Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

8 - 14
قرآن حکیم کی تین ہدایات
قرآن حکیم کی تین ہدایات



قرآن مجید اللہ رب العزت کا کلام ہے‘جسے حضرت جبرائیل علیہ السلام خدا کی طرف سے سیدنا محمد ا کے پاس لاتے رہے جو تئیس سال میں مکمل ہوا۔ اس کا ایک ایک حرف سچا ہے‘ دنیا میں کوئی کتاب سچائی میں اس سے نسبت نہیں رکھتی ‘ یہ سابقہ آسمانی کتابوں اور صحیفوں کے مضامین کا امانت دار ہے‘ اس کی حفاظت پرور دگار عالم نے اپنے ذمہ لی ہے‘ یہ قیامت تک تمام بنی نوع انسان کا منشور ہے‘ مسلمان اس کی کوئی بھی خدمت کرنے کو اپنے لئے انتہائی سعادت سمجھتے ہیں‘ اس سے محبت کا صرف یہ تقاضا نہیں ہے کہ ہم اسے ریشمی غلاف پہنائیں اور چوم کر بلند جگہ پر رکھ دیں‘ بلکہ اصل محبت یہ ہے کہ ہم اسے باربار پڑھیں‘ اسے سمجھیں اور اس کی ہدایات پر عمل کریں۔ اگر امت مسلمہ اس کی مندرجہ ذیل تین ہدایات پر مکمل طور پر عمل کرلے تو وہ دنیا میں عزت ووقار سے زندہ رہے گی اور آخرت میں اسے خدا کی محبوبیت اور قرب کا مقام حاصل ہوگا۔
پہلی ہدایت
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
۱:․․․”یا ایہا الذین آمنوا لاتتخذوا بطانة من دونکم لایألونکم خبالاً ودوا ما عنتم‘ قد بدت البغضاء من افواہہم وما تخفی صدورہم اکبر‘ قد بینا لکم الایات ان کنتم تعقلون‘ ہا انتم اولاء تحبونہم ولا یحبونکم“۔ (آل عمران:۱۱۸،۱۱۹)
ترجمہ․”اے ایمان والو! اپنوں کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا خصوصی رازدار نہ بناؤ‘ ان کا حال یہ ہے کہ وہ تمہارے خلاف فتنہ انگیزی میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے‘ وہ تمہیں نقصان پہنچنے کی دل سے تمنا کرتے ہیں‘ فی الحقیقت ان کی دشمنی ان کے منہ سے ٹپکتی پڑتی ہے اور جو عداوت ان کے سینوں نے چھپا رکھی ہے‘ وہ اس سے کہیں بڑھ کرہے‘ بیشک ہم نے تم کو پتے کی باتیں بتا دی ہیں‘ بشرطیکہ تم کچھ سمجھ رکھتے ہو‘ اے مسلمانو! تم ایسے ہو کہ ان سے محبت کرتے ہو اور وہ‘ تم سے محبت نہیں رکھتے“
۔۲․․․․”وتؤمنون بالکتاب کلہ واذا لقوکم قالوا اٰمنا واذا خلوا عضوا علیکم الانامل من الغیظ قل موتوا بغیظکم ان اللہ علیم بذات الصدور‘ان تمسسکم حسنة تسؤہم وان تصبکم سیة یفرحوا بہا وان تصبروا وتتقوا لایضرکم کیدہم شیئا‘ ان اللہ بما یعملون محیط“۔ (آل عمران:۱۱۸تا۱۲۰)
ترجمہ:․․․”حالانکہ تم تمام آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور وہ لوگ جب تم سے ملتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور جب وہ تنہا ہوتے ہیں تو تم پر مارے غصے کے اپنی انگلیاں چبا چبا ڈالتے ہیں‘ آپ کہہ دیجئے: تم آپ اپنے غصے سے مرو بے شک اللہ تعالیٰ کو سینوں کے راز تک خوب معلوم ہیں‘ اگر اے مسلمانو! تم کو کچھ بھلائی پہنچتی ہے تو وہ ان کے لئے رنج دہ ہوتی ہے اور اگر تم کو کوئی ناگوار حالت پیش آتی ہے تو وہ اس سے خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبر کرتے رہو اور تقویٰ کے پابند رہو تو ان لوگوں کی فریب آمیز تدبیر تم کو ذرا بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی‘ یقیناًان کے تمام اعمال اللہ تعالیٰ کے احاطہٴ علم میں ہیں“۔
ب:․․․یا ایہا الذین آمنوا لاتتخذوا الیہود والنصاریٰ اولیاء بعضہم اولیاء بعض‘ ومن یتولہم منکم فانہ منہم ان اللہ لایہدی القوم الظالمین“۔ (المائدہ:۵۱)
ترجمہ:․․․”اے ایمان والو! تم یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور جو کوئی تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے گا تو وہ یقیناً انہیں میں سے ہوگا‘ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نا انصاف لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا “۔
ج:․․․”لاتجد قوماً یؤمنون باللہ والیوم الآخر یوادون من حاد اللہ ورسولہ ولو کانوا اٰباء ہم او ابناء ہم او اخوانہم او عشیرتہم اولئک کتب فی قلوبہم الایمان وایدہم بروح منہ ویدخلہم جنات تجری من تحتہا الانہار خالدین فیہا رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ اولئک حزب اللہ الا ان حزب اللہ ہم المفلحون“۔ (المجادلة:۲۲)
ترجمہ:․․․”اے پیغمبر! آپ ان لوگوں کو جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں‘ نہ پائیں گے ان لوگوں سے محبت کرتے ہوئے جو اللہ اور اس کے رسول کے برخلاف ہیں خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے ہوں یا ان کے بھائی ہوں یا ان کے عزیز واقارب ہوں‘ یہ لوگ وہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو ثبت کردیا ہے اور اپنے غیبی فیضان سے ان کی مدد فرمائی ہے اور ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے‘ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے‘ یہ جماعت اللہ کا گروہ ہے‘ خوب سن لو اللہ ہی کا گروہ فلاح پانے والا ہے“۔
د:․․․”یا ایہا الذین آمنوا لاتتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیہم بالمودة وقد کفروا بما جاء کم من الحق․․․ تسرون الیہم بالمودة وانا اعلم بما اخفیتم وما اعلنتم ومن یفعلہ منکم فقد ضل سواء السبیل‘ ان یثقفوکم یکونوا لکم اعداء ویبسطوا الیکم ایدیہم والسنتہم بالسوء وودوا لو تکفرون‘ لن تنفعکم ارحامکم ولا اولادکم یوم القیامة یفصل بینکم واللہ بما تعملون بصیر‘ قد کانت لکم اسوة حسنة فی ابراہیم والذین معہ اذ قالوا لقومہم انا برآؤ منکم ومما تعبدون من دون اللہ کفرنا بکم وبدا بیننا وبینکم العداوة والبغضاء ابدا حتی تؤمنوا باللہ وحدہ “۔ (الممتحنة:۱تا۴)
ترجمہ:․․․”اے ایمان والو! تم میرے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ تم ان کو دوستی کے پیغام بھیجنے لگو‘ حالانکہ جو دین تمہارے پاس آیا ہے وہ اس کے منکر ہیں․․․․تم دوستی کی وجہ سے ان کی طرف پوشیدہ پیغام بھیجتے ہو‘ حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو تم علانیہ کرتے ہو میں اس سب کو خوب جانتاہوں اور جو کوئی تم میں سے ایسا کرے گا تو یقین جانو کہ وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا‘ اگر وہ کافر تم پر قابو لیں تو تمہارے حق میں دشمنی کا اظہار کریں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کریں اور وہ چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہوجاؤ‘ قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں تم کو کچھ نفع دیں گی اور نہ تمہاری اولاد‘ اللہ تعالیٰ تمہارے مابین فیصلہ کرے گا‘ جو کچھ بھی تم کررہے ہو اس سب کو اللہ تعالیٰ خوب دیکھ رہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کا ساتھ دینے والوں کی زندگی میں تم لوگوں کے لئے ایسی اچھی خصلت موجود ہے جو قابل اتباع ہے جب کہ ان سب نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان سے جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو سخت بیزار ہیں۔ ہم تمہارے عقائد باطلہ کے منکر ہیں اور ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لئے عداوت اور دشمنی ظاہر ہوگئی‘ تاوقتیکہ تم خدائے واحد پر ایمان نہ لاؤ“۔
صحابہ کرام کی دینی حمیت تو یہ بھی گوارا نہیں کرتی تھی کہ کوئی کافر ان کے جسم کو چھوئے یا وہ کسی کافر کے جسم کو مس کریں‘ حضرت عاصم نے شہادت سے پہلے یہ دعا کی : ”اللہم انی احمی لک الیوم دینک فاحم لی لحمی“ یعنی اے اللہ! میں آج تیرے دین کی حفاظت کررہا ہوں پس تو میرے جسم کی حفاظت کرنا“۔ خدا نے یہ دعا قبول فرمائی‘ ان کی شہادت کے بعدبنی ہذیل کے چند آدمی ان کا سر کاٹنا چاہتے تھے‘ تاکہ وہ سلافہ کو دے کر ۱۰۰ اونٹ کا انعام حاصل کریں‘ جس نے حضرت عاصم کے کاسہٴ سر میں شراب پینے کی نذر مانی ہوئی تھی‘ مگر خدانے بھڑوں کی فوج بھیج دی‘ کوئی لاش کے قریب نہ جاسکا‘ رات کو سیلاب آیا جو لاش کو بہا لے گیا اور یہ ناکام واپس ہوئے۔ بہرحال خدا کے دشمنوں سے دوستی رکھنے والے خدا کے دوست نہیں ہوسکتے ۔ بقول سعدی:
بشوی اے خردمند زاں دوست دست
کہ بادشمنانت بود ہم نشست
تر ک موالات کے تقاضے
۱- مسلمان ممالک اپنا علیحدہ بنک بنا ئیں اور اپنی رقوم یورپی بنکوں سے نکال کر اس میں جمع کرائیں۔
۲- اسلامی ممالک میں ضرورت کی چیزیں تیار کی جائیں اور مسلمان یہی خریدیں۔
۳- درآمدات وبرآمدات کا تعلق بھی مسلم ممالک آپس میں رکھیں۔
۴- اسلام کا نظام سیاست شورائی ہے‘ اسی کو اپنائیں اور جمہوریت‘ مغرب کو دے دیں۔ بقول اقبال مرحوم:
گریز از طرزِ جمہوری غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمے آید
۵- مغربی کلچر جو عریانی‘ فحاشی اور جنسی بے راہ روی پر استوار ہے‘ مغرب کو واپس کردیں اور خدا کا پسندیدہ اسلامی نظام معاشرت اپنائیں‘ تاکہ گھروں میں سکون ہو۔
۶- سود‘ جوا اور حرام اشیاء کی تجارت سے تائب ہوکر اسلامی نظام معیشت اپنایاجائے‘ جس میں تمام خوبیاں ہیں اور خرابی کو ئی بھی نہیں۔
دوسری ہدایت
ارشاد خداوندی ہے:
الف:․․․”واذکروا نعمة اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا“۔ (آل عمران:۱۰۳)
ترجمہ:․․․”اور اللہ کے اس احسان کو جو تمہارے اوپر اس نے کیا ہے یاد رکھو جب کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے پھر اس نے تمہارے قلوب میں الفت پیدار کردی‘ سو تم اس کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے “۔
ب:․․․”انما المؤمنون اخوة“ ۔ (الحجرات:۱۰)
ترجمہ:․․․”مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں“۔
اخوت اسلامی کے بارے میں سرور کونین ا کے ارشادات
الف:․․․”المؤمنون کرجل واحد ان اشتکی عینہ اشتکی کلہ وان اشتکی راسہ اشتکی کلہ“۔ (مشکوٰة‘ص:۴۲۲)
ترجمہ:․․․”تمام مومن ایک شخص کی مانند ہیں کہ اگر اس کی آنکھ کو تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر اس کے سر کو تکلیف ہو تب بھی تمام جسم تکلیف محسوس کرتا ہے“۔
ب:․․․”تری المؤمنین فی تراحمہم وتوادہم وتعاطفہم کمثل الجسد اذا اشتکی عضوا تداعی لہ سائر الجسد بالسہر والحمی“ (مشکوٰة‘ص:۴۲۲)
ترجمہ:․․․”تم مومنوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے پر مہربانی کرنے میں ایک جسم کی طرح دیکھوگے‘ جب کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو تمام جسم کے اعضاء ایک دوسرے کو بلاتے ہیں اور سب اعضاء بیدار اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں“
ج:․․․”المؤمن للمؤمن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ثم شبک بین اصابعہ(مشکوٰة‘ص:۴۲۲)
ترجمہ:․”ایک مومن دوسرے مومن کے لئے ایسا ہے جیسے ایک عمارت کہ اس کا حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے پھر آپ ا نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں‘ یعنی ایسے“۔
د:․․․”المسلم اخو المسلم لایظلمہ ولا یخذلہ ولایحقرہ‘ التقوی ہہنا ویشیر الی صدرہ ثلاث مرار بحسب امرء من الشر ان یحقر اخاہ المسلم‘ کل المسلم علی المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ“۔ (مشکوٰة‘ص:۴۲۲)
ترجمہ:․․․”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر ظلم نہیں کرتا نہ اسے بے یار ومددگار چھوڑتا ہے نہ اسے حقیر سمجھتاہے حضورا نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہرمسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون‘ مال اور عزت حرام ہے“۔
اخوتِ اسلامی کی مثالیں
۱- مکہ میں مہاجرین کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا گیا۔
۲- مدینہ پہنچے تو آپ ا نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات قائم فرمائی‘ ان میں باہمی محبت کتنی تھی اس کا بیان نہیں کیا جاسکتا۔
۳- نبی نضیر کے باغات اور زمینیں مسلمانوں کے قبضے میں آئیں تو حضور ا کے استفسار پر انصار نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ باغات اور زمینیں ہمارے مہاجرین بھائیوں کو عطا فرما دیجئے‘ ہمیں کچھ نہ دیا جائے اور مہاجرین ہمارے ساتھ حسبِ سابق ہی رہیں اور ہمارے اموال میں سے بھی جتنا کچھ آپ ان کو دیں‘ ہمیں بہت خوشی ہوگی ۔ آپ ا نے خوش ہوکر انصار کو دعاؤں سے نوازا۔
۴- سرور کونین ا کے ہاں ایک مہمان آیا حضورا نے ازواج مطہرات کے گھروں سے پتہ کرایا تو کہیں سے کوئی چیز نہ ملی‘ آپ ا نے ترغیب دی تو ابوطلحہ انصاری اسے گھر لے گئے‘ وہاں صرف ایک آدمی کا کھانا تھا‘ بچوں کو سلادیا گیا‘ میزبان اور مہمان کے سامنے کھانا رکھا گیا تو بیوی نے چراغ درست کرنے کے بہانے اسے بجھا دیا‘ مہمان نے کھانا کھایا ‘ لیکن سب گھر والوں نے بھوکے رہ کر رات گذاری‘ انہیں کی تعریف میں یہ آیت نازل ہوئی:
”ویؤثرون علی انفسہم ولوکان بہم خصاصة“۔
۵- ایسا ہی واقعہ ثابت بن قیس انصاری کا ہے جنہوں نے ایک شخص کو جو مسلسل تین روز سے بغیر کھائے پئے روزے رکھ رہا تھا‘ اسی طرح کھانا کھلایا۔
۶- ایک انصاری کو بکری کی سری ہدیةً ملی‘ انہوں نے دوسرے کو زیادہ حاجتمند دیکھ کر بھیج دی‘ یہ سری سات گھروں سے چکر کاٹتی ہوئی پھر پہلے شخص کے گھر آگئی ۔
۷- حضرت حذیفہ عدوی جنگ یرموک میں پانی کا مشکیزہ لے کر لاشوں میں پھرتے ہوئے اپنے چچاداز بھائی کو تلاش کررہے تھے‘ وہ انہیں نظر آگئے‘ انہوں نے پوچھا: پانی پلاؤں؟ انہوں نے اثبات میں اشارہ کیا‘ یہ پاس گئے تو قریب ہی ایک دوسرے زخمی کے کراہنے کی آواز آئی‘ ان کے چچازاد بھائی نے پہلے اس کی طرف جانے کا اشارہ کیا‘ یہ ہشام بن عاص تھے‘ وہاں پہنچے تو ایک تیسرے زخمی کی کراہٹ سنی‘ ہشام نے پہلے اسے پلانے کا اشارہ کیا‘ یہ وہاں پہنچے تو ان کی روح پرواز کر چکی تھی‘ واپس ہشام کے پاس پہنچے تو وہ بھی اللہ کو پیارے ہوچکے تھے‘ اپنے چچازاد بھائی کے پاس پہنچے تو وہ بھی راہی ملک بقا ہوچکے تھے ۔ رضی اللہ عنہم وارضاہم۔ پس مسلمانوں کے لئے قرآن حکیم کی دوسری ہدایت یہ ہے کہ وہ آپس میں بھائی چارے کو قائم کریں‘ کفار کسی بھی اسلامی ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کریں تو امت مسلمہ متفقہ طور پر منہ توڑ جواب دے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر
نیز فرماتے ہیں:
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ‘ دین بھی‘ ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی‘ اللہ بھی‘ قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک؟
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
مسلمانوں کا حال تو یہ ہونا چاہئے :
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
خنجر چلے کسی پر تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: اعلامیہ 
Flag Counter