Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

6 - 14
اسلام ہی قابلِ عمل مذہب ہے
اسلام ہی قابلِ عمل مذہب ہے!


جاپان سے تعلق رکھنے والے نو مسلم محمد سلیمان ٹاکنچی اپنے قبولِ اسلام کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا کے فضل سے میں نے اسلام قبول کر لیا ہے‘ میرے قبولِ اسلام کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱:․․․میں نے اسلام میں اخوت کا ایسا نظام دیکھا ہے جو مستحکم بنیادوں پر استوار ہے۔
۲:․․․اسلام انسانی زندگی کے مسائل کا بڑا کامیاب عملی حل پیش کرتا ہے‘ یہ عبادات کو انسان کی سماجی زندگی سے الگ نہیں کرتا ‘ بلکہ مسلمان تو اجتماعی عبادت کا تصور رکھتے ہیں۔ (یعنی نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں اور خلقِ خدا کی خدمت رضائے الٰہی سمجھ کرکرتے ہیں)
۳:․․․اسلام انسانی زندگی میں مادیت اور روحانیت کا خوبصورت امتزاج پیش کرتا ہے‘ اب میں ان تینوں پہلوؤں کی تھوڑی سی وضاحت کروں گا۔
اسلامی اخوت کسی نوعیت کی قومی ‘ خاندانی یا لسانی حدبندیوں کو قبول نہیں کرتی‘ بلکہ سارے مسلمانوں کو محض عقیدے کی بنا پر بھائی چارے کے مضبوط بندھن میں باندھ دیتی ہے ‘ پھر اسلام کسی ایک طبقے یا مخصوص گروہ تک محدود نہیں‘ یہ تمام انسانوں کا مذہب ہے‘ خواہ وہ امیر ہوں یا غریب‘ کالے ہوں یا گورے‘ عرب ہوں یا پاکستانی‘ افغان ہوں یا ہندوستانی وغیرہ۔ الغرض اسلام ایک بین الاقوامی مذہب ہے۔ اسلام زندگی سے فرار حاصل نہیں کرتا‘ یہ ہر طرح کی مصروفیات کا چیلنج قبول کرتا ہے‘ بلکہ صرف یہی وہ مذہب ہے جو وقت جیسی قیمتی نعمت کی ناقدری نہیں کرتا‘ اسی لئے یہ آج بھی اسی طرح قابلِ عمل ہے‘ جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے حضرت محمد ا کے زمانے میں تھا‘ اسلام دینِ فطرت ہے‘ اس لئے اس میں اتنی لچک ہے کہ یہ ہردور میں ہرملک کے عوام کے لئے توازن واعتدال کا ایک معین خاکہ پیش کرتا ہے‘ یہی سبب ہے کہ اپنی مختصر سی تاریخ میں‘ اس مذہب نے انسانی تہذیب کے ارتقا میں زبردست رول ادا کیا ہے۔ اسلام میں نجات کا راستہ سماج کے اندر سے ہوکر گزرتا ہے‘ یہ زندگی گزارنے کا کوئی درمیانی راستہ نہیں نکالتا‘ میں بدھ مت اور عیسائیت کے بارے میں جو کچھ جانتا ہوں‘ اس کے مطابق دونوں مذاہب ترکِ تعلقات کی ترغیب دیتے اور انسانی معاشرے سے کٹ کررہنے پر بخشش وانعام کا مژدہ سناتے ہیں‘ کچھ ایسے بدھ فرقے بھی ہیں جو پہاڑوں کی خطرناک ڈھلوانوں پر مندر تعمیر کرتے ہیں‘ تاکہ جو بھی وہاں پہنچنے کا قصد کرے‘ پہلے جان جوکھوں میں ڈالے پھر وہاں پہنچے‘ چنانچہ جاپانی مذاہب میں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ خدا تک کسی عام آدمی کی رسائی ممکن نہیں‘ یہی حالت عیسائیت کی ہے‘ عیسائی راہبوں کی خانقاہیں عموماً انسانی بستیوں سے دور پہاڑوں یا جنگلوں میں ہوتی ہیں‘ یہاں بھی مذہبی زندگی اور معاشرتی زندگی میں ناقابلِ عبور خلیج حائل ہے‘ مگر اسلام کا معاملہ ان سارے مذاہب سے بالکل مختلف ہے‘ مسجد عام طور پر گاؤں‘ قصبے یا کاروباری مراکز کے عین قلب میں واقع ہوتی ہے‘ نماز جماعت کے ساتھ ادا ہوتی ہے اور معاشرے کی خدمت دین کا ایک لازمی جزو سمجھی جاتی ہے۔ حیاتِ انسانی روح اور مادے کا مجموعہ ہے‘ خالقِ اکبر نے ہمیں جسم بھی دیا ہے اور روح بھی‘ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان دونوں کے تقاضوں کو بروئے کار لائیں اور مادیت وروحانیت کے درمیان کوئی خط نہ کھینچیں‘ اسلام اس معاملے میں بھی نہایت معقول رویہ اپناتاہے اور روح اور مادے دونوں کی اہمیت کو یکساں تسلیم کرتا ہے‘ دونوں کو ان کے اصل مقام پر رکھتے ہوئے وہ ایسی حکمت عملی اختیار کرتا ہے جو زندگی کے سارے تقاضوں پر محیط ہوتی ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ جاپان صنعتی اعتبار سے ایشیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک ہے‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے پناہ ترقی اور اس کے اثرات نے ہمارے معاشرے کو کلیةً بدل دیا ہے اور مادی نقطہٴ نظر ہر بات پر حاوی ہے‘ چونکہ ہمارے ملک میں قدرتی وسائل کا فقدان ہے‘ اس لئے تمام تر انحصار سخت کوشی پر ہے‘ ہمیں اپنا معیار ِ زندگی برقرار رکھنے کے لئے شب وروز محنت کرنی پڑتی ہے اور صرف یہی وہ ذریعہ ہے جس کے سبب ہماری تجارت اور صنعت بھی زندہ رہ سکتی ہے‘ چنانچہ ہم ایک ایسی مادی دوڑ میں مصروف ہیں جہاں روحانیت کا دور دور تک کہیں پتہ اور نشان نہیں ملتا۔جاپانیوں کی ساری جد وجہد محض دنیوی مفادات کے لئے ہے‘ انہیں مابعد الطبیعاتی مسائل پر سوچنے کی فرصت نہیں ملتی‘ ان کا کوئی مذہب ہے نہ روحانی معیارات‘ وہ ان نقوش پر سجدہ کرتے ہیں جو یورپ کی مادیت نے زمانے پر مرتسم کئے ہیں‘ اس ساری یک طرفہ دوڑ کا نتیجہ ہے کہ روحانی طور پر جاپان زبردست افلاس کا شکار ہوتا جارہا ہے اور خوبصورت لباس میں ملبوس ان کے صحت مند جسموں کے اندر بیمار اور مایوس روحیں کرَّاہ رہی ہیں۔ مجھے یقین ِ واثق ہے کہ جاپان میں اسلام کی اشاعت اور فروغ کے لئے موجودہ دور فیصلہ کن حیثیت رکھتاہے‘ نام نہاد ترقی یافتہ قوموں نے مادی ترقی تو بلاشبہ کی ہے‘ مگر وہ زبردست روحانی خلا کا شکار ہیں‘ اسلام اور صرف اسلام ہی اس خلا کو پُر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ چنانچہ اگر جاپان میں اسلام کی اشاعت کے لئے مناسب اور مؤثر تدابیر اختیار کی جائیں تو میں یوں محسوس کرتا ہوں کہ دو یا تین نسلوں کے اندر اندر پورے کا پورا جاپان اسلام کی آغوش میں آسکتا ہے اور اگر یہ قلعہ سر ہوجائے تو میں سارے مشرقِ بعید میں اسلام کے روشن مستقبل کی پیش گوئی کرسکتاہوں‘ مسلم جاپان پوری انسانیت کے لئے باعثِ رحمت بن سکتاہے
۔ماخوذ:روزنامہ امت کراچی،۵مئی۲۰۰۷
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, جمادی الاولیٰ ۱۴۲۸ھ جون ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: حمد ونعت کے پسِ منظرمیں مخصوص انداز سے لفظ اللہ دہرانے کا حکم
Flag Counter