بھائی نے آپ کے احسان کا کیا بدلہ عطا فرمایا؟

بوڑھی عورت نے خوشی کے ساتھ عرض کیا کہ ایک ہزار بکریاں اور ایک ہزار اشرفیاں۔ حضرت حسین نے اتنی ہی مقدار دونوں چیزوں کی اسے عطا فرمائی اور اس کو حضرت عبدالله بن جعفر کے پاس بھیج دیا۔ جب یہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئی تو انہوں نے معلوم کیا کہ ان دونوں حضرات نے کیا کیا مرحمت فرمایا؟ اور جب معلوم ہوا کہ یہ مقدار ہے تو انہوں نے دو ہزار بکریاں اور دو ہزار اشرفیاں اس کو مرحمت فرمائیں۔

بڑی بی چار ہزار اشرفیاں اور چار ہزار بکریاں لے کر شوہر کے پاس گئیں او رکہنے لگیں، کہ آپ اس دن خفا ہو گئے تھے۔ یہ دیکھیے! اس ذرا سے احسان کا بدلہ ہے، جو اس کمزور بکری کو ذبح کرکے ان معزز ہستیوں کی بھوک مٹائی تھی۔ الله پاک تمام مسلمانوں کو ان حضرات کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Flag Counter