Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۲۸ھ اپریل ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

2 - 10
غیر ملکی این جی اوز کی امداد‘ ملازمت اور ان سے تعاون کا حکم
غیر ملکی این جی اوز کی امداد‘ ملازمت اور ان سے تعاون کا حکم

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مندرجہ ذیل مسئلہ میں کہ:
آٹھ اکتوبر ۲۰۰۵ء کو ہونے والے زلزلے سے ہمارا علاقہ ہزارہ ڈویژن بشمول دیگر علاقوں کے متاثر ہوا‘ جس کے بعد سے مختلف ناموں اور طریقوں سے غیر ملکی این جی اوز ”تعلیمی اور امدادی کاموں کے نام پر ہرطرف پھیل رہی ہیں‘ ان این جی اوز کی سرگرمیاں مشکوک ہیں‘ جن میں سے چند ایک یہ ہیں: ان کی خواتین کارکن‘ مسلمان خواتین سے کہتی ہیں کہ تم مختصر آستینوں والے لباس کیوں نہیں پہنتی کہ کام کاج اور آٹا گوندھنے میں دقت نہ ہو‘ بعض جگہوں میں این جی اوز کی طرف سے گفٹ کے طور پر بچوں کو دی گئی ایسی ٹافیاں پائی گئی ہیں‘ جو دوقسم کی ہیں: ایک ٹافی پر حضور ا کا نام نامی اسم گرامی مبارک لکھا ہوا ہے اور دوسری پر حضرت عیسی علیہ السلام کا نام مبارک لکھا ہوا ہے‘ اس میں ایک ٹافی میٹھی ہے جس پر حضرت عیسی علیہ السلام کا نام لکھا ہوا ہے اور دوسری جس پرمحمد ا کا نام ہے‘ کڑوی بنائی گئی ہے‘ نونہالوں کو یہ تأثر دیا جاتاہے کہ دیکھو حضرت عیسی علیہ السلام اعلیٰ اور اچھے ہیں‘ اس لئے ان کی ٹافی میٹھی ہے‘ بعض علاقوں میں چند لوگ باقاعدہ طور پر ان کے ہاتھوں مرتد بھی ہوگئے ہیں۔ (العیاذ باللہ) آپ سے پوچھنا یہ ہے ان این جی اوز سے کسی قسم کا سامان لینا جائز ہے یا نہیں؟ ان اسلام دشمن اداروں میں کسی قسم کی ملازمت کرنا جائز ہے کہ نہیں؟ جس کی آج کل بہت بہتات ہے‘ بالخصوص نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے۔ کیا ان کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کرنا یا ان کو کرایہ پر جگہ دینا یا دلوانا جائز ہے یا نہیں؟ ان نازک حالات میں علاقے کے غیور مسلمانوں پر کیا فرائض وذمہ دارایاں عائد ہوتی ہیں؟ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دے کر مشکور فرمائیں۔ مسلمانان ہزارہ ڈویژن صوبہ سرحد
الجواب ومنہ الصدق والصواب
واضح رہے کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں مختلف مشینریاں اور ادارے مختلف مقاصد کے تحت فلاحی کاموں میں مصروف ہیں‘ کچھ تو واقعةً انسانی ہمدردی کے پیش نظر نیک نیتی اور نیک جذبے کے ساتھ لوگوں کے امدادی کام کررہے ہیں اور کچھ اپنے ذاتی اور مذہبی مفادات کے تحت کام میں مصروف ہیں‘ انہیں میں سے کئی غیر ملکی این جی اوز ایسی بھی ہیں جو لوگوں کو عیسائی یا یہودی بنانے کے لئے امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں‘ ان فلاحی اور امدادی کاموں کی آڑ میں وہ سادہ لوح مسلمانوں کو عیسائیت کی تعلیم وتبلیغ کرتے ہیں‘ مسلمانوں کو اسلام سے متنفر اور بیزار کرتے ہیں اور مرتد بنانے کی کوشش کرتے ہیں‘ جیساکہ اخبارات کی خبروں سے واضح ہے اور یہ لوگ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت اسلام کے خلاف ایک گھناؤنی سازش کررہے ہیں‘ جس سے بچنا اور دوسرے مسلمانوں کو بچانا ضروری ہے۔ لہذا صورت مسئؤلہ میں مذکور علاقہ میں جو این جی اوز تعاون کے نام پر مسلمان خواتین کو بے پردہ کرنے کی کوشش کررہی ہیں یا کم سن بچوں کو ایسے گفٹ دے رہے ہیں جس سے ان بچوں کو عیسائیت کی طرف راغب کیا جارہا ہے یا امداد کے نام پر عیسائیت کی تبلیغ کرہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض لوگ (العیاذ باللہ) مرتد بھی ہوگئے تو اس صورت حال میں ان اداروں سے کسی قسم کی امداد یا گفٹ لینا ناجائز ہے۔ جیساکہ شرح السیر الکبیر میں ہے:
”عن کعب بن مالک قال قدم عامر بن مالک اخو البراء وہو مشرک فاہدی للنبی ا فرسین وحلتین فقال علیہ السلام: لا اقبل ہدیة مشرک ․․․وانما لم یقبل ہدیة عامر بن مالک‘ لان اباہ کان اجار سبعین نفر ا من اصحاب رسول اللہ ا ثم قتلہم قومہ وہم اصحاب بئر معونة‘ وفی ہذا قصة معروفة‘ فلہذا رد رسول اللہ ﷺ ہدیتہ “۔ (باب صلة المشرک ج:۱‘ص:۹۷ )
فتاویٰ بزازیہ میں ہے:
”ولایقبل ہدیة الکفار ان کان یقل صلابتہ معہم بقبولہا“ ۔(بزاریہ علی ہامش الہندیہ ج:۶‘ص:۳۵۹)
ایسی این جی اوز جو اسلام کے خلاف کام کرہی ہیں‘ ان میں مسلمان نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لئے ملازمت کرنا یا ان کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کرنا یا ان کو کرایہ پر جگہ دینا ناجائز اور حرام ہے‘ کیونکہ یہ اسلام کے خلاف ناجائز کام میں تعاون ہے‘ اور ناجائز کام میں تعاون کرنا جائز نہیں ہے۔ جیساکہ قرآن کریم میں ہے:
”ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان“ (مائدہ:۲)
ترجمہ:”اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو“۔ (بیان القرآن) خلاصہ الفتاویٰ میں ہے:
”لمسلم اذا آجر نفسہ من الکافر لیخدمہ جاز ویکرہ‘ قال الفضلی لایجوز فی الخدمة ومافیہ اضلال“۔(کتاب الاجارات الفصل العاشر فی الحظر والاباحةج:۱‘۱۴۹)
علاقہ کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ان سے اور ان کی اشیاء سے مکمل بائیکاٹ کریں اور ان کے مضمر اور منفی اثرات سے دیگر مسلمانوں کو بھی آگاہ کریں‘ تاکہ کوئی مسلمان خدا نخواستہ ان کے دھوکہ میں آکر ایمان اور اسلام سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے اور جو لوگ سمجھا نے کے باوجود ایسی ”این جی اوز“ سے تعاون کرتے ہیں‘ ان سے بھی بائیکاٹ کیا جائے۔ جیساکہ فتح الباری میں ہے:
”قال المہلب غرض البخاری فی ہذا الباب ان یبین صفة الہجران الجائز وانہ یتنوع بقدر الجرم فمن کان من اہل العصیان یستحق الہجران بترک المکالمة کمافی قصة کعب وصاحبیہ“۔ (کتاب الادب باب ما یجوز من الہجران لمن عصی ج:۱۰‘ ص:۴۹۷)
اور عمدہ القاری میں ہے:
”قال المہلب غرض البخاری من ہذا الباب ان یبین صفة الہجران الجائز‘ وان ذلک متنوع علی قدر الاجرام فمن کان جرمہ کثیرا فینبغی ہجرانہ واجتنابہ ترک مکالمتہ کما فی جاء کعب بن مالک وصاحبیہ“۔ (کتاب الادب باب ما یجوز من الہجران لمن عصی ج:۱۸‘ص:۱۸۶)
الحواب صحیح الجواب صحیح کتبہ
محمد عبد المجید دین پوری
محمد انعام الحق
محمد سہیل
متخصص فی الفقہ الاسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ربیع الاول ۱۴۲۸ھ اپریل ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی سازش
Flag Counter