Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

10 - 14
قرآن کریم کی حقیقت اور مسئلہ” کلام الٰہی
قرآن کریم کی حقیقت اور مسئلہ” کلام الٰہی“ یتیمة البیان فی شییٴ من علوم القرآن(دوسری قسط)


امت مسلمہ کے محققین کو ان دقیق مباحث کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عباسی خلیفہ مامون رشید کے زمانے میں معتزلہ کو کافی شہرت اور عزت ملی ، احمد بن داود معتزلی (جو فرقہ اعتزال کے صدر واصل بن عطا کے ہم مشرب وہم مسلک ہونے کے ساتھ ساتھ ہیاج بن العلا سلمی اور یحییٰ بن اکثم قاضی کے ساتھی اور ہم نوا تھے) خلیفہ مامون رشیدکے مقرب اور معزز لوگوں میں گنے جاتے تھے ،اورخلیفہ مامون بھی احمد بن داود سے بہت زیادہ متأثر تھے اوران ہی کی وجہ سے مسئلہ خلق قرآن میں بھی معتزلہ کے عقیدے کی طرف میلان رکھتے تھے ۔ احمد بن داود نے اس قربت کو غنیمت جانتے ہوئے اس موقع سے فائدہ اٹھایااور خلیفہ مامون کواس بات پر آمادہ کیا کہ مسئلہ خلق قرآن میں محدثین کرام کو آزمائش میں ڈالیں اورجومعتزلہ کے موقف کی مخالفت کرے اس کو سزا دی جائے ،چونکہ معتزلہ اور محدثین کے درمیان فکری اور بنیادی اصولوں پراختلافات تھے اسی بنا پر ان کی آپس کی شورش اور دشمنی بھی مشہور تھی اور یہ دونوں جماعتیں دو الگ الگ راہوں پر گامزن تھیں ،اسی سلسلہ کی ایک کڑی امام احمد بن حنبل کی آزمائش اور ان کا امتحان بھی ہے ، حتی کہ کتب تاریخ میں اس تاریخی واقعہ کا عنوان ہی ”محنة احمد“ (امام احمد  کی آزمائش) قرار پایا ، جس میں اسلامی تاریخ کی ان جلیل القدر بزرگ ہستیوں کا تذکرہ ہے جن کے ساتھ ظلم وستم اور عداوت کا کھلا معاملہ کیا گیا تھا ۔ یہ فتنہ اس قدر مشہور ہوا کہ عہد صدیقی کے واقعہٴ ارتداد اور حضرت عثمان بن عفان  کے واقعہ شہادت جیسے واقعات میں اس کا شمارہونے لگا ، یہ واقعہ مامون رشید کے دور میں شروع ہوا اور معتصم کے بعد واثق کے عہد کے خاتمے تک تقریبا تیس مہینے جاری رہا ، اور متوکل کے زمانہ امارت میں اختتام پذیر ہوا ، اس سارے عرصے میں امام احمد قید وبند کی زندگی گذارتے رہے ، شروع شروع میں امام صاحب کو کوڑوں سے ایسا سخت مارا گیا کہ کئی جگہوں سے گوشت پھٹ گیا اور جب ان زخموں کے بھرنے کی کوئی امید نہ رہی تب ان بے جان گوشت کے ٹکڑوں کو جسم سے علیحدہ کردیا گیا ، موٴرخین نے اس دردناک واقعہ کو خوب تفصیل سے بیان کیا ہے ،جس کے لیے ابن کثیر کی ”البدایہ والنہایة“اور ابن اثیر کی ”الکامل“ دیکھی جاسکتی ہے ، اس واقعے نے اہل حق کے دلوں میں معتزلہ کے خلاف عداوت کے بیج بودیے اور امام احمد نے بر سر عام یہ اعلان کرنا شروع کردیا کہ قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہے اور غیر مخلوق ہے اور اللہ تعالی کے علم سے صادر ہوا ہے، ساتھ ساتھ اس حقیقت کا بھی اعتراف کرتے کہ قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں اور ہمارے افعال بھی مخلوق ہیں، جیسا کہ حافظ ابن کثیر کی ”البدایہ“ میں مذکور ہے ۔ امام احمد بن حنبل  نے ابن ابی داود معتزلی کے ساتھ پہلے مناظرے میں قرآن پاک کی آیات سے استدلال کیا اور اس کے اعتراضات کا شافی جواب دیا لیکن معتصم کے پاس مامون کی سی ذکاوت اور فہم کی صلاحیت نہ تھی اور میرے خیال میں اگر اجل مامون کو کچھ اور مہلت دیتی اوروہ زندہ رہتا اوراس کو امام احمد  کے دلائل سننے کی توفیق ملتی تو عین ممکن تھا کہ وہ معتزلی عقائد سے رجوع کرلیتا ، چونکہ معتصم ان دلائل سے بے خبر تھا تو ابن ابی داود نے اس کی جہالت اور علمی کم مائیگی کا فائدہ اٹھایا اور امام احمد کے بارے میں کہنا شروع کردیا کہ یہ گمراہ کرنے والا اور بدعتی ہے لہذااس کو قتل کردو اوراس کا خون میری گردن پر ہوگا ،حقیقت یہ ہے کہ اس فتوے کے علاوہ ابن ابی داود کے پاس کوئی چارہ کار بھی نہ تھا ، چنانچہ اس کی علم کلام پر دسترس اور شیریں بیانی نے اس کے نفس امارہ کو یہ سجھایا کہ وہ امت مسلمہ کی ان نیک ہستیوں کے خلاف یہ چال چلے۔ امام احمد چونکہ اہل حق کے عقیدہ کے متعلق ببانگ دہل اعلان کرتے تھے اس وجہ سے یہ بات پسند نہ کرتے تھے کہ اس بارے میں توریہ کرتے ہوئے کوئی یوں کہے کہ” تلفظ بالقرآن مخلوق ہے“، اس لیے کہ اگرچہ یہ کلام فی نفسہ درست ہوگا لیکن اہل باطل اس بات کو اپنے عقیدے کی طرف کھینچ لیں گے چونکہ اس بات میں بھی ایک گونہ معتزلہ کے مذہب کا وہم پایا جاتا ہے ، اگرچہ اہل سنت والجماعت کے ہاں الفاظ قرآنی مخلوق ہیں اسی لیے حسین ابن علی کرابیسی پر لفظ قرآن کے مخلوق کہنے پر تنقید کی گئی ہے ،اور یہی وہ وجہ تھی جس کے سبب محدثین کرام کو علم کلام سے کچھ نفرت پیدا ہوگئی ، جب ان واقعات کی شہرت ہوئی تو دو فرقے معرض وجود میں آئے ایک لفظیہ اور دوسرا واقفیہ، اور جن جن لوگوں کو تکلیفیں دی گئیں اور آزمائش میں ڈالا گیا تھا ان میں صرف چار اشخاص ایسے تھے جو علی الاعلان بر سر عام اہل سنت والجماعت کا عقیدہ واضح فرماتے تھے ، ان کے سرخیل امام احمد بن حنبل  تھے ،ان کے علاوہ محمد بن نوح الجند نیسابوری (ان کاراستے میں انتقال ہوگیاتھا ) ،نعیم بن حماد الخزاعی (یہ جیل میں انتقال کرگئے تھے) اور ابو یعقوب البیوطی( جن کا انتقال واثق کی جیل میں ہوا )،پھر ان تمام حضرات میں جتنی تکلیفیں امام احمد کو دی گئیں اتنی کسی کو نہ دی گئیں ، امام احمد ہی اصل مرکزومدار تھے جن کے ذریعے اللہ تعالی نے اہل حق کے عقائد کا علم بلند فرمایا ، اس کی وجہ سے ان کی خوب شہرت ہوئی اور منبروں پر ان کا نام لیا جانے لگا اور اسی طرح امام احمدکے شیخ اوراستاذ امام شافعی کا مصر میں دیکھا ہوا خواب پورا ہواجس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام احمد  کو اہل حق کے عقیدہ پر استقامت کی اور قیامت تک ان کے جھنڈے کے بلند ہونے کی خوشخبری دی تھی ، اوراسی کے متعلق خبر دینے کے لیے امام شافعی نے ربیع کو امام احمد  کی طرف بھیجا تھا ، جیسا کہ ابن کثیر وغیرہ موٴرخین نے امام بیہقی کی روایت سے بیان کیا ہے ۔ حاصل بحث یہ کہ انہی شورشوں کی بناء پراہل حق محققین و متکلمین کتاب اللہ اور سنت نبوی سے مسئلہ کلام کی توضیح وتشریح کی طرف محتاج ہوئے اور پھران حضرات نے عقلی ، لغوی اور عرفی دلائل بھی قائم کیے ، چنانچہ اس تمام بحث وتحقیق کے بعد کسی جھگڑا کرنے والے اور شورش برپا کرنے والے کے لیے کوئی راستہ نہ چھوڑا ، ان تمام محققین کرام میں سب سے زیادہ تفصیلی بحث وتحقیق جس نے اس موضوع کے متعلق کی اورتمام باتوں کو مکمل واضح کیا وہ قاضی امام ابو بکرباقلانی ہیں انہوں ں نے اس بارے میں ایک کافی وشافی کتاب ”الانصاف“ لکھی ، اللہ رب العزت ان کو اور دیگر تمام محققین کو ان کی مساعی جمیلہ پر اجر عظیم عطا فرمائے ، آمین۔ اب ہم ذرا اس بحث کو خلاصةً بیان کرتے ہیں تو بات در اصل یہ ہے کہ اہل سنت اور معتزلہ کے آپس میں اختلاف کا مدار اللہ تعالی کے کلام نفسی کے عقیدہ پر ہے ، اہل سنت کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کا کلام ازلی ہے اور خدا تعالی ازل سے متکلم ہیں اور کلام کی یہ صفت ازلی، لفظ کے ساتھ متصف نہیں ہے ، حرف وصوت سے خالی ہے اور جس طرح دیگر صفات باری تعالی جیسے علم ، ارادہ ، سمع وبصر وغیرہ اللہ تعالی کے ساتھ قائم ہیں اسی طرح یہ کلام نفسی بھی قائم ہے ،ادھر معتزلہ نے کلام نفسی کے وجود ہی کا انکار کردیا اور صرف کلام لفظی ثابت کرکے کلام کو اسی میں منحصر کردیا ہے ، اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالی سے کلام لفظی کی نفی دونوں مذاہب کا متفقہ فیصلہ ہے ، برخلاف اس کے کرامیہ ، حشویہ اور سالمیہ کے یہ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ حروف واصوات سے مرکب کلام اللہ کی صفات میں سے ہے اور اگرچہ یہ کلام مرکب حادث ہے لیکن اللہ رب العزت کے ساتھ قائم ہے ،حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی کی شان ان تمام باتوں سے بہت ہی بلند ہے ، شیخ عبد العزیز بخاری نے شرح اصول بزدوی میں اور علامہ بیاضی نے ”اشارات المرام “ میں جو نقل کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف نے ایک طویل مناظرے کے بعد اتفاق رائے سے یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ قرآن کے مخلوق ہونے کا قائل کافر ہے اس کا مصداق ومراد بھی یہی مذہب تھا، جس کا حاصل یہ ہے کہ چونکہ قرآن لفظ وصوت پر مشتمل ہے اسی بناء پر مخلوق ہے اور یہی کلام اللہ رب العزت کے ساتھ قائم ہے ، اس فیصلے کا مصداق معتزلہ کا مذہب نہیں کیونکہ معتزلہ نے تو اہل سنت والجماعت کی طرح اللہ رب العزت کی لفظ قدیم ، حرف قدیم اور صوت قدیم سے تنزیہ بیان کی ہے ، ”اشارات المرام“ میں بیاضی کے کلام سے اسی طرح واضح ہوتا ہے ، یہ حاصل ہے فریقین کے محل نزاع کا جس کو ہم نے تحریر کردیا۔ اب اہل سنت والجماعت کے عقیدے کی توضیح وتشریح ہم اس طرح بیان کرتے ہیں کہ انسان کے کلام لفظی کے دو معنی ہیں :
۱-کلام سے مراد مصدری معنی یعنی کسی چیز کا تکلم وتلفظ کرنا۔
۲-حاصل بالمصدر یعنی وہ الفاظ جن سے گفتگو عمل میں آئی ہے ۔
اسی طرح کلام نفسی کے بھی دو معنی ہیں ، یعنی جس طرح کلام لفظی پہلے معنی میں انسان کی زبان کا فعل ہے صوت ومخارج کے رابطے سے، اسی طرح کلام نفسی انسان کے قلب وضمیر کا فعل ہے جس کا اثر انسان کے ظاہری جوارح یعنی زبان ، کوے ،حلق یا نرخرے کسی پرظاہر نہیں ہوتا ہے ، اسی طرح دوسرے معنی کے تحت جس طرح کلام لفظی انسان کی گفتگو کا ثمرہ اور گفتگو سے حاصل شدہ شیٴ ہے اسی طرح کلام نفسی ہے جب اس کو مکمل طور پر تشکیل دے کر ذہن میں متصور ٹھہرا لیا جائے اسی کلام نفسی کو علماء کلام نے ان دونوں معنی کے لیے عقلی اور نقلی دلائل کی روشنی میں ثابت کیا ہے جس کی تشریح وتفصیل آپ ”شرح المقاصد “اور”شرح العقائد“ علامہ تفتازانی کی اور شرح عضدی اور اس کے حواشی میں دیکھ سکتے ہے ، اسی طرح جس وضاحت کے ساتھ علامہ آلوسی نے اپنی شہرہٴ آفاق تفسیر روح المعانی کے مقدمہ میں اس کے متعلق کلام فرمایا ہے وہ بھی بصیرت کے لیے کافی ہے ، پس اللہ رب العزت کلام لفظی کے تو ہر دو معنی سے منزہ اور مبرہ ہیں اور کلام نفسی اپنے دونوں معنی میں اللہ رب العزت کے لیے ثابت ہے ، علامہ آلوسی کے بیان کے مطابق کلام نفسی اپنے پہلے معنی کے اعتبار سے توخداوند تعالی کی ایسی ازلی صفت ہے جو ہرباطنی ضعف کے منافی ہے ، یہ باطنی ضعف کلام لفظی بشری میں بمنزلہ گونگے پن کے ہے یعنی جس طرح کلام لفظی کو گونگا پن منافی ہے اسی طرح کلام نفسی کے لیے بھی ایسا ضعف ہوسکتا ہے جو اس کے منافی ہو لیکن خداوند تعالی کے کلام نفسی کے لیے ایسا کوئی ضعف باطنی نہیں ہے ، یہ ضعف باطنی کلام نفسی میں حروف اور الفاظ کے قبیل سے نہیں ہوگا، یہ بات واضح ہے کہ کلام نفسی خود باعتبار ذات کہ تو شیٴ واحد ہے لیکن تعدد گفتگو کے اعتبار سے اس صفت کے متعلقات بھی متعدد ہوگئے ہیں ، اور رہا کلام نفسی اپنے دوسرے معنی کے اعتبار سے تو وہ غیبی کلمات ہیں اور ازلی حکمی الفاظ ہیں لیکن مرتب ہونے کے باوجود ان کی وضع غیبی میں تقدم وتأخر (آگے پیچھے ہونا) نہیں ہے یعنی یہ اوضاع یکے بعد دیگرے نہیں ہوئیں اس لیے کہ تعاقب زمانہ کا تقاضا کرتا ہے اور خداوند تعالی کی ذات تو زمانہ اور جو کچھ زمانہ میں ہے سب سے بلند وبالا قدر ومنزلت والی ذات ہے ، اب کوئی شیٴ ترتیب وار بھی ہو اور اس میں تعاقب نہ پایا جائے تو اس میں کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ دنیا میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں ،مثلا آپ انگوٹھی سے مہر لگائیں تو یہ مہر اور ختم مرتب ہی ہیں لیکن ان میں تعاقب نہیں بلکہ فی زمان واحد ان دونوں کا وجود ہوتا ہے ، اسی طرح ہمارے زمانے میں طباعت کی تختیاں اور اسی طرح دیکھنے والے کے سامنے نظر آنے والی صورتیں ، پانی میں سائے کا پایا جانا ، اسی طرح اور بھی کئی مثالیں ہیں جن میں ترتب بغیر تقدم وتأخر کے پایاجاتا ہے چنانچہ جب ترتب بدون تعاقب کا ثبوت ہمارے سامنے اسی دنیا میں ہوسکتا ہے تو پھر صفات الہیہ میں کیونکر نہیں ہوسکتا!۔ ماقبل میں کی گئی بحث کا خلاصہ اور حاصل یہ ہوا کہ کلام نفسی دوسرے معنی کے اعتبار سے بغیر خفاء کے باری تعالی کے لیے ثابت ہے ،البتہ پہلے معنی کے اعتبار سے کچھ خفاء باقی رہا تھا جو الحمد للہ اب واضح ہوگیا ، لیکن بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ یہاں معنی اول پر مدار نہیں ، چنانچہ اب واضح ہوگیا کہ قرآن کی تعریف میں یوں کہنا چاہیے : قرآن کریم باری تعالی کا کلام غیر مخلوق ہے ، مصاحف میں لکھا ہوا ہے اور سینوں میں محفوظ ہے ، زبان سے پڑھا اور کانوں سے سنا جاتا ہے، لیکن یہ ان میں سے کسی چیز پر قائم اور حلول کیا ہوا نہیں ہے، اور وہ ان تمام مراتب وصفات کے ساتھ شریعت میں حقیقی قرآن ہے جو بدیہی طور پر دین کی اساس ہے ، چنانچہ یہ تمام صفات اگرچہ حادث ہیں لیکن کلام اللہ ہونے کی صفت ان میں جھلکتی ہے اوران مراتب میں ظاہر ہوتی ہے لیکن ان تمام کے باوجود باری تعالی ہی کی طرف منسوب ہوتی ہے ، یہ تمام صفات اسی صفت کلام کے مظاہر ہیں،یہ صفت باری تعالی میں قائم وحلول کرنے والی نہیں ہے اس طرح کہ وہ صفت ذات سے الگ نہ ہوسکے اور یہ ذات اس صفت سے بھی الگ نہ ہوسکے، جیسا کہ آئینہ میں کوئی صورت جھلکتی تو ہے اور اس کو کہاجاتا ہے کہ یہ دیکھنے والے کی صورت ہے لیکن یہ صورت اس آئینہ میں ڈھلتی نہیں ہے اس لیے کہ یہ صورت کوئی مادی شییٴ نہیں ہے بلکہ محض کمیت سے عبارت ہے ۔ ان تمام امور کے مزید سمجھنے کے لیے وجود کے چار مراتب جو علامہ تفتازانی اور دیگر حضرات نے بیان کیے ہیں ذکر کیے جاتے ہیں ، وجود کے چار مراتب ہیں یعنی ہر چیز کے لیے چار وجود ہوا کرتے ہیں:
۱-وجود خارجی ۲-وجود ذہنی ۳- وجودلفظی ۴- وجودکتابتی
ان میں سے وجود خارجی ہی وجود حقیقی ہے اور تحقیقی بات ہے کہ بقیہ وجود مجازی ہیں ، جس طرح کتابت عبارت پر اور عبارت ذہنی وجود پر دال ہے اسی طرح وجود ذہنی وجود خارجی پر دال ہے ، ان تمام صفات کا قرآن کی تعریف میں اتحاد باعتبار مفہوم کے نہیں ہے بلکہ محض مصداق کے اعتبار سے ہے اور یہ تمام مراتب اس حقیقی صفت کلامی جو باری تعالی کے ساتھ قائم ہے اس کی صورتیں خارجی مشاہد اور لفظی تعبیرات ہیں اور صفت کلامی بہرحال ازلی ، قدیم اور قائم بذات اللہ ہے ، اب یہاں قرأت اور مقروء، تعبیر اور معبر عنہ ، تلاوت اور متلو پائے جارہے ہیں ، ان میں سے قرأت ،تلاوت اور تعبیر تو ہمارے افعال اور مخلوق ہیں جبکہ متلو(جو تلاوت کیا جارہا ہے) معبر عنہ(جس سے کلام کی تعبیر کی جارہی ہے ) اور مقروء (جو کچھ پڑھا جارہا ہے ) وہ قدیم ازلی صفت ہے جو باری تعالی کے ساتھ قائم ہے ، پھر جب ہم مصحف کے متعلق کہیں کہ وہ مکتوب (کاغذ پر) مقروء (زبان سے) اور مسموع(کانوں سے) ہونے کے اعتبار سے قرآن ہے، اس اعتبار سے نہ مصحف قدیم ہوگا کہ اس میں بعینہ ان نقوش کی جو بعینہ ان صفحات پر ثبت ہیں یا وہ اوراق یا الفاظ جو ہماری ذات پر قائم ہیں وہی قدیم ہیں اس لیے کہ یہ نقوش تو اس کلام ازلی قدیم کی صرف تعبیرات ہی ہیں جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
عباراتنا شتّی وحسنک واحد وکل الی ذاک الجمال یشیر
ترجمہ :ہماری عبارتیں تیری مدح میں تو مختلف ہیں، لیکن تیرا حسن تو ایک ہی ہے ور یہ تمام تعبیرات اس جمال پر دلالت کررہی ہیں ۔
میرے خیال میں اس مقام پر اس قدر بیان کافی ہوگا ، یہ فرق درحقیقت امام احمد بن حنبل ہی سے منقول ہے، جس کی تفصیل بعد میں امام بخاری نے اپنے مستقل رسالہ جو خلق افعال عبادکی بحث سے متعلق ہے میں بیان فرمائی ہے ، اسی طرح اپنی کتاب صحیح بخاری کتاب التوحید کے ذیل میں فرقہ جہمیہ پر رد وقدح کے ساتھ اس بحث کی تفصیل موصوف نے فرمائی ہے ، پھر الحمد للہ امام باقلانی نے اپنی کتاب ”الانصاف“ میں اس مسئلہ کے متعلق خوب تحقیقی اور کافی و شافی بحث کی ہے جس کے بعد مزید کسی تفصیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ نیز شیخ مہائمی نے اپنی کتاب ” تبصیر الرحمن فی تفسیر القرآن“ کے مقدمے میں جو یہ بات ذکر فرمائی ہے کہ :لفظ قرآن کا اطلاق لوح محفوظ میں (ثبت کلام ) اور سینوں میں محفوظ اور مصاحف میں لکھے گئے اور زبان سے پڑھے جانے والے کلام ہر ایک پربرسبیل اشتراک کیا جاسکتا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات تحقیق کے خلاف ہے بہتر یہی ہے کہ یوں کہا جائے کہ قرآن ان تمام پر حقیقت شرعیہ کے اعتبار سے بولاجاتا ہے اگرچہ لغوی اعتبار سے بعض صفات پر قرآن کا اطلاق مجازی ہے ، لیکن یہ بات بھی ممکن ہے کہ مہائمی کی عبارت کی توجیہ یوں کردی جائے کہ اشتراک سے مراد اشتراک معنوی ہے نہ کہ اشتراک لفظی ، واللہ اعلم ۔
پھر امام بخاری  نے امام احمد بن حنبل کی طرح صرف اس جملہ ”القرآن کلام اللہ غیر مخلوق“ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مزید ایک جملہ بڑھا کر اپنے دعوی پر مصر رہے اور یوں فرمایا کہ ”القرآن کلام اللہ غیر مخلوق ولفظی بالقرآن مخلوق “ اسی طرح یہ بھی کہا کہ” وافعالنا مخلوقة والفاظا من افعالنا “یعنی قرآن خداوند تعالی کا کلام ہے اور غیر مخلوق ہے جبکہ میرے ادا کیے گئے قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں اور ہمارے افعال کے مخلوق ہونے کی وجہ سے چونکہ الفاظ ہی ہمارے افعال میں سے ہیں اس لیے وہ بھی مخلوق ہیں ۔اسی اختلاف کی بنا پر ( یعنی امام احمد کے دعوی پر مزید اضافہ سے جو اختلاف فرمایا) امام علام کا اپنے شیخ ذہلی سے اختلاف ہوا اور برابر ان کے درمیان چپقلش جاری رہی، امام بخاری کے اس اضافہ کی وجہ یہ تھی کہ وہ فرقہ حشویہ ، کرامیہ اور سالمیہ جو الفاظ یعنی حرف وصوت تک کے قدیم ہونے کے قائل تھے رد فرمانا چاہتے تھے تاکہ ان فرق باطلہ کو امام بخاری کے کلام میں اپنے دعوی پر کوئی دلیل موید نہ مل جائے ، چنانچہ جس طرح امام احمد بن حنبل  کا مقصد اہل سنت کے مسلک کے دفاع اور فرقہ معتزلہ پر ردتھا اسی طرح امام بخاری کا مقصد اور ان کے مد نظر ان فرقہ حشویہ والوں پر رد تھا جنہوں نے امام احمد کے رائے کے خلاف ان کے کلام میں مبالغہ آرائی کی تھی اور غیر صحیح مقصد پر اس کو محمول کیا تھا، بہر حال امام احمد اور امام بخاری ہر دو کا مشن اہل حق کے مسلک کا دفاع اور فرق باطلہ پر رد تھا اور ان کا اختلاف محض احوال کے پیش نظر اور حکمت ومصلحت کے تحت ہوا تھا اور چونکہ امام ذہلی امام احمد  کا سا مذاق رکھتے تھے اس وجہ سے چاہتے تھے کہ جس قدر تعبیر پر امام احمد نے اکتفا فرمایا ہے بس اسی پر اکتفا کیا جائے یا پھر امام ذہلی کی ناراضگی علاقائی مصلحت کی بنا پر ہو اس لیے کہ موصوف امام ابو عبد اللہ البخاریسے جو ان کے ساتھی تھے شہر کے حالات سے زیادہ واقف تھے ، واللہ اعلم۔ امام احمداور امام بخاری کا اختلاف بالکل اسی طرح تھا جس طرح مسئلہ ایمان میں امام ابو حنیفہ اور محدثین کرام کے درمیان اختلاف تھا ، امام ابو حنیفہ کی نظر خوارج اور معتزلہ پر تھی جبکہ محدثین کرام کی نظر مرجئہ پر ، اور حالات وکیفیات کے اختلاف کی وجہ سے آراء کا اختلاف ہوتا رہتا ہے ۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: تفردات کے نقصانات
Flag Counter