Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جنوری 2010

ہ رسالہ

11 - 15
اصلاحی خطوط اور ان کے جوابات
ایف جے،وائی(January 22, 2010)

عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

مولانا منصور الحق ناصر صاحب شیخ الحدیث
جنوبی افریقہ کے خطوط

حال: بخدمت اقدس حضرت عارف باﷲ قطب الاقطاب مجدد وقت مرشدی و سیدی مولائی حضرت مولانا شاہ محمد اختر صاحب مدت ظلالہم و دامت برکاتہم واطال اﷲ بقاءہم السلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ، مزاج اقدس! حضرت والا کے تشریف لے جانے کے بعد پتا چلا کہ چند روزہ صحبت شیخ کامل کے بعد دل کے حالات کیسے بدل جاتے ہیں۔ حضرت والا کی صحبت بابرکت نے میری بگڑی خداکے فضل و کرم سے بنادی اور میرے اندر سے وہ کلام برآمد ہونے لگا جو خود مجھے حیرت میں ڈال گیا۔ کہیں میں نے اس کو یوں تعبیر کیا

دل نے اس محفل دلساز سے پایا کیا کچھ

اتنی لفظوں میں مرے قوتِ اظہار نہیں

کہیں حضرت کی کرامت سے اور فضل خداوندی سے یوں گویا ہوا

ذرا سی دیر میں بگڑی بنائی آقا نے

بنا ہے دل مرا کتنا بنی نظر کتنی؟

اس غزل کے دوسرے اشعار سے بھی حضرت کی نشاط طبع مطلوب ہے

نگاہِ مرشد کامل ہے کارگر کتنی

تجلیات الٰہی ہیں قلب پر کتنی

طویل راہِ محبت ہے کس قدر تنہا

بدوشِ رہبرِ عارف ہے مختصر کتنی

کیا ہے تیغِ محبت نے آرزﺅں کا خوں

اٹھائیں زخم کی لذت دل و جگر کتنی

بفیضِ شوقِ ملاقات کارواں ہیں رواں

خبر نہیں کہ ہے دشوار رہگذر کتنی

سمجھ سکے نہ وہ بیچارے مشکلات مری

تسلّیاں مجھے دیتے ہیں چارہ گر کتنی

ذرا سی دیر میں بگڑی بنائی آقا نے

بنا ہے دل مرا کتنا، بنی نظر کتنی!

ایک اور غزل میں میں نے حضرت والا سے تاثر کو تعبیر کیا ہے

مجھے خبر تھی کہ ہوگی مری مسیحائی

میں اپنے شیخ سے یونہی نہیں مریدہوا

نظر سے مردہ دلوں کو ملی حیات ابد

یہ واقعہ مرا خود اپنا چشم دید ہوا

جب سے حضرت والا کی قدم بوسی کا شرف ملا ہے اب نظر نہ وہ نظرہے اور نہ دل ہی وہ دل ہے۔ ہر تعلق دار اور گھر کے افراد کو حیرت و استعجاب ہے ۔ فقط والسلام باقی آئندہ انشاءاﷲ۔ حضرت والاکی خدمت میں دعاﺅں کی درخواست ہے۔ قاصد جارہا ہے اس لیے معذرت چاہتا ہوں والسلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ۔ منصور الحق غفرلہ

جواب: آپ کے اشعار آپ کے حالات کے غماز ہیں اور زبان کی چاشنی سے نہایت شیریں اور لذیذ۔ بہت دل خوش ہوا اللّٰہم زدفزد و بارک فیہ۔

……………………….

دوسرا خط

حال: از منصور الحق عفا اﷲ عنہ ، ۴۱ بی اپالو روڈ، پی ایم برگ۔ شمسِ دین و فخر دیں چشم و چراغ آسمان زندہ کنندہ زمیں حضرت والا قطب مدارِ قلوب عاشقاں دامت برکاتہم واطال اﷲ بقاہ ، السلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ۔ مزاج اقدس! دل و جان سے دعا ہے کہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ حضرت والا کو صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ دائمہ کے ساتھ عمر دراز نصیب فرمائے آمین ایک کروڑ بار۔

اپنی موجودہ حالت پر گذشتہ کل کے لکھے ہوئے اشعار سے سمع خراشی کا پیشگی معذرت خواہ ہوں

جب میں سمجھوں کہ میں کچھ ہوں تو مجھے خاک کریں

کبر کے روگ سے اے شیخ مجھے پاک کریں

چوریاں ، نفس، تری جب ہیں برابر جاری

ہم بھروسہ تری نیکی کا بھلا خاک کریں

اور حضرت والا دامت برکاتہم پاک مرشد کی برکت سے ابھی ایک شعر عطا ہوا ہے

جب ستانے لگے ان مرشدِ محبوب کی یاد

درد سے آہ کریں، نالہ غمناک کریں

اب دوبارہ کل کی غزل پیش خدمت ہے

میں سمجھتا ہوں مرے شیخ کہ اچھا ہوں میں

پردہ زہد و تقدس کو مرے چاک کریں

تنگی زوجہ طبیعت پہ گذرتی ہے گراں

گھر کی معمولی سی باتیں بھی غضبناک کریں

جواب:

غضب سے تو اگر مغلوب ہوگا

بکے گی پھر زباں واہی تباہی

کسی پر غصہ آئے جب رہے پھر یاد لاتغضب

یہی مومن کا ہے مذہب یہ نسبت کی نشانی ہے

حال:

اپنی اصلاح کی بس ایک ہی صورت ہے اب

اپنے حالات پہ کچھ تبصرہ بے باک کریں

پاتا ہوں جو بسا اوقات میں پندار کی بو

ایسے پندار کا بالکلیہ اہلاک کریں

شعلہ غیظ نے شیرازہ بکھیرا میرا

نذرِ الفت یہ مرا سب خس و خاشاک کریں

پہلی فرصت میں پہنچ جائیں بس اب شیخ کے پاس

اب مزید اپنے مرض کو نہ خطرناک کریں

ہجرِ مرشد میں یہ دو کام ہیں پیارے ناصر

دل کو غمگین کریں، آنکھ کو نمناک کریں

جواب: احقر کے مندرجہ ذیل اشعار کبروجاہ کا بہترین علاج ہیں:

الماری اسرار کے تالے کو ذرا کھول

ظاہر ہوا جاتا ہے ترے ڈھول کا سب پول

اے نطفہ ناپاک تو آنکھیں تو ذرا کھول

زیبا نہیں دیتا ہے تکبر کا تجھے بول

حال: حضرت والا دامت برکاتہم کی مجلس بابرکت سے جو غم عطا ہوا اس سے مرا بال بال حضرت والا کا ممنون اور اﷲ تعالیٰ کا شکر گذار ہے۔ مری غزل کا مطلع ہے

دو جہاں کے بھی عوض میں میں کبھی ہاں نہ کروں

کسی قیمت پہ بھی بیع غم جاناں نہ کروں

لوگ حیران ہیں کہ آخرمیں ہر وقت مرشد پاک کا حوالہ کیوں دیتا ہوں۔ ان کے جواب میں بس اب کیا عرض کروں وہ نہیں جانتے کہ

طفیل انہیں کے ہے جب لازوال سلطنت دل

تو کائنات کے ارض و سمائے عشق وہی ہیں

جواب:

اک عبد پر گماں ہے ہوں اہل کمال میں

وہ کس خیال میں ہیں میں ہوں کس خیال میں

سچا ہی کردکھائے خدا ان کا حسن ظن

قدرت سبھی ہے میرے شہ ذوالجلال میں

حال: خدا عافیت کے ساتھ ہمیشہ کی رفاقت اور دائمی غلامیِ حضرت کے حالات پیدا فرمادے۔ اگر کوئی میرے دل سے پوچھے تو میں یوں کہوں

ما ہرچہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم

الّا حدیث یار کہ تکرار می کنیم

میں نے تو حضرت والا دامت برکاتہم کے قلب وجان مبارک سے یہ سب کچھ لیا ہے الحمدﷲ

ماقصہ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم

از ما بجز حکایتِ مہرووفا مپرس

حضرت مرشدی و مولائی مدت فیوضہم کی جدائی میں دل درد فرقت کی بھٹی نظر آتا ہے۔ اس کے جذبات اشعار وابیات کی رو میں بہتے رہتے ہیں دعائے قبولیت کا خواستگار ہوں

شدت درد محبت ہے ڈھلی لفظوں میں

یہ کوئی شعر ہے ناصر نہ کوئی گانا ہے

جواب: مبارک ہو، محبت شیخ تمام مقاماتِ سلوک کی مفتاح ہے۔ دل و جان سے دعا ہے۔

حال:باقی حالات اگلے عریضے میں عرض کرنے کی سعادت حاصل کروں گا، انشاءاﷲ ۔ حضرت والا کی خدمت اقدس میں حاضری کے لیے میری بکنگ ۱ دسمبر کی ہے بمع بچوں کے۔ برادرم مولانا ممتاز صاحب کی ۵۱ دسمبر ہے، فقط والسلام ۔ محتاج دعا خادم منصور الحق۔

جواب: اے آمدنت باعث صد شادی ما۔ محمد اختر عفا اﷲ تعالیٰ عنہ

……………………….

حال: بیرون ملک سے ایک عالم نے لکھا کہ ان کے یہاں اخباروں میں ایک خبر چھپی ہے کہ ایک شخص جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو (نعوذ باﷲ) حاضر و ناظر اور عالم الغیب کہتا ہے اس نے چیلنج کیا کہ اگر میرا عقیدہ سچا ہے تو آگ مجھے نہیں جلائے گی اور وہ آگ پر چلا اور آگ نے اس کو نہیں جلایا اور اس نے کہا کہ جو یہ عقیدہ نہیں رکھتا اس کو آگ جلا دے گی۔

جواب: مکتوب گرامی ملا، پاکستان میں اس قسم کی خبر کا ہمارے حلقوں میں کسی کو علم نہیں۔ اخباروں میں اس قسم کی لغویات شائع ہوتی رہتی ہیں۔ تمام احباب سے معلوم کیا ہر ایک نے یہی کہا کہ اس طرح کی کوئی خبر یہاں کسی اخبار میں شائع نہیں ہوئی اور بالفرض کوئی اہل باطل آگ میں نہ جلے تو یہ اس کے اہل حق ہونے کی دلیل نہیں۔ آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے ایک کیمیکل اس طرح کا ایجاد ہے جو کسی جُز یا کُل پر لگانے سے اس پر آگ اثر انداز نہیں ہوتی۔ اس طرح ایک کافر وہ کیمیکل لگا کر نہ جلے گا اور ایک مومن جل سکتا ہے جو اس کیمیکل کو نہیں جانتا یا نہیں لگاتا۔ لیکن جہنم میں وہ کافر کوئی کیمیکل نہ پائے گا اور نہ اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے بچ پائے گا۔ خلاصہ یہ کہ قرآن پاک اور حدیث پاک کے مطابق زندگی حق پرست ہے اور اس کے خلاف باطل ہے۔ دنیا میں آگ سے جلنا نہ جلنا معیار حق نہیں۔

نصوص قرآن پاک لو کنتُ اعلم الغیب الخ اور لا یعلم الغیب الا ہو اور حدیث میں واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے ہار گم ہونے کا اگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو علم تھا اور آپ حاضر و ناظر تھے تو اونٹ کے نیچے جو ہار چھپا تھا اس کو کیوں نہیں بتایا اور تیمم کی آیات کیوں نازل ہوئیں۔ اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاضر و ناظر اور عالم الغیب سمجھنا کفر ہے۔ جمہور امت کا اجماعی عقیدہ والے ہی اہل حق ہیں اس کے خلاف سب اہل باطل ہیں۔ کسی شعبدہ بازی سے بنیادی اصول متاثر نہیں ہوتے۔

……………………….

ایک بڑے عالم کو ایک فرو گذاشت پر تنبیہ

مکرم و محترم جناب مولانا صاحب زید رشدھم السلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ۔ تقریباً دو تین ماہ پہلے پاکستان کے رسالہ میں آپ کا ایک مضمون نظر سے گذرا تھا جس کو پڑھ کر سخت صدمہ ہوا کہ آپ جیسے بڑے ذی علم نے ایک ملحد و زندیق کی تعریف کرکے اس کے نظریات باطلہ کی عملاً توثیق کی۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔

یہ عریضہ مدینہ منورہ سے ارسال کیا جارہا ہے اور وجہ تحریر اس کی یہ ہے کہ رات خواب میں دیکھا کہ کسی مقام پر آپ سے ملاقات ہوئی ہے تو احقر نے آپ سے سوال کیا کہ حضرت آپ نے ایک مضمون میں ایک ملحد اور زندیق کی تعریف کی ہے جس سے سخت صدمہ ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ دیکھتا ہوں کہ احقر کے اس سوال پر آپ کچھ متحیر و ششدر سے ہوگئے۔ کچھ توقف کے بعد آپ نے فرمایا کہ دراصل وہ مضمون میں نے نہیں لکھا کسی اور نے لکھ دیا تھا۔ احقر کے دل میں خواب ہی میں یہ خیال آیا کہ یہ جواب صحیح نہیں ہے۔

خواب تو خیر حجت شرعی نہیں لیکن نص قطعی اذا مدح الفاسق غضب الرب تعالیٰ واہتزلہ العرش (مشکوة، کتاب الاٰداب) تو حجت ہے کیونکہ اس شخص کا فسق اعتقادی و عملی تو کھلا ہوا تھا۔ فجوراعتقادی تو یہ کہ ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ نجات کے لیے صرف اثبات توحید کافی ہے تصدیق رسالت ضروری نہیں نعوذباﷲ۔ اور فسق عملی تو ظاہر ہی تھا کہ ڈاڑھی غیر شرعی ٹخنوں سے نیچا پائجامہ کھلم کھلا تصویر کھنچوانااور ہندوﺅں کے مذہبی پیشوا کی سمادھی پر جانا اور وہاں چرخہ کاتنا وغیرہ ۔ افسوس کہ ایسے ملحد کو آپ نے اپنے مضمون میں جابجا ”مولانا“ لکھا ہے۔

ناطقہ سربہ گریباں ہے اسے کیا کہیے

انا اﷲ الخ۔

لہٰذا مودبانہ گذارش ہے کہ اگر یہ مضمون آپ ہی کا تحریر کردہ ہے تو العلانیہ بالعلانیہ کے تحت آپ پرتوبہ علانیہ واجب ہے اور اگر کسی اور نے آپ کے نام سے لکھا ہے تو اس سے بے زاری کا اعلان بھی واجب ہے ورنہ بروز قیامت اندیشہ مواخذہ ہے اعاذنااﷲ منہ وماعلینا الا البلاغ۔

……………………….

ایک عالمِ کبیر کے نام حضرت والا دامت برکاتہم کا والا نامہ

المحترم جناب علامہ …. صاحب، السلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ۔ آپ کی قدرو منزلت اور خدمات دینیہ بالخصوص اہل باطل کے مقابلے میں آپ کے مناظرے میرے قلب و جاں کے لیے باعث صد مسرت ہیں اللّٰہم زد فزد وبارک فیہ و تقبل اﷲ تعالیٰ۔ آپ کی محبت جو میرے قلب میں کئی سال سے محسوس ہورہی ہے وہ اس مرتبہ کی ملاقات سے دفعةً بالغ ہوگئی اور دل چاہتا ہے کہ آپ احقر کے رسالہ مرسلہ کو بغور ملاحظہ فرماکر سلف صالحین اور مشایخ صاحب نسبت کی طرح اہتمام سے اور فکر دوام سے ٹخنوں کو اسبال ازار سے محفوظ فرماکر احقر کو محظوظ فرمائیں گے۔ جزا کم اﷲ تعالیٰ خیرا الجزائ۔

……………………….

حافظ ڈاکٹر ایوب صاحب ماہر امراض قلب مقیم لندن کا ایک عریضہ

حال: حضرت اقدس محبی محسنی و مخدومی پیرومرشد شیخ طریقت مولانا شاہ صاحب دامت برکاتہم السلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ۔ ایک عجیب و غریب خواب دیکھا جس کی لذت اور کیفیت ناقابل تحریر ہے۔ دیکھا کہ ہمارے گھر میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور فرش پر آپ شوق سے کھانا تناول فرما رہے ہیں، میں عین سامنے جالس ہوں، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ململ کا کرتا زیب تن کئے ہیں سر پر سفید رومال کا مختصر سا عمامہ ہے۔ اس مجلس میں محترم استاذ حافظ عبدالرحیم صاحب، والد صاحب تایا صاحب، وغیرہ ہیں۔ دوران گفتگو فرمایا کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کس بات کی خواہش ہے، یہ سوال آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے تین بار کیا اور تینوں بار حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے یہ جواب دیا کہ میں یہ خواہش کرتی ہوں کہ دنیا سے میں آپ کے ساتھ رخصت ہوجاﺅں۔ یہ جواب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عربی میں بھی فرمایا اور پھر اردو میں ترجمہ فرمایااور پھر مسکرائے اور مسرور ہوئے اور کچھ وقفہ کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کھانا تناول فرماتے ہوئے فرمایا کہ حد ہے اور تعجب کی بات ہے کہ لوگوں سے سو مرتبہ بھی درود شریف ایک دن میں نہیں پڑھا جاتا اور اس بات کو آپ نے کئی مرتبہ زور دے کر فرمایا۔ اس وقت میں بعینہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے جالس تھا اور بڑی غور سے یہ گفتگو سن رہا تھا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی میری یہ حالت دیکھی کئی بار۔ پھر جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کھانا تناول فرماچکے تو ہاتھ مبارک دھونے کے لیے میں نے ایک بڑا کٹورا جو برابر میں رکھا ہوا تھا پیش کیا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہاتھ مبارک دھوئے میرے ذہن میں اسی وقت خیال آیا کہ میں یہ پانی پھینکنے کے بجائے خود پیوں گا اور جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہاتھ مبارک دھوچکے تو میں نے اچھی طرح سیر ہوکر تقریباً آدھا کٹورا پانی پی لیا اور ابھی پی ہی رہا تھا کہ میرے ماموں زاد بھائی اسلام الدین نے مجھے ٹوکا کہ پانی ہمارے لیے بھی چھوڑ دو میں نے باقی پانی انہیں دے دیا پانی پیتے وقت میرے دل میں خیال آیا تھا کہ صحابہ کرامؓ تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے وضو کا پانی اپنے ہاتھوں پر لے لیا کرتے تھے اور زمین پر گرنے نہیں دیتے تھے اس لیے تم بھی یہ پانی پی لو۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہم سے ہم کلام تھے تو آپ کے سیدھے ہاتھ کی آستین کہنیوں تک اوپر چڑھی ہوئی تھی اور میں مشتاقانہ آپ کے کھلے ہوئے حسین ہاتھ کی زیارت کررہا تھا اس قدر حسین اور مضبوط ہاتھ میں نے آج تک نہیں دیکھے نیز کہنی تک بال مبارک کی بھی زیارت کی کہ وہ کالے اور سفید کا مجموعہ تھے۔

جواب: عزیز قلبی جناب ڈاکٹر حافظ محمد ایوب صاحب سلمہ اﷲ تعالیٰ و کرمہ السلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ، آپ کے خوابات تو نہایت ہی مبشرات ہیں۔ جس تفصیل سے آپ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے کم لوگوں کو یہ دولت اس قدر تفصیل سے ملتی ہے۔ نہایت مبارک خواب ہے اور آپ کی خوش نصیبی پر آپ کو صدہا مبارکباد پیش کرتا ہوں نیز یہ خواب اس کی بھی بشارت ہے کہ آپ کا شیخ و مربی متبع سنت ہے کہ احقر کا قیام و طعام آپ کے گھر آپ کے ساتھ رہا ہے۔ اور اس دولت کا شکر آپ پر واجب ہوتا جارہا ہے یعنی اتباع سنت نبوی علیہ الصلوٰة والسلام میں نہایت ہمت و اہتمام سے سرشار رہیے۔

حال: اس سے پیشتر اپنے آپ کو خود بہت بلندی پر اڑتے ہوئے دیکھا۔ ایک دفعہ ایک پہاڑی کی وادی کے اوپر پرواز کرتے ہوئے پایا بہت بلندی پر اور وہاں کئی بار قبرستان کو بھی دیکھا۔

جواب: اڑنے کا خواب بھی نہایت مبارک ہے۔ احقر کو بھی ایسے خواب بہت نظر آئے ہیں سلوک میں ترقی کی بشارت ہے۔ ہمارے شیخ کو بھی ایسے خواب اڑنے کے نظر آیا کرتے تھے۔ مجھے تو آپ کے بارے میں اس قسم کے خواب کا انتطار اور شوق تھا۔ بلند پروازی پہاڑ پر اور قبرستان دیکھنا اس میں بشارت ہے کہ آپ نے مُردوں کی طرف اپنے نفس کو مٹانا شروع کردیا ہے یہ پرواز اور بلندی اسی کا ثمرہ ہے۔ من تواضع اﷲ رفعہ اﷲ کی حدیث کی بشارت آپ کو مبارک ہو۔ عد نفسک من اہل القبور (الحدیث) ترجمہ: اور اپنے نفس کو اہل قبور سے شمار کرو۔

حال: فجر کی نماز کے بعد دیکھا کہ آم کھارہا ہوں۔

جواب: آم کھانا بھی اچھا خواب ہے۔ روحانی آم مراد ہیں۔

حال: دوسرے یہ دیکھا کہ سعودی عرب سے وزارة الصحة کا تقرری خط آیا ہے۔

جواب: وزارة الصحة سے تقرری کی تعبیر ظاہر ہے۔ حق تعالیٰ جلد آپ کو بامراد فرمائیں۔

حال: اور یہ بھی کئی بار ہوچکا ہے کہ ہوبہو آنجناب والا کی زیارت بھی خواب میں نصیب ہوئی ہے۔

جواب: احقر کو ہوبہو خواب میں دیکھنا بشارت ہے کہ آپ کی روح احقر کی روح کے ساتھ مناسبت کاملہ رکھتی ہے۔

حال: رمضان المبارک کے اس ماہ میں احقر کی پھر خصوصی عرض ہے کہ آنحضرت اس حقیر کے لیے خصوصی دعائیں فرمادیں۔

جواب: دل و جان سے جملہ مقاصد حسنہ کے لیے دعائیں کرتا ہوں۔ والسلام محمد اختر عفا اﷲ عنہ ۶ شوال ۴۹ھ، ۳۲اکتوبر ۴۷ئ۔

……………………….

حال: اﷲ کے فضل و کرم سے سب خیریت ہے۔ بیان میں حاضری باقاعدگی سے ہورہی ہے لیکن لگتا ہے کہ دینی ترقی رک گئی ہے۔ ذکر پر بھی پوری طرح دوام حاصل نہیں۔ نماز میں بھی خشوع و خضوع نہیں رہا تلاوت کا بھی کوئی خاص دل نہیں چاہتا۔ اﷲ کی محبت میں کوئی ترقی محسوس نہیں ہوتی بلکہ اب تو حالت پہلے سے بھی خراب ہوگئی ہے۔ پہلے خوب دیر دیر تک دعائیں مانگا کرتا تھا اور اﷲ تعالیٰ سے باتیں کیا کرتا تھا لیکن اب یہ بھی نہیں رہا۔ پہلے کوئی بھی بات چھوٹ جاتی تھی تو بھی ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں اﷲ تعالیٰ اس بات سے ناراض نہ ہوجائیں یا اﷲ سے تعلق کمزور نہ ہوجائے۔ اب یہ کیفیت بھی نہیں رہی۔

جواب: کسی گناہ کی عادت تو نہیں ہے۔ فکر کریں اور توبہ کریں۔

حال: اس بات کا بھی خیال آتا ہے کہ آپ مجھ سے ناراض ہیں۔ ناراض نہ بھی ہوں تو کم از کم خوش تو نہیں ہیں۔ پھر یہ بھی سوچتا ہوں کہ میرے اندر کون سی اچھی بات ہے جس سے آپ کو خوش کرسکوں ۔ پڑھائی کی مصروفیات بھی ایسی ہیں کہ بیان کے علاوہ خانقاہ میں حاضری بہت کم ہوتی ہے ظاہری اسباب تو کوئی نہیں ہیں لیکن اﷲ سے دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو مجھ سے خوش فرمادے۔اور مجھے آپ کی خدمت کا موقع دے۔

جواب: میں آپ سے بہت خوش ہوں شیطان کے وسوسہ پر خیال نہ کریں یہ حسن ظن رکھو کہ شیخ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔

……………………….

حال: اﷲ کے فضل و کرم سے آپ کے بتائے ہوئے ذکر کی پابندی ہورہی ہے ماسوائے ایک آدھ دن کی کوتاہی کے۔ میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ذکر ایک جگہ پر بیٹھ کر استخضار کے ساتھ کیا جائے لیکن پھر بھی کبھی کبھار لا الہ الااﷲ کی تسبیحات بس میں ادا ہوتی ہیں۔ میں عموماً ذکر عصر کی نماز کے بعد مسجد ہی میں کرتا ہوں کیا یہ وقت صحیح ہے یا اﷲ کا نام رات کو سونے سے پہلے لینا زیادہ بہتر ہے۔

جواب: جب فرصت ہو وقت مقررہ پر ذکر کرلیا کریں مجبوری پر دوسرے وقت پر بھی کرسکتے ہیں۔ ۴۲ گھنٹے میں پوری تعداد ہونی چاہیے۔

حال: ایک مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ بعض اوقات بس میں سفر کے دوران گانے اونچی آواز میں چل رہے ہوتے ہیں ان کو بند کرنے کے لیے کیا کوشش فرض ہے کیونکہ وہ کہنے سے تو بند نہیں کرتے ہیں اور کیا ایسے وقت میں کان میں انگلی ڈالے رکھنا ضروری ہے۔

جواب: کان میں انگلی بہتر ہے ورنہ آپ تلاوت شروع کردیں۔

……………………….

حال: حضرت اپنی سستی طبع کی وجہ سے کافی مدت کے بعد خط لکھ رہا ہوں معافی کا خواستگار ہوں۔ حضرت والا اس سال سفر عمرہ سے کچھ دن پہلے ذکر اﷲ کررہا تھا کہ محسوس ہوا کہ قلب کو کچھ عطا ہوا ہے۔ خیال ہوا کہ نسبت عطا ہوگئی ہے۔ میرے حضرت اگر یہ چیز محسوس ہو تو کیا واقعی نسبت مل جاتی ہے رہنمائی فرمادیجئے۔

جواب: امید غالب ہے کہ آپ کو نسبت اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمادی ہے حق تعالیٰ شانہ اس کو بقا اور ارتقاءبھی عطا فرمائیں، آمین۔

حال: اس واقعہ کے بعد میرا ہر عبادت کی طرف خوب خوب دل لگ رہا ہے۔ اور ہر چیز میں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی غیبی ہاتھ ہے جو میرے کام دین و دنیا کے بنا رہا ہے ہر کام ہیں اﷲ کے فضل و عطا اور آپ کی دعاﺅں کی برکت سے انتہائی آسانی مہیا ہورہی ہے۔ میرے حضرت عبادت کرتے وقت بعض وقت طبیعت میں اکتاہٹ آتی تھی لیکن الحمدﷲ اب ذکر میں عجیب و غریب لذت محسوس کرتا ہوں، جو اس سے پہلے کبھی بھی محسوس نہیں کی اور میرے پیرو مرشد اس لذت آشنائی سے بے ساختہ زبان پر یہ جاری ہوجاتا ہے

تونے مجھ کو کیا سے کیا شوق فراواں کردیا

پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں کردیا

اے میرے مرشد میں اندھیروں میں پڑا تھا آپ کی تو جہ اور نظر سے دل و جان کی دنیا ہی تبدیل ہوگئی ہے جزاکم اﷲ احسن الجزاء

جواب: مبارک ہو مبارک ہو یہ حق تعالیٰ کا کرم خاص ہے شکر ادا کریں الحمدﷲ تعالیٰ علیٰ ہٰذہ النعمة یہ حق تعالیٰ کا فضل عظیم ہے۔

حال: حضرت والا خط لکھنے میں سستی اور کاہلی ہے دعا فرمادیجئے کہ اﷲ تعالیٰ اس کو دور فرمادیں۔

جواب: یہ صحت کا ضعف ہے بے فکر رہیے۔ ملاقات بھی کافی ہے دل سے دعا کرتا ہوں۔

حال: حضرت والا انتہائی بد سلیقہ انسان ہوں لکھنے میں کوئی کوتاہی گستاخی بے ادبی ہوگئی ہو تو اﷲ کے لیے معاف فرمادیجئے کہ اس بندہ ناکارہ میں یہ سب چیزیں خوب خوب بھری ہوئی ہیں۔

جواب: محبت کے لڈو ٹیڑھے بھی میٹھے ہوتے ہیں مگر آپ کے تو سیدھے سیدھے خوشنما ہیں۔

……………………….

حال: حضرت پچھلے تین چار دن سے ایک عجیب سی کیفیت طاری ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے دل بند ہوگیا ہو قفل لگ گیا ہو۔ نماز یا دوسرے وظائف پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے بہت قریب سے انتہائی صاف شفاف چمکدار پانی بڑی روانی سے بہہ رہا ہے لیکن میرے اور اس پانی کے درمیان ایک شفاف شیشے کی دیوار ہے وہ پانی شیشے میں سے گرتا ہوا بہتا جارہا ہے لیکن میں اس سے استفادہ حاصل کرنے سے معذور ہوں۔

جواب: عمل مقصود ہے کیفیات کی طرف توجہ نہ کریں اور استغفارکرےں۔

حال: دوسرے خیالات اتنے غیر محسوس انداز میں بھٹک جاتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کب نماز ختم ہوگئی یا وظیفہ ختم ہوگیا۔ دل و ذہن کو نماز کے الفاظ کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن یہ کوشش ایک خواب سا محسوس ہوتا ہے۔

جواب: ہلکا خیال کافی ہے۔

حال: حضرت اس سلسلے میں کافی پریشانی ہورہی ہے آپ سے دعا کی استدعا ہے اور راہنما ئی کی بھی۔

جواب: کل ڈاکٹر …. صاحب کو دکھادیں خوش رہا کریں۔

حال: حضرت رات کو ایک خواب دیکھا اس طرح کہ میرا ایک بہت اچھا دوست جو کہ باشرع بھی ہے ایک خوبصورت عورت کے روپ میں آتا ہے ہم ایک جگہ لیٹے ہوتے ہیں اور وہ مجھے کہتا ہے کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ تم اﷲ کی راہ میں چل نکلے ہو۔ جاﺅ ابھی تو تم اﷲ کے راستے کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہو۔ اس کے بعد الارم کی وجہ سے آنکھ کھل جاتی ہے اس کے بعد سے طبیعت میں کافی اداسی سی ہے۔ حضرت اس خواب کے بارے میں راہنمائی فرمائیے۔

جواب: ایسے خواب کو دیکھ کر بائیں طرف تھتکاردیں اور بے فکر رہیں۔
Flag Counter