Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۲۸ھ اپریل ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

3 - 10
مسواک کی فضیلت
مسواک کی فضیلت


اسلا م ایک ہمہ گیر اورہمہ جہت مذ ہب ہے‘ اسلا م نے جہا ں انسان کو دل کے تز کیہ ، دما غ کی تطہیر‘ کان‘ زبا ن اور نظر کی حفا ظت کا حکم دیا ہے وہیں اسے اپنے ظا ہر کو بھی پا ک و صا ف رکھنے کا حکم دیا ہے۔، اسلا م میں نہ تو رہبانیت ہے جس میں ظا ہر ی صفا ئی وستھر ا ئی کو جر م تصور کیا جائے اور نہ ہی اسلام میں ظاہری حسن پر ستی کا کوئی تصور ہے کہ با طن اور دل ودما غ گند گی وغلا ظت سے بھر ے رہیں اور ان کو پاک صاف کرنے کی کوئی کوشش نہ کی جائے۔اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اس لئے اتارا ہے کہ اس سے تطہیر وپاکیزگی اور صفائی ستھرائی کا کام لے سکیں جیساکہ قرآنِ کریم میں ہے:
”وانزلنا من السماء ماء طہورا“
۔ ترجمہ:․․․․”اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی پاک کرنے والا“۔ اور سورة الحج میں ہے: ” ثم لیقضو ا تفثھم “ اپنے جسم سے میل کچیل کو دو ر کر و ۔ اور سورہٴ مدثر میں کپڑ و ں کو بھی پا ک وصاف رکھنے کا حکم دیا ۔ جیساکہ ارشاد ہے:
” وثیا بک فطھر والر جز فا ھجر “
اور اپنے کپڑ ے پا ک و صاف رکھئے اور پلیدی سے دور رہئے ۔ ۱-اللہ تعا لیٰ نے اپنے کلا م مقدس میں خاص طور پراہل قبا کی اس لئے تعریف وتوصیف فرمائی کہ وہ جسمانی صفائی ستھرائی کا خوب اہتمام کرتے تھے جیساکہ سورہٴ توبہ میں ہے:
” فیہ رجال یحبون ان یتطھر واواللہ یحب المطھرین “۔
ترجمہ:”قبا میں ایسے آد می ہیں جو خو ب پا ک وصاف ہو نے کو پسند کر تے ہیں اور اللہ پا ک صا ف رہنے والو ں کو پسند کرتا ہے ۔“ اگر آ پ صرف پا کیز گی کے اعتبا ر سے اسلا م کا مو ا ز نہ دوسر ے مذ اہب سے کر یں تو یقینا آپ یہ تسلیم کریں گے کہ اسلا م دنیا کا پا کیز ہ تر ین مذ ہب ہے ۔ دنیا میں ایسے مذاہب بھی ہیں جن کی تعلیما ت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جسم کے کسی حصے سے با ل نہ کا ٹے جائیں اورنہ صاف کئے جا ئیں۔بتلا ئیے اس کے بغیر پاکیزگی اور صفا ئی کیسے حاصل ہو سکے گی؟ امر یکن ، یو رپین اور انگریز بڑ ے مہذ ب اور صفا ئی پسند کہلا تے ہیں‘ لیکن ان کے ہا ں وضو اور غسلِ جنا بت کا کو ئی تصورنہیں ، استنجا ء میں پا نی کے بجا ئے ٹیشو پیپر استعما ل کیا جا تا ہے، کھڑ ے کھڑ ے پیشا ب کرنا‘ اس کے بعد پا نی یا کسی اور چیز کے استعما ل کئے بغیر چل دینا۔جس کی بناء پر جسم اور کپڑ ے دونوں نا پا ک ہو جا تے ہیں اور وہ ہمیشہ نجا ست اور نا پا کی کی حا لت میں رہتے ہیں۔ ہندو پنڈ توں اور جو گیو ں کے ہاں صفا ئی کا کو ئی اہتما م نہیں ‘ بلکہ ان کی سو چ یہ ہے کہ مہینوں غسل نہ کر نے اور گند ہ رہنے سے بھگوان خو ش ہو تا ہے۔ غر ضیکہ آ پ کسی بھی سو سا ئٹی ، کسی بھی معا شر ہ اور کسی بھی مذہب والو ں کے سا تھ مسلما نو ں کا مو از نہ کرکے دیکھ لیں‘ انشا ء اللہ! آ پ پا کیز گی اور صفا ئی میں مسلما نو ں کو صف اول میں پا ئیں گے۔ ویسے تو اسلا م ہمیں جسم کے ہرحصہ کو پا ک وصاف رکھنے کا حکم دیتا ہے ‘مگر منہ اور دانتوں کی پا کیزگی اور صفا ئی پر بہت زیا دہ زور دیتا ہے‘ اس لئے کہ انسان جو چیز بھی کھا تا ہے اس کا واسطہ اور ذریعہ منہ اور دانت ہی ہیں‘انسان غذا کو دانتوں سے چباتاہے‘ اس کے بعد وہ غذا معدہ میں جاتی ہے۔ منہ اور دانت اگر بدبو دار اور گندے ہوں گے تو بد بودار اور جر ا ثیم آلو دہ کھا نا معد ہ میں جا ئے گا‘ جس سے طر ح طر ح کی مہلک بیماریاں پید ا ہو ں گی۔ دانتوں کو پا ک وصاف رکھنے کے لئے سر کا ر دو عا لم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مسو اک کا حکم دیا ہے۔ مسو اک کے بہت سے فا ئد ے ہیں جن کا ملا حظہ ٓاپ اگلے صفحا ت میں کر یں گے‘ مگر ان میں سے دو فا ئد ے بہت ہی نمایاں ہیں۔۱․․․․ اس سے منہ پا ک و صاف ہوتا ہے‘۲․․․․اللہ تعالیٰ اس سے را ضی اور خوش ہو تا ہے ۔ مسواک نبی کریم ا کی پا کیز ہ اور پیاری سنت ہے‘ اللہ تعا لیٰ کا ارشا د ہے:
” ان کنتم تحبو ن اللہ فا تبعو نی یحببکم اللہ ویغفر لکم ذنوبکم“ ۔ (آ ل عمر ان ۳۱)
ترجمہ:”اگر تم اللہ تعا لیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میر ی اتبا ع کر و اللہ تم سے محبت کر یں گے اور تمہار ے گنا ہو ں کو معا ف کر دیں گے“۔ اس آ یت سے معلو م ہو ا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے نقش قد م پر چلنے سے ایک تو اللہ تعا لیٰ محبت فر ما ئیں گے اور دوسرے گنا ہ معا ف فر ما دیں گے ،بند ے کو اور کیا چا ہیئے؟
کیا شا ن ہے اللہ رے محبو ب نبی کی محبو بِ خدا ہے وہ جو محبوبِ نبی ہے
بند ے کی محبت سے ہے آ قا کی محبت جو پیر و احمد ہے وہ محبو بِ خدا ہے
ہر سنت حضرت پر چل‘ سرکے بل ائے دل کر دے جو خدا تجھ کو ادب دان محمد ا
کیا بات ہے حضرت کی اطا عت کے شر ف کی شا ہا نِ دو عا لم ہیں غلامانِ محمد
یقینی بات ہے کہ انسا ن کی سعا دتِ ابد ی وعز تِ سر مدی خدا وند جل وعلیٰ کی محبت سر کا ر دو عا لم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطا عت وپیر وی پر موقوف ہے ، بالخصو ص جس وقت امت میں کئی قسم کی خر ا بیاں پھیل جا ئیں، سنتو ں کی جگہ بدعات اور رسو ما ت جڑپکڑ لیں معا شر ت ، معا ملا ت اور طرز زند گی میں اعدائے اسلا م کے طر یقے اپنا ئے جا ئیں ،جب سر ور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتو ں پر چلنے والو ں کی تضحیک کی جا ئے‘ طعن وتشنیع اور دل خر اش جملوں سے ان کی مہما نی کیجا ئے‘ ایسے وقت میں جو با ہمت وپُر عزم مسلمان سر بکف ہو کر حضور ا کی سنتو ں پر عمل کر کے ان کو ز ند ہ کر نے میں سر دھڑکی با ز ی لگا ئے گا‘ اسے اللہ تعا لیٰ کی طر ف سے سو شہید و ں کا اجر و ثو اب عطا کیا جا ئے گا‘ جیساکہ حد یث شر یف میں ہے :
” عن أبی ھر یر ة رضی اللہ عنہ قا ل : قا ل رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من تمسک بسنتی عند فسا د أمتی فلہ أجر ما ئة شہید“ (رواہ البیہقی فی کتا ب الز ھد )
ترجمہ․”حضرت ابو ھر یر ة رضی اللہ عنہ سے مر و ی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا دفر ما یا : جس و قت میر ی امت میں فسا د اور بگا ڑ پید ا ہو جا ئے اسو قت جو میر ی سنتو ں کو مضبو طی سے تھا مے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کو سو شہید و ں کا اجر وثو اب عطا ء کر ے گا“ ۔ مسو اک نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم سنت ہے‘ عو ام تو عو ام خواص تک اپنی غفلت اور سستی سے اس سنت کو چھو ڑ ے ہو ئے ہیں‘ ما ڈرن اور بزعم خویش روشن خیال طبقہ اس کو معیوب سمجھ تا ہے، ایسے دور میں جو شخص اس سنت پر عمل پیرا ہوکراسے زند ہ کر یگا اور دو سروں کو اس کی تر عیب دے گا ‘ یقینا وہ سو شہید و ں کے اجر و ثواب کا مستحق ہو گا۔ بند ہ نے اس سعا دت ابد ی کے حصو ل کے حر ص میں شہید اسلا م حضرت علا مہ ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید  کی” کشف النقاب عمایقو لہ الترمذی وفی البا ب“ سے مسو اک کے فو ائد ، مسا ئل اور آ داب کے متعلق سو احا دیث وآثا رپر مشتمل ایک حسین گلد ستہ تیار کیا ہے ۔ بند ہ اپنی اس کاوش ومحنت میں اپنے آپ کو اس وقت کا میا ب تصور کرے گا جب آ پ خود بھی اس پر عمل پیر ا ہو ں گے اور دوسر و ں کو اس کی تر غیب دیں گے ۔ رب کر یم سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مجمو عہ کو قبول فر ما کر میر ے لئے ‘ میر ے والد ین ‘ اسا تذ ہ اور دوست واحبا ب کے لئے رو ز قیا مت سرخ رو ئی و کا میا بی کا ذر یعہ بنا ئے ۔
فرمانِ نبی پہ کان دھرو ! مسواک کرو مسواک کرو
مسواک نبی کی سنت ہے محبوب پیاری خصلت ہے
جو اس سے نماز یں پڑھتے ہیں درجات زیادہ بڑھتے ہیں
اللہ کی رضائیں لیتے ہیں تنویر فرشتے دیتے ہیں
دانتوں کی صفائی ہوتی ہے اور تیز بینائی ہوتی ہے
دانت جو مَل مَل دھوتے ہیں مضبوط مسوڑھے ہوتے ہیں
یہ فہم کو تیز بناتی ہے نسیان کو دور ہٹاتی ہے
مسواک جو ہر دم کرتے ہیں جرثوم تنفس مرتے ہیں
یہ سانس کو صاف چلاتی ہے تکثیر لعاب گھٹاتی ہے
تخریج و بائیں کرتی ہے تحلیل غذائیں کرتی ہے
یہ بلغم صاف کراتی ہے ٹی بی کا اثر دباتی ہے
فرمانِ نبی پہ کان دھرو مسواک کرو‘ مسواک کرو
دانتوں کی خرابی مہلک امراض کا باعث بنتی ہے
جدید و قدیم اطباء اس اصول پر متفق ہیں کہ اکثر امراض جو انسانی صحت کے لئے مہلک ہیں‘ وہ دانتوں کی خرابی سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ جتنی غذائیں انسان کے اندر جاتی ہیں انہیں دانتوں ہی سے واسطہ پڑتا ہے، اب اگر دانت خراب ہوں گے یا مسوڑھوں میں پیپ یا گندہ مواد جمع ہو گا تو ان کے جراثیمی اثرات غذا میں مختلط ہو کر اندر چلے جائیں گے‘ جن کا لازمی نتیجہ ہے کہ وہ زہر یلے جراثیم اندر جا کر مہلک امراض کا باعث بنیں گے۔ ان جراثیم سے بعض اوقات ایسی مہلک بیماریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں جو انسان کو ختم کر کے چھوڑتی ہیں‘ اس لئے تمام ممالک میں دانتوں کی حفاظت کے لئے کئی قسم کے ٹوتھ پیسٹ یا ٹوتھ پاؤڈر اور منجن تیار ہو چکے ہیں‘ ان پر روزانہ کروڑوں روپے خرچ آتاہے۔ اسلام ایک سادہ اور فطری مذہب ہے، اس میں ایک ایسی جامعیت ہے جس میں دین اور دنیا کی تمام بھلائیاں سمٹ کر آ گئی ہیں،چونکہ اس کے ہر عمل میں فطری سادگی ہوتی ہے‘ اس لئے انسان ظاہر میں اس کے فوائد اور نتائج سمجھنے سے قاصر رہتاہے، اسلام میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ نماز کے ساتھ مسواک کر لیا کریں۔ مسواک ایک معمولی درخت کی جڑ سے بنائی جاتی ہے‘ اس کی شکل بھی معمولی اور سادہ ہوتی ہے جو معمولی قیمت پر حاصل ہو جاتی ہے‘ لیکن اس کے استعمال میں اتنے طبی فوائد جمع ہیں کہ عصر حاضر کے محققین ڈاکٹر حضرات بھی رائے دے چکے ہیں کہ اس پیلو کی لکڑی میں ایسا مادہ ہوتا ہے جس کے استعمال سے دانتوں کے جملہ امراض رفع ہو جاتے ہیں ۔ اخوانِ ملت ! اگر آپ اس مسواک کے سادہ فطری طریقہ پر عمل کریں تو آپ رب کی خوشنودی ، اخروی ثواب ورفع درجات کے علاوہ سینکڑوں مہلک امراض سے بھی بچ سکتے ہیں۔
مسواک کی تحقیق اور اس کا حکم
مسواک سِواک سے بنا ہے اور عربی میں” ما یدلک بہ الأ سنان“ یعنی وہ لکڑی وغیرہ جس سے دانتوں کو رگڑا جائے اور یہ ماخوذ ہے” تساو کت الابل“ سے‘ اور یہ اس وقت کہتے ہیں جب کہ اونٹ کمزوری کی وجہ سے آہستہ اور نرم چال چل رہے ہوں، اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسواک نرمی کے ساتھ کرنی چاہیے۔
مسواک کا حکم
: چاروں آئمہ کر ام مسواک کے سنت رسول ہونے پر متفق ہیں اور اصحاب ظواہر کے نزدیک مسواک کرنا واجب ہے ۔ ابن حزم ظاہری صرف جمعہ کے دن وجوب کے قائل ہیں،احادیث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ نبی اکرم ا کے لئے مسواک کرنا واجب تھا۔ مسوا ک کے متعلق ایک بحث یہ ہے کہ یہ سنت وضو ہے یا سنت صلوٰة یعنی وضو کے وقت مسواک کرنا سنت ہے یا جب نماز کے لئے کھڑے ہوں اس وقت سنت ہے؟ حنفیہ کے یہاں مشہور قول کے مطابق سنتِ وضو ہے جبکہ شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک وضو اور نماز دونوں کے لئے سنت ہے‘ لیکن ایک قول کے مطابق حنفیہ کے یہاں نماز کے وقت بھی مسواک کرنا مستحب ہے، جیسا کہ شیخ ابن الہمام نے لکھا ہے کہ پانچ اوقات میں مسواک کرنا مستحب ہے:
۱:․․․
عند اصفرارالأسنان ۔
جب دانت پیلے ہو جائے ۔
۲:․․․
عند تغیر الرائحة۔
جب منہ میں کسی قسم کی بد بو پید اہو جائے۔
۳:․․․
عند القیام من النوم ۔
جب نیند سے بیدار ہو ۔
۴:․․․
عندا لقیام الی الصلوٰة
۔جب نماز کے لئے کھڑے ہوں ۔
۵:․․․
عند الوضو۔
وضو کے وقت ۔
سواس قول کے مطا بق ہمار ے یہاں بھی نما ز کے وقت مسو اک کرنا سنت ہے‘ مگر احتیا ط لا زم ہے‘ اس لئے کہ اگرمسو اک کر نے کی وجہ سے خون نکل آیا تو وضو ٹو ٹ جا ئے گا۔ جن لو گو ں کے مسو ڑ ھے کمز ور ہوں اور مسو ا ک کر نے سے خو ن نکل آتا ہو تو ایسے لو گو ں کو نما ز سے پہلے مسو اک نہیں کر نی چا ہئے ۔ تفصیل مذ کورکی رو سے ہمارے اور شوافع کے درمیان فرق یہ ہو گا کہ ہمارے یہاں سنت ہے وضو کے وقت اور مستحب ہے نما زکے وقت، اور شافعیہ کے یہاں نماز کے وقت بھی سنت ہے ۔ مالکیہ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں بھی سنت و ضو ہے۔ لیکن ان کے یہا ں یہ تفصیل ہے کہ اگر وضو اور نماز کے درمیان زیادہ فاصلہ ہو گیا ہو تو نماز کے وقت بھی سنت ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ اگر وضو اور نماز کے درمیان زیادہ فاصلہ ہو گیا ہو اور تجدید وضو کا ارادہ نہ ہو تو اس صورت میں صرف مسواک کر لیا جائے۔ مسواک کے بیشمار فضائل ، فوائد اور حکمتیں ہیں، نیز حکم شرع ہونے کے ساتھ ساتھ بے شمار طبی فوائد بھی ہیں جو جدیدسائنس اور تحقیق سے ثابت ہو چکے ہیں۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں مسو اک کے فضائل ،فوائد اور حکمتوں کوملاحظہ فرمائیں:
مسواک حق تعالیٰ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے
۱:۔․” عن أبی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: ” السواک مطھرة للفم ومرضاة للرب“۔ ( اخرجہ احمد:۱۔۳،۱۰)
ترجمہ۔” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مسواک منہ کی پاکیزگی اور رب کی خوشنودی کا ذریعہ ہے“۔
۲:۔” عن ابن عمر رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم : علیکم بالسواک فانھا مطیبة للفم مرضاة للرب“ ۔ (رواہ البخاری تعلیقاً فی کتاب الصیام من حدیث عائشة)
ترجمہ:۔” حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ مسواک کا استعمال اپنے لئے لازم کر لو‘ کیونکہ اس میں منہ کی پاکیزگی اور رب کی خوشنودی ہے“۔
۳:۔” عن ابن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعاً۔ السواک مطھرة للفم مرضاة للرب ومجلاة للبصر“‘۔ ( رواہ الطبرانی فی الاوسط والکبیر کما فی الترغیب :۱۔۱۲۹)
ترجمہ:۔․” حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کی مرفوع روایت ہے کہ مسواک منہ کی پاکیزگی اور رب کی رضا مندی اور بینائی بڑھانے کا ذریعہ ہے“۔ مذکورہ احادیثِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مسواک کرنے سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی، اور اس کی رضاحاصل ہوتی ہے‘ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نظیف ہے۔ اور وہ نظافت کو پسندکرتا ہے، مزید یہ کہ موٴمن کا منہ تلاوتِ کلام پاک اور ذکر الہٰی کا محل ہے ‘ محل کی نظافت اور پا کیز گی کا ہونا ذکر و تلاوت کے وقت مستحب اور بندے کا محبوب عمل ہے‘ جو رب کریم کی خوشنودی کاباعث اور ذریعہ بنتا ہے۔ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ربیع الاول ۱۴۲۸ھ اپریل ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: غیر ملکی این جی اوز کی امداد‘ ملازمت اور ان سے تعاون کا حکم
Flag Counter