Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

13 - 14
مولانا عبدالقیوم چترالی
مولانا عبدالقیوم چترالی


محدث العصر حضرت اقدس مولانا سیّد محمد یوسف بنوری قدس سرہ کے تلمیذ رشید‘ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے قدیم فاضل‘ بزرگ استاذ اور ناظم تعلیمات حضرت مولانا عبدالقیوم چترالی ۲۷/ربیع الاوّل ۱۴۲۸ھ مطابق ۱۶/ اپریل ۲۰۰۷ء بروز پیر صبح تقریباً ساڑھے نو بجے طویل علالت کے بعد رحلت فرما ئے عالم آخرت ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب کا تعلق چترال جیسے دور افتادہ علاقہ سے تھا‘ آپ نے ۱۹۲۵ء میں چترال ہی کے حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب کے گھر میں آنکھ کھولی‘ ابتدائی تعلیم پشاور میں ہوئی‘ اس کے بعد بہاول نگر اور ٹنڈو الہ یار اور آخر میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں حضرت بنوری قدس سرہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے اور یہاں سے ہی ۱۹۵۷ء میں دورئہ حدیث شریف پڑھ کر فاتحہ فراغ پڑھا۔ آپ کے اساتذہ میں سے حضرت مولانا محمد یوسف بنوری ‘مولانا فضل محمد سواتی‘ مولانا نیاز محمد ختنی بہاول نگر‘ مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی‘ مولانا لطف اللہ پشاوری اور مولانا محمد ایوب جان بنوری قابل ذکر ہیں۔ مولانا عبدالقیوم صاحب قدس سرہ فطرتاً مرنج و مرنجان‘ خاموش طبع‘ ذی استعداد‘ زکی‘ ذہین اور کم آمیز تھے۔ اساتذہ کی خدمت ان کا محبوب مشغلہ تھا‘ اس لئے فراغت کے اگلے سال ہی حضرت بنوری قدس سرہ نے انہیں اپنے قائم کردہ ادارہ میں تدریس پر مامور فرمادیا‘ اور انہوں نے بھی زندگی بھر اپنے شفیق و مربی استاذ کے انتخاب کی لاج رکھی‘ جامعہ علوم اسلامیہ میں کیسے کیسے احوال آئے؟ مگر انہوں نے اپنے شیخ سے کئے ہوئے عہد کو خوب خوب نبھایا‘ اور قریب قریب نصف صدی تک اس ادارہ اور مادر علمی کی بھرپور خدمت کی۔ مولانا عبدالقیوم چترالی قدس سرہ نہایت ہی عابد و زاہد انسان تھے‘ ان کے تلامذہ کی شہادت ہے کہ ابتدائی عمر اور جوانی میں بھی آپ ہر اعتبار سے قابل تقلید اور لائق رشک تھے‘ اکثر و بیشتر روزے رکھتے‘ ہر جمعہ کی ر ات کو بعد نماز عشاء سو رکعت نوافل پڑھ کر سونے کا معمول تھا‘ جبکہ ان کی زندگی کا ایک معتدبہ حصہ اس طرح بھی گزرا ہے کہ روزانہ رات کو تہجد میں صلوٰة التسبیح پڑھنے کا معمول رہا۔ ابتدائی تقرر پر حضرت بنوری قدس سرہ نے آپ کا مشاہرہ صرف ایک سو روپے مقرر فرمایا‘ اس پر سالوں گزر گئے ‘ مگر کبھی شکایت کی اور نہ ہی اضافہ کی خواہش اور ذکر و تذکرہ کیا۔ ایک عرصہ گزر جانے کے بعد جب بیمار ہوگئے‘ اطباء اور ڈاکٹروں نے نکاح کا مشورہ دیا تو اسباب نہ تھے‘ حضرت بنوری قدس سرہ کے محب و مخلص جناب الحاج محمد شفیع اللہ خالدی صاحب کو اس کی بھنک پڑی تو انہوں نے ازراہ بے تکلفی حضرت بنوری قدس سرہ سے پوچھ لیا کہ حضرت! مولانا عبدالقیوم صاحب کی تنخواہ کتنی ہوگی؟ فرمایا: یہی کوئی ۳/ ۴ سو ہوگی‘ اس پر خالدی صاحب نے فرمایا: حضرت ان کی تنخواہ تو صرف ایک سو روپے ہے؟ فرمایا یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ بلاؤ مولانا عبدالقیوم‘ چنانچہ جب مولانا کو بلاکر پوچھا گیا تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ واقعی مشاہرہ سو روپے ہی ہے‘ اس پر حضرت بنوری نے نہایت تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
”ارے بندہ خدا! آپ نے کبھی اس کا تذکرہ ہی کیا ہوتا!!! اس پر مولانا عبدالقیوم صاحب نے عرض کیا: حضرت! میرے حساب سے تو یہ بھی زیادہ ہیں۔“
حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب نے اکابر اساتذہ کرام اور مشائخ عظام کی صحبت اٹھائی تھی‘ اس لئے وہ دینی حمیت و غیرت اور زہد و تکشف میں اپنے اکابر و اساتذہ کا عکس اور پر تو تھے۔ ہمارے مخدوم اور حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب کے تلمیذ و تربیت یافتہ مولانا امان اللہ خالدی مدظلہ کا بیان ہے کہ اس دور میں‘ جب کہ پیسے کی ریل پیل اتنا نہیں تھی‘ حضرت بنوری قدس سرہ کے خصوصی متعلقین میں سے ایک صاحب نے حضرت بنوری سے اپنے گھر میں بچے پڑھانے کے لئے کسی قابل اعتماد استاذ کی درخواست کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ روزانہ استاد صاحب کو گاڑی لائے اور لے جائے گی۔ اس کے لئے حضرت بنوری قدس سرہ کی نگاہ اعتماد حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب پراٹھی اور آپ نے فرمایا: مولانا عبدالقیوم کو لے جایا کرو‘ شروع میں ایک دو دن تو حضرت بنوری  کے فرمان پر مُروتاً چلے گئے‘ کیونکہ اوّل وہلہ میں انکار کی جرأت نہ کرسکتے تھے‘ لیکن غالباً تیسرے یا چوتھے دن یہ کہہ کر انکار کردیا کہ حضرت دینی حمیت و غیرت اجازت نہیں دیتی کہ میں کسی کے گھر جاکر پڑھاؤں۔ اسی طرح حضرت مولانا موصوف حق گوئی میں بھی ”لا یخاف لومة لائم“کی سچی تصویر تھے۔ ان کا وجود اور شخصیت سراپا تربیت تھی‘ ان کے ہاں اصول و قوانین سب کے لئے یکساں تھے اور طالب علم‘ طالب علم ہی ہوتا تھا‘ چاہے ان کے متعلقین میں سے ہو‘ یا اغیار میں سے‘ چنانچہ حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب کے ایک مخلص… جو موصوف کا ہر اعتبار سے خیال رکھتے تھے… اتفاق سے ان کا صاحبزادہ جامعہ میں زیر تعلیم اور مولانا عبدالقیوم کے زیر تربیت تھا‘ اس نے بدقسمتی سے انگریزی بال رکھ لئے‘ حضرت موصوف کو جیسے ہی اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے بلا لحاظ تعلق اس کے انہی انگریزی بالوں سے پکڑا اور حجام کے پاس لے جاکر اس کے بال کٹوا دیئے۔ یہ ان کی حسن تربیت اور شفقت و خیر خواہی کی برکت تھی کہ طلبہ ان کی کڑوی کسیلی نہایت محبت و عقیدت سے برداشت کرتے تھے‘ اگر یہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا کہ ان کی تعلیمی و تدریسی زندگی میں کوئی ان سے ناخوش نظر نہیں آیا۔ اسی طرح ایک بار انہی صاحب نے بطور ہدیہ اپنے اسی صاحبزادے کے ہاتھ کچھ چائے کی پتی‘ دیسی گھی اور دوسری اشیائے ضرورت بھجوائیں‘ تو مولانا نے نہایت خوبصورتی اور شان استغنٰی سے انہیں واپس کردیا‘ حالانکہ ان دنوں مولانا موصوف کے پاس ماہانہ بجٹ بھی ختم ہوچکا تھا اور انہیں ان اشیاء کی ضرورت بھی تھی‘ مگر اس خیال سے کہ کہیں علم اور اہل علم کی عظمت پر کوئی حرف نہ آجائے‘ سب کچھ واپس کردیا۔ عام طور پر آپ مسجد‘ درس گاہ اور کمرے کے علاوہ کہیں نہیں جاتے تھے‘ اس لئے ایسا بھی ہوا کہ ہفتوں گزر گئے مگر جوتا پہننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور نہ ہی مدرسہ سے باہر بازار جانے کی نوبت آئی‘ چنانچہ جب کبھی وہ کسی کام کے لئے مدرسہ سے باہر قدم رکھتے تو طلبہ اس پر اظہار تعجب کرتے اور کہتے کہ آج حضرت مولانا مدرسہ سے باہر جارہے ہیں‘ یقینا کوئی غیر معمولی اور اہم معاملہ پیش آیا ہوگا۔ مولانا موصوف نے حضرت بنوری کے علاوہ حضرت بنوری کے والد ماجد مولانا سیّد محمد زکریا بنو ری کی بھی صُلبی اولاد جیسی خدمت کی‘ ان کے سر میں تیل لگانا‘ ان کی مٹھیاں بھرنا‘ ان کے بدن کی مالش کرنا‘ ان کو وقت پر دوا اور غذا دینا وغیرہ گویا ان کے روز مرہ کے مشاغل میں شامل تھا‘ اور مولانا سیّد محمد زکریا بنوری بھی آپ کے ساتھ اولاد جیسا معاملہ کرتے۔ مولانا عبدالقیوم صاحب کی انہی خصوصیات کی بنا پر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری قدس سرہ آپ سے بے پناہ محبت کرتے‘ ان پر حد درجہ کا اعتماد فرماتے‘ چنانچہ جب تک قوت و طاقت بحال رہی‘ آپ ہمیشہ مدرسہ کے ناظم دارالاقامہ اور ناظم مطبخ رہے‘ جبکہ آخری سالوں میں آپ جامعہ علوم اسلامیہ کے ناظم تعلیمات کے منصب جلیل پر فائز تھے۔ روزانہ صبح تہجد میں اٹھنا اور اپنے معمولات سے فارغ ہوکر تمام طلبہ کو جگانا اور پھر فجر کی جماعت سے دس منٹ قبل دوبارہ جامعہ کے پورے دارالاقامہ کا چکر لگانا اور جاگ کر دوبارہ سو جانے والے طلبہ کو کمروں سے مسجد میں لانا اور ان کی باجماعت نماز کا اہتمام کرنا‘ گویا ان کے لوازم حیات میں سے تھا۔ یوں تو جامعہ میں مختلف ادوار میں درسِ نظامی کی مختلف کتب آپ کے زیر درس رہیں‘ مگر علم صَرف میں آپ کا درس معروف و مشہور تھا‘ چنانچہ عام طور پر علم الصّیغہ یا اس کے علاوہ علم صرف و نحو کا کوئی نہ کوئی سبق ان کے زیر درس ہوتا‘ بایں ہمہ آپ بہترین مجود و قاری بھی تھے‘ چنانچہ آپ مشہور مجود و قاری جناب قاری عبدالمالک کے تلمیذ و شاگرد رشید تھے۔ آپ کی فن تجوید میں مہارت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس زمانہ میں آپ بہاول نگر کی مشہور درس گاہ جامع العلوم عید گاہ بہاول نگر‘ میں پڑھنے گئے تو آپ کے اساتذہ نے فن تجوید میں آپ کی مہارت دیکھ کر فرمائش کی کہ دوران تعلیم آپ شعبہ تجوید کے طلبہ کو تجوید بھی پڑھائیں‘ چنانچہ آپ ایک سال تک وہاں شعبہ کتب کے طالب علم کے ساتھ ساتھ شعبہ تجوید کے استاد بھی رہے۔ ابتداء میں آپ کا اصلاحی تعلق سندھ کے مشہور بزرگ قطب الارشاد حضرت مولانا حماد اللہ ہالیجوی قدس سرہ سے تھا‘ جبکہ ان کی رحلت کے بعد آپ نے حضرت مولانا مستجاب خان سے تجدید بیعت فرمالی تھی۔ حضرت مولانا عبدالقیوم کا زندگی بھر یہی معمول اور ذوق رہا کہ درس و تدریس کے علاوہ کسی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھا‘ لیکن ۱۹۸۱ء میں جب محکمہ اوقاف سندھ کے ذمہ داراوں نے جامعہ علوم اسلامیہ کے اکابر سے لائق و فاضل اور اہل علم ائمہ اور خطبا کی درخواست کی تو حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن قدس سرہ آپ کو اوقاف کی امامت و خطابت پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یوں ابتدائی طور پر ۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۰ء تک نو سال تک جامع مسجد نوری جہانگیر روڈ میں اور ۱۹۹۰ء سے تادم صحت جامع مسجد پی آئی بی کالونی کراچی میں آپ امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ جبکہ آخرالذکر مسجد کے مکان سے ہی آپ سفر آخرت پر روانہ ہوئے‘ حضرت مولانا مرحوم کی زندگی جہد و مجاہدہ کی زندگی تھی‘ دیکھا جائے تو آپ بھی شدائد و محن میں ”اشد بلاء… الانبیأ ثم الامثل فالامثل“ کا مصداق تھے۔ چنانچہ آپ کا ایک ہی اکلوتا بیٹا تھا‘ ایک عرصہ بعد ۱۹۹۰ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوسرے بیٹے سے نوازا… اس پر انہیں جس قدر خوشی ہوئی ہوگی‘ محتاج بیان نہیں… مگر افسوس کہ اس نومولود کو پیدائش کے دن ہی ہسپتال سے اغوا کرلیا گیا‘ اور آج تک اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا‘ حضرت مولانا مرحوم نے اس عظیم سانحہ کو جس ہمت سے برداشت کیا‘ اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے‘ جو خدانخواستہ اس جیسے کسی سانحہ اور حادثہ سے دوچار ہوا ہوگا۔ ۱۹۹۷ء میں جامعہ علوم اسلامیہ کی گاڑی پر حملہ ہوا‘ چاروں طرف سے گولیاں برسائی گئیں‘ گاڑی پر آتش گیر مادہ پھینکا گیا‘ جس سے حضرت مولانا محمد حبیب اللہ مختار‘ حضرت مولانا مفتی عبدالسمیع اور گاڑی کا ڈرائیور موقع پر شہید ہوگئے‘ اسی گاڑی میں آپ بھی تھے‘ اور آپ نے یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا‘ پھر جلتی ہوئی گاڑی اور آگ کے شعلوں میں سے کود کر جان بچائی اور ننگے پاؤں چل کر جامعہ علوم اسلامیہ پہنچے اور ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک عرصہ تک آپ سے اپنے دین کی اشاعت اور درس و تدریس کا کام لیا‘ بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں آپ کے تلامذہ اور شاگرد ہیں‘ چنانچہ آپ سے کسب فیض کرنے والوں کا حلقہ اندرون ملک سے لے کر امریکا‘ افریقہ‘ یورپ‘ انگلینڈ‘ بنگلہ دیش ‘ برما‘ سری لنکا‘ نیپال‘ اور نامعلوم کہاں کہاں تک پھیلا ہوا ہے اور اپنی اپنی جگہ اشاعت دین اور درس و تدریس کا کام کررہے ہیں‘ ۲۰۰۳ء میں آپ کے جنوبی افریقہ کے تلامذہ نے طے کیا کہ آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں‘ ہمارے کام کو دیکھیں‘ اور ہماری سرپرستی فرمائیں‘ چنانچہ آپ کے اس سفر میں حضرت مولانا محمد سواتی مدظلہ‘ مولانا قاری مفتاح اللہ مدظلہ اور مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید بھی ساتھ تھے۔ آپ کو افریقہ پہنچے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ آپ پر فالج کا حملہ ہوگیا‘ مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید ابھی ان حضرات کو افریقہ چھوڑ کر حرمین کے لئے روانہ ہوا ہی چاہتے تھے کہ اچانک اطلاع آگئی کہ مولانا عبدالقیوم صاحب پر فالج کا حملہ ہوگیا ہے‘ چنانچہ مفتی صاحب موصوف نے اپنا سفر موخر کیا اور ان تینوں حضرات کو ساتھ لے کر حرمین پہنچے۔ حضرت مولانا کے بائیں حصہ پر فالج کا حملہ ہوا تھا‘ مگر اس کے ساتھ زبان بھی متاثر ہوئی تھی۔ حرمین میں حضرت مفتی محمد جمیل خان شہید نے اپنے استاذ کی ایسی مثالی اور عجیب خدمت کی کہ دیکھ دیکھ کر رشک اور تعجب ہوتا تھا۔ وہ کبھی ان کو دوائی کھلارہے ہوتے تو کبھی کھانا‘ کبھی زیتون کے تیل کی مالش کررہے ہوتے تو کبھی فیزیو تھراپی‘ کبھی ان کو چلا رہے ہوتے تو کبھی ان کو بولنے کی مشق کراتے‘ غرض وہ ہر وقت ان کے ساتھ مصروف ہوتے‘ کبھی انہیں وہیل چیئر پر حرم میں لے جاتے تو کبھی طواف کراتے‘ گویا ان کی یہی عبادت تھی اور یہی ان کا طواف و عمرہ تھا۔ کئی بار ہم نے اور دوسرے احباب نے عرض کیا کہ ان کا عمرہ ہوگیا ہے‘ اب ان کو واپس کراچی بھیج دیا جائے‘ مگر حضرت مفتی صاحب نے پورا رمضان ان کو اپنے ساتھ رکھا اور خوب خوب خدمت کی‘ ان کی محنت و کوشش اور اخلاص کی برکت سے حضرت مولانا عبدالقیوم سہارے سے چلنے لگ گئے ‘ مگر اے کاش! کہ اس سے زیادہ ان کی صحت بحال نہ ہوسکی اور اس طرح تقریباً ساڑھے تین سال صاحب فراش رہتے ہوئے مجاہدہ برداشت فرماکر درجات عالیہ سے سرفراز ہوئے۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ایسے لوگ جنہوں نے زندگی بھر کسی کو تکلیف اور ایذا نہیں دی‘ ان کو اس قدر کیوں آزمایا جاتا ہے؟ تو فوراً وہ حدیث یاد آجاتی ہے کہ: ”بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو کسی اعلیٰ مرتبہ پر فائز کرنا چاہتا ہے‘ مگر اعمال کے ذریعہ اس کا وہاں تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ مصائب و مشکلات اور آلام و اسقام میں مبتلا کرکے اسے اس درجہ پر پہنچادیتے ہیں۔“ یقینا مولانا عبدالقیوم صاحب بھی اس کا مصداق ہیں۔ مولانا مرحوم یوں تو کئی سال سے صاحب فراش چلے آرہے تھے‘ مگر آخری دس دنوں میں ان کی طبیعت زیادہ کمزور و مضمحل ہوگئی تھی‘ کھانا پینا اور غذا وغیرہ بالکل چھوٹ گئی تھی‘ اور نیم غنودگی کی کیفیت تھی۔ گھر والوں نے چاہا کسی ہسپتال میں داخل کردیا جائے‘ چنانچہ ہسپتال کا مشورہ ہوا اور آپ کو ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے بھی یہی مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ مولانا کو ہسپتال کے بجائے گھر منتقل کردیا جائے۔ یوں بھی زندگی بھر حضرت مرحوم ہسپتال کے حق میں نہیں تھے‘ تو اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹروں سے بھی وہی کچھ کہلادیا‘ چنانچہ پیر ۲۷/ ربیع الاوّل صبح تقریباً ساڑھے نو بجے آپ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے آنکھیں بند کرلیں اور ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ جیسے ہی آپ کی رحلت کی اطلاع ہوئی تو آپ کے تلامذہ اور متعلقین آپ کی رہائش گاہ پر جمع ہونا شروع ہوگئے‘ ظہر سے قبل ہی غسل و کفن کا مرحلہ طے ہوگیا اور آپ کی میت آخری دیدار کے لئے رکھ دی گئی‘ یوں تو مولانا موصوف پہلے بھی ماشاء اللہ! بہت ہی خوبصورت اور سرخ و سفید تھے‘ لیکن وفات کے بعد تو ایسا لگتا تھا جیسے ان کے چہرہ پر جنت کا غازہ اور حُسنِ اعمال کا نور بکھیر دیا گیاہو‘ مولانا کا چہرہ دیکھ کر بلا مبالغہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی تھکا ہارا مسافر‘ منزل مقصود پر پہنچ کر گہری نیند سو رہا ہو۔ غسل و کفن کے مراحل کی تکمیل کے بعد جنازہ کی جگہ اور وقت کا اعلان کردیا گیا‘ اور طے ہو گیا کہ ان کی مادر علمی اور ان کی زندگی بھر کی علمی جولان گاہ‘ جامعہ علوم اسلامیہ میں بعد نماز عصر جنازہ ہوگا۔ حسب پروگرام عصر سے کچھ دیر قبل جنازہ اٹھایا گیا اور عصر کی نماز کے متصل بعد جامعہ علوم اسلامیہ کے رئیس و مدیر اور مرحوم کے زندگی بھر کے رفیق کار حضرت اقدس مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر مدظلہ نے نماز جنازہ پڑھائی‘ جس میں علماء‘ طلباء اور صلحا کی کثیر تعداد نے شرکت فرماکر ان پر اپنی محبت و عقیدت کے پھول نچھاور کئے اور حب ریور روڈ کے شفیق پورہ قبرستان میں اس علم و عمل کے پیکر کو غروب آفتاب کے وقت سپرد خاک کردیا گیا۔ آپ نے پسماندگان میں ا یک بیوہ‘ تین صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادہ چھوڑا ہے‘ آپ کے صاحبزادے مولوی محمد عبداللہ صاحب ماشاء اللہ حافظ‘ قاری اور عالم دین ہیں‘ جو جامعہ علوم اسلامیہ کے فاضل اور استاذ بھی ہیں‘ بلاشبہ وہ ”ولد صالح“ کا صحیح مصداق ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کے درجات کو بلند فرمائے‘ ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب فرمائے۔ ادارہ حضرت مرحوم کے اس سانحہ رحلت کے موقع پر خود تعزیت کا مستحق ہے‘ ماہنامہ بینات کے باتوفیق قارئین سے درخواست ہے کہ حضرت مرحوم کو اپنی دعا و ایصال ثواب میں ضرور یاد رکھیں۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: فتنوں کا اصل علاج
Flag Counter