Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جنوری 2010

ہ رسالہ

15 - 15
خانقاہ اور جامعہ کے شب و روز
ایف جے،وائی(January 22, 2010)

مولانا ارشاد اعظم صاحب
ناظم تعلیمات جامعہ اشرف المدارس کراچی۔

حضرت قاری تقی الاسلام صاحب کا بیان

حضرت استاذ القراءجناب قاری تقی الاسلام صاحب مدظلہم (جن کا تذکرہ گذشتہ سے پیوستہ شمارے میں آچکا ہے۔) کا ماہِ رواں کے پہلے ہفتہ میں جامع مسجد اشرف میں طلباءسے خطاب ہوا، قاری صاحب موصوف نے علماءاور طلباءکی تجوید اور قرات سے بے اعتنائی کا شکوہ فرماتے ہوئے تجوید کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ تجوید شوق کی چیز نہیں کہ شوق ہو تو اس کے حصول کی کوشش میں لگے ورنہ اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہ دی، یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی یوں کہے کہ دیکھو بھئی! نماز تو ضروری ہے اور جس کو شوق ہو وہ وضو بھی کرلے، حضرت قاری صاحب نے جامعہ میں شعبہ تجوید و قرات کے قیام کا ارادہ بھی ظاہر فرمایا، نیز اس حوالہ سے پڑھائے جانے والے نصاب کا اجمالی خاکہ بھی طلباءکے سامنے رکھا، بعد ازاں حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کا بھی مختصر سا بیان ہوا، جس میں انہوں نے قاری صاحب کی جامعہ میں آمد اور اپنے آپ کو طلباءو اساتذہ کی خدمت کے لیے وقف کردینے کے حوالہ سے بڑی مسرت کا اظہار فرماتے ہوئے ہر ایک کو قاری صاحب سے استفادے کے لیے وقت نکالنے کا فرمایا۔ ماشاءاﷲ! طلباءپر اس کا خاطرخواہ اثر ہوا ہے، اور شعبہ حفظ کے اساتذہ و طلباءکے علاوہ شعبہ کتب کے طلباءکی ایک بڑی تعداد بھی فجر اور عصر کے بعد قاری صاحب سے استفادہ کررہی ہے۔

مولانا موسیٰ کی آمد اور بیان

حضرت مولانا موسیٰ صاحب جنوبی افریقہ سے بغرضِ اصلاح حضرت والا دامت برکاتہم کی خدمت میں حاضر ہیں، مولانا جدّی پشتی مسلمان نہیں، ایک عیسائی گھرانے میں آنکھ کھولی، وہیں پلے بڑھے، عیسائیت ہی کو حق اور سچ سمجھتے ہوں گے، اسی پر جینے مرنے کا عزم ہوگا مگر وہ جو

غیر کو اپنا کرے اپنے کو غیر

دیر کو مسجد کرے مسجد کو دیر

اس کی مشیت نے ہاتھ پکڑا، اور تثلیث کی اندھیریوں سے نکال کر توحید کی روشنی تک پہنچادیا، مولانا کو اسلام کے دامن میں پناہ مل گئی، ”نبیوں کا وارث “کتنا عظیم مرتبہ ہے! لیکن جب دینے والا دینے پر آئے تو کون روک سکتا ہے؟ مولانا دارالعلوم آزاد ویل پہنچے، علم کی دولت سے بہرہ مند ہوئے، جب ایمان اور اسلام کو احسان کے نور سے حسین کرنے کی طلب نے تڑپ کی صورت اختیار کی تواﷲ تعالیٰ نے حضرت والا دامت برکاتہم کے قدموں میں پہنچادیا، اور جنوبی افریقہ سے کراچی کا غالباً یہ ان کا پانچواں سفر ہے۔ یہی مولانا تین ہفتے پیشتر جامعہ میں تشریف لائے، جامع مسجد اشرف میں بیان ہوا، عربی، اردو ، انگریزی اور اپنی مادری زبان زولو میں، جی ہاں! چار زبانوں میں اور طلباءکبھی ہنس رہے ہیں کبھی رو رہے ہیں، انگلش جاننے والے تو بہت کم ہیں، اور زولو تو کوئی بھی نہیں جانتا مگر حضرت والادامت برکاتہم جو یہ فرماتے ہیں کہ محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی، اس کا مشاہدہ کھلی آنکھوں سے ہورہا تھا۔ اﷲتعالیٰ مولانا کی عمر ، علم اور عمل میں خوب برکتیں نصیب فرمائےں اور ان سے خوب خوب دین کے کام لیں۔

حضرت مہتمم صاحب کا طلباءسے خطاب

گذشتہ ہفتے حضرت مہتمم صاحب مدظلہم کا فجر کی نماز کے بعد جامع مسجد اشرف میں مختصر بیان ہوا، جس میں انہوں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد ا ملک علیک لسانک و والیسع بیتک وابک علی خطئیتک،کے حوالہ سے بیان فرمایا کہ ہم اپنی زبان کو قابو میں رکھیں ہمارا گھر ہمارے لیے وسیع اور کشادہ ہوجائے یعنی صرف ضرورت کے وقت بقدر ضرورت گھر سے نکلنا ہو اور پھر فوراً واپس گھر کو آجائیں اور ہم اپنے گناہوں پراﷲ تعالیٰ کے حضور روتے رہیں تو اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی اور نجات ہے، نیز یہ بھی فرمایا کہ مدرسہ طالب علم کا گھر ہے، اسے چاہیے کہ وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کو سامنے رکھتے ہوئے حتی الامکان اس بات کی پوری کوشش کرے کہ مدرسہ سے باہر نہ نکلے، اسی میں عافیت اور بھلائی ہے۔

حضرت نائب مہتمم صاحب کا بیان

جمعرات کے دن صبح کے اوقات میں اصلاحی بیانات کا سلسلہ بحمدﷲ حسب معمول جاری ہے، رواں مہینے کی آخری جمعرات کو نائب مہتمم حضرت جناب مولانا محمد ابراہیم صاحب دامت برکاتہم کا بیان ہوا جس میں انہوں نے بطور خاص اساتذہ کا ادب، علم کے ساتھ عمل کی طرف توجہ، جامعہ کی طرف سے بننے والے قوانین کی پاسداری اور صحبتِ اہل اﷲ کی اہمیت کے حوالے سے نصیحتیں فرمائیں اور اس کے ساتھ ساتھ اکابر اہل اﷲ کے حالات و واقعات بھی بیان فرمائے۔ آخر میں سارے عالم اسلام اور بطور خاص وطن عزیز پاکستان کے حالات کی درستگی کے لیے نہایت رقت آمیز دعا فرمائی۔

خانقاہ میں حضرت جناب قیصر صاحب کی آمد

حضرت جناب نواب قیصر صاحب دامت برکاتہم ان مبارک ہستیوں میں سے ہیں جن کا وجود اس گئے گذرے دور میں غنیمت ہے، حضرت تھانوی رحمة اﷲ علیہ کی صحبت سے براہ راست مشرف ہونے والے شاید یہ آخری بزرگ ہیں، حضرت والا دامت برکاتہم سے بہت محبت فرماتے ہیں، اور حد درجے ضعف اور پیرانہ سالی کے باوجود گاہ گاہ حضرت والا سے ملاقات کے لیے خانقاہ تشریف لاتے رہتے ہیں۔ عید کے بعد بھی آپ خانقاہ تشریف لائے تھے، ضعف کی وجہ سے جب ایک آدمی کے سہارے سے حضرت والا کے سامنے بیٹھنے لگے تو فرمایا ”کیسے تھے، کیا ہوگئے“ حضرت والا نے سالکین کو نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کی مرضی کو سامنے رکھو، نفس کے تقاضوں پر عمل نہ کرو، اﷲ کو راضی کرو، اور پھر جوش میں اس آخری جملہ ”اﷲ کو راضی کرو“ کا کئی دفعہ تکرار فرمایا، جب حضرت والا خاموش ہوئے تو حضرت نواب صاحب نے فرمایا کہ حضرت! حضرت تھانویؒ نے آپ کے اس مضمون کو دو لفظوں میں جمع فرمادیا ہے، حضرت والا کے استفسار پر حضرت نواب صاحب نے فرمایا کہ ”دھن اور دھیان“ دھن اﷲ تعالیٰ کی اور دھیان نفس کا، حضرت والا اس سے بہت محظوظ ہوئے۔ پھر جب رخصت ہونے لگے تو حضرت نواب صاحب نے حضرت والا کی پیشانی کا بوسہ لیا اور فرمایا کہ حضرت! اب تو اس شعر کا انتظار ہے

نہ جانے بلالے پیا کس گھڑی

تو رہ جائے تکتی کھڑی کی کھڑی

اﷲ تعالیٰ ان اﷲ والوں کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر بعافیت تامہ قائم رکھیں، اور ہمیں خوب خوب استفادے کی توفیق نصیب فرمائیں۔

عبدالعزیز سوجی صاحب کی آمد

خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گلشن اقبال سے حضرت والا دامت برکاتہم کی نسبت کی خوشبو جو سارے عالم میں اڑی ہے اسی کی برکت ہے کہ اطراف و اکناف سے لوگ حضرت والا دامت برکاتہم کی خدمت میں اس نسبت کو پانے کے لیے دیوانہ وار حاضر ہوتے ہیں، اور یہ سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے، مولانا موسیٰ صاحب جن کا تذکرہ اوپر آیا وہ ابھی تک خانقاہ میں قیام پذیر ہیں، نیز موریشس کی ایک بڑی روحانی شخصیت حضرت والا کے خلیفہ جناب عبدالعزیز سوجی صاحب بھی اپنے بیٹے کے ہمراہ خانقاہ میں بغرض اصلاح آئے ہوئے ہیں۔
Flag Counter