Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

4 - 14
غیر کفؤ میں بغیر اجازتِ ولی نکاح کا حکم!
غیر کفؤ میں بغیر اجازتِ ولی نکاح کا حکم!


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مندرجہ ذیل مسئلہ میں کہ:
۱- میری بھتیجی نے ہماری برادری کے ایک فاسق لڑکے سے والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کیا ہے۔ اب یہ پوچھنا ہے کہ فتاویٰ شامی کتاب الکفو اور بحر الرائق میں مسئلہ لکھا ہے کہ: اگر باپ صالح ہو تو اس صورت میں والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح نافذ ہی نہیں ہوگا ۔ فتویٰ اسی پرہے یا نہیں؟
مستفتی۔ مطیع اللہ رائین تورکہو چترال

الجواب حامدا ومصلیا

واضح رہے کہ اگر عاقلہ بالغہ ولی کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرلے تو اس کے جواز اور عدمِ جواز یعنی ایسے نکاح کے انعقاد اور عدمِ انعقاد کے بارے میں ائمہ احناف سے دو قسم کی روایات منقول ہیں:
۱:․․․․احناف کی ظاہر الروایة کے مطابق اس صورت میں (چونکہ دونوں عاقل وبالغ ہیں اور بنیادی طور پر شرعی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نکاح کیا ہے) نکاح منعقد ہوجائے گا۔ البتہ ولی کو اعتراض کا حق ہوگا اور وہ چاہے تو عدالت کے ذریعے اس نکاح کو ختم کرا سکتاہے۔
۲:․․․احناف کی غیر ظاہر الروایة یہ ہے کہ ایسا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوگا‘ اس پر احکامِ نکاح لاگو نہ ہوں گے اور نہ ان نکاح کرنے والوں میں سے کسی پر حقوق عائد ہوں گے‘ ان دونوں کو اپنی مرضی سے دوسری جگہ رشتہ کرنے کی اجازت ہوگی‘ متأخرین فقہاء میں سے اکثر نے غیر ظاہر الروایة پر فتویٰ دیا ہے‘ جبکہ بعض دوسرے فقہاء نے ظاہر الروایة پر فتویٰ دیا ہے‘ احناف سے دونوں قسم کے فتاویٰ منقول ہیں۔
اس مسئلہ پر اختلاف ‘ علت کے اختلاف کی وجہ سے ہے یعنی ظاہر الروایة کے مطابق فتویٰ کی علت اور ہے اور غیر ظاہر الروایة کے مطابق فتویٰ کی علت اور ہے۔
ظاہر الروایة کے مطابق فتویٰ کی علت یہ ہے کہ: دونوں عاقل وبالغ ہیں‘ دوسرے یہ کہ ان کو بحیثیت ِ انسان اپنے مال اور اپنی ذات میں ولایت کا اختیار حاصل ہے اور انہوں نے انعقاد ِ نکاح کی بنیادی شرائط (ایجاب وقبول) کو گواہوں کے سامنے استعمال کیا ہے‘ لہذا نکاح تو منعقد ہوجائے گا‘ البتہ عورت نے شرعی اور عرفی لحاظ سے دوبڑی غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے:
۱:․․․اس نے نکاح کے لئے غیر شرعی طریقہ استعمال کیا ہے یعنی ولی کے توسط اور سرپرستی میں نکاح نہیں کیا جوکہ غیر مہذبانہ اور غیر معروف طریقہ ہے۔
۲:․․․دوسری غلطی یہ کہ غیر کفو میں اس نے نکاح کیا ہے‘ جس سے خاندانی رو سے ولی کی بے عزتی اور بے حرمتی ہوئی ہے۔ لہذا اس تلافی کے واسطے ولی کو حق ہوگا کہ اس نکاح کے بارہ میں سوچے اور غور کرے۔
اگر وہ غور وفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ چونکہ یہ نکاح غیر شرعی طریقہ سے ہوا ہے اور اس میں ایک گونہ ہماری بے عزتی بھی ہوئی ہے‘ اس لئے یہ نکاح نہیں ہونا چاہئے تو ولی بذریعہ عدالت لڑکے کے غیر کفو ہونے کو دو گواہوں سے ثابت کرکے نکاح فسخ کراسکتاہے۔ جن حضرات نے غیر ظاہر الروایة کے مطابق فتویٰ دیا ہے ان کو نصوص اور روایات سے عاقلہ وبالغہ عورت کو نکاح کا اختیار معلوم ہوتا ہے‘ انہوں نے ان سب نصوص وروایات کو تسلیم کرتے ہوئے زمانے کے بعض حالات کی بناء پر سداللباب عدمِ انعقاد نکاح کا فتویٰ دیا ہے اور وہ حالات یہ ہیں کہ بہت سے ولی ایسے ہیں جو عدالت اور اس کے طریقہ کار سے ناواقف ہیں ‘ لہذا اگر فسخِ نکاح کے معاملہ کو ضروری قرار دیا جائے تو اس سے بہت بڑی دشواری اور پریشانی ہوگی ‘ فیصلہ بھی صحیح نہیں ہوگا‘ حالاتِ متغیرہ کی بناء پر وہ عدمِ انعقاد نکاح پر فتویٰ دیتے ہیں‘ تاکہ عورتوں کی جانب سے غیر کفو میں نکاح کا سلسلہ ختم ہوجائے۔ ان دونوں روایات پر مشایخِ احناف کے فتاویٰ موجودہیں۔ ملاحظہ فرمایئے‘ فتاویٰ قاضیخان میں ہے:
”اذا زوّجت المرأة نفسہا غیر کفوٴ کان للاولیاء من العصبة حق الفسخ ولایکون الفسخ لعدم الکفاء ة الا عند القاضی‘ لانہ مجتہد فیہ وکل واحد من الخصمین یتمسک بنوع دلیل وبقول عالم‘ فلاتنقطع الخصومة الا بفصل من لہ ولایة علیہما کالفسخ بخیار البلوغ والرّد بالعیب بعد القب (فتاویٰ قاضیخان علی ہامش الہندیة: ۱/۳۵۱)
اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
”ثم المرأة اذا زوجت نفسہا من غیر کفو صح النکاح فی ظاہر الروایة عن ابی حنیفة وہو قول ابی یوسف آخرا وقول محمد آخرا ایضا حتی انَّ قبل التفریق یثبت فیہ حکم الطلاق والظہار والایلاء والتوارث وغیر ذلک ولکن للاولیاء حق الاعتراض۔ وروی الحسن عن ابی حنیفة  ان النکاح لاینعقد وبہ اخذ کثیر من مشائخنا رحمہم اللہ کذا فی المحیط‘ والمختار فی زماننا للفتوی روایة الحسن۔ وقال الشیخ الامام شمس الائمة السرخسی : روایة الحسن اقرب الی الاحتیاط کذا فی فتاویٰ قاضیخان فی فصل شرائط النکاح۔ وفی البزازیةذکر برہان الائمة: ان الفتوٰی فی جواز النکاح بکرا کانت او ثیبا علی قول الامام اعظم‘ وہذا اذا کان لہا ولی‘ فان لم یکن صح النکاح اتفاقا کذا فی النہر الفائق‘ ولایکون التفریق بذلک الاعند القاضی‘ اما بدون فسخ القاضی فلا ینفسخ النکاح بینہما وتکون ہذہ فرقة بغیر طل (فتاویٰ عالمگیری: ۱/۲۹۲‘ ط:ماجدیہ)
مگر جن حالات میں مشایخ نے غیر ظاہر الروایة کے مطابق فتویٰ دیا ہے‘ وہ موجودہ زمانے سے مختلف تھے‘ اب تو عدالت کے طریقہ کار سے نہ صرف لڑکی کے اولیاء واقف ہیں‘ بلکہ خود لڑکیاں عدالت میں جاکر نکاح کرلیتی ہیں‘ لہذا غیر کفو میں نکاح ہونے کی صورت میں اولیاء اگر اس نکاح پر راضی نہ ہوں تو انہیں بذریعہ عدالت نکاح فسخ کرانے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی‘ بلکہ نہایت آسانی سے لڑکے کے غیر کفو ہونے کو ثابت کرکے نکاح فسخ کراسکتے ہیں‘ اس لئے فتویٰ ظاہر الروایة کے مطابق دیا جاتاہے۔ اسی طرح متأخرین فقہائے احناف میں سے بھی بعض نے ظاہر الروایة کے مطابق فتویٰ دیا ہے‘ جن میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی  ‘دار العلوم دیوبند کے مفتی اول حضرت مولانا عزیز الرحمن ‘ مفتی محمد شفیع‘ حضرت مولانا محمداشرف علی تھانوی وغیرہم ان تمام حضرات سے ظاہر الروایة کے مطابق فتاویٰ منقول ہیں جو ان حضرات کے فتاویٰ جات میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں‘ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی وجوہ ہیں جوکہ ظاہر الروایة کے مطابق فتویٰ دینے کو راجح قرار دیتی ہیں‘ مثلاً: عاقلہ وبالغہ عورت نے جو نکاح بلا اجازت ولی کیا ہے وہ اپنے اختیار اور ولایت شرعیہ سے کیا ہے‘ اس کو اپنے ذاتی امور میں معاملات وتصرفات کا بحیثیت ایک انسان شرعی حق حاصل ہے۔
۲:․․․عاقلہ وبالغہ کا تصرف عقد نکاح نصوص قرآنی کے مطابق ہے‘ لہذا نکاح کو نافذ اور منعقد قرار نہ دینے میں نصوص کی مخالفت ہوتی ہے۔
۳:․․․احناف کے متون اربعہ میں اسی ظاہر الروایة کو اختیار کیا گیا ہے‘ باقی یہ بات کہ فسخ نکاح کے لئے عدالت جانا ولی کے لئے ایک مستقل ضرر ہے‘ تو نکاح کو باطل قرار دینے میں اس سے زیادہ ضرر ہے ‘ مثلاً: غیر کفو میں جو عاقلہ وبالغہ عورتیں بدوں اجازت ولی نکاح کرتی ہیں‘ اکثر وبیشتر ان کے اپنے شوہروں سے تعلقات قائم ہوجاتے ہیں‘ اگر نکاح کو باطل قرار دیا جائے تو اس کے نتیجے میں ان کے تعلقات کو ناجائز اور زنا کہنا پڑے گا جس اس میں زیادہ ضرر ہے‘ اسی وجہ سے صاحب بدائع نے ج:۲،ص:۲۴۹پرلکھا ہے:
”فی انفاذ النکاح وان کان ضررا للالیاء وفی عدم الانفاذ اکبر ضرراً
ب: کن امور میں کفو اور برابری کو دیکھا جائے گا تو جاننا چاہیئے کہ شریعت میں جس طرح کفو وبرابری میں حسب ونسب کا اعتبار کیا گیا ہے‘ اسی طرح دیانت میں بھی کفو کا اعتبار کیا جائے گا یعنی دیندار عورت کا کفو دیندار مرد ہے‘ فاسق وفاجر آدمی اس کا کفو نہیں ہے‘ غرض یہ کہ عورت اور اس کے خاندان میں جس قدر دیانت اور دینداری ہوگی ‘ مرد اور اس کے خاندان میں بھی اس قدر دینداری کو دیکھا جائے گا‘ تاکہ دونوں میں ہم آہنگی اور موافقت پیدا ہو‘ ورنہ اختلاف پیدا ہوگا‘ عدمِ موافقت کی وجہ سے رشتہ برقرار نہیں رہ سکے گا‘ ظاہر ہے کہ عورت جب دیندار ہوگی تو وہ ہر عمل دین کی بنیاد پر کرنا چاہے گی‘ شوہر اگر دیندار نہ ہو‘ فاسق وفاجر ہو تو وہ ہرعمل میں لاپرواہی کا مظاہرہ کرے گا جس سے اختلاف پیدا ہونا ظاہر ہے‘ اس لئے شریعت نے کہا کہ نکاح سے پہلے مرد کی دینداری کو دیکھا جائے گا:
”اعلم انہ قال فی البحر: وقع لی تردد فیما اذا کانت صالحة دون ابیہا او کان ابوہا صالحاً دونہا ہل یکون الفاسق کفوالہا اولا: فظاہر ہا کلام الشارحین ان العبرة لصلاح ابیہا وحدہا‘ فانہم قالوا لایکون الفاسق کفوٴا لبنت الصالحین‘ واعتبر فی المجمع صلاحہا‘ فقال: فلایکون الفاسق کفوٴا للصالحة“ ۔وفی الخانیہ: ”لایکون الفاسق کفوٴا للصالحة بنت الصالحین‘ فاعتبر صلاح الکل‘ ولم ارہ صریحاً“ ۔ (فتاویٰ شامی‘ کتاب النکاح باب الکفأة‘ ۳/۸۹‘ط:سعید)
وفی الہندیة: کتاب النکاح‘ ۱/۲۹۰‘ط:ماجدیہ
”الکفاء ة تعتبر فی اشیاء․․․ (ومنہا الدیانة) تعتبر الکفاء ة فی الدیانة وہو قول ابی حنیفة وابی یوسف  والصحیح کذا فی الہندیة‘ فلایکون الفاسق کفوٴا للصالحة‘ کذا فی المجمع سواء کان معلن الفسق او لم یکن کذا فی المحیط“۔ پھر کفاء ت فی الدیانة زیادةِ دین ونقصان ِ
دین کا بھی شرع نے اعتبار کیا ہے‘ عورت اگر قدیم زمانے سے مسلمان ہے تو نو مسلم مرد اس کا کفو نہیں ہے‘ عورت اگر ولی سے اجازت لئے بغیر نو مسلم سے نکاح کرتی ہے تو غیر ظاہر الروایة کے مطابق یہ نکاح نافذ نہ ہوگا‘ جب کہ ظاہر الروایة کے مطابق نکاح ہوجائے گا‘ مگر ولی کو یہ نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہوگا ‘ لہذا صورت مسئولہ میں اگر کسی فاسق وفاجر شخص نے کسی نیک وصالحہ لڑکی سے اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو یہ نکاح منعقد ہو جائے گا‘ البتہ ولی کو بذریعہ عدالت یہ نکاح فسخ کرانے کا اختیار حاصل ہوگا۔
الجواب صحیح الجواب صحیح کتبہ
محمد عبد المجید دین پوری شعیب عالم عامر خالد
متخصص فی الفقہ الاسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: ملتزم
Flag Counter