Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جنوری 2010

ہ رسالہ

7 - 15
ملفوظات حضرت تھانویؒ
ایف جے،وائی(January 22, 2010)

از جدید ملفوظات
(گذشتہ سے پیوستہ)

حضرت حافظ ضامن شہیدؒ کا اپنے پیرومرشد سے تعلقِ محبت کاواقعہ

فرمایا کہ حافظ محمد ضامن صاحبؒ اپنے مرشد حضرت میانجیو کے ہمراہ ان کا جوتہ بغل میں لے کر اور توبرہ گردن میں ڈال کر جھنجھانہ جاتے تھے اور ان کے صاحبزادہ کی سسرال بھی وہیں تھی لوگوں نے عرض کیا کہ اس حالت سے جانا مناسب نہیں وہ لوگ حقیر سمجھ کر کہیں رشتہ نہ توڑ لیں حافظ صاحبؒ نے فرمایا کہ رشتہ ایسی تیسی میں جائے میں اپنی سعادت ہرگز نہ چھوڑوں گا۔

حضرت مولانا اسماعیل شہیدؒ بچپن میں شوخ مزاج اور تیز طبیعت تھے

فرمایا کہ مولانا اسماعیل شہیدؒ بچپن میں بہت شوخ اور تیز طبعیت تھے شاہ عبدالعزیزؒ ہر چند چاہتے تھے کہ یہ وعظ میں آیا کریں مگر یہ بھاگتے تھے ایک روز لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے آئے۔ شاہ صاحب اس وقت بیت الخلاءمیں تھے۔ ان کو خبر نہ تھی انہوں نے لڑکوں سے کہا کہ میں وعظ کہتا ہوں سنو اور درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر چڑھ گئے اور شاہ صاحبؒ کے وعظ کی بعینہ نقل کردی بلکہ اور اپنی طرف سے نفیس افادات زیادہ کردیئے شاہ صاحبؒ جب اندر سے نکلے تو سب کود کود کر بھاگ گئے شاہ صاحبؒ نے فرمایا کہ اب تم کو وعظ میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔

حضرت مولانا اسماعیل شہیدؒ کے بچپن کی شرارت کا واقعہ

فرمایا کہ ایک مرتبہ شاہ عبدالعزیزؒ کا وعظ ہورہا تھا کہ مولانا اسماعیلؒ آئے اور سب کی جوتیاں لے کر سقایہ میں ڈال دیں بعد وعظ لوگوں کو تلاش ہوئی شاہ صاحبؒ کو اطلاع کی شاہ صاحبؒ نے فرمایا کہ یہ اسماعیل کی شرارت ہوگی کہیں سقایہ میں نہ ڈال دی ہو لوگوں نے سقایہ کو جاکر دیکھا تو اس میں ابل رہی تھیں بچپن تھا اور بوجہ محبت کسی کو ناگواری بھی نہ تھی۔

حضرت ضامن شہیدؒ کی صحبت کی برکت سے ایک نوجوان کی اصلاح ہوگئی

فرمایا کہ ایک نوجوان حضرت ضامن صاحبؒ کی خدمت میں آنے لگا تھا حضرت کی برکت سے اس کی کچھ حالت بدلنے لگی اس کے باپ نے حافظ صاحبؒ سے شکایت کی کہ جب سے لڑکا آپ کے پاس آنے لگا بگڑ گیا حافظ صاحبؒ نے جوش میں فرمایا کہ ہم کو تو بگاڑنا ہی آتا ہے ہمیں بھی تو کسی نے بگاڑا ہی ہے ہم کسی کو بلاتے تھوڑی ہیں جس کو سنورنا ہو تو وہ ہمارے پاس نہ آوے ہمیں تو بگاڑنا ہی آتا ہے۔

عاشق احسانی اور عاشقِ ذات و صفت میں کیا فرق ہے؟

فرمایا کہ حضرت حاجی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ بھائی ہم لوگ عاشق احسانی ہیں عاشق ذات و صفات نہیں جب تک احسان رہے محبت ہے اور جہاں ذرا توقف ہوا بس شکایت ہونے لگی اسی پر یہ تفریع فرمائی کہ اگر کسی کے پاس کچھ روپیہ پیسہ حلال کا ہو اس کو احتیاط سے صرف کرے تاکہ ناداری سے پریشانی نہ ہو اسی طرح جس کے پاس حج کے لیے کافی خرچ نہ ہو اور سفر کے میثاق پر صبر نہ کرسکے اس کو حج کہ لیے سفر کرنا مناسب نہیں۔

جنت میں راحت و لذت کسے نصیب ہوگی

فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ سے عرض کیا کہ حدیث میں جو آیا ہے کہ قیامت کے دن جب جنت نہ بھرنے کی شکایت کرے گی اﷲ تعالیٰ ایک مخلوق پیدا کرے گا اور اسے بلا عمل جنت میں داخل کرے گا تو یہ لوگ تو بڑے مزے میں ہوں گے فرمایا انہیں کیا خاک مزہ ہوگاوہ راحت کا لطف کیا اٹھائیں گے جو راحت بعد کلفت کے حاصل ہو اس میں لذت ہوتی ہے۔ جنت میں آرام و چین ہم کو ہوگا جو مختلف شدائد و آلام مصائب و نوائب جھیلے ہوئے ہیں

اے ترا خارے بپا نشکستہ کے دانی کہ چیست

حال شیرا نے کہ شمشیر بلا برسر خورند

حضرت مولانا فتح محمد صاحبؒ کی حد درجہ تواضع اور بے نفسی کا واقعہ

فرمایا کہ ایک نائب تحصیلدار جن کا دورہ تھا نہ بھون و جلال آباد کا تھا وہ حضرت مولانا فتح محمد صاحبؒ کے پاس ملنے آئے مولانا اس وقت موجود نہ تھے سفر میں تھے وہ ایک پرچہ پر ایک طالب علم کو یہ شعر لکھ کر پیش کرنے کے لیے دے گئے

چو غریب مستمندے بہ درت رسیدہ باشد

چہ قدر طپیدہ باشد چوترا ندیدہ باشد

مولانا جب سفر سے واپس آئے تو اس طالب علم نے وہ پرچہ پیش کیا (ظالم نے موقع بھی تو نہ دیکھا) بس مولانا دیکھتے ہی سیدھے جلال آباد پہونچے وہاں دیکھا تو وہ صاحب اپنے ہم عمروں میں ہنسی مذاق میں مشغول ہیں ومولانا دیر تک باہر کھڑے رہے پھر کسی کے ذریعے اطلاع کرائی سنتے ہی سب سہم گئے اور حضرت کو اندر لے گئے فرمایا تمہارا پیام دیکھ کر ملنے آگیا وہ بڑے شرمندہ ہوئے پھر تھوڑی دیر بیٹھ کر حضرت نے اجازت چاہی لوگوں نے اصرار کیا فرمایا کہ سفر سے سیدھا یہیں چلا آیا ہوں گھر جانے کی ضرورت ہے۔ حضرت مولانا بہت متواضع بے نفس تھے پرچہ دیکھ کر یہ خیال ہوا کہ بے چارے کو بڑی تکلیف ہوئی ہوگی بڑی حسرت رہے گی حالانکہ وہ محض شاعری تھی۔

حضرت مولانا فتح محمد صاحبؒ کی مسجد جانے کی حکایت

فرمایا کہ ایک مرتبہ مولانا فتح محمد صاحبؒ ہماری مسجد کو تشریف لارہے تھے مسجد کے سامنے بارش کا پانی بہت بھرا ہوا تھا آپ پانی کے کنارے کھڑے سوچ رہے تھے کہ کیسے اتروں قاری عبداللطیف صاحب پانی پتی جو اس وقت یہاں مدرس تھے وہاں موجود تھے انہوں نے جھٹ گود میں بھر کر پار لاکھڑا کیا اور مولانا بہت ہی منحنی آدمی تھے۔

حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کی ایک مشہور شعر کی تشریح

فرمایا کہ ایک مشہور شعر ہے

اہل دنیا کافران مطلق اند

روز و شب و رزق زق و دریق بق اند

ہمارے مولانا محمد یعقوب صاحبؒ اس شعر کی شرح یوں فرماتے تھے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مولانا نے اہل دنیا کو کافر کہا ہے بلکہ کافران مطلق کو اہل دنیا کہا ہے یعنی پورے اہل دنیا وہ ہی ہیں جو کافر ہیں حاصل یہ کہ اہل دنیا مبتدا اور کافران مطلق خبر نہیں بلکہ اس کا عکس ہے۔

حضرت میانجیوؒ سے حضرت حافظ محمد ضامن شہیدؒ کی بیعت کا واقعہ

فرمایا کہ حافظ محمد ضامنؒ کی درخواست پر حضرت میانجیو نے بیعت سے اول انکار کردیا تھا مگر یہ برابر خدمت میں حاضر ہوتے رہتے اصرار مطلق نہیں کیا جب تقریباً دو تین مہینہ آتے جاتے گذر گئے تو ایک دن میانجیوؒ نے حافظ صاحبؒ سے پوچھا کہ کیا اب بھی وہ ہی خیال ہے حافظ صاحبؒ نے عرض کیا کہ میں تو اسی خیال سے حاضر ہوتا ہوں مگر خلاف ادب ہونے کے سبب اصرار بھی نہیں کرتا اس پر حضرت نے خوش ہوکر فرمایا کہ اچھا وضو کرکے دو رکعت نفل پڑھ آﺅ پھر حضرت نے سلسلہ میں داخل فرمایا۔

مولود کے بارے میں حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ کا مقولہ

فرمایا کہ سیوہارہ میں ایک جماعت نے جن میں مسئلہ مولد میں نزاع ہورہا تھا مولانا محمد قاسم صاحبؒ سے کہ اس وقت وہاں تشریف رکھتے تھے مولود کے بارے میں دریافت کیا توفرمایا کہ بھائی نہ تو اتنا برا ہے جتنا لوگ سمجھتے ہیں اور نہ اتنا اچھا ہے جتنا لوگ سمجھتے ہیں یہ حکایت مولوی محمد یحییٰ سیوہارویؒ سے سنی ہے۔

مکہ معظمہ میں ایک مولود شریف میں شرکت پر حضرت مولانا گنگوہیؒ کے انکار سے حضرت حاجی صاحبؒ نے خوشی کا اظہار فرمایا

فرمایا کہ ایک مرتبہ مکہ معظمہ میں حضرت مولانا گنگوہیؒ سے حضرت حاجی صاحبؒ نے فرمایا کہ فلاں جگہ مولود شریف ہے تم چلتے ہو مولانا نے صاف انکار کردیا کہ نہیں حضرت میں تو نہیں جاسکتا میں تو ہندوستان میں اس کو منع کرتا ہوں حضرت نے فرمایا جزاک اﷲ میں اتنا تمہارے جانے سے خوش نہ ہوتا جتنا نہ جانے سے خوش ہوا۔

(جاری ہے۔)
Flag Counter