Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۲۸ھ اپریل ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

4 - 10
اتباعِ رسول کی حقیقت واہمیت
اتباعِ رسول ا کی حقیقت واہمیت


ہم میں سے ہرایک کو معلوم ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کو آدمی اور انسان کہا جاتاہے‘ لیکن آدمی اور آدمیت میں ‘ اسی طرح انسان اور انسانیت میں بہت فرق ہے۔ ضروری نہیں کہ جو آدمی وانسان ہو‘ اس میں انسانیت وآدمیت کی صفات بھی پائی جائیں۔ دیکھئے جاندار ہونے میں توہر انسان جانور کا ہمسر اور شریک ہے‘ محض جاندار ہونے میں انسان کو جانور پر کوئی فضیلت وبرتری حاصل نہیں‘ بلکہ انسان کو جانور پر فضیلت وفوقیت تب ہوگی جب اس میں انسانیت اور آدمیت بھی ہو۔ یہی وہ انسانیت وآدمیت ہے جو بنی آدم کو جانوروں سے ممتاز وافضل بنادیتی ہے‘ یہی وہ حوصلہٴ خیر وشر ہے جو انسان کو اٹھاتا اور گراتا ہے۔ بقول شاعر:
اٹھے تو شہپریزدان ‘ گرے تو شیطان ہے
بشر کے حوصلہٴ خیر وشر کو کیا کہئے
اب سوال یہ ہے کہ یہ آدمیت وانسانیت کہاں سے ملتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصلی انسانیت کا مکمل نمونہ ہمیں ان مقدس شخصیات سے ہی مل سکتا ہے‘ جنہیں ہم انبیاء کرام علیہم السلام کے مقدس لقب سے یاد کرتے ہیں۔ آج کے اس دور میں جبکہ سلسلہٴ نبوت ورسالت ختم ہوگیا‘ نبی أمی فداہ أبی وأمی کی تعلیمات وہدایات کے سوا کسی نبی اور رسول کی تعلیم اپنی اصلی شکل میں موجود نہیں ہے تو انسانیت کی کامیابی کا مدار صرف اور صرف محمد عربی ا کی تعلیمات میں ہے ‘ ہمیں انسانیت وآدمیت کے اصول اس درسگاہ سے ملیں گے جس کے معلم نے ”انما بعثت معلماً“ کا اعلان کرکے بتا دیاکہ میری بعثت کا مقصد ہی گم گشتہ راہ انسانوں کو انسانیت کی راہ دکھاناہے‘ انسانیت سیکھنی ہو تو تعلیمات نبویہ کی درسگاہ میں آؤ، جہاں کی تعلیم میں تمام انسان آپس میں برابر ہیں اور بڑائی کا معیار صرف اور صرف تقویٰ اور دینداری ہے۔ اے انسانیت کے متلاشیو! آؤ محمد رسول اللہ ا کا اتباع کرو، جس نے یہ تعلیم دی کہ جو چیز تمہیں پسند ہو‘ وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرو۔ جس نے یہ بتایا کہ یتیموں کی خبر گیری کرنے والا جنت میں میرے اتنے قریب ہوگا جیسے یہ دو انگلیاں۔ اور جس نے یہ فرمایا کہ وہ شخص کامل مؤمن نہیں ہوسکتا کہ جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا سوئے۔ یہاں تک کہ یہ بھی ہدایت دی کہ ہمیں اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے ذرا سوچئے ! کیا انسانیت کے یہ بلند پایہ اصول‘یہ مقدس تعلیم کسی اور درسگاہ میں ممکن ہے؟ بلاشبہ انسانیت رسول اللہ ا کی تعلیم کے بغیر ناقص ہے‘ بلکہ اس کے بغیر تو انسانیت کا تصور ہی ممکن نہیں‘ آج ہمارا ملک ایسے اندوہناک مسائل کا شکار ہے کہ قائدین کی قیادت‘ رہنماؤں کی رہنمائی‘ داناؤں کی دانائی اور مدبروں کی تدبیریں بھی ناکام ونامراد ہیں کہ انہیں ان پریشان کن مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا‘ وجہ یہ ہے کہ ہم نے دنیا کو اپنا مقصد بنالیا ہے اور دنیاوی اصولوں کے مطابق ہی ان مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں‘ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ دنیاوی اصول وضوابط انسانوں کے اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے ہیں اور انسانوں کے اصولِ زندگی ‘ زندگی کے ہرمرحلے اور ہرموڑ پر رہنمائی کی صلاحیت نہیں رکھتے اگر ہمیں وطن سے پیار اور اس کے مسائل اور پریشانیوں کا ادراک ہے تو پھر یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ملک کے بڑھتے ہوئے مسائل اسی وقت حل ہوسکتے ہیں جب ہم خود ساختہ قوانین چھوڑ کر سید الاولین والآخرین محمد عربی ا کی تعلیمات کو صدق دل سے قبول کریں اور اپنے اقوال وافعال اور اپنی حرکات وسکنات کو انہیں تعلیمات کا پابند بنالیں اور تاریخ شاہد ہے کہ دنیا نے جب بھی اپنے غم کا مداوا، رسول اللہ ا کی تعلیمات کی روشنی میں ڈھونڈا اور تلاش تلاش کیا تو وہ کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوئی‘ بقول شاعر:
رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں ابتک
مگر کیا غم کہ میری آستین میں ہے ید بیضاء
انسان کے بنائے ہوئے قوانین غلط ہوسکتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین صحیح۔ انسان کا بتایا ہوا جھوٹ ہوسکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا سچ۔ انسان کے طریقے باطل ہوسکتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا طریقہ حق۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کونسا طریقہ بتلاتے ہیں اور کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ خالق حقیقی ہمیں کس پروگرام کی طرف بلا رہے ہیں؟ کس سوچ کی طرف بلارہے ہیں؟ تو خوب غور سے سن لیجئے ! پڑھ لیجئے! سمجھ لیجئے کہ وہ طریقہ ‘ وہ دعوت‘ وہ سوچ ”اتباع محمد عربی ا “ ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
”قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ․․․“ ۔ (آل عمران:۳۱)
ترجمہ:․․․”آپ فرمادیجئے اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا“۔
چھٹ جائے اگر دولتِ کونین تو کیا غم
چھوٹے نہ مگر ہاتھ سے دامانِ محمد
اعلان کردیا گیا‘ محبت الٰہی کے دعویدارو! اپنے طریقے چھوڑ دو‘ محمد عربی ا کے طریقہ پر آجاؤ‘ اپنے پروگرام بندکرو‘ رسول اللہ ا کے پروگراموں کو اپنا لو‘ اپنی سوچ چھوڑ دو‘ سرکار مدینہ کی سوچ لے لو‘ اپنے خیالات نکالدو‘ سردار دو جہاں کے خیالات سمولو‘ یہی مطلب ہے‘ ”اتباع“ کا ”تابعداری“کا اور کہنا ماننا اسی کو کہتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کی محبت کا حق تب ہی ادا ہوگا جب حضور ا کی اطاعت ہوگی۔ اے انسانو! تم کوئی بھی ہو‘ محمد عربی ا کا اتباع کرو ‘ قائدہو تو محمد عربی ا کا اتباع کرو ‘ سپہ سالار ہو تو بھی محمد عربی ا کا اتباع کرو‘ قاضی ہو یا جج‘ عابد ہو یا مجاہد‘ تاجر ہو یا مزدور‘ استاذ ہو یا شاگرد‘ ہرایک محمد عربی ا کا اتباع کرے۔ہمارا سونا جاگنا‘ اٹھنا بیٹھنا‘ کھانا پینا‘ بھوک وپیاس‘ شکم سیری وشکم پروی‘ رنج ومصیبت‘ خوشی وشادمانی‘ ہماری ہرحالت سرکار مدینہ ا کے اتباع اور سنت نبوی کے طریق پر ہونی چاہئے‘ زندگی کے ہر مرحلہ اور ہرگوشہ میں انہیں کا اتباع کرو‘ تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں‘ تمہاری حیات مستعار کے لئے فخر کائنات کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے‘ جیساکہ ارشاد ربانی ہے:
”لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة“۔ (الاحزاب:۲۱)
ترجمہ:․․․”تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول ا کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے“۔ حضور ا کی محبت‘ اطاعت واتباع ہر مسلمان پر فرض اور حضور ا کا حق ہے‘ رسول اللہ ا کے تمام انسانوں پر دو قسم کے حقوق ہیں:
ایک وہ حق جو دنیا کے ہرانسان کے ذمہ ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہم سب محمد عربی ا کو اللہ کا نبی ورسول مانیں‘ یہ حق کسی مخصوص ملک یا علاقے یا مخصوص طبقہ پر نہیں ہے‘ بلکہ تمام بنی نوع بشر پر ہے‘ جیساکہ ارشاد ربانی ہے:
”قل یاٰیہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً“۔ (الاعراف:۱۵۸)
ترجمہ:․․․”آپ کہہ دیجئے اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں“۔ اس آیت میں مخصوص افراد کو خطاب نہیں ہے ‘ بلکہ صاف طور پر ”یاٰیہا الناس“ کہہ کر عام خطاب کیا ہے۔
دوسری قسم کے حقوق وہ ہیں جو ایمان لانے کے بعد اہل ایمان پر عائد ہوتے ہیں اور وہ ہیں: محبت‘ اطاعت واتباع رسول ا ۔ حضور ا کی اطاعت ہرمسلمان پر فرض ہے‘ اس کے بغیرکوئی کامل مسلمان نہیں ہو سکتا‘ قرآن کریم میں جابجا یہی مضمون بیان کیا گیاہے اور اہل ایمان کو مخاطب کیا گیا ہے۔ جیساکہ ارشاد ہے:
”اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول“ ۔(النساء:۵۹)
اس حکم اطاعت میں ”اطیعوا الرسول“ کو الگ مستقل جملہ کی شکل میں قرآن مجید میں جس طرح مختلف مقامات پر ذکر کیا گیا ہے‘اس سے ہر وہ شخص جس کو عربی زبان سے کچھ بھی ذوق ہے‘ وہ یہی سمجھے گا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ اہل ایمان پر رسول اللہ ا کی اطاعت بھی مستقلاً فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کو محمد عربی ا کی اطاعت پر موقوف کردیا ہے‘ اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کی اطاعت اس وقت تک معتبر نہیں‘جب تک کہ حضور ا کی سچی محبت اور اطاعت دل میں نہ ہو‘ بقول شاعر:
جب تک نہ کٹ مروں شاہِ یثرب کی عزت پر
خدا شاہد ہے کہ کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا
چنانچہ یہی مضمون قرآن مجید کی متعدد آیات سے واضح ہے: سورہٴ توبہ میں باری تعالیٰ فرماتے ہیں:
”قل ان کان آباء کم وابناء کم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقترفتموہا وتجارة تخشون کسادہا ومساکن ترضونہا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اللہ بامرہ واللہ لایہدی القوم الفاسقین“۔ (التوبہ:۲۴)
ترجمہ․”تو کہہ دے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور حویلیاں جن کو تم پسند کرتے ہو‘ تم کو زیادہ پیاری ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور جہاد سے اس کی راہ میں تو انتظار کرو یہاں تک کہ بھیجے اللہ تعالیٰ اپنا حکم اور اللہ تعالیٰ راستہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو“۔ (ترجمہ شیخ الہند)
ایک مؤمن کو اپنی جان پر جتنا حق ہے اس سے زیادہ اس کی جان پرنبی کا حق ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون اپنی کتاب میں ان الفاط میں بیان فرمایا:
”النبی اولیٰ بالمؤمنین من انفسہم“۔ (الاحزاب:۶)
حضرت شاہ عبد القادر صاحب  اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”نبی نائب ہے اللہ تعالیٰ کا‘ اپنی جان ومال میں اپنا تصرف نہیں چلتا‘ جتنا نبی کا‘ اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنی روا نہیں ہے اور نبی حکم کرے تو فرض ہے“۔
کسی شخص کی فلاح وکامیابی کے لئے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت ضروری ہے‘ اسی طرح حضرت محمد ا کی اطاعت بھی ضروری ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی نافرمانی گمراہی اور بدبختی ہے‘ اسی طرح رسول اللہ ا کی نافرمانی بھی موجب ضلال وگمراہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
”فلا وربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لایجدو فی انفسہم حرجاً مما قضیت ویسلموا تسلیماً“۔ (نساء:۶۵)
ترجمہ:”سو قسم ہے تیرے رب کی وہ مومن نہ ہوں گے یہاں تک کہ تجھ ہی کو منصف جانیں اس جھگڑے میں جو اٹھے پھر نہ پاویں اپنے جی میں تنگی تیرے فیصلہ سے اور قبول کریں خوشی سے“۔ اسی طرح ارشاد باری ہے:
”وما کان لمؤمن ولامؤمنة اذا قضی اللہ ورسولہ امراً ان یکون لہم الخیرة من امرہم“۔ (احزاب:۳۶)
ترجمہ:”اور کام نہیں ایماندار مرد کا اور نہ ایماندار عورت کا جب کہ مقرر کردے اللہ اور اس کا رسول کوئی کام کہ ان کو رہے اختیار اپنے کام کا“۔ الغرض یہ سب آیات اس باب میں نص صریح ہیں کہ مسلمانوں کے جس معاملہ میں رسول اللہ ا فیصلہ فرمادیں وہ واجب التسلیم ہے اور کسی مسلمان کو اس میں چوں وچرا کی گنجائش نہیں ہے‘ اللہ تعالیٰ کے رسول جب کسی کام کے لئے دعوت دیں اور پکاریں تو اس پر لبیک کہنا ہر مؤمن پر فرض ہے۔ حضور ا کی محبت مدار ایمان ہے جس کے بغیر ایمان معتبر نہیں ہے‘ چنانچہ حضور ا کا ارشاد مبارک ہے:
”لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین“۔ (بخاری ص:۷)
ترجمہ:”تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے اس کے نزدیک محبوب نہ ہوجاؤں“۔ حضور ا سے محبت کتنے عظیم اجر وثواب کا باعث ہے‘ اس بات کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ حضرت انس  نے بیان کیا ہے کہ ایک شخص حضور ا کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا ”متیٰ الساعة“؟ (قیامت کب ہوگی؟) حضور ا نے فرمایا: ”ما اعددت لہا“ (قیامت کے لئے تیاری کیا کررکھی ہے؟) اس شخص نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول ا ! قیامت کے دن کے لئے بہت سی نمازیں‘ بہت سے روزے‘ بہت سے صدقے تو میرے پاس نہیں ہیں‘ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ا سے محبت کرتاہوں: حضور ا نے فرمایا: ”انت مع من احببت“ تو قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تجھ کو محبت ہے۔سبحان اللہ! حضور ا سے محبت کتنی عظیم دولت ہے کہ قیامت کے دن جب کہ نفسا نفسی کا عالم ہوگا کسی کاکوئی پرسانِ حال نہ ہوگا‘ حضور ا سے محبت کرنے والے کو حضور ا کی معیت ورفاقت نصیب ہوگی اور ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر کامیابی کیا ہوسکتی ہے‘ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے:
”من احبنی کان معی فی الجنة“ ۔ (مشکوٰة:۳۰)
ترجمہ:․․․”جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا“۔ میرے بھائیو! ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ حضور ا سے محبت کا کیا مطلب ہے؟ کونسی چیز محبت میں داخل ہے اور کونسی چیز محبت میں داخل نہیں ہے؟تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حضور ا سے محبت وہ معتبر ہے جو اللہ تعالیٰ کی منشأ کے مطابق ہو اور وہ محبت معتبر ہے جیسے صحابہ کرام نے سرکار مدینہ ا سے کی ہے‘ حضور ا سے محبت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم حضور ا کے مرتبہ میں افراط وتفریط کرنے لگیں ‘ محبت میں غلو کرکے ہم ان کے بارے میں غلط عقیدے گڑھ لیں
”باخدا دیوانہ باشی با محمد ہوشیار“
ذرا سوچئے! کیا ہم حضور ا کا رتبہ اس سے بڑھا سکتے ہیں جو خود اللہ تعالیٰ نے حضور ا کے لئے متعین کردیاہے؟ نہیں، ہرگز نہیں ۔ حضور ا سے جو محبت صحابہ کرام نے کی ہے‘ کیا ہم ان سے بڑھ سکتے ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ صحابہ کرام کی محبت کا تو یہ عالم تھا کہ حضور ا تھوکتے تو جس کے ہاتھ وہ تھوک لگ جاتی وہ اسے منہ اور بدن پر مل لیتا ‘ حضور ا کے وضو کا پانی زمین پر نہ گرنے دیتے‘ اگر کسی کو اس میں سے کوئی قطرہ نہ ملے تو دوسرے کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے ملاکر اپنے منہ پر مل لیتے تھے‘ حضور ا کے سامنے بلند آواز سے بات بھی نہ کرتے‘ ادب کی وجہ سے آپ ا کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھتے‘ آپ ا کے سر یا داڑھی کا بال گرتا تواسے اٹھا کر نہایت احترام واہتمام کے ساتھ اپنے پاس رکھ لیتے۔ مگر صحابہ کرام نے حضور ا کو ”بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“ کا مصداق سمجھا‘ خدا نہیں بنایا‘ آپ ا کی ذات اقدس میں غلو نہیں کیا غلط عقیدے نہیں گڑھے ۔تو کیا ہم صحابہ کرام  سے بھی بڑے عاشق ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔ صحابہ کرام کو آٹیڈیل بناکر ان کے طرزِ محبت کو اپنانا ہوگا‘ صحابہ کرام ہمارے لئے مشعل راہ ہیں‘ وہ ستارے ہیں‘ ہمیں انہیں کو دیکھ کرچلنا ہے‘ ان کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت کی سند عطا کی تھی‘ ان سے بڑھ کر معیار حق اور نمونہ عمل کسی کی زندگی نہیں ہوسکتی۔ بہرحال ہمیں حضور ا کی اتباع بھی کرنی ہے اور محبت بھی‘ مگر ایسی محبت جیسے صحابہ کرام کو حضور ا سے تھی‘ حضور ا نے امت کو اپنی شان میں غلو اور مبالغہ کرنے سے منع فرمایا ہے ‘ جیساکہ ارشاد نبوی ا ہے:
”لاتطرونی کما اطرت النصاریٰ عیسیٰ ابن مریم“۔ (بخاری شریف)
ترجمہ:․․․”مبالغہ نہ کرو میری شان میں جیسا نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی شان میں کیا “۔ ایک اور حدیث میں ہے :
”ما احب ان ترفعونی فوق منزلتی التی انزلنی اللہ“۔
(کنز العمال ج:۳‘ ص:۶۵۲) ترجمہ:”میں پسند نہیں کرتا کہ تم مجھے میرے مرتبہ سے بڑھاؤ‘ جس پر اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے“۔ اسی طرح حضور ا نے محبت کے بارے میں محتاط رہنے کے لئے ایک اصول بنادیا کہ:
”لاترفعونی فوق حقی فان اللہ اتخذنی عبداً قبل ان یتخذنی رسولاً“۔ (کنز العمال ج:۳‘ ص:۶۵۲)
ترجمہ:”مجھے میرے حق سے مت بڑھاؤ‘ اس لئے کہ اللہ نے مجھے بندہ بنایا قبل اس کے کہ مجھے رسول بناتے“۔ میرے بھائیو! ذرا غور کرو کہ حضور ا امت کواپنی شان میں مبالغہ کرنے سے توروک رہے ہیں‘ مگر آپ ا نے یہ نہیں فرمایا کہ میری شان کو گھٹانا مت؟ آخر ایسا کیوں؟ اس لئے کہ خطاب امت مسلمہ کو ہے اور آپ کی امت کے کسی ادنیٰ ایمان والے کے بارے میں بھی یہ تصور محال ہے کہ وہ آپ کی شان میں کمی کرے گا یا آپ کامقام ومرتبہ گھٹائے گا۔ ہاں اس کے برخلاف اس بات کا غالب گمان تھا کہ عقیدت ومحبت کے جوش میں کہیں امت شان اقدس میں مبالغہ نہ کرنے لگے‘ جیساکہ امم سابقہ یعنی یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ نے اپنے نبیوں کا مقام ومرتبہ بڑھا کران کو خدا بنادیا ‘ تو غالب گمان یہی تھا کہ امت کے کچھ لوگ اسی راہ پر چل پڑیں گے‘ چنانچہ حضور ا نے ابتدا ہی میں روک لگادی۔ بزرگو اور دوستو! حضور ا کا حق محبت نہ شان اقدس میں مبالغہ کرنے سے ادا ہوگا‘ نہ زبانی دعویٰ محبت سے ادا ہوگا‘ بلکہ دعویٰ محبت کے ساتھ اس کی کی عملی دلیل بھی ہونی چاہئے اور وہ ہے اطاعت رسول ا ۔ آپ کی محبت ،اطاعت ا وراتباع کرنے والے دنیا میں کامیاب اور آخرت میں رسول عربی ا کے ساتھ ہوں گے‘ حضور ا کی رفاقت جس کو مل جائے اسے تو کائنات مل گئی ۔دامن طلب میں طلب کے لئے بچا ہی کیا ہے؟ جسے مانگا جائے‘ بچاہی کیا ہے؟ جسے چاہا جائے ۔ بقول شاعر:
وہ آشنا اگر ہے تو عالم ہے آشنا
وہ آشنا نہیں تو کوئی آشنا نہیں ہے
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ربیع الاول ۱۴۲۸ھ اپریل ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: مسواک کی فضیلت 
Flag Counter