Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۲۸ھ اپریل ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

5 - 10
حدیث ِمرسل اور جمہور کا مسلک
حدیث ِمرسل اور جمہور کا مسلک


۱-حدیث مرسل لغت اور اصطلاح میں
مرسل: لغةً اس کا نام ہے جس میں کچھ چھوڑ دیا گیا ہو‘ چنانچہ یہی معنی ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی اصطلاحی تعریف یہ کی گئی ہے۔ کہ حدیث مرسل وہ حدیث جس کی سند میں کوئی واسطہ چھوڑدیا گیاہو۔ فتح الباری میں ہے:
”ارسال ہو الاطلاق فکأن المرسل اطلق الاسناد ولم یقیدہ“۔ (ج:۱‘ ص:۱۴۴)
۲-حدیث مرسل کی اہمیت
حدیث کی یہ قسم احکام میں مستقل حجت ہے‘ چنانچہ حدیث کا ایک معتدبہ ذخیرہ اس پر مشتمل ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس کا انکار کیا جائے تو حدیث کے معتدبہ حصہ سے ہاتھ دھونا پڑے گا‘ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس جن کا شمار مکثرین فی الروایة میں ہوتا ہے‘نے نبی کریم ا سے صرف چند احادیث براہ راست سنی تھیں‘ جن کی تعداد علامہ آمدی اور امام غزالی کے نزدیک صرف چار ہے‘ بعض کے نزدیک ۲۰‘ جبکہ علامہ سخاوی کے نزدیک ۴۰ ہے‘ حالانکہ ہزاروں روایات ان سے مروی ہیں ۔ (مقدمہ اعلأ السنن فتح المغیث ج:۲)
حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں:
”ما کل ما نحدثکم بہ سمعناہ من رسول اللہاولکن سمعنا بعضہ وحدثنا اصحابنا بعضہ“۔ (مقدمہ اعلا السنن)
یہی وجہ ہے کہ صرف صحابہ کریم رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مراسیل ہی نہیں‘ بلکہ تابعین اور تبع تابعین کے مراسیل بھی حجت ہیں‘ بلکہ ایک جماعت ان کے بعد کے مراسیل کو بھی حجت تسلیم کرتی ہے‘ چنانچہ اس کی اہمیت کے پیش نظر حافظ ابوزرعہ العرقی  ۸۲۶ھ نے ایک مستقل کتاب ان رواة کے اسماء وحالات پر مشتمل تصنیف فرمائی ہے‘ جو احادیث کو مرسلاً روایت کرتے تھے‘ اس کا نام ”تحفة التحصیل فی ذکر رواة المراسیل“ ہے فرماتے ہیں:
”فان معرفة المراسیل من اہم الانواع التی انعقد علی استحبابہا الاجماع‘ وقد صنف الامام ابومحمد بن الامام ابی حاتم الرازی فی ذلک․․․ وعقد لذلک الامام ابوسعید العلائی فی کتابہ ”جامع التحصیل فی احکام المراسیل“ ۔ (ص:۱۱)
امام ابوداود  نے بھی ایک مستقل کتاب ”کتاب المراسیل“ کے نام سے تصنیف فرمائی‘ جس میں روایات مرسلہ کو بیان کیا ہے اور علمأ امت میں سے تقریباً سب ہی نے اس کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ امام ابن الصلاح نے ”مقدمة فی علوم الحدیث“ تصنیف فرماکر احسان عظیم فرمایاہے اگرچہ ان سے قبل قاضی رامہرمزی‘ امام حاکم‘ ابونعیم‘ خطیب بغدادی اور قاضی عیاض جیسے اکابر اس موضوع پر تصنیف فرما چکے تھے‘ لیکن جس شہرت نے ابن الصلاح کے قدم چومے‘ اس نے ان کو نہیں چھویا‘ چنانچہ متاخرین علمأ حدیث کا اس کتاب سے شغف اس کی مقبولیت اور عالمگیریت کی بین دلیل ہے‘ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
”․․․ولہذا عکف الناس علیہ وساروا السیرہ فلایحصیٰ کم ناظم لہ ومختصر ومستدرک علیہ ومقتصر‘ ومعارض لم ومنتصر‘(شرح النخبہ ص:۱۶)
لیکن مقام تحقیق یہ ہے کہ ابن الصلاح سے اس مقدمہ میں کچھ فروگذاشتیں ہوگئی ہیں‘ چنانچہ ”صحیحین کو معیار صحت وعدم صحت بنانا“ ان ہی کی کوشش ہے‘ جس کا علمأ نے تفصیلی رد کیا ہے‘ ملاحظہ فرمایئے: ”مقدمہ ارشاد النقاد لتیسیر الاجتہاد“ اور ”مقدمہ ابوداود الطیالسی لمحقق العصر مولانا عبد الحلیم صاحب“ ان ہی مقامات میں سے ایک مقام ”حدیث مرسل“ بھی ہے‘ جس میں ابن الصلاح نے جمہور کا مسلک خلاف تحقیق درج فرمایاہے‘ چنانچہ
”ثم اعلم ان حکم المرسل حکم الحدیث الضعیف الا ان یصح مخرجہ بمجیئہ من وجہ آخر․․․“ کے بعد فرماتے ہیں: ” ․․․․ ولہذا احتج الشافعی بمرسلات سعید بن المسیب “ (  ص:۲۶)
چند سطور کے بعد فرماتے ہیں:
”وما ذکرناہ من سقوط الاحتجاج بالمرسل والحکم بضعفہ‘ ہو المذہب الذی استقر علیہ آراء جماہیرحفاظ الحدیث ونقاد الأثر“۔ (ص:۲۶)
اور پھر امام ابوحنیفہ وامام مالک کا مسلک تحریر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ․․․فی طائقة“ حالانکہ یہی طائفہ جمہور کا مسلک لئے ہوئے ہے‘ اگلی سطور میں ”تسامح“ کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔
۳-حدیث مرسل کی اقسام اور احکام
حدیث مرسل کی ۴ اقسام ہیں:
۱-مرسل صحابی
یعنی ایک ایسی روایت جوکہ صحابی نے براہ راست نبی کریم ا سے نہیں سنی‘ لیکن روایت کرتے ہوئے قال رسول اللہ ا کہہ دے‘ جیساکہ ماقبل میں بحوالہ ابن عباس اور براء بن عازب گزر چکاہے۔ اس پر اجماع ہے کہ جمیع صحابہ کی مراسیل حجت ہیں ۔بعض لوگوں نے اگرچہ اختلاف کیا ہے جس کا بیان آگے آئے گا‘ لیکن محدثین وفقہأ کا اختلاف یہ ہے کہ مرسل صحابی مسند ہے یا نہیں؟ محدثین اس کو مسند کہہ کر قبول کرتے ہیں اور فقہأ اس کو مرسل کہہ کرعلامہ ابن الصلاح اور امام حاکم نے اس کی تصریح کی ہے‘ جبکہ حافظ بن حجر نے اس کا ذکر نہیں کیا (ابن الصلاح ) صحیح یہی ہے کہ یہ مرسل ہے‘ اس پر شاید محدثین ہی کی وہ تقسیم ومراتب مرسل ہے‘ جس کا بیان آگے آئے گا۔
۲-مرسل تابعی
یعنی تابعی قال رسول اللہ ا کہہ دے‘ امت کا اجماع ہے کہ اگر تابعی ثقہ ہو تو بلاشرط آخر یہ قبول ہوگی‘ چنانچہ حافظ ابن عبد البر فرماتے ہیں:
”لم یزل الائمة یحتجون بالمرسل اذا تقارب عصر المرسل والمرسل عنہ ولم یعرف المرسل بالروایة عن الضعفاء․․․“ ۔ (مقدمہ کتاب المراسیل ص:۳۵)
ابو الولید الباجی المالکی فرماتے ہیں:
”لاخلاف انہ لایجوز العمل بالمرسل اذا کان مرسلہ غیر محترز یرسل عن الثقات وغیر الثقات․․․“ ایضاً ۔
مقدمہ اعلا السنن ص:۱۴۰ میں ہے:
”․․․ان الصحابة والتابعین اجمعوا علی قبول المراسیل من العدل“ ۔
اور یہی بات امام آمدی کے کلام سے مستفاد ہوتی ہے۔ (مقدمہ کتاب المراسیل ص:۳۵)
ان عبارات سے معلوم ہوا کہ ثقاہت کی شرط کے بعد تابعی کبیر وصغیر کی کوئی شرط نہیں‘ امام آمدی کا بھی یہی خیال ہے۔ امام شافعی پہلے وہ شخص ہیں‘ جنہوں نے مرسِل اور مرسَل دونوں میں شرائط لگائیں۔ فرماتے ہیں کہ: مرسِل ثقہ ہو اور مرسَل پانچ شرائط میں سے کسی ایک کے ساتھ ملحق ہو‘ تب اس کی روایت قابل استناد ہوگی‘ یہ شرائط (جن کا بیان آگے آئے گا) اگرچہ فی نفسہ اچھی ہیں‘ جیساکہ ابن رجب نے ”کلام حسن جید“ فرمایاہے‘ لیکن یہ اجماع کے خلاف ہیں‘ اس لئے کہ اس سے قبل کسی نے ثقاہت کے علاوہ کوئی شرط نہیں لگائی‘ انہوں نے ہی سب سے پہلے یہ قیود لگائیں ‘ پھر ان کے بعد ابن حزم نے بھی امام الحرمین اور ابن رجب نے توافق بروایت آخر اور ائمہ فن کی مراسیل کی شرطیں لگائی ہیں۔ (مقدمہ کتاب المراسیل ص․․․) حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ تابعی بھی کبیر ہو‘ صغیر تابعی کا ارسال قبول نہیں۔ علامہ ابن الصلاح نے اگرچہ
”والمشہور التسویة بین التابعین اجمعین کذلک“
فرمایا ہے‘ لیکن ”کتاب الرسالة“ ص:۴۰۵ پر خود امام شافعی نے ”کبیر“ کی تصریح کی ہے‘اب یہ مسلک صرف امام شافعی کا تھا‘ کہ تابعی کبیر ہو‘ مرسَل پانچ شرائط کے ساتھ یا کسی ایک کے ساتھ مقرون ہو‘ وگرنہ مرسَل حدیث مقبول نہ ہوگی۔ مردود ہوگی‘ لیکن تعجب بالائے تعجب یہ ہے کہ ابن الصلاح نے اس کو جمہور کا مسلک بتایاہے اور جمہور کے مسلک کو ”طائفة“ کہہ دیاہے‘ چنانچہ ابن جریر الطبری فرماتے ہیں:
”واجمع التابعون باسرہم علی قبول المرسل ولم یأت عنہم انکارہم ولا عن احد من الأئمة بعدہم الی رأس المائتین“۔ قال ابن عبد البر: ”کأنہ یعنی ان الشافعی اول من ردَّہ“ (مقدمہ اعلأ السنن ص:۱۴۷)
امام ابوداود فرماتے ہیں:
”واما المراسیل فقد کان یحتج بہا العلماء فیما مضی مثل سفیان الثوری ومالک بن انس والاوزاعی حتی جاء الشافعی فتکلم فیہا وتابعہ علی ذلک احمد بن حنبل“۔ (مقدمہ کتاب المراسیل ص:۳۷)
فتح الباقی ج:۱‘ ص:۱۴۷ میں ہے:
”․․․ واحتج الامام مالک ہو ابن انس فی المشہور عنہ وکذا الامام ابوحنیفہ النعمان بن ثابت وتابعوہما من الفقہاء والاصولیین والمحدثین بہ ای بالمراسیل واحتج بہ الامام احمد فی اشہر الروایتین عنہ‘ ودانوا بہ ای جعلوہ دینا یدینون بہ فی الاحکام وغیرہا“۔ (کذا فی الباحث الحثیث ص:۴۸)
علامہ طاہر الجزائری فرماتے ہیں :
”والعمل بالمرسل ہو مذہب ابی حنیفہ ومالک واحمد فی روایتہ المشہورة‘ حکاہا النووی وابن القیم وابن کثیر وجماعة من المحدثین‘ وحکاہ النووی فی شرح المہذب عن کثیر من الفقہاء او اکثرہم‘ قال: ونقلہ الغزالی فی المستصفی عن الجماہیر“۔(مقدمہ اعلأ السنن ص:۱۳۹ مع الحاشیة)
علامہ آمدی شافعی ”الاحکام“ میں حنفیہ‘ مالکیة‘ حنابلہ اور جمہور معتزلہ کا مسلک ذکر کرنے کے بعد امام شافعی کا مسلک ذکر کرتے ہیں‘ پھر فرماتے ہیں:
ووافقہ (الشافعی) علی ذلک اکثر اصحابہ والقاضی ابوبکر وجماعة من الفقہاء ۔ (ایضاً ص:۱۴۰)
ان روایات سے اچھی طرح واضح ہوگیا کہ مرسَل تابعی مطلقاً قبول ہے‘ صغیر ہو یا کبیر‘ حضرت امام شافعی تابعین ِ صغار کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
”انہم اشد تجوزاً فیمن یرون عنہ‘ وانہم یوجد علیہم الدلائل فیما ارسلوہ بضعف مخرجہ وکثرة الاحالة فی الاخبار۔ (الرسالة ص:۴۰۵)
حالانکہ جب جمہور نے ثقاہت کی شرط لگادی ہے‘ تو تمام باتوں سے استغناء ہو جاتاہے‘ اس لئے کہ مرسل‘ اپنے پیش نظر ”من کذب علیّ متعمداً فلیتبوا مقعدہ من النار“ رکھ کر حدیث مرسل روایت کرکے اپنے اوپر ذمہ داری لے رہا ہے‘ اب یہ عادل مرسِل کیسے غیر ثقہ سے روایت کرکے وعید کا مصداق بننا پسند کرے گا؟ چنانچہ علامہ آمدی شافعی  نے اس دلیل سے جمہور کے مسلک کو مبرہن فرمایاہ(مقدمہ اعلاء السنن ص:۱۴۱) اس تمام بحث سے حافظ ابن حجر کے وہ احتمالات جو انہوں نے شرح نخبہ میں ”اما“ و”اما“ کہہ کرپیدا فرمائے ہیں‘ ختم ہوجاتے ہیں۔
امام شافعی کی شرائط
اب ہم امام شافعی کی شرائط نقل کرتے ہیں‘ جو انہوں نے تابعی کبیر کی روایت مرسَلہ کے لئے لگائی ہیں:
۱:․․․دوسری جگہ سند متصل موجود ہو‘ چنانچہ حضرت سعید بن المسیب کی روایات چونکہ متصل اسناد سے آئی ہیں: اس لئے وہ حجت ہیں ۔ (مقدمہ ابن الصلاح ) یہاں یادر ہے کہ امام شافعی نے ۴/روایات مرسلہ سعید بن المسیب کو چھوڑ دیا ہے‘ اس کی نشاندہی علامہ کوثری نے کی ہے۔ (مقدمہ اعلاء السنن ص:۱۵۱)
۲:․․․مختلف شیوخ سے کسی اور نے بھی اسی روایت کو مرسلاً ذکر کیا ہو۔
۳:․․․کسی صحابی کا قول اس روایت کا مؤید ہو۔
۴:․․․علمأ کی اکثریت کا قول ہو۔
۵:․․․مرسِل صرف ثقات ہی سے روایت کرتاہو۔ (مقدمہ اعلاء السنن ص:۱۳۹-۱۳۸)
۳-مرسل تبع تابعی
یعنی تبع تابعی قال رسو ل اللہ اکہہ کر روایت کرے۔ جمہور علمأ کے نزدیک یہ حجت اور مقبول ہے‘ جبکہ امام شافعی کے ہاں مقبول نہیں۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں:
”ثم ان الحاکم یخص المرسل بالتابعین والجمہور من الفقہاء والاصولیین یعمّون التابعین وغیرہم“۔ (الباعث الحثیث ص:۴۸)
علامہ آمدی شافعی فرماتے ہیں:
”والمختارقبول المراسیل مطلقاً‘ ودلیلہ الاجماع والمعقول‘ اما الاجماع‘ فہو ان الصحابة والتابعین اجمعوا علی قبول المراسیل من العدول․․․“ (مقدمہ اعلا السنن ص:۱۴۰)
مقدمہ کتاب المراسیل میں ہے:
”ولکن جمہرة المحدثین والفقہاء والاصولیین لایقصرون المرسل علی ہذہ الصورة وحدہا‘ انما قصر علیہا جماعة من اہل العلم کما ذکرہ الحافظ ابن عبد البر“ ۔ (ص:۲۷)
محدثین میں سے خطیب بغدادی کا مسلک بھی فقہاء کی طرح ہے (مقدمہ ابن الصلاح ) ایسے ہی ابوحاتم الرازی‘ عبد الرحمن الرازی‘ امام بخاری‘ ابوداود‘ ترمذی‘ دارقطنی اورامام بیہقی کے ہاں بھی تبع تابعی کا ارسال مقبول ہے۔ (ایضا ص:۲۹) ”قفوا الاثر“ ص:۶۷ میں ہے کہ:
”امام شافعی  نے قرن ثانی تابعین وقرن ثالث تبع تابعین دونوں میں خمسہ امور کی شرط لگاتے ہیں‘ ظاہر ہے کہ یہ سہو ہے‘ امام شافعی کے بارے میں گزر چکا کہ ان کے ہاں صرف تابعی کبیر کا ارسال مقبول ہے۔“
۴:․․․قرون ثلاثہ کے بعد کا ارسال: اس ارسال کو امام آمدی شافعی ابویعلی الحنفی ‘ ابو الحسن کرخی اور عیسی بن ابان نے مقبول کہا ہے۔ امام ابوبکر الجصاص الرازی فرماتے ہیں کہ: ان کے مراسیل میں مرسِل کو دیکھیں گے‘ اگر وہ ثقہ سے روایت کرے تو قبول ہوں گی‘ امام سرخسی نے اصول السرخسی میں اسی قول کو عروہ بن الزبیر کی روایت سے ترجیح دی ہے۔ (اصول السرخسی بحث سنت)
فائدہ: امام ابوبکر الباقلانی اور ابواسحاق الاسفرائینی کے ہاں حدیث مرسل مطلقاً قابل اعتناء نہیں اگرچہ صحابی کی بھی کیوں نہ ہو (مقدمہ کتاب المراسیل )
۴-مراتب حدیث مرسل
امام سخاوی نے حدیث مرسل کے چند مراتب بیان کئے ہیں کہ بعض ‘ بعض سے اعلیٰ ہیں۔
۱:- صحابی ثابت السماع کا ارسال
۲- صحابی ثابت الرویة کا ارسال
۳- مخضرمی کا ارسال
۴- ثقہ راوی کا ارسال‘ جیسے سعید بن المسیب (فتح المغیث ج:۱‘ ص:․․․)
ان مراتب پر یہ زیادتی بھی ممکن ہے ۔
۵- تابعی کبیر کا ارسال
۶- تابعی صغیر جو امام ہو‘ کا ارسال جیسے حضرت امام ابو حنیفہ
۷- تبع تابعی امام کا ارسال‘ جیسے مالک‘ امام اعمش‘ ثوری‘ اوزاعی ۔
۸- تبع تابعی غیر امام کا ارسال۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ربیع الاول ۱۴۲۸ھ اپریل ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: اتباعِ رسول کی حقیقت واہمیت 
Flag Counter