Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1437ھ

ہ رسالہ

7 - 17
ریل گاڑی، بس، کشتی اور ہوائی جہاز میں وضو اور نماز

مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

اس سب کے باوجود دورانِ سفر قبلہ رُخ معلوم نہ ہو سکے اور کوئی صحیح رُخ بتانے والا بھی نہ ہو، تو خوب غور وفکر اور سوچ وبچارسے کام لے کے خود ہی اندازہ لگا لے کہ قبلہ کا رُخ کس طرف ہو گا اور پھر اسی رُخ پر نماز پڑھ لے، اب اگر نماز کے بعد معلوم ہوا کہ جس رُخ پر نماز پڑھی ہے وہ قبلہ کی سمت نہیں تھی، تب بھی اس کی نماز ہو گئی، دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں اور اگر نماز کے اندر ہی کسی کے بتانے سے یا کسی بھی ذریعے سے قبلہ رُخ کا پتہ چل جائے تو نماز توڑنے کی ضرورت نہیں، بلکہ نماز کے اندر ہی قبلہ رُخ ہوجائے۔ (الفتاوی الھندیة، کتاب الصلاة، الباب الثالث في شروط الصلاة، الفصل الثالث في استقبال القبلة: 1/63، والباب الخامس عشر في صلاة المسافر، الصلاة علی الدابة والسفینة: 1/144، رشیدیة)

دورانِ نماز ٹرین کے گھومنے پر کسی نے خبر دی کہ ٹرین قبلہ رُخ سے ہٹ گئی ہے، مثلاً: کوئی آواز دے کہ اب قبلہ تھوڑا سا دائیں طرف ہو گیا ہے، تو نمازی اپنا رُخ دائیں طرف کر لے، یہ مسئلہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، وہ اس طرح کہ نمازی اگر کسی ایسے شخص کی کوئی بات سن کر اس کے مطابق عمل کر لے ، جو نماز میں نہ ہو، تو اس نمازی کی نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ اور یہاں ٹرین میں کسی کی خبر سن کر اپنا رُخ قبلہ کی جانب کر لینے میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے کہ نمازی نے غیر نمازی سے سنا کہ ٹرین قبلہ سے پھر گئی ہے اور پھر اسی خبر کے مطابق وہ نمازی بھی پھر گیا۔لہٰذا اس کی بھی نماز فاسد ہو جائے گی، یا ہو جانی چاہیے۔چناں چہ ! نماز کو فساد سے بچانے لیے ضروری ہے کہ نمازی جب کسی غیر نمازی کی خبر سنے تو اس کی بات سنتے ہی فورا نہ پھر جائے، بلکہ اس کی بات سن کر اسے سوچے اور پھر اپنی اس سوچ پر عمل کرتے ہوئے پھر جائے۔ اس صورت میں اس کا عمل اس کی اپنی سوچ اور فکر کے مطابق ہوا، اس سے نماز فاسد نہیں ہو گی، اس مسئلہ سے عامة الناس کا ایک بہت بڑا طبقہ ناواقف ہے۔
(الفتاوی الھندیة، کتاب الصلاة، الفصل الأول، الباب السابع فیما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا: 1/99، رشیدیة) والدر المختار، کتاب الصلاة، باب: ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، ص: 85، دارالکتب العلمیة)

ریل گاڑی میں نماز ادا کرتے ہوئے قیام کا حکم
فرض نماز کے لیے جس طرح حالت اقامت میں قیام فرض ہے، اسی طرح دوران سفر بھی فرض نماز کھڑے ہو کر ہی ادا کرنا فرض ہے، جب تک اسے کھڑے ہونے کی طاقت ہے، بیٹھ کر نماز صحیح نہ ہو گی اور اس میں مردوں کی تخصیص نہیں، عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ اسفار کے دوران یہ بھی بکثرت دیکھا گیا کہ مستورات بیٹھ کر نماز پڑھ لیتی ہیں، تو ان کا بھی ایسا کرنا جائز نہیں، فرض اور وتر مستورات کو بھی کھڑے ہو کر ہی پڑھنا لازم ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، البتہ دورانِ سفر مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، دونوں کے لیے نوافل بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے (اس کی تفصیل آخر میں آ رہی ہے)۔

قیام کی حالت میں گرنے کا قوی خطرہ ہو تو کسی چیز سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو جائے، ٹرین میں برتھ یا سیٹوں کے ڈنڈے وغیرہ کو پکڑ کر کھڑا ہو جائے، حالتِ قیام میں ہاتھ باندھنا سنت عمل ہے اور قیام فرض ہے، اس لیے اس دشواری والی حالت میں اس سنت عمل (ہاتھ باندھنے ) کو چھوڑنے کی گنجائش ہے، تا کہ فرض عمل (قیام) ادا ہو سکے۔

اور اگر ہجوم کی وجہ سے راستے وغیرہ میں قبلہ رُخ ہو کر قیام کرنا ممکن نہ ہوتو ایک صورت یہ بھی اختیار کی جا سکتی ہے کہ کیبن میں (جہاں دونوں طرف دو لائنوں میں اوپر نیچے تین تین برتھ ہوتے ہیں اور درمیان میں لمبا راستہ ہوتا ہے) قبلہ کی طرف رُخ کر کے کھڑا ہو جائے، رکوع کھڑا ہو کر کرے اور سجدہ کرنے کے لیے ایک طرف کی سیٹ پر کرسی پر بیٹھنے کی طرح بیٹھ جائے اور سامنے والی سیٹ پر سجدہ کر لے، اگرچہ اس طرح سجدہ کرنے میں گھٹنے زمین پر نہیں لگیں گے، لیکن گھٹنوں کا زمین پر لگنافرض نہیں ہے، بلکہ واجب ہے، جو بوقت عذر ساقط ہو جائے گا۔

ہاں! اگر کوئی مریض ہے، یا اتنا بوڑھا ہے کہ وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتا تو اس کے لیے جیسے حالت اقامت میں بیٹھ کر یا جیسے بھی نماز ادا کرنا ممکن ہو، پڑھنا ضروری ہے، اسی طرح حالت سفر میں بھی اس کے لیے جیسے بھی ممکن ہو نماز پڑھنا ضروری ہے، یعنی: بیٹھ کر نماز پڑھنے کا تعلق سفر یا اقامت سے نہیں، بلکہ عذر کے پائے جانے یا نہ پائے جانے سے ہے۔

ٹرین میں سمت ِ قبلہ کی تعیین کے بعد قبلہ رُخ کھڑے ہو کر نماز پڑھنا ضروری ہے، اگر بلا عذر بیٹھ کر نماز پڑھ لی تو نماز نہیں ہو گی، عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ سفر میں نماز پڑھنے والے اس کا اہتمام نہیں کرتے، بلکہ سیٹ یا برتھ پر بیٹھے بیٹھے جس طرف بھی منہ ہو نماز پڑھ لیتے ہیں، بعضوں کو دیکھا کہ قبلہ رُخ ہوئے بغیر کھڑے ہو کر نیت باندھتے ہیں، رکوع بھی مکمل کرتے ہیں، لیکن اس کے بعد سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں اور سامنے والی سیٹ پر سجدہ کرتے ہیں، تو واضح رہے کہ مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں تندرست شخص کی نماز اس طرح درست نہیں ہوتی، بلکہ بعض وجوہات کی بنا پر معذور اور بیمار بندے کی نماز بھی نہیں ہوتی، مثلاً:
وجہ نمبر: 1.. نماز کے صحیح ہونے کے لیے نماز کی جگہ کا پاک ہونا شرط ہے ، جب کہ ٹرین کی سیٹ، برتھ یا تختے کا پاک ہونا ظن ِ غالب کی حد تک مشکوک ہوتا ہے، اسفار کے دوران بکثرت اس امر کا مشاہدہ ہوا کہ چھوٹے بچے ان پر پیشاب کر دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کو پاک کرنے کا نہ ہی کوئی اہتمام کیا جاتا ہے اور نہ ہی ایسا کرنا ممکن ہوتا ہے۔

وجہ نمبر: 2.. نماز میں قبلہ کی طرف رُخ کرنا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی اور دین سے ناواقف لوگوں کا یہ خیال کہ سفر میں قبلہ رُخ کی پابندی ضروری نہیں، سوفی صد غلط ہے۔ سفر میں دورانِ نماز قبلہ رُخ ہونا، اُسی طرح ضروری ہے جس طرح حضرمیں ضروری ہے۔

وجہ نمبر: 3.. نماز میں قیام فرض ہے، جب کہ پہلی صورت میں قیام والا فرض چھوٹ گیا۔

البتہ بسا اوقات ٹرین میں غیر معمولی رش ہونے کی وجہ سے نماز کے لیے جگہ کا ملنا دشوار ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں دوسری سواریوں سے گذارش کر لے کہ چند منٹ کے لیے نماز پڑھنے کی خاطر آپ کی جگہ مطلوب ہے، دیکھا گیا ہے کہ مسلم تو مسلم، بلکہ غیر مسلم بھی نماز کے لیے اپنی جگہ خالی کردیتا ہے، اس لیے لوگوں سے جگہ کی درخواست کیے بغیر قیام کو ترک کر دینا اور بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔

نماز کے لیے جگہ کی تلاش اپنا ڈبہ چھوڑ کر دوسرے ڈبے کی طرف جانا بھی ممکن ہوتا ہے، اس لیے اپنی جگہ پر اپنا سامان اپنے اعزہ کے پاس، یا کسی قابل اعتماد ساتھی کے پاس محفوظ کر کے دوسرے ڈبوں میں جا کر نماز کے لیے جگہ تلاش کرے ، عام طور پر ڈائینگ کار (کھانے والے ڈبے) میں نماز کے لیے جگہ بھی مل جاتی ہے اور جائے نماز بھی، ان سے استفادہ کرنا چاہیے، اس کے علاوہ اسی کھانے والے ڈبے کی ابتدا اور انتہا پر دروازوں کے پاس بھی جگہ خالی مل جاتی ہے، نیز! اے کلاس ڈبوں (اے سی والے ڈبوں) کی ابتدا اور انتہا میں بھی جگہ خالی ہوتی ہے، محض نماز پڑھنے سے کوئی بھی گارڈ یا محافظ منع نہیں کرتا۔اور اگر مستورات کا بحفاظت ایسی جگہ تک آنا جانا آسانی سے ممکن ہو تو ان کے لیے بھی یہ جگہیں نماز پڑھنے کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔

تبلیغی جماعتوں کے ٹرینوں میں نماز پڑھنے کے بے حد اہتمام، شوق اور لگن کی برکت سے موجودہ دور میں نئی تیار ہونے والے ٹرینوں میں تقریباً درمیان والے ڈبے میں ایک پورا پورشن نماز کے لیے مختص کیا جانے لگا ہے، جہاں نماز کے لیے جائے نماز بچھی ہوتی ہیں، ٹرین کے عملے سے اس جگہ کا معلوم کر کے وہاں باآسانی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔

اگر باوجود ان تما م کوششوں کے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کے لیے جگہ نہ مل سکے تو بیٹھ کر پڑھ لیں ، لیکن بعد میں اس نماز کا اعادہ لازم ہو گا۔ (البحر الرائق، کتاب الطھارة، باب التیمم: 1/248، دارالکتب العلمیة)

حاصل یہ ہے کہ پہلے ان لوگوں سے جگہ کی درخواست کی جائے، اگر وہ جگہ نہ دیں تو بیٹھ کر نماز پڑھ لے، بعد میں اعادہ کرے، فقط واللہ اعلم۔
(خیر الفتاوی: 2/243، فتاوی حقانیہ: 3/79۔ فتاوی عثمانی: 1/369)

ریل گاڑی کے ڈرائیور کے لیے قصر یا اقامت کا حکم
ریل گاڑی کے ڈرائیور یا دیگر عملہ جب اپنے مقام سے نکل جائے اور ان کا یہ سفر مسافت ِ سفر سے زائد کا ہو، تو یہ تمام افراد مسافر شمار ہوں گے، اگرچہ اس طرح یہ افراد ہمیشہ سفر میں ہی کیوں نہ رہیں، یعنی: اس طرح کے اسفار میں یہ ہمیشہ قصر کریں گے۔مثلاً: ڈرائیور کراچی کا رہنے والا ہے، ٹرین میں پشاور تک جائے گا، تو جیسے ہی ٹرین کراچی کی حدود سے نکل جائے گی، اسی وقت سے یہ مسافر ہو جائے گا، پشاور تک، وہاں قیام کے دوران (بشرطیکہ پندرہ دن سے کم تک ہو) اور وہاں سے واپسی میں کراچی کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے تک یہ ڈرائیور مسافر رہے گا۔

سفر میں ٹرین سے متعلقہ چند اہم مسائل
مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں علمائے دین کیا فرماتے ہیں؟
٭... کسی عذر کی وجہ سے نماز اپنے وقت سے ،موٴخر کی جاسکتی ہے تو عذرکس انتہا کو پہنچا ہوا ہو کہ اس کو عذر کہا جائے؟
٭...ایک شخص ریل میں ہے، ”تھرڈ کلاس “ میں سفر کر رہا ہے اور بھیڑ اتنی شدید ہے کہ عادةً وعرفاً واقعی اپنی جگہ سے جنبش نہیں کر سکتا، ایسی حالت میں وہ نماز موٴخر کر سکتا ہے یا نہیں؟
٭... ریل کے ڈبے کے کئی کمرے ہوتے ہیں، اس میں تمام سیٹیں بنی رہتی ہیں، معمولی سی جگہ راستے کے لیے چھٹی رہتی ہے، ریل میں نماز پڑھنے کے لیے بڑی دشواری ہوتی ہے کہ کبھی کبھی سمت کے مطابق جگہ نہیں ملتی، مثلا: ریل مشرق ومغرب کے رُخ پر چلنے کے بجائے کچھ ترچھی سمت میں جا رہی ہے، اس صورت میں صحیح طور پر جہتِ قبلہ کو پا لینا مشکل ہوتا ہے، تو اس کے لیے کوئی گنجائش ہے ؟
٭... چلتی ریل پر اگرچہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنا ممکن ہے، لیکن گرنے کا اندیشہ باقی رہتا ہے، اس صورت میں بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
٭... ریل سے اتر کر پلیٹ فارم پر نماز پڑھ رہا تھا، نماز پوری نہیں ہوئی تھی کہ ریل چل پڑی، نماز پوری کرتا ہے تو ریل جاتی ہے اور ریل پکڑتا ہے تو نماز جیسی اہم عبادت کا ابطال لازم آتا ہے، ایسی حالت میں اس کو کیا کرنا چاہیے؟اگر نماز توڑنا جائزہے تو اس کو کیا چارہ ہے؟ جس حالت میں ہو خواہ رکوع میں ہو یا سجدہ میں ہو، توڑ دے یا اس کو کسی حد تک رکوع وسجدہ کرنا ضروری ہے؟
٭... بَس میں یہ پریشانی خصوصاً پیش آتی ہے کہ وضو ہونے کے باوجود بھی نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ملتی، ایسی صورت میں کیا کرے، بیٹھا بیٹھا یا کھڑا کھڑا نماز پڑھ لے؟
٭... بَس اسٹاپوں پر بسیں رکتی ہیں، لیکن یہ نہیں معلوم ہوتاکہ کب تک رکیں گی، کبھی فوراً دو چار منٹ کے بعد چل دیتی ہیں، کبھی گھنٹوں بعد اتفاق سے جاتی ہیں، لیکن آدمی ہر لمحہ اسی گومگو میں پڑ ارہتاہے اور آدمی اس خوف سے نہیں اُترتا، کہیں میں ادھر اتروں اور ادھر وہ گاڑی چل دے، ایسی صورت میں نماز کا کیا حکم ہے؟ جب کہ اس کے لیے وضو کرنے کا مسئلہ بھی ہو اور نماز پڑھنے کا حکم بھی؟ یہ صورت ِ امکانی نکالی جاتی ہے کہ کسی جگہ اتر کر جلدی سے نماز پڑھ لے، لیکن یہ انتہائی بے اطمینانی اور بدسکونی کا عالَم ہوتا ہے، جس پر عادةً عمل مُحال کہا جاتا ہے، بتلائیں کہ کیا حکم ہے؟
٭... ریل میں طبیعت کبھی اس بات سے جھجکتی ہے کہ آس پاس کے لوگوں کو ہٹا کر نماز کی جگہ نکالی جائے، دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ میں کہوں اور کوئی انکار کر جائے، تو کیااس صورت میں نماز کو افضل حالت سے چھوڑ کر ارذل حالت میں پڑھا جا سکتا ہے؟ یعنی: سوال کے بعد جگہ نکالنے پر جس درجے کی نماز پڑھی جا سکتی تھی، اس سے کم درجہ کی نماز پڑھی جا سکتی ہے، مثلا: کھڑے ہونے کے بجائے بیٹھ کر؟
٭... ریل پر ایک معذور سفر کر رہا ہے، ریل پر تو تیمم کے لیے کوئی چیز مل نہیں سکتی، اگر ریل کے ڈبے کی زمین پختہ ہے بھی تو امکانِ غالب ہی نہیں، بلکہ اغلب ہے، اس لیے کہ وہ24/ گھنٹے جوتوں سے روندی جاتی ہے، ایسی صورت میں کیا وہ نماز کو موٴخر کرے؟
٭... ایک شخص عین سورج غروب ہونے کے وقت سفر سے واپس ہو کر اپنے وطن میں داخل ہوا، عصر کی نماز اب تک نہیں پڑھی تھی، اب اس پر دو رکعت قضا واجب ہے یا چار رکعت؟
٭... کراچی، حیدر آباد، سکھر، ملتان اور لاہور وغیرہ اس طرح کے شہر کوئی ایک دو کوس کے ہوتے نہیں، بلکہ ان کا سلسلہ کئی کئی کوسوں تک ہوتا ہے، ایسے مقامات میں آدمی کہاں سے مسافر شمار ہو گا، آیا اپنے محلے ہی سے نکلتے ہی مسافر ہو جائے گا، یا حدودِ شہر کو پار کرنے کے بعد مسافر شمار ہو گا؟ شہروں میں مسافرت کا معیار کیا ہے ؟
٭... ریل میں بیت الخلا تو ہوتا ہے، لیکن غسل خانہ نہیں ہوتا، اگر کسی کو رات میں احتلام ہو جائے تو کیا کرے؟ گرمی کا معاملہ کچھ اہون(آسان) ہے، لیکن سردی کا تو بہت کٹھن ہے، اگر کوئی ہمت کر کے بیت الخلا میں نہانا بھی چاہے تو طبیعت کو ایک طرح کا انقباض ہوتا ہے، اس لیے کہ محل نجاست ہے، دوسرے یہ کہ پانی اتنا ٹھنڈا ہوتا ہے کہ سارا بدن شَل ہو سکتا ہے، تیسرے یہ کہ دوران غسل ہی پانی ختم ہو سکتا ہے، اس لیے کہ اس میں زیادہ پانی نہیں ہوتا، ان مجبوریوں کے پیش نظر اس کو کیا کرنا چاہیے؟ مفصل تحریر فرمائیں۔

الجواب حامدا ًومصلیاً:
٭... وقتِ مستحب سے موٴخر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، بشرطیکہ مکروہ وقت تک تاخیر نہ ہو۔ سفر میں پانی نہ ہو تو تیمم اس کا بدل ہے، لیکن پانی ملنے کی توقع ہو تو موٴخر کرنا چاہیے۔
٭... موٴخر کر کے قضا نہ کر دے، انتہائی کوشش کے بعد جگہ نہ ملے تو اشارہ سے نماز پڑھ لے ، پھر جگہ ملنے پر اعادہ کر لے۔
٭... معمولی فرق ہو (شمال وجنوب کا فرق نہ ہو) تو گنجائش ہے۔
٭...جو شخص اتنا ضعیف ہو کہ گر جانے کا ظنِ غالب ہو وہ بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے۔
٭... ریل کے چلے جانے کی وجہ سے اگر حرجِ قوی ہو تو ناتمام چھوڑ کر ریل میں سوار ہو جائے، رکوع سجود کی اس حالت میں پابندی نہیں۔
٭... نمبر: 2کی صورت اختیار کرے۔
٭...ڈرائیور یا کنڈکٹر سے دریافت کر لے کہ یہاں کتنے منٹ بَس ٹھہرے گی، گومگو میں نہ رہے، پھر کسی جگہ وضو کر لے (اور) کسی جگہ نماز پڑھ لے، اگرچہ سکونِ تام میسر نہ ہو، سکونِ تام تو کسی کسی کو میسر ہوتا ہے، جو حالت سکون کی سمجھی جاتی ہے، اس میں ذہن میں اَفکار کا ہجوم رہتا ہے اور سمندرکی طرح موجوں کا سلسلہ لگا رہتا ہے، اس کی وجہ سے نماز ترک نہیں کی جا سکتی، عین حالتِ جہاد میں بھی صلوٰة خوف مشروع ہے۔
٭... یہ جھجک بے محل ہے، قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا پہنچنے کے واسطے بھی بسا اوقات جگہ مانگنا پڑتی ہے، سوار ہونے، بیٹھنے، سامان رکھنے کے لیے بھی جگہ طلب کی جاتی ہے اور جھجک محسوس نہیں کی جاتی، جگہ طلب کر لے اور کوشش کے باوجود کسی نے انکار کر دیا اور قلب کو اذیت ہوئی تو اجر میں اضافہ ہو گا۔
٭... وہ بھی موٴخر نہ کرے، ریل میں بعض دفعہ کھڑکیوں سے اتنا غبار آ جاتا ہے کہ تیمم کے لیے کافی ہو جاتا ہے، اگر وہاں کی مٹی یقینا ناپاک ہے (موہوماً نہیں) اور پانی استعمال کرنے کی قدرت نہ ہو (مرض کی وجہ سے) تو آخر فاقد الطہورین کا مسئلہ بھی موجود ہے۔
٭... اگر وقت عصر ختم ہونے پر وطن میں داخل ہوا تو قصر کرے گا، ورنہ اتمام کرے گا۔
٭... محلہ سے نہیں، بلکہ آبادی سے خارج ہونے پر مسافر شمار ہو گا۔
٭... طبعی انقباض تو ناقابلِ التفات ہے، اول اس جگہ پانی بہا دے، پھر تھوڑا تھوڑا پانی ڈال کر غسل کرے، ہاں اگر پانی اتنا ٹھنڈا ہے کہ بدن شل ہو جائے تو تیمم کر لے، پھر جب قابلِ برداشت پانی مل جائے تو غسل کر لے۔ فقط واللہ اعلم۔ (فتاوی محمودیہ، کتاب الصلاة، باب صلوٰة المسافر، سفر کے چند ضروری مسائل: 7/544-538، ادارہ الفاروق، کراچی)

ہوائی جہاز میں وضوکیسے کریں؟
ہوائی جہاز میں بھی وضو کرنے کے لیے سہولت موجود ہوتی ہے، معلومات اور دیگر بہت سارے حضرات کے مشاہدات وتجربات کے مطابق ہوائی جہاز کے عملہ والے بعض وجوہات کی بنا پر جہاز کے غسل خانہ /بیت الخلا میں وضو کی اجازت نہیں دیتے، اس کی وجہ انتظامی امور اور صفائی وستھرائی کے مسائل ہیں، ہوائی جہاز میں جگہ چھوٹی ہونے اور پانی کے محدود ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ اخراج فاضل مادوں اور پانی کی نکاسی کا انتظام بھی ہوائی سفر کی وجہ سے نہایت محدود ہوتا ہے، نیز! وضو کا اہتمام کرنے والے حضرات جگہ کی صفائی ستھرائی کا اور پانی کے ضیاع کا خیال نہیں رکھ پاتے، جس کی بنا پر جہاز کا عملہ اس عمل سے منع کرتا ہے، تاہم انہیں اس بات کی یقین دہانی کرا دی جائے کہ مذکورہ تمام باتوں کا خیال رکھا جائے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ منع کریں، اس بارے میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ اپنے تجربہ کی روشنی میں فرماتے ہیں:

”جہاز کا عملہ ہمیشہ لوگوں کو جہاز میں وضو کرنے سے منع کرتا ہے، اگر کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم ہو جائے کہ یہ شخص غسل خانہ میں جا کر وضو کرے گا تو اس کو روک دیتے ہیں، اس لیے کہ ان کو معلوم ہے کہ جب یہ شخص وضو کرے گا تو سارا غسل خانہ خراب کر آئے گا۔ میں جہازوں میں اکثر سفر کرتا رہتا ہوں اور جہاز کے غسل خانہ میں ہمیشہ وضو کرتا ہوں، مجھے آج تک کسی نے وضو کرنے سے منع نہیں کیا، وجہ اس کی یہ ہے کہ میں اس بات کا اہتمام کرتا ہوں کہ جب میں وضو کر کے باہر نکلوں تو فرش پر پانی کی ایک چھینٹ بھی باقی نہ رہے اور غسل خانے کا واش بیسن بالکل صاف ستھرا رہے، تا کہ بعد میں آنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔

لہٰذا اگر ہم صفائی کا ذرا اہتمام کریں تو کوئی مشکل کام نہیں، غسل خانے میں تولیے موجود ہوتے ہیں اور ٹشو پیپر، ٹوئیلیٹ پیپر بھی ہوتے ہیں، آدمی فرش اور واش بیسن کو ان سے صاف کر لے، لیکن ہم تو یہ سوچتے ہیں کہ بس ہم تو للہ فی اللہ وضو کر کے آ گئے، اب بعد میں آنے والے پر کیا گذرے گی؟ اس سے ہمیں کوئی بحث نہیں۔حالاں کہ اس گندگی کے نتیجے میں دوسروں کو تکلیف دینے کا گناہ الگ ہو گا اور لوگوں کو اسلام سے اور دین کے شعائر سے متنفر کرنے کا گناہ الگ ہو گا، العیاذ باللہ․“
(اصلاحی مجالس، مجلس نمبر:17، مخلوق کی وجہ سے عمل چھوڑنا، ہوائی جہاز میں وضو کرنے کا طریقہ: 2/37-35)

ہوائی جہاز میں تیمم کرنے کا حکم
اگر کسی بھی طرح جہاز میں وضو کی ترتیب نہ بن سکے، پانی نہ ہونے کی وجہ سے یا کم ہونے کی وجہ سے، یا جہاز کے عملے کی طرف سے باوجود کوشش کے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے تو اس موقع پر مندرجہ ذیل تدابیر مرحلہ وار اختیار کی جا سکتی ہیں:

1..اگر استنجا کرنے کی حاجت ہو اور پانی میسر نہ ہو تو ٹشو پیپر سے استنجا کرنا جائز ہے، اگرچہ نجاست کی مقدار مقدارِ درہم سے تجاوز کر چکی ہو۔ (الھدایة: 1/52، رحمانیة)

2..اس کے بعد دیکھا جائے کہ نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے جہاز منزل پر پہنچ جائے گااور اتنا وقت مل جائے گا کہ نیچے اتر کر وضو کر کے نماز ادا کی جا سکے گی تو ایسا ہی کرے۔ (الھدایة: 1/93، رحمانیة)

3..اور اگر اتنا وقت باقی نہ ہو تو پھر تیمم کر کے نماز ادا کی جائے، البتہ تیمم کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ زمین کی جنس کی کسی چیز (مثلاً: اینٹ ، پتھر، مٹی، سنگ مرمر وغیرہ)پر کیا جائے ، چاہے ان پر کسی قسم کی گرد وغبار پڑی ہو یا نہ۔ اور جو چیزیں زمین کی جنس میں سے نہ ہوں، ان پر تیمم کرنا جائز نہیں ہے، (مثلاً: تانبا، لوہا،لکڑی، سونا، چاندی وغیرہ) البتہ ان چیزوں پر اگر گرد وغبار پڑی ہوئی ہو تو پھر ان اشیاء پر تیمم کرنا جائز ہے۔اس بارے میں فقہائے کرام نے پہچان کے لیے ایک قاعدہ لکھا ہے کہ جو چیز جلانے سے جل جائے وہ زمین کی جنس میں سے نہیں ہے اور جو چیز جلانے سے نہ جلے وہ زمین کی جنس میں سے ہے۔ (فتح القدیر:1/131، رشیدیة)

جہازوں میں صورت حال ایسی ہوتی ہے کہ وہاں زمین کی جنس والی کوئی چیز نہیں ہوتی اور غیر زمین کی جنس والی اشیاء ہوتی ہیں، لیکن ان پر گرد وغبار نہیں ہوتی، اس لیے اس صورت میں تیمم کرنا بھی جائز نہیں ہو گا۔واضح رہے کہ جہاز کی اندرونی اشیاء پر جو روغن یا پینٹ کیا گیا ہوتا ہے، اس پر تیمم کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ پینٹ جن چیزوں سے تیار کیا جاتا ہے، ان میں کیمیکل ، زنک اور چاک وغیرہ ہوتے ہیں اور ایسی اشیاء ہیں جو جلانے سے جل جاتی ہیں، لہٰذا پینٹ کی ہوئی اشیاء پر بھی تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار: 1/240، سعید)

4..نماز جیسے مہتم بالشان فریضے کے تحفظ کی خاطر اس طرح کی متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیمم کی غرض سے اگر کوئی صاحب ایمان اپنے ہم راہ اپنے ہینڈ بیگ وغیرہ میں کوئی چھوٹا موٹا پتھر وغیرہ لے کر جائے تو جہاز کے عملے کی طرف سے اس کی بھی اجازت نہیں ہوتی، البتہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ اپنے بیگ میں کوئی ایسا کپڑا رکھ لیا جائے جو گرد وغبار سے بھرا ہوا ہو، تا کہ بوقت ضرورت اس پر تیمم کیا جا سکے۔ (الدر المختار مع رد المحتار: 1/240، سعید)

5..اگر ایسا بھی نہ ہو سکے تو پھر ایسی صورت میں نماز کے وقت میں تشبہ بالمصلین کرے ، یعنی: نمازیوں کی طرح ہیئت اختیار کرے، البتہ اس ہیئت صلاة میں تلاوت نہ کرے، بعد میں ایسی نماز کا اعادہ کرے۔ یہ صاحبین رحمہما اللہ کا قول ہے اور امام صاحب رحمہ اللہ کے قول کے مطابق ایسے وقت میں نماز موٴخر کرنے کی گنجائش ہے۔لیکن فتوی صاحبین رحمہما اللہ کے قول پر ہے۔(الدر المختار مع رد المحتار: 1/252، سعید)

ہوائی جہاز میں بیٹھ کر نماز پڑھنا اور کھانے کی میز پر سجدہ کرنا
ہوائی جہاز میں اکثر علمائے کرام کے نزدیک نماز صحیح ہو جاتی ہے، بشرطیکہ نماز کو اس کی تمام شرائط ِ صحت کے ساتھ ادا کیا جائے، یعنی:جہاز میں بھی کھڑے ہو کر اور قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کی جائے، جہازوں میں اس طرح نماز پڑھنا ممکن بھی ہوتا ہے اور اس کی سہولت بھی ہوتی ہے، لہٰذاسیٹ پر بیٹھ کر اس طرح نماز پڑھنا کہ کھانے کی ٹیبل پر سجدہ کرے، تو اس طرح نماز نہیں ہوتی۔ (الفتاوی الھندیة، کتاب الصلاة، الفصل الثالث في استقبال القبلة: 1/63، الباب الرابع: في صفة الصلاة: 1/69)۔ (معارف السنن:3/395، مکتبة بنوریة، بکراتشي)

البتہ بعض علماء کے نزدیک ہوائی جہاز میں نماز ادا کرنے کی صورت میں زمین پر احتیاطا اس نماز کا اعادہ بھی کر لینا بہتر ہے، ضروری اور واجب نہیں۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل، مسافر کی نماز، ہوائی جہاز میں نماز کا کیا حکم ہے؟: 4/96)

احسن الفتاوی میں ہے:
بوقتِ پرواز ہوائی جہاز میں نماز کا حکم چلتے ہوئے بحری جہاز کا ہے، یعنی: اس میں بوجہ عذر نماز جائز ہے۔ (احسن الفتاوی:4/190)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
قیام اور استقبالِ قبلہ پر قدرت کے باوجود ان دونوں میں سے کسی ایک کو ترک کرنے سے نماز نہیں ہو گی، سفر میں ہو یا حضر میں، ریل میں ہو یا جہاز میں، سب کا یہی حکم ہے۔

نیز مذکور ہے: مجبوری کی حالت میں اشارہ سے نماز پڑھ لی جائے، پھر منزل پر پہنچ کر اعادہ کر لے، کیوں کہ یہاں مانع من جہة العباد ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ: 7/532، ادارہ الفاروق)

نظام الفتاویٰ میں ہے:
تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ہوائی جہاز پر بھی نماز پڑھی جائے گی۔ اگر جماعت سے پڑھ سکتے ہوں تو جماعت سے پڑھنا بہتر ہو گا، ورنہ تنہا تنہا پڑھیں گے، اگر حرکت وغیرہ کسی عارض کی وجہ سے کھڑے ہو کر پڑھنا دشوار ہو تو بیٹھ کر رکوع وسجدہ کے ساتھ پڑھیں گے اور سمت ِقبلہ کمپاس کے ذریعہ معلوم کریں گے، اگر کمپاس نہ ہو تو تحری کرکے جس رُخ قبلہ قرار پائے، اس پر نماز پڑھیں گے، غرض کہ جیسا عمل چلتی ریل میں کرتے ہیں، اس میں بھی کریں گے اور نماز قضا نہ کریں گے، واللہ اعلم۔ (نظام الفتاوی، ص: 480)

زمین کی طرح ہوائی جہاز پر بھی نماز ادا کی جا سکتی ہے، کیوں کہ شریعت نے نہ صرف خانہ کعبہ بلکہ اس کے مقابل آنے والی پوری فضا کو قبلہ کا درجہ دیا ہے، تا کہ اونچی سے اونچی اور بلند جگہ نماز ادا کی جا سکے، شیخ عبد الرحمن الجزیری مصری رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی ہوائی جہاز کو کشتی پر قیاس کرتے ہوئے اس میں نماز کو درست قرار دیا ہے: ”ومثل السفینة القطر البخاریة والطائرات الجویة ونحوھا․“

اب رہی یہ بات کہ سجدہ زمین پر پیشانی ٹیکنے (وضع الجبھة علی الأرض) کا نام ہے اور ہوائی جہاز میں یہ بات نہیں پائی جاتی تو اس قسم کے تکلفاتِ واقعہ ہے کہ شریعت کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ یہ بالکل ایک اتفاقی بات ہے کہ چوں کہ عام طور پر زمین پر ہی پیشانی ٹیکنے کی نوبت آتی ہے، اس لیے فقہاء نے زمین(ارض) کا لفظ استعمال کیا ہے، یہ ٹھیک اس طرح ہے جیسے: کوئی شخص کہے ”روئے زمین پر اسلام سے بہتر کوئی دین نہیں“…کیا اس سے یہ بات سمجھی جائے گی کہ وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ چاند پر اس سے بہتر ایک اور دین موجود ہے؟

شریعت کا اصل منشا یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز ہو جس پر انسان کی پیشانی ٹک سکے، چناں چہ کشتی میں نماز کی اجازت دی گئی ، حالاں کہ سطح زمین اور کشتی کے درمیان پانی کا ایک بے پناہ فاصلہ موجود ہے … اس لیے ہوائی جہاز پر اسی طرح نماز کی ادائیگی درست ہے، جس طرح زمین پر، واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔(جدید فقہی مسائل، عبادات، ہوائی جہاز میں نماز: 1/88،89) (جاری)

Flag Counter