Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۲۸ھ اپریل ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

7 - 10
فتنے اور امت محمدیہ
فتنے اور امت محمدیہ


حق تعالیٰ جل ذکرہ نے امت محمدیہ کے لئے جس ہادی ورسول کا انتخاب فرمایا‘ (ا ) اسے رحمة للعٰلمین بنایا‘ اس رحمت کا ظہور بہت سی شکلوں میں ہوا‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ تمام امت-خواہ وہ دعوتِ محمدیہ کے سایہ میں آئی ہو یا نہ آئی ہو- اس رحمتِ عامہ کی بدولت عام عذابِ الٰہی سے محفوظ ہوگئی‘ پہلی امتوں پر طرح طرح کے عذابِ عام نازل ہوئے‘ جن سے پوری پوری امتیں تباہ وبرباد کردی گئی‘ بعض کو بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ کردیا گیا‘ بعض پر آسمان سے پتھر برسائے گئے‘ بعض کو زمین میں دھنسا دیا گیا‘ بعض کو طوفان کی نذر کردیا گیا اور بعض کو سمندر میں غرق کردیا گیا‘ حق تعالیٰ نے آنحضرت ا کی امت کو ان سے محفوظ رکھا۔ صحیح بخاری وغیرہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی:
”قل ہو القادر علی ان یبعث علیکم عذاباً من فوقکم او من تحت ارجلکم او یلبسکم شیعاً ویذیق بعضکم باس بعض“۔ (الانعام ع ۷۸)
ترجمہ:․․․”تو کہہ اس کو قدرت ہے اس پر کہ بھیجے تم پر عذاب اوپر سے (جیسے پتھر برسنا یا‘ طوفانی ہوا اور بارش‘ یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (جیسے زلزلہ اور سیلاب وغیرہ) یا بھڑا دے تم کو مختلف فرقے کرکے اور چکھادے ایک کو لڑائی ایک کی “۔(ترجمہ شیخ الہند‘) جس میں تین قسم کے عذاب سے ڈرایاگیا ہے: آسمانی عذاب‘ زمین کا عذاب اور باہمی اختلاف کا عذاب‘ تو رسول اللہ ا نے پہلی قسم کے عذاب سے نجات کی دعا فرمائی اور وہ قبول ہوئی‘ پھر دوسری قسم کے عذاب سے نجات کی دعا کی اور وہ بھی قبول ہوئی‘جب تیسری قسم کے عذاب سے نجات کی دعا فرمائی تو قبول نہیں ہوئی‘ جس سے معلوم ہوا کہ اس امت کا عذاب آپس کا اختلاف ونزاع ہوگا۔ اس اختلاف کی صورتیں مختلف رہی ہیں‘ یہ کبھی باہمی خانہ جنگی اور قتل وقتال کی صورت میں ظاہر ہوا‘ کبھی باہمی نزاع وجدال کی صورت میں نمودار ہوا‘ کبھی شقاق وافتراق کے راستے سے آیا اور کبھی بدظنی وبدگمانی‘ طعن وتشنیع اور لعنت وملامت کی صورت میں ابھرا۔ اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ خلیفہٴ مظلوم سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اس امت پر فتنوں کا دروازہ کھل گیا‘ جنگِ جمل‘ جنگ صفین‘ واقعہٴ حرہ‘ واقعہٴ دیر الجماجم‘ واقعہٴ کربلا اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت وغیرہ اسی دردناک سلسلہ کی کڑیاں ہیں‘ بہرحال اس امت میں ابتداہی سے فتنوں کا دور شروع ہوا اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امت میں فتنوں کا دور کم وبیش برابر جاری رہے گا‘ فرق یہ ہے کہ دور اول میں عہد نبوت کے قرب کی وجہ سے امت کا ایمان قوی تھا‘ یہی وجہ ہے کہ شدید ترین اختلاف اور جدال وقتال کے باوجود دور اول کے تمام فتنے امت کے ایمان کو متزلزل نہیں کرسکے‘ بلکہ تمام مسلمانوں کا ایمان اپنی جگہ قائم وراسخ رہا۔ سب سے بڑا اور خطرناک فتنہ وہ ہوتاہے جس سے زوالِ ایمان کا خطرہ پیدا ہوجائے‘ اگرچہ اپنی ظاہری شکل وصورت کے اعتبار سے وہ معمولی معلوم ہوتا ہو‘ چنانچہ احادیث سے علوم ہوتا ہے کہ اس امت کا سب سے بڑا فتنہ دجالِ لعین کا فتنہ ہوگا جو خدائی کا دعویٰ کرے گا اور ہرقسم کے دجل وفریب سے لوگوں کے ایمان کو غارت کرے گا‘ یہ فتنہ اگرچہ قیامت کے بالکل قریب ہوگا‘ اور قیامت کی علامات ِ کبریٰ میں سے ہوگا‘تاہم اس کی شدت واہمیت کی بنا پر ہر نبی ورسول نے اپنی اپنی امتوں کو اس فتنہ سے ڈرایا اور اس کے ایمان سوز نتائج وعواقب سے آگاہ کیا‘ مگر چونکہ اس فتنہ کا ظہور امتِ محمدیہ کے عہد میں ہونا تھا اور اس فتنہ ٴ کبریٰ سے براہ راست اسی امت کا تعلق تھا‘ اس لئے حضرت رسالت پناہ جناب رسول اللہ ا نے بہت وضاحت وصراحت کے ساتھ اس سے ڈرایا اور اس کی واضح علامتیں بیان فرمائیں‘ تاکہ ہرشخص دجالی فتنہ کو پہچان سکے اور امت گمراہی سے بچے۔ الغرض زوال ایمان کا فتنہ تو سب سے بڑا فتنہ ہے- اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے- اور اس کا ظہور بھی امت کے بالکل آخری دور میں ہوگا‘ لیکن اس کے علاوہ ہر دور میں جن فتنوں کا ظہور ہوتا رہاہے‘ وہ اعمال واخلاق‘ بدعت والحاد اور تشتت وافتراق کے فتنے ہیں۔ ہمارا یہ دور جس سے ہم گذررہے ہیں‘ گوناگوں فتنوں کی آماجگاہ ہے‘ ہرطرف سے مختلف قسم کے فتنوں کی یورش ہے‘ ان میں سب سے زیادہ جن فتنوں سے امت کو واسطہ پڑا ہے‘ وہ اخلاقی وعملی فتنے ہیں‘ عوام زیادہ تر اخلاقی فتنوں میں مبتلا اور بدعملی کے فتنوں کا شکار ہیں‘ فریضہٴ نماز میں تساہل‘ فریضہٴ صیام سے تغافل‘ فریضہٴ حج وزکوٰة میں تکاسل‘ وغیرہ وغیرہ۔ عبادات ہوں یا اخلاق‘ معاملات ہوں یا معاشرت ہرشعبہٴ دین میں بدعملی کا دور دورہ ہے اور بہت سے فتنے اس بدعملی کے نتائج ہیں۔ ملک میں شراب نوشی‘ عریانی وبے حیائی‘ فواحش ومنکرات‘ مردوزن کے مخلوط اجتماعات‘ مخلوط تعلیم‘ تھیٹر اور سینما ‘ ریڈیو اور ٹیلیویژن‘ زنا اور بدمعاشی‘ بداخلاقی وبداطواری ‘ لوٹ مار‘ چوری اور ڈاکہ‘ رشوت وخیانت‘ جھوٹ اور بہتان طرازی‘ غیبت اور چغلی ‘ حرام خوری کی نت نئی صورتیں‘ حرص دنیا کی خاطر اشیاء خوردنی میں ملاوٹ۔ کہاں تک شمار کیا جائے‘ بے شمار برائیاں ہیں جو دورِ حاضر میں اس کثرت سے ظاہر ہوئیں کہ پچھلے زمانوں میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا‘ عقل حیران اور انسانی ضمیر انگشت بدنداں ہے کہ یا اللہ! دنیا کیا سے کیا ہوگئی؟ اگر آج قرون اولیٰ کے مسلمان زندہ ہوکر آجائیں اور اس دور کے مدعئی اسلام مسلمانوں کے اخلاق وعمل کا یہ نقشہ دیکھیں تو خدا جانے کیا کہیں اور ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کریں‘ نعوذ باللہ من الفتن ما ظہر منہا وما بطن۔ بہرحال یہ فتنے اور یہ امراض تو وہ ہیں جن میں زیادہ عوام مبتلا ہیں ‘ اب ذرا خواص امت پر بھی سرسری نگاہ ڈالئے- یہ حقیقت ہے کہ علماء کرام اس عالَم کا دل ودماغ ہیں اور عوام امت بمنزلہ اعضائے انسانی کے ہیں‘ علمائے امت کا مقام وہی ہے جو انسانی جسم میں قوائے رئیسہ- دل ودماغ جگر اور گردوں کا ہے- اعضائے رئیسہ اپنا کام ٹھیک ٹھیک کررہے ہوں تو جسم کسی اندرونی مرض کا شکار نہیں ہوتا اور بیرونی آفات وصدمات کے مقابلہ میں پوری قوتِ مدافعت رکھتاہے‘ عام اعضائے انسانی کا نقص‘ اعضائے رئیسہ کے اختلال کی نشاندہی کرتا ہے اور ظاہر جسم کی خرابی اکثر وبیشتر جسم کی اندرونی قوتوں کی خرابی سے ہوتی ہے‘ اسی طرح عوام امت میں خرابی زیادہ تر علماء امت کی خرابی وفساد سے ظہور میں آتی ہے۔ جب علمائے امت اپنا فرض منصبی ادا کرنا چھوڑدیتے ہیں تو عوام میں فساد کے در آنے کا راستہ کھل جاتاہے۔ اس جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ خود صحیح ہوں اور ایمان وتقویٰ اور اخلاق وعمل صالح سے آراستہ ہوں اور دوسرا فرض یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے منصب پر فائز ہوں اور صراط مستقیم کی طرف امت کی راہنمائی کریں اور کسی قسم کا نقص․․․ اعتقادی‘ اخلاقی یا عملی․․․ امت میں واقع ہو تو اس کے لئے بے چین ہوجائیں اور اس کی اصلاح کے لئے صحیح تدابیرکریں‘ اگر خود ان ہی میں نقص آجائے تو امت کے عوام کا خراب ہونا لازمی ہے‘ اسی طرح اگر وہ اپنے مقام ومسند کو چھوڑ بیٹھیں‘ دعوت وتبلیغ اور اصلاح وتزکیہ کی خدمت سے دستکش ہوجائیں اور اصلاح امت کی فکر کو بالائے طاق رکھ دیں تو اس کے نتیجہ میں پوری امت فساد اور بدعملی کی لپیٹ میں آجاتی ہے۔ یہرکیف امت کے لئے سب سے بڑا فتنہ یہ ہوتاہے کہ مصلحین امت اپنے فریضہٴ منصبی سے غافل ہوجائیں اور جب رفتہ رفتہ یہ مرض یہاں تک بڑھ جاتاہے کہ علماء امت خود اپنی اصلاح سے بھی غافل اور مختلف امراض اور فتنوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں امت پر ایک وقت ایسا بھی آتاہے کہ امت امراض کے انتہائی خطرناک درجہ تک پہنچ جاتی ہے اور اس وقت کوئی توقع نہیں رہتی کہ دعوت وتبلیغ اور اصلاح کی کوشش مثمر ہوسکے ‘ نبی کریم ا کے مبارک کلمات میں اسی کا نقشہ یوں پیش کیا گیاہے:
”اذا رأیت ہوی متبعا وشحا مطاعا ودنیا مؤثرة واعجاب کل ذی رأی برأیہ“۔ (سنن ابی داؤد)
ترجمہ:۔”جب تم دیکھو کہ نفسیاتی خواہشات کی اتباع ہورہی ہے‘ طبیعت کی حرص قابلِ اطاعت بن گئی ہے‘ ہرکام میں دنیا کی مصلحت بینی کا خیال رکھا جاتاہے اور ہر شخص کو اپنی رائے پر ناز ہے اور اپنی رائے کے خلاف ہربات کو ہیچ سمجھتاہے“۔ جب نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو پھر اپنی فکر کرنی چاہئے‘ دنیا کی اصلاح کی فکر ختم کر دینی چاہئے‘ یا یہ کہ تبلیغی فریضہ ساقط ہوجاتاہے‘ یہ دوسری بات ہے کہ انتہائی اولو العزمی سے کام لیا جائے اور اس وقت بھی میدان میں آکر اس خدمت کو انجام دیا جائے‘ بہرحال جب حالات اتنے مایوس کن نہ ہوں تو قدم کو جادہٴ دعوت واصلاح سے نہیں ہٹنا چاہئے۔
علماء ومصلحین اور ان کے فتنے
سب سے بڑا صدمہ اس کا ہے کہ مصلحین کی جماعتوں میں جو فتنے آج کل رونما ہورہے ہیں‘ نہایت خطرناک ہیں‘ تفصیل کا موقعہ نہیں‘ لیکن فہرست کے درجہ میں چند باتوں کا ذکر ناگزیر ہے:
۱- مصلحت اندیشی کا فتنہ
یہ فتنہ آج کل خوب برگ وبار لارہاہے‘ کوئی دینی یا علمی خدمت کی جائے‘ اس میں پیش نظر دنیاوی مصالح رہتے ہیں‘ اس فتنہ کی بنیاد نفاق ہے‘ یہی وجہ ہے کہ بہت سی دینی وعلمی خدمات برکت سے خالی ہیں۔
۲- ہر دلعزیزی کا فتنہ
جوبات کہی جاتی ہے‘ اس میں یہ خیال رہتا ہے کہ کوئی بھی ناراض نہ ہو‘ سب خوش رہیں‘ اس فتنہ کی اساس حب جاہ ہے۔
۳- اپنی رائے پر جمود واصرار
اپنی بات کو صحیح وصواب اور قطعی ویقینی سمجھنا‘ دوسروں کی بات کو درخور اعتناء اور لائق التفات نہ سمجھنا‘ بس یہی یقین کرنا کہ میرا موقف سو فیصد حق اور درست ہے اور دوسرے کی رائے سو فیصد غلط اور باطل- یہ اعجاب بالرائے کا فتنہ ہے اور آج کل سیاسی جماعتیں اس مرض کا شکار ہیں- کوئی جماعت دوسرے کی بات سننا گوارا نہیں کرتی‘ نہ حق دیتی ہے کہ ممکن ہے کہ مخالف کی رائے کسی درجہ میں صحیح ہو یا یہ کہ شاید وہ بھی یہی چاہتے ہوں جو ہم چاہتے ہیں‘ صرف تعبیر اور عنوان کا فرق یا الا ہم فالا ہم کی تعیین کا اختلاف ہو۔
۴-سوء ظن کا فتنہ
ہرشخص یا ہر جماعت کا خیال یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد مخلص ہے اور ان کی نیت بخیر ہے اور باقی تمام جماعتیں جو ہماری جماعت سے اتفاق نہیں رکھتیں‘ وہ سب خود غرض ہیں‘ ان کی نیت صحیح نہیں‘ بلکہ اغراض پر مبنی ہیں‘ اس کا منشاء بھی عجب وکبر ہے۔
۵- سوء فہم کا فتنہ
کوئی شخص کسی مخالف کی بات جب سن لیتا ہے تو فوراً اسے اپنا مخالف سمجھ کر اس سے نہ صرف نفرت کا اظہار کرتاہے‘ بلکہ مکروہ انداز میں اس کی تردید فرض سمجھی جاتی ہے۔ مخالف کی ایک ایسی بات میں جس کے کئی محمل اور مختلف توجیہات ہوسکتی ہیں‘ وہی توجیہ اختیار کریں گے جس میں اس کی تحقیر وتذلیل ہو‘ کیا ”ان بعض الظن اثم“ ( یقیناً بعض گمان گناہ ہیں) اور ”ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث“ ( بدگمانی سے بچاکرو‘ کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے اور بڑے بڑے جھوٹ اسی سے پیدا ہوتے ہیں) کی نصوص مرفوع العمل ہوچکی ہیں؟․
۶-بہتان طرازی کا فتنہ
مخالفین کی تذلیل وتحقیر کرنا‘ بلاسند ان کی طرف گھناؤنی باتیں منسوب کرنا۔ اگر کسی مخالف کی بات ذرا بھی کسی نے نقل کردی‘ بلاتحقیق اس پر یقین کرلینا اور مزے لے لے کر محافل ومجالس کی زینت بنانا‘ بالفرض اگر خود بہتان طرازی نہ بھی کریں‘ دوسروں کی سنی سنائی باتوں کو بلاتحقیق صحیح سمجھنا‘ کیا یہ نص قرآنی ”ان جاء کم فاسق بنباء فتبینوا“ الآیة ( اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہ گار خبر لے کر تو تحقیق کرلو) کے خلاف نہیں؟
۷- جذبہٴ انتقام کا فتنہ
کسی شخص کو کسی شخص سے عداوت ونفرت یا بدگمانی ہے‘ لیکن خاموش رہتاہے لیکن جب ذرا اقتدار مل جاتاہے ‘ طاقت آجاتی ہے تو پھر خاموشی کا سوال پیدا نہیں ہوتا‘ گویا یہ خاموشی معافی اور درگذر کی وجہ سے نہیں تھی‘ بلکہ بیچارگی وناتوانی اور کمزوری کی وجہ سے تھی‘ جب طاقت آگئی تو انتقام لینا شروع کیا‘ رحم وکرم اور عفو درگذر سب ختم۔
۸-حب شہرت کا فتنہ
کوئی دینی یا علمی یا سیاسی کام کیا جائے‘ آرزو یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ داد ملے اور تحسین وآفرین کے نعرے بلند ہوں‘ درحقیقت اخلاص کی کمی یا فقدان سے اور خود نمائی ورباکاری کی خواہش سے یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے‘ صحیح کام کرنے والوں میں یہ مرض پیدا ہوگیا اور درحقیقت یہ شرکِ خفی ہے‘ حق تعالیٰ کے دربار میں کسی دینی یا علمی خدمت کا وزن اخلاص سے ہی بڑھتا ہے اور یہی تمام اعمال میں قبول عند اللہ کا معیار ہے‘ اخبارات‘ جلسے‘ جلوس‘ دورے زیادہ تر اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔
۹- خطابت یا تقریر کا فتنہ
یہ فتنہ عام ہوتا جارہاہے کہ لن ترانیاں انتہا درجہ میں ہوں‘ عملی کام صفر کے درجہ میں ہوں‘ قوالی کا شوق دامن گیر ہے‘ عمل وکردار سے زیادہ واسطہ نہیں۔
”لم تقولون ما لاتفعلون کبر مقتا عند اللہ ان تقولوا مالاتفعلون“ ۔
ترجمہ:۔کیوں کہتے ہو منہ سے جو نہیں کرتے‘ بڑی بیزاری کی بات ہے اللہ کے یہاں کہ کہو وہ چیز جو نہ کرو “۔ (ترجمہ شیخ الہند) خطیب اس انداز سے تقریر کرتاہے گویا تمام جہاں کادرد اس کے دل میں ہے‘ لیکن جب عملی زندگی سے نسبت کی جائے تو درجہ صفر ہوتاہے۔
۱۰- پروپیگنڈہ کا فتنہ
جو جماعتیں وجود میں آئی ہیں‘ خصوصاً سیاسی جماعتیں ان میں غلط پروپیگنڈہ اور واقعات کے خلاف جوڑ توڑ کی وبا اتنی پھیل گئی ہے جس میں نہ دین ہے اور نہ اخلاق‘ نہ عقل ہے نہ انصاف‘ محض یورپ کی دین باختہ تہذیب کی نقالی ہے‘ اخبارات‘ اشتہارات ریڈیو‘ ٹیلی ویژن‘ تمام اس کے مظاہر ہیں۔
۱۱- مجلس سازی کا فتنہ
چند اشخاص کسی بات پر متفق ہوگئے یا کسی جماعت سے اختلاف رائے ہوگیا‘ فوراً اخبار نکالا جاتاہے بیانات چھپتے ہیں کہ اسلام اور ملک ‘ بس ہماری جماعت کے دم قدم سے باقی رہ سکتاہے۔ نہایت دل کش عنوانات اور جاذبِ نظر الفاظ وکلمات سے قرار دادیں اور تجویزیں چھپنے لگتی ہیں‘ امت میں تفرق وانتشار اور گروہ بندی کی آفت اسی راستے سے آئی ہے۔
۱۲- عصبیت جاہلیت کا فتنہ
اپنی پارٹی کی ہربات خواہ وہ کیسی ہی غلط ہو‘ اس کی حمایت وتائید کی جاتی ہے اور مخالف کی ہربات پر تنقید کرنا سب سے اہم فرض سمجھا جاتا ہے‘ مدعئی اسلام جماعتوں کے اخبار ورسائل‘ تصویریں‘ کا رٹون‘ سینما کے اشتہار‘ سود اور قمار کے اشتہار اور گندے مضامین شائع کرتے ہیں‘ مگر چونکہ ”اپنی جماعت “ کے حامی ہیں‘ اس لئے جاہلی تعصب کی بنا پر ان سب کو بنظر استحسان دیکھا جاتاہے‘ الغرض جو اپنا حامی ہو وہ تمام بدکرداریوں کے باوجود پکا مسلمان ہے اور جو اپنا مخالف ہو‘ اس کا نماز روزہ کا بھی مذاق اڑایاجاتاہے۔
۱۳- حب مال کا فتنہ
حدیث میں تو آیاہے کہ
”حب الدنیا رأس کل خطیئہ“
دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے‘ حقیقت میں تمام فتنوں کا قدر مشترک حب جاہ یا حب مال ہے‘ بہت سے حضرات
”ربنا آتنا فی الدنیا حسنة“
کو دنیا کی جستجو اور محبت کے لئے دلیل بناتے ہیں‘ حالانکہ بات واضح ہے کہ ایک ہے دنیا سے تعلق اور ضروریات کا حصول- اس سے انکار نہیں‘ نیز ایک ہے طبعی محبت ‘ جو مال اور آسائش سے ہوتی ہے‘ اس سے بھی انکار نہیں‘ مقصد تو یہ ہے کہ حب دنیا یا حب مال کا اتنا غلبہ نہ ہو کہ شریعت محمدیہ اور دین اسلام کے تمام تقاضے ختم یا مغلوب ہوجائیں‘ اقتصاد واعتدال کی ضرورت ہے‘ عوام سے شکایت کیا کی جائے‘ آج کل عوام سے یہ فتنہ گذر کر خواص کے قلوب میں بھی آرہاہے‘ الا ماشاء اللہ! اس فتنے کی تفصیلات کے لئے ایک طویل مقالے کی ضرورت ہے‘ حق تعالیٰ توفیق عطا فرمائے‘ ہم ان مختصر اشاروں کو حضرت رسول اللہا کی محبت کی ایک دعا پر ختم کرتے ہیں:
”اللہم! رزقنی حبک وحب من یحبک وحب عمل یقربنی الیک‘ اللہم ما رزقتنی مما احب فا جعلہ قوة فیما یحب وما زویت عنی مما احب فاجعلہ فراغاً لی فیما تحب‘ اللہم اجعل حبک احب الاشیاء الیّ من نفسی واہلی ومن الماء البارد“
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ربیع الاول ۱۴۲۸ھ اپریل ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: علما اور خطباکے لیے چند تجاویز
Flag Counter