Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

2 - 14
قرآنِ کریم کی تین ہدایات
قرآنِ کریم کی تین ہدایات (آخری قسط)

تیسری ہدایت
الف:”واعدوا لہم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخیل ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم وآخرین من دونہم لاتعلمونہم اللہ یعلمہم“۔ (الانفال:۶۰)
ترجمہ:․․․”اور اے مسلمانو! تم سے جس قدر ہو سکے کافروں کے مقابلہ کے لئے ہرقسم کے سامان جنگ سے‘ اور پلے ہوئے گھوڑوں کے باندھے رکھنے سے تیاری کرتے رہو‘ تاکہ اس آمادگی اور تیاری کے باعث تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر دھاک بٹھائے رکھو اور ان کے علاوہ اور دوسرے کافروں پر بھی جن کو تم نہیں جانتے‘ پر اللہ ان کو جانتا ہے“۔ آیت کریمہ میں خط کشیدہ الفاظ پر غور کیجئے پہلا لفظ ہے ۔”ما استطتم“ یعنی اسلحہ تیار کرنے میں جتنی تمہاری طاقت ہے‘ اس میں کمی نہ کی جائے‘ ورنہ حکم الٰہی کی تعمیل نہ ہوگی۔ دوسرا لفظ ”قوة“ ہے جو زمانے کے مطابق ہرقسم کے سامان جنگ کو شامل ہے۔ تیسرا لفظ ”ترہبون“ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری طاقت ہوگی تو دشمن تم پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔
جہاد کی تیاری احادیث نبویہ کی روشنی میں
حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں:
”سمعت رسول اللہ ا وہو علی المنبر یقول: واعدوا لہم ما استطعتم من قوة الا ان القوة الرمی الا ان القوة الرمی الا ان القوة الرمی“۔ (مشکوٰة:۳۳۶)
ترجمہ:․․․” حضور ا منبر پر تھے کہ میں نے آپ ا سے سنا کہ آپ نے آیت ”واعدوا لہم“ الآیة پڑھی اور اس میں قوة کا جو لفظ آیا اس کی تفسیر میں تین بار ارشاد فرمایا: سنو! تیر اندازی قوت ہے“۔
انہیں سے روایت ہے کہ:
ب:․․․”سمعت رسول اللہ ا یقول من علم الرمی ثم یترکہ فلیس منا او قد عصی“۔ (مشکوٰة‘ص:۳۳۶)
ترجمہ:․․․”میں نے حضور ا سے سنا کہ جس نے تیر اندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں یا فرمایا کہ اس نے گناہ کیا“۔ حضرت جریر بن عبد اللہ  فرماتے ہیں :
ج:․․․”رأیت رسول اللہ ا یلوی ناصیة فرس باصبعہ وہو یقول: الخیل معقود بنواصیہ الخیر الی یوم القیامة الاجر والغنیمة“۔ (مشکوٰة‘ص:۳۳۶)
ترجمہ:․․․”میں نے حضور اکو دیکھا کہ اپنی انگلی مبارک سے گھوڑے کی پیشانی کے بالوں کو بَل دے رہے تھے اور فرما رہے تھے گھوڑوں کی پیشانی کے بالوں سے قیامت تک بھلائی بندھی ہوئی ہے‘ آخرت میں اجر اور دنیا میں غنیمت“۔
حضرت عقبہ بن عامر  فرماتے ہیں:
د:․․․”سمعت رسول اللہا یقول: ان اللہ تعالیٰ یدخل بالسہم الواحد ثلاثة نفر الجنة: صانعة یحتسب فی صنعتہ الخیر‘ والرامی بہ ومنبّلہ وارموا وارکبوا وان ترموا احب الی من ان ترکبوا․․․ “ ۔ (مشکوٰة:۳۳۷)
ترجمہ:․․․”میں نے حضور ا سے سنا آپ ا فرما رہے تھے اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین افراد کو جنت میں داخل فرمائے گا‘ ایک اسے تیار کرنے والاجس کی بنانے میں نیت نیکی کی ہو (کہ جہاد میں استعمال ہوگا) دوسرے چلانے والا ‘ تیسرا تیر انداز کو پکڑا نے والا‘ تم تیر اندازی کرو اور جہاد میں سواری کرو‘ مجھے تمہاری تیر اندازی سواری سے زیادہ محبوب ہے“۔
سیدنا عمر فاروق  نے اہل شام کو لکھا :
ہ:․․․”علموا اولادکم السباحة والفروسیة“۔ (درمنثور ج:۴‘ ص:۸۶)
ترجمہ:․․․”اپنی اولاد کو تیر اکی اور گھوڑ سواری سکھاؤ“۔
حضوراکا فرمان ہے:
و:․․․”حق الولد علی الوالد ان یعلمہ الکتابة والسباحة والرمی“۔ (درمنثور‘ ص:۸۸)
ترجمہ:․․․”بیٹے کا باپ پر حق ہے کہ وہ اسے لکھنا پڑھنا ‘ تیراکی اور تیر اندازی سکھائے“۔ نیز فرمایا:
”علموا ابناء کم السباحة والرمی والمرأة المغزل“۔(ایضاً)
ترجمہ:․․․”اپنے بیٹوں کو تیراکی اور تیر اندازی سکھاؤ اور عورتوں کو چرخہ“۔
ز:․․․” من شاب شیبة فی الاسلام کانت لہ نورا یوم القیامة ومن رمی بسہم فی سبیل اللہ اخطأ او اصاب کان لہ عدل رقبة من ولد اسماعیل “۔(ایضاً)
ترجمہ:․․․”جس مسلمان کے بال سفید ہوجائیں قیامت کے روز اسے نور عطا ہوگا اور جس نے اللہ کی راہ میں ایک تیر چلایا خواہ وہ چوک گیا یا نشانے پر لگا اسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا“۔
نیز آپ ا نے فرمایا:
ط:․․․”من ارتبط فرساً فی سبیل اللہ ثم عالج علفہ بیدہ کان لہ لکل حبة حسنة“ ۔ (درمنثور‘ص:۹۳)
ترجمہ:․․․”جس نے جہاد کی نیت سے گھوڑا رکھا‘ پھر اسے اپنے ہاتھ سے دانہ کھلایا تو ہر دانے کے عوض اس کی ایک نیکی لکھی جائے گی“۔ پس مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ موجودہ زمانے کے مطابق اسلحہ بنائیں‘ اس کا استعمال سیکھیں‘ تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ان سے مرعوب رہیں اور حسب ضرورت جہاں سے بھی انہیں ٹیکنالوجی دستیاب ہو‘ لے لیں۔ حضورا نے فرمایا:
”الکلمة الحکمة ضالة المؤمن فحیث وجد فہو احق بہا“ ۔(ترمذی ج:۲‘ ص:۳۹)
ترجمہ:․․․”دانائی کی بات مومن ہی کی گم شدہ چیز ہے‘ وہ اسے جہاں پائے‘ لے لے اس لئے کہ وہی اس کا زیادہ حقدار ہے“۔ حضور ا نے زید بن ثابت کو یہودیوں کی زبان سریانی اور اس میں خط وکتابت سیکھنے کا حکم دیا اور فرمایا: مجھے یہود کے لکھنے پر اعتماد نہیں‘ پس میں نے نصف ماہ سے بھی کم مدت میں سریانی سیکھ لی‘ اب ان کے جو خط آتے تو میں آپ ا کو سناتا اور انہیں جو لکھنا ہوتا‘ میں سریانی زبان میں لکھتا۔ (مشکوٰة‘ص:۳۹۹)
نیز آپ ا نے حضرت عروہ بن مسعود اور غیلان بن مسلم کو دبابہ اور منجنیق کی صنعت سیکھنے کے لئے جرش بھیجا اور یہی اوزار محاصرہٴ طائف میں مسلمانوں نے پہلی بار استعمال کئے۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: مسائل حج کے موضوع پرخالص علمی و تحقیقی اجتماع کا انعقاد
Flag Counter