Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۲۸ھ اپریل ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

8 - 10
الفتوں اور شفقتوں کا بحر بیکراں
الفتوں اور شفقتوں کا بحر بیکراں


محرم الحرام ۱۴۲۸ھ کی بیسویں تاریخ اور فروری ۲۰۰۷ء کی دسویں‘ شبِ شنبہ ۸/بجے رات بٹ خیلہ مالاکنڈ ایجنسی صوبہ سرحد کے ایک ہسپتال میں اللہ تعالیٰ کی ایک بندی پرسکرات الموت طاری ہے‘ بچے بچیاں‘ عزیز واقارب‘ رشتہ دار چاروں طرف سے گھیرے ہوئے اور سب کی زبانوں پر کلمہٴ توحید کا ورد‘ بالآخر روحِ پاک اس قفس عنصری میں تقریباً ۶۸/سال رہ کر رب ذو الجلال کے ہاں حاضر ہوگئی‘ جو ہمارے لئے دعاؤں کا خزینہ‘ الفتوں‘ محبتوں اور شفقتوں کا بحرِ بیکراں اور ہمدردی وغمگساری کا موجزن دریا تھا‘ اپنی بدنصیبی سمجھتاہوں کہ اس نعمتِ عظمیٰ کی اتنی قدر نہ کرسکا جتنا کہ اس کا حق تھا‘
ہائے حادثہ سخت اور اپنی محرومی وبدنصیبی اس سے کئی گنا سخت تر!
میں اس وقت اللہ تعالیٰ کی اسی محبوب بندی کا تذکرہ کررہا ہوں جس کو میں ایک ہفتہ قبل اپنے ہاتھوں سپردخاک کرکے آیاہوں‘ والد محترم مفتی محمد ولی درویش  کی بڑی ہمشیرہ اور میری سگی بڑی پھوپھی جن کا وجودِ مسعود ہمارے لئے والد ماجد کی مرگِ ناگہانی اور فراقِ المناک کے بعد ناگزیر بن گیا تھا اور ایسوں کا اپنوں سے جدا ہونا اور وہ بھی اس انداز سے کہ پھر کبھی ”گلعذارِ آں ماہِ تاباں“ کا دیدار تاحشر اور قیامِ قیامت نہ ہوسکے‘ کتنا غمناک‘ المناک اور روح فرسا ہوتاہے‘ لیکن اس عالم کے فانی ہونے میں شک کی ذرہ بھرگنجائش اور قیل وقال کی کوئی حیثیت نہیں‘ قافلوں پہ قافلے ہیں کہ ملکِ عدم کی جانب بڑی تیزی سے رواں دواں ہیں۔ اور یہ قافلے تا روزِ آخر اسی راہ پر بغیر کسی تقدیم وتاخیر کے گامزن رہیں گے‘ واقعی موت سے کس کو رستگاری ہے‘ جانے والوں کی یادیں اور تذکرے تاریخ کی شاہراہ پر ہیں اور یہ کہنا مشکل ہے کہ منزل ان کے تعاقب میں ہے یا وہ منزل کا تعاقب کررہے ہیں ۔بقول شاعر:
یا رب ملکِ عدم میں کیا عید ہورہی ہے
جارہے ہیں لوگ کپڑے بدل بدل کے
ہماری مرحومہ مشفقہ پھوپھی علیہا الرحمة والغفران عارفِ سرحد پشتو زبان کے مایہ ناز نامی گرامی شاعر عبد الرحمن المعروف بہ ” رحمان بابا“ کے وطن مالوف ”بہادر کلے“ پشاورمیں ۱۹۳۸ء میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد ماجد مرحوم ”حضرت ولی“ المتوفی ۱۹۹۹ء پشاور میں اپنے برادران حضرات جناب ”حضرت سید“ مرحوم المتوفی ۲۰۰۵ء اور جناب ”گل سید“ حفظہ اللہ سمیت کافی عرصہ تلاشِ رزق کے سلسلہ میں مقیم رہے‘ والد محترم مفتی محمد ولی درویش  کا بھی جائے پیدائش یہی ہے‘ اور پھر یہاں سے پورا خاندان اپنے آبائی وطن جو بٹ خیلہ مالا کنڈ کے مضافات میں واقع ہے‘ لوٹ گیا‘ اور بقیہ زندگی وہیں گزاردی‘ پھوپھی مرحومہ کی عمر اس وقت تقریباً سات آٹھ سال کی ہوگی۔تقریباً ۲۰/سال کی عمرمیں پھوپھی صاحبہ کا عقدنکاح وطن کے بڑے خاندان کے چشم وچراغ جناب ”سردار خان“ صاحب حفظہ اللہ (جو اپنی سخاوت ‘ فیاضی اور ملنساری میں مشہورہیں) سے ہوا‘ جن سے اللہ تعالیٰ نے ۲/بیٹے جناب درازخان وجناب نثار خان اور تین صاحبزادیاں عطا فرمائیں‘ اللہ تعالیٰ سب کی عمر دراز کرے اوران کی عمروں کو بابرکت بنائے‘ آمین․ مرحومہ میں اللہ رب العزت نے لاتعداد اوران گنت خوبیاں ودیعت کر رکھی تھیں‘ شفقت وسخاوت اور ہمدردی آپ کی وہ مشہور صفاتِ حسنہ ہیں جن کا پورا خاندان چشم دید گواہ ہے‘ آپ کی وفات کے بعدخاندان والوں کے لبوں پر آپ کی صفات حسنہ ہی کے زمزے اور تذکرے ہیں کہ:
حق مغفرت عجب جامع المحاسن شخصیت تھی
بڑوں کا اکرام واحترام اوربچوں پر بے انتہاء شفقت اور ان سے الفت ومحبت کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے خمیر میں شامل کردیا تھا‘ خاندان کاہر فرد چھوٹاہو یا بڑا مرحومہ کو اپنے لئے شجر سایہ دار سمجھتا تھا‘ گویا آپ کو خاندان میں ایک معزز خاتون کی حیثیت حاصل تھی‘ کیونکہ ہرایک کے ساتھ آپ کا برتاؤ انتہائی مشفقانہ ‘ خیرخواہانہ اور کریمانہ ہوا کرتا تھا‘ مہمانوں کی آؤ بھگت اور ان کی خاطر مدارات کا اثر یہ تھا کہ ان کا گھر خداکے فضل وکرم سے مستقل وعارضی مہمانوں سے بھرا رہتا تھا‘ جس سے ان کے گھر میں ہروقت رونق اور چہل پہل رہتی تھی ‘ بیٹے بیٹیاں‘ پوتے‘ نواسے سب کے سب ان کے گرد جمع ہوجاتے اور ان کو ہنستا‘ مسکراتااور بولتا دیکھ کر سبھی خوش ہوتے ‘ نیک دلی‘ بے نفسی اور بے انتہاء شفقت کی بناء پران کی محبت سبھی کے دلوں میں گھر کر گئی تھیں۔ والد محترم مفتی محمد ولی درویش  جو آپ سے تقریباً ۶/سال چھوٹے تھے ‘ پھوپھی صاحبہ کو ان کے ساتھ انتہائی محبت والفت تھی‘ فرماتی تھیں کہ: ”محمد ولی کو میں نے بچوں کی طرح پالاہے“ والد محترم جب بھی کراچی سے وطن آتے توان کی پہلی کوشش یہ ہوتی کہ اپنی مشفقہ ہمشیرہ سے ملاقات ہو اور پھر ان کے ہاں دو تین دن گزار کرواپس گھر آتے‘ بالآخر وہ وقت بھی آیا کہ جب آپ کے بھائی (مفتی صاحب) کا ۱۹/اگست ۱۹۹۹ء کو افغانستان میں وصال ہوگیا اوروہ جانب خلد بریں روانہ ہوگئے‘ بھائی کی موت کی خبر اس بہن کے لئے کہ جس بہن بھائی کی رفاقت ومحبت کا تعلق تقریباً پون صدی رہا ہو یہ جدائی کتنی شاق اور غمناک ہوگی‘ اس کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں جن پر یہ قیامت خیز افتاد ٹوٹ پڑی ہو اور ایسے مہربان‘ مشفق اور محبوب بھائی کی اچانک ایسی جدائی کہ جس سے دلوں کی ربط کی تاریں ٹوٹ کر بکھر جائیں‘ دل ٹکڑے ٹکڑے اور جگر شق اور پارہ پارہ ہوجائے‘ کی المناکی اور ہولناکی کا احساس وہی حضرات کرسکتے ہیں جن کے دلوں کو غم فراق نے جھنجھوڑ دیا ہویا جن کے دلوں کوہجران کے تیروں نے چھلنی کردیا ہو اوروہ اپنے پیاروں کی یاد میں خون کے آنسو روئے ہوں یا روتے ہوں! کچھ ایسا ہی پھوپھی مرحومہ کے ساتھ ہوا‘ خاندان اور خصوصاً گھر کے افراد یہی کہتے ہیں کہ اپنے بھائی (مفتی صاحب ) کی اچانک جدائی وفراق نے مرحومہ کو غیر معمولی نڈھال کردیا تھا اور اسی عظیم سانحہ کے بعد ان کی حالت بگڑنے لگی تھی‘ اعضاء وبدن کمزور پڑنا شروع ہو گئے تھے اور پھر یہ ہوا کہ بیماریوں نے انہیں آگھیرا اور تادم آخر ان کے ساتھ رہیں۔ ہماری مرحومہ پھوپھی ہم سب سے غایت درجہ محبت اور شفقت فرمایا کرتی تھیں‘ کئی بار انہوں نے وطن سے کراچی کا سفر مشقتیں برداشت کرکے کیا اور کافی دن ہمارے ساتھ رہ کروطن تشریف لے جاتیں‘ ہم جب بھی کراچی سے وطن جاتے اور مرحومہ کے کانوں میں یہ خبر جیسے ہی پڑتی تو پھر نہ تار نہ انتظار‘ بلکہ اسی وقت پیدل روانہ ہوکرطویل فاصلہ طے کر کے ہمارے ہاں تشریف لے آتیں‘ ساتھ ہی سبزیوں اور پھلوں سے بھرا تھیلہ ان کے ساتھ ہوتا‘ جب دروازے پر نمودار ہوتیں تو بے اختیارمسکراہٹ ان کے لبوں پر پھیل جاتی اورر پھر چند دن رہ کر واپس لوٹ جاتیں‘ عمر کے آخر ی حصہ میں جب چلنا پھرنا دوبھر ہوگیا تو جس کی تصویر بھی ان کی نظروں کے سامنے آتی فوراً اس کا استفسار کیا اور اس کو طلب کیا‘بہرحال! غم بھری اس کہانی کے سنانے اور لکھنے میں بسا اوقات ایسے واقعات اور بہت سے ایسے مناظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں جس سے داغِ کہن تازہ اور دل کے زخم ہرے ہوجاتے ہیں‘ آنکھیں آنسؤوں سے ڈبدباجاتی ہیں اور دل ناتواں کو تھامے بغیر اس کا سنانا ناممکن سا ہوجاتاہے۔ پھوپھی مرحومہ کا فی عرصہ سے علیل تھیں‘ کبھی بیماری اور کبھی صحت‘ اسی طرح سلسلہ چل رہا تھا اور یہی دھوکہ رہا اور پھر معالجین کا اطمینان مستزاد ۔اس بار بیماری کا حملہ شدید تھا‘ دو تین ماہ پہلے سے کافی کمزور ی بھی آگئی تھی اور قلبی رقت بھی از حد زیادہ ہوگئی تھی۔ جب بھی میں ملا تو بڑی مسکراہٹ اور خوشی کا اظہار فرماتی ہوئی گلے سے لگایا‘ لیکن اس بار جب عید الاضحیٰ ۱۴۲۷ھ کے موقع پر کراچی سے وطن گیا تو جیسے ہی گلے لگایا‘ بے اختیار ان کے رخساروں پر آنسوؤں کے قطرے لڑھکنے لگے‘ جس میں عمر بھر کے گلے‘ شکوے اور غم والم کی داستانیں بہہ گئیں‘ یہ ان سے آخری ملاقات تھی اورر پھر وہ وقت بھی آ پہنچا کہ ۲۰/ محرم ۱۴۲۸ھ- ۱۰/ فروری ۲۰۰۷ء بروز جمعہ بذریعہ ٹیلی فون یہ المناک اطلاع ملی کہ پھوپھی محترمہ آج انتقال فرماگئیں‘ عمر بھر کی بیقراری کو قرار آہی گیا۔ اس ناگہانی غمناک خبر کے سنتے ہی وطن کا رخ کیا‘ اس بار جب ان کے گھر میں داخل ہوا تو مسرتوں‘ مسکراہٹوں اور ”پخیر راغلے“ کے بجائے ماتم کاسماں تھا‘ ہرآنکھ اشکبار‘ ہر دل فگار تھا‘ نہ مرحوم پھوپھی کا استقبالیہ مسکراہٹ اور نہ پیار بھرے ان کے بوسے‘ بلکہ وہ آج ہم سے آنکھیں بند کئے اس انداز سے منہ موڑ چکی تھیں کہ بیٹے ‘ بیٹیاں‘ پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں چیخ چیخ کرپکار رہے ہیں‘ لیکن اس شفقت ومحبت کے بحر بیکراں سے جواب نہیں ملتا‘ یا اللہ! اتنی بے رخی تو زندگی میں کبھی نہیں دیکھی‘ چہرہ سفید اور پھر سفید اجلے کفن میں سوئی ہوئی وہ بہت ہی حسین معلوم ہورہی تھیں۔ کہنے والوں کے بقول جب ان کا وقت موعود آپہنچا تو چہرے پر کوئی ناگواری کے آثار نہیں تھے‘ آہستہ آہستہ روح کا تعلق بدن سے ختم ہونے لگا‘ حالت منٹ منٹ پر کچھ سے کچھ ہونے لگی‘ تنفس تیز سے تیز تر ہوگیا‘ نبض کا نظام بگڑ گیا‘ آنکھ کی پتلیاں جم کررہ گئیں‘ ناسوت کے رشتے ٹوٹنے لگے‘ عالم ملکوت کے دریچے کھلنے لگے حلق نے دواء‘ پانی سے انکار کردیا‘ آخر مسیحا ہار گیا کلمہ توحید کا ورد کرتی ہوئی اپنے خالق حقیقی کے ہاں حاضر ہوگئیں‘
الہم ارحمہا وعافہا واعف عنا وادخلہا الجنة مع الابرار۔
نعش مبارک آپ کے گھر لائی گئی‘ جہاں آپنے زندگی کا اکثر حصہ گزارا تھا‘ گھر کے درو دیوار ماتم کناں تھے‘ بام ودر محو تماشا تھے‘ سخت سردی اور تیز بارش کے عالم میں بیٹیوں نے غسل دیا اور مقامی قبرستان کے متصل گراؤنڈ میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی‘ اس بارش کے عالم میں تا حد نگاہ سر ہی سر نظر آرہے تھے‘ اور پھر اسی مقامی قبرستان میں اپنے اسی محبوب اور پیارے بھائی (مفتی صاحب) کے پہلوں میں بائیں جانب آسودہ خاک ہوئیں‘ بقول جگر:
جان کر منجملہٴ خاصانِ میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے
میری مرحومہ پھوپھی اب اس دنیا میں نہیں‘ میں ایک ہفتہ قبل انہیں منوں مٹی تلے سپردخاک کرکے آیاہوں‘ لیکن سچ پوچھئے تو مجھے یقین نہیں آتا کہ میری پھوپھی اس دارفانی سے کوچ کر چکی ہے کہ وطن کے لالہ زار کا وہ خوبصورت پھول مرجھا چکاہے جس سے چمن کو زینت تھی‘ وہ شمع فروزاں بجھ چکی ہے جس سے اس گھر میں اجالوں کا بسیرا تھا اور وہ چاند گہنا گیا ہے جو خاندان بھر کے آنگن میں چمک رہا تھا:
بس اتنی سی حقیقت ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہوجائے
مرحومہ پھوپھی کی داستان حیات اور زندگی اب ایک قصہٴ پارینہ اور افسانہ بن چکی ہے اور یہ ایک ایسا افسانہ ہے جو مدتوں تک آپ کے خاندان کے دلوں میں زندہ وتابندہ رہے گا اور الفت ومحبت‘ شفقت وسخاوت اور ہمدردی کے اس بحر بیکراں کو اتنی جلدی بھلایا نہ جاسکے گا۔
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لاساقی
گرتو می خواہی کہ تازہ داشتن داغہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہٴ پارینہ را
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ربیع الاول ۱۴۲۸ھ اپریل ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: فتنے اور امت محمدیہ
Flag Counter