Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

11 - 14
ملتزم
ملتزم


بیت اللہ کے وہ متبرک مقامات جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں، ان میں ملتزم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے‘ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم ا اور صحابہ کرام پھر تابعین اور علماء امت کا اس جگہ پر دعا مانگنا اور اس میں ایک خاص الحاح وزاری کی کیفیت کا ہونا جس کی تفصیل کتب میں موجود ہے‘ ثابت ہے۔ نبی پاک ا نے ملتزم کی دعا کے متعلق فرمایا : ملتزم ایسی جگہ ہے جہاں دعا قبول ہوتی ہے‘ بلکہ ایک روایت میں ہے کہ آپ ا نے قسم کھاکر فرمایا کہ: جب کبھی میں نے ملتزم کے پاس دعا کی‘ وہ ضرور قبول ہوئی۔ ایک روایت میں فرمایا: ملتزم کے پاس گناہوں کی معافی چاہنے والا مولود بچہ کی طرح بخش دیا جاتاہے۔ خود نبی کریم ا اور صحابہ کرام کا ملتزم سے چمٹنا جیسے کہ بچہ ماں کے سینے سے چمٹتا ہے‘ احادیث میں بیان فرمایا گیا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کی دعا: ”اللہم انک تعلم سری وعلانیتی“ تو ملتزم کے پاس ایسی قبول ہوئی کہ حق تعالیٰ نے فرمایا:اے آدم! آپ نے ایسی دعا کی ہے جس کو میں نے قبول کرلیا اور تیرے گناہوں کو بخش دیا اور تیری پریشانیوں اور تیرے غموں کو دور کردیا اور تیری اولاد میں سے جو شخص بھی تیرے بعد یہ دعا کرے گا میں اس کی دعا قبول کروں گا اور اس کے فقر اور محتاجگی کو ختم کردوں گا اور ہر تاجر کے مقابلہ میں اس کے لئے تجارت کرنے والا ہوں گا اور دنیا اس کے پاس مجبورہوکرآئے گی‘ خواہ وہ اس کا ارادہ نہ کرے۔ اس مختصر اجمال کی قدرے تفصیل اس مضمون میں بیان کی گئی ہے‘ حق تعالیٰ اس ناچیز خدمت کو قبول فرمائے۔ الٰہی انتہائے عجز کا اقرار کرتا ہوں خط وسہو کا پتلاہوں استغفار کرتاہوں
ملتزم کے معنی اور وجہ تسمیہ
ملتزم لَزِمَ سے ہے جس کے معنی ہے لازم رہنا ‘ چمٹے رہنا‘ ملتزِم کے معنی ہوئے چمٹے رہنے والا اور ملتزَم یعنی چمٹنے کی جگہ۔ ملتزم کو اس لئے ملتزم کہتے ہیں کہ لوگ اس سے لپٹ لپٹ اور چمٹ چمٹ کر دعائیں مانگتے ہیں‘ علامہ یاقوت حموی لکھتے ہیں: ”سمی ذلک لالتزامہ بالدعاء والتعوذ“ (۱) دعا اور تعوذ کے التزام کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا۔ محدث کبیر حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:
”یقال لہ الملتزم لان الحاج اذا اراد الرجوع یستحب لہ ان یلتزم الملتزم عند الوداع“۔ (۲)
یعنی ملتزم کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حجاج جب واپسی کا ارادہ کریں تو ان کے لئے مستحب ہے کہ ملتزم سے چمٹے اور دعا کریں۔
ملتزم کہاں ہے؟
باب کعبہ اور حجر اسود کے درمیان بیت اللہ کی دیوار کا حصہ ملتزم ہے
”ہو حصة جدار البیت ما بین الباب ورکن الحجر“
۔ (۳) خود حدیث میں بھی فرمایا :
”مابین الرکن والمقام ملتزم“ (۴)
ملتزم کا حصہ کتنا ہے؟
۱:-باب کعبہ اور حجر اسود کے درمیان چھ فٹ کا حصہ جسے ملتزم کہا جاتا ہے۔(۵)
۲:-ملتزم حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان اڑھائی گز شرعی کے قریب بیت اللہ شریف کی دیوار کا حصہ ہے۔ (۶)
۳:-خانہ کعبہ کی دیوار کا قریبا دو گز کا جو حصہ حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان ہے وہ ملتزم کہلاتاہے۔(۷)
طواف کے بعد ملتزم سے چمٹنا
حدیث میں ہے:
”عن عمرو بن شعیب عن ابیہ قال قلت اطوف مع ابی عبد اللہ بن عمرو بن العاص ورایت قوماً التزموا البیت فقلت لہ انطلق بنا نلتزم البیت بین البیت والحجر وقال ہذا واللہ المکان الذی رایت رسول اللہ ا التزمہ“۔ (رواہ البیہقی بہذا اللفظ) (۸)
ترجمہ:․․․”عمرو بن شعیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں اپنے دادا عبد اللہ بن عمرو بن العاص کے ساتھ طواف کررہا تھا‘ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ بیت اللہ سے چمٹ رہے ہیں تو میں نے اپنے دادا (حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص) سے عرض کیا کہ: ہم کو یہاں لے چلتے‘ ان لوگوں کے ساتھ ہم بھی ان کی طرح بیت اللہ سے چمٹ جائیں؟ انہوں نے فرمایا: میں خدا کی پناہ مانگتاہوں مردود شیطان سے (شعیب کہتے ہیں) پھر جب میرے دادا طواف سے فارغ ہوگئے تو دیوار کعبہ کے خاص اس حصہ پر آئے جو باب کعبہ اور حجر اسود کے درمیان ہے (جس کو ملتزم کہتے ہیں) اور مجھ سے فرمایا: خدا کی قسم! یہی وہ جگہ ہے جس سے رسول اللہ ا چمٹ گئے تھے“۔ تشریح: حضرت کا یہ فرمانا ”اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم“ اس کا مطلب غالباً یہ تھا کہ اگر میں طواف کے درمیان ان لوگوں کی طرح ملتزم کی خاص جگہ کا خیال کئے بغیر بیت اللہ کی کسی دیوار سے چمٹ جاؤں تو یہ خلاف سنت اور غلط کام ہوگا اور اس سے خدا راضی نہیں ہوگا‘ بلکہ شیطان راضی ہوگا اور اس مردود سے خدا کی پناہ مانگتاہوں۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ملتزم سے چمٹنے والا عمل طواف کے بعد ہونا چاہئے اور اس کی خاص جگہ ملتزم ہی ہے‘ اللہ کے دیوانوں کو اس میں جو کیفیت نصیب ہوتی ہے‘ وہ بھی انہی کا حصہ ہے اور حج کی خاص الخاص کیفیات میں سے ہے۔ (۹)
آپ ا اور صحابہ کرام کا ملتزم سے چمٹنا
حدیث میں ہے:
”عن عبد الرحمن بن صفوان قال لما فتح رسول اللہا مکة قلت لالبسن ثیابی وکانت داری علی الطریق فلانظرن کیف یصنع رسول اللہا فانطلقت فرایت النبیا قد خرج من الکعبة ہو واصحابہ قد استلموا البیت من الباب الی الحطیم وقد وضعوا خدودہم علی البیت ورسول اللہا وسطہم“ (۱۰)
ترجمہ:”حضرت عبد الرحمن بن صفوان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے جب مکہ فتح کیا تو میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ میں آج ضرور (نئے) کپڑے پہنوں گا اور (چونکہ) میرا مکان راستہ پر ہے تو ضرور دیکھوں گا کہ رسول اللہ ا کیا کرتے ہیں‘ پس میں گیا تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ا خانہ کعبہ سے باہر تشریف لائے‘ آپ ا کے ساتھ آپ کے اصحاب بھی تھے‘ پس سب لوگ خانہ کعبہ کے دروازہ سے لے کر حطیم تک کے حصہ سے چمٹ گئے (۱۱) اور اپنے رخسار کعبہ سے لگادیئے اور رسول اللہ ا ان کے درمیان میں تھے“۔
ملتزم سے چمٹنے کا طریقہ
”عن عمرو بن شعیب عن ابیہ قال طفت مع عبد اللہ فلما جئنا دبر الکعبة قلت الا تتعوذ قال اعوذ باللہ من النار ثم مضی حتی استلم الحجر واقام بین الرکن والباب فوضع صدرہ ووجہہ وذراعیہ وکفیہ ہکذا وبسطہما بسطا ثم قال ہکذا رایت رسول اللہ ا یفعلہ“۔ (۱۲)
ترجمہ․”حضرت شعیب سے روایت ہے کہ میں حضرت عبد اللہ (بن عمرو بن العاص (۱۳) کے ساتھ طواف کیا جب ہم کعبہ کے پیچھے آئے تو میں نے (حضرت عبد اللہ سے) کہا کہ: آپ اللہ سے پناہ طلب نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا: ہم جہنم سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں‘ پھر (وہ حجر اسود کے استلام کے لئے گئے) اور حجر اسود کا استلام کیا اور حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان کھڑے ہوکر اپنا سینہ‘ چہرہ‘ دونوں ہاتھ اور ہتھیلیاں اس طرح رکھیں اور ان کو پھیلایا پھر فرمایا: میں نے رسول اللہ ا کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ ”عمدة الفقہ میں ہے:(۱۴) نماز طواف اور اس کے بعد کی دعا سے فارغ ہوکر ملتزم پر آئے‘یہ حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان اڑھائی گز شرعی کے قریب بیت اللہ شریف کی دیوار کا حصہ ہے‘ یہ دعا کی مقبولیت کا خاص مقام ہے‘ یہ وہ مقام ہے جس سے رسول اللہ ا اس طرح لپٹ جاتے تھے جس طرح بچہ ماں کے سینہ سے لپٹ جاتاہے۔ پس جب ملتزم پر آئے تو اگر موقع ملے اس سے لپٹ جائے اور انشاء اللہ العزیز موقع مل ہی جائے گا‘ اپنا سینہ اور پیٹ اس سے لگادے اور کبھی دایاں رخسار اور کبھی بایاں رخسار اسی پر رکھے اور کبھی پورا چہرہ اس سے لگادے اور دونوں ہاتھ اوپر اٹھاکر ان کو بازوؤں سمیت بیت اللہ شریف کی دیوار کے ساتھ لگاکر نہایت خشوع خضوع سے خوب رورو کر دعائیں مانگے‘ جو دل میں آئے اور جس زبان میں چاہے دعا مانگے‘ کوئی کمی نہ کرے اور یہ سمجھ کر مانگے کہ رب کریم کے آستانہ پر پہنچ گیاہوں اور اس کی چوکھٹ سے لگا کھڑا ہوں‘ وہ میرے حال کو دیکھ رہا ہے اور میری آہ وزاری کو سن رہا ہے۔ یہاں تکبیر وتہلیل اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور اذکار پڑھے اور اول وآخر درود شریف بھی پڑھے‘ اس موقع پر جہنم سے نجات اور بغیر حساب جنت میں داخلہ کی دعا ضرور کرے اور اس مقصد کے لئے یہ مختصر الفاظ یاد کرلے۔
”اللہم رب ہذا البیت العتیق اعتق رقابنا من النار وادخلنا الجنة بغیر حساب“۔
اس موقع کے لئے ایک ماثورہ دعا یہ بھی ہے:
”یا واجد یا ماجد لاتزل عنی نعمة انعمت علیّ‘ اللہم انی عبدک وابن عبدک واقف تحت بابک‘ ملتزم باعتابک‘ متذلل بین یدیک‘ ارجو رحمتک واخشی عذابک من النار‘ یا قدیم الاحسان اللہم حرم شعری وجسدی علی النار‘ اللہم کما صنت وجہی عن سجود غیرک فصن وجہی عن مسئلة غیرک‘ اللہم یارب البیت العتیق اعتق رقابنا ورقاب آبائنا وامہاتنا وازواجنا واولادنا واخواننا واقربائنا واصحابنا واحبائنا من النار‘ یاکریم‘ یا غفار‘ یا عزیز‘ یا جبار‘ یا ذو الجود والکرم والفضل والمن والعطاء والاحسان“
۔اور یہ بھی کہے:
”ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم وتب علینا انک انت التواب الرحیم“ ۔
یہ بات یاد رکھئے کہ یہ دعا یا کوئی اور خاص دعا مقرر نہیں‘ اصل بات وہی ہے کہ دل سے مانگے چاہے کسی زبان میں مانگیے‘ اپنے والدین اور دوسرے اعزہ اور دوستوں ومحسنوں کے لئے مانگئے اور رسول اللہ ا کی پوری امت کے لئے مانگئے اور دنیا وآخرت کی ہرضرورت اور نعمت مانگئے۔
ملتزم پر کب آنا چاہئے
جاننا چاہئے کہ دوگانہ طواف ودعائے ملتزم اور آب زمزم پینے میں ترتیب تین طرح پر منقول ہے :
۱:- طواف ختم کرنے کے بعد پہلے دوگانہٴ طواف پڑھے پھر ملتزم پر آئے پھر زمزم شریف پر آکر آب زمزم پئے‘ ظاہر یہ ہے کہ یہی افضل ہے‘ اس لئے کہ اصل یہ ہے کہ طواف سے فارغ ہو کر دوگانہٴ طواف کے سوا کسی اور کام میں مشغول نہ ہو‘ ”در مختار“ میں اسی کو اختیار کیا ہے۔
۲:-دوسری صورت یہ ہے کہ پہلے ملتزم پر آئے پھر دوگانہٴ طواف پڑھے پھر چاہ زمزم پر آئے ‘ اس کو ”منسلک الکبیر“ میں اختیار کیا ہے‘ اور ”شرح اللباب“ میں کہا ہے کہ یہ اسہل اور افضل ہے اور اسی پر عمل ہے۔
۳:-تیسری صورت یہ ہے کہ پہلے دوگانہٴ طواف پڑھے پھر چاہ زمزم پر آکر زمزم پئے پھر ملتزم پرآئے‘ اسی کو ”سراجی“ نے نقل کیا ہے اور فتح القدیر میں اسی کو اختیار کیا ہے‘ کرمانی اور زیلعی نے تصریح کی ہے کہ یہ اصح ہے اور بدائع سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے‘ ”شرح اللباب“ میں اس کو طواف صدر کے بیان میں ذکرکیا ہے اور ”فتح القدیر“ و”عنایہ“ و”کفایة“ میں بھی طواف صدر میں اسی پر اعتماد کیا ہے‘ اور شافعیہ کے نزدیک بھی یہ اسی موقع کے لئے مختار ہے۔ اور یہ اس لئے ہے تاکہ تمام افعال کے بعد بیت اللہ شریف سے لپٹ کر روانگی ہو اور رخصت کے وقت اس کا آخری عمل خانہٴ کعبہ سے ملاقات ہو۔ ”ہدایہ“ و”قدوری“ و”کافی“ و”مجمع“ و”بدائع“ وغیرہ بہت سی کتابوں میں طواف قدوم کے دوگانہٴ طواف کے بعد حجر اسود کا استلام کرکے سعی کے لئے صفا کی طرف نکلنا مذکور ہے اور اسی طواف کے بعد زمزم شریف وملتزم پر آنے کا ذکر نہیں کیا ہے‘ بلکہ طواف وداع کے بعد ان کا ذکر کیا ہے‘ شاید یہ اس لئے ہے کہ طواف قدوم کے بعد سعی میں جلدی کی جائے‘ کیونکہ یہ دونوں امور غیر مؤکد ہیں‘ جیساکہ شافعیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طواف کے بعد سعی نہیں ہے‘ اس کے بعد ملتزم اور چاہ زمزم پر آنا سنت ہے ۔ (۱۵)
حواشی وحوالہ جات
۱-معارف الحدیث ج:۴‘ص:۲۶۹۔حدیث نمبر ۱۹۸۱ ۲- ابوداؤد‘ کتاب الحج‘ باب الملتزم ۳- روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ملتزم کا حصہ باب کعبہ سے حطیم تک کا ہے‘ کیونکہ صحابہ کرام کا معمول حطیم تک چمٹنے کا بیان ہورہا ہے‘ مگر دوسری روایت سے پتہ چلتاہے کہ:”واقام بین الرکن والباب“ اسی طرح ایک روایت میں ہے: ”رایت رسول اللہ ا ملتزما الباب ما بین الحجروالباب ورایت الناس ملتزمین البیت مع رسول اللہ ا “ اور ایک روایت میں ہے: ”رایت رسول اللہ ا بین الحجر والباب واضعا وجہہ علی البیت“ آپ ا حجر اسود اور باب کے درمیانی حصہ میں ہی جو کہ ملتزم ہے سے چمٹ کر تشریف فرما ہوں اور صحابہ کرام بڑی تعداد میں ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ جگہ تنگ تھی اس لئے حسب موقع حطیم تک جہاں جہاں جگہ ملی مشغول دعا تھے‘ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسی طویل حدیث کو راوی نے بالمعنی بیان کیا ہو (بذل المجہود ج:۹‘ ص:۱۶۵) ۴- ابوداؤد‘ باب الملتزم ۵- بذل المجہود ج:۹‘ص:۱۶۶ ۶- عمدة الفقہ ج:۴‘ ص:۴۳۴ ۷-ابوداؤد‘ کتاب الحج‘ باب الملتزم ۸- بذل المجہود ج:۹‘ص:۱۶۸ ۹- ایضاً ۱۰- رواہ فی المسلسلات للشاہ ولی اللہ الدہلوی‘ وذکرہ الجزری فی الحصن مجملاً (فضائل حج ص:۱۰۲ فصل ۶ حدیث نمبر ۵) کنز العمال میں اس طرح کی دو روایتیں نقل کی گئیں ہیں‘ جن کے الفاظ یہ ہیں ”مادعا احد بشئ فی ہذا الملتزم الا استجیب“ ما بین الرکن المقام ملتزم ما یدعوا بہ صاحب عاہة الا بری“ کنز العمال ج:۱۲‘ ص:۲۲۱ رقم الحدیث ۳۴۷۵۸‘۳۴۷۵۹ یعنی اس ملتزم کے پاس جو بھی آدمی جس ضرورت کی دعا کرے گا وہ قبول کی جائے گی۔ حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ملتزم ہے جو بھی کوئی آفت زدہ وہاں فریاد کرے گا‘ ضرور اس آفت سے بری ہوگا۔ ۱۱- رفیق حج ص:۸۳ ۱۲- فضائل حج ص:۱۰۲ فصل ۶ حدیث نمبر۵ ۱۳- مکہ مکرمہ کے انتیس مقامات اجابت دعا۔۱:․․․ مطاف ۲:․․․ ملتزم ۳:․․․ میزاب رحمت کے نیچے ۴:․․․ بیت اللہ کے اندر۵:․․․ چاہ زمزم کے پاس ۶:․․․ مقام ابراہیم کے پاس ۷:․․․ صفا پر ۸:․․ مروہ پر ۹:․․․ سعی کرنے کی جگہ یعنی صفا مروہ کے درمیان خاص کر میلین اخضرین کے درمیان ۱۰:․․ عرفات میں ۱۱:․․․ مزدلفہ میں ۱۲:․․․ منی میں خصوصا مسجد خیف کے اندر ۱۳:․․․ جمرة العقبی کے پاس ۱۴:․․․ جمرة الوسطی کے پاس ۱۵:․․․ جمرة الاخری کے پاس ۱۶:․․․ بیت اللہ پر نظر پڑتے وقت ۱۷:․․․ رکن یمانی کے پاس ۱۸:․․․ رکن یمانی وحجر اسود کے درمیان ۱۹:․․․ حطیم کے اندر ۲۰:․․․ حجر اسود کے پاس ۲۱:․․․ مستجار کے پاس جوکہ رکن یمانی اور خانہ کعبہ کے مسدود دروازے کے درمیان میں ہے (دروازہ کی پشت پر تھا)۲۲:․․․ نبی کریم ا کی پیدائش کی جگہ کے پاس ۲۳:․․․ حضرت خدیجہ  کے مکان کے پاس ۲۴:․․․ دار ارقم میں ۲۵:․․․ غار ثور میں ۲۶:․․․ غار حرا میں ۲۷:․․․ باب کعبہ کے سامنے ۲۸:․․․ سدرہ (بیری کے درخت) کے پاس یہ بیری عرفات میں تھی‘ لیکن اب اس کی جگہ غیر معروف ہے ۲۹:․․․ منیٰ میں ہر مہینہ کی چودہویں رات کے نصف میں۔ (ماخوذ عمدة الفقہ ج:۴‘ ص:۶۶۶ ورفیق حج ص:۷۵) ۱۴- فضائل حج ص: ۱۰۲ فصل ۶ حدیث نمبر ۵ رفیق حج ص: معلم الحجاج ص: ۳۰۵ عمدة الفقہ ج:۴‘ ص:۶۶۶ شامی‘ مطلب فی اجابة الدعاء ‘ فتاوی قاضیخان ج:۱‘ ص:۱۵۱۴۱- حصن حصین مع ترجمہ وشرح فضل مبین ص:۶۶‘ فضائل حج ص:۱۰۲ فصل ۶ حدیث نمبر ۵ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: قرآن کریم کی حقیقت اور مسئلہ” کلام الٰہی
Flag Counter