Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جنوری 2010

ہ رسالہ

14 - 15
مدارس پر چھاپے…. ایک سوچا سمجھا منصوبہ
ایف جے،وائی(January 22, 2010)

مولانا محمد حنیف جالندھری
جنرل سیکریٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان

حالیہ دنوں میں دینی مدارس پر چھاپوں کا ملک گیر سلسلہ شروع ہوا۔ اس سلسلے کا آغاز اسلام آباد کے مدارس پر چھاپوں سے ہوا ور بعد ازاں لاہور اور فیصل آباد سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ کراچی کے مدارس تک پھیل گیا۔ اس آپریشن کے دوران بیسیوں مدارس پر چھاپے مارے گئے لیکن کہیں سے نہ تو اسلحہ برآمد ہوا اور نہ ہی کسی مشکوک شخص کی گرفتاری عمل میں آئی۔ پولیس نے اپنی ناکامی اور سبکی مٹانے کے لیے عجیب اوچھے ہتھکنڈوں سے کام لیا۔ آپ کراچی کے مدرسہ رحمانیہ بفرزون کی مثال لے لیجئے، اس ادارے میں قریبی تھانے کے پولیس اہلکار آئے انہوں نے پوچھا ”کیا آپ کے ہاں غیر ملکی طلباءزیر تعلیم ہیں؟“ ادارے کی انتظامیہ نے کہا ”جی ہاں! بالکل ہیں مگر ان کے پاس مکمل سفری اور قانونی دستاویزات، این او سی اور نادرا کارڈ موجود ہیں۔“ پولیس اہلکاروں نے کہا کہ ”بہت اچھی بات ہے، آپ مہربانی فرماکر ان طلباءکو ہمارے ساتھ بھیج دیں، ہم اپنے ہاں ان کے کوائف کا اندراج کرنا چاہتے ہیں۔“ مدرسہ انتظامیہ نے ان طلباءکو پولیس کے ہمراہ بھیج دیا لیکن پولیس نے ان کے کوائف کا اندراج کرنے کے بجائے میڈیا کے نمائندوں کو تھانے بلالیا اور ان معصوم، مظلوم اور مہمان طلباءکو دہشت گردوں کے روپ میں میڈیا کے سامنے پیش کردیا اور ان کی گرفتاری ڈال دی۔ ان طلباءکو اگلے دن جب عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت نے ان کے کاغذات کو تسلی بخش اور قابل قبول قرار دیتے ہوئے انہیں بری کردیا لیکن میڈیا کے ذریعے جو ڈھنڈورا پیٹا جاچکا تھا اس کا ازالہ ممکن نہ تھا۔ اسی طرح کے اوچھے ہتھکنڈے دوسری جگہوں پر بھی بروئے کار لائے گئے۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ مدارس کی انتظامیہ اور تمام مدارس کے نمائندہ وفاقوں نے ہمیشہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون بھی کیا اور اپنے اداروں کو کھلی کتاب کی مانند قرار دیا، یہ مدارس کبھی بھی نو گو ایریا نہیں رہے کہ ان پر پورے لاﺅ لشکر سمیت یلغار کی ضرورت پیش آئے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وقفے وقفے سے ان مدارس کو مشقِ ستم بنایا جاتا ہے اور معمول کی چیکنگ ، کوائف وغیرہ کے حصول، خفیہ نگرانی کے مسلسل اور مربوط سلسلے کے ہوتے ہوئے سمجھ نہیں آتی کہ کیوں کچھ عرصے بعد مدارس پر اس انداز سے چڑھائی کردی جاتی ہے جیسے اسرائیلی فوج غزہ یا بھارتی افواج کشمیر پر چڑھائی کیا کرتی ہےں۔ حالیہ دنوں میں مدارس کے خلاف جن حالات میں کریک ڈاﺅن کیا گیا ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان چھاپوں کے لیے ڈوری کہیں اور سے ہلائی گئی تھی۔ کیری لوگر بل میں چونکہ مدارس کی مشکیں کسنے کی شرط بھی شامل تھی اس لیے اس بل کی وفاقی کابینہ سے منظوری ہوتے ہی مدارس کے خلاف کریک ڈاﺅن شروع کردیا گیا اور عین اس موقع پر جب سینیٹر جان کیری اور جنرل پیٹریاس پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے مدارس پر چھاپے مارے گئے اور لاہور کے مدارس کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب بعض ”اہم مہمانوں“ کی لاہور آمد آمد تھی۔ مدارس کے ذمہ داران نے ایک بات بطور خاص نوٹ کی کہ چھاپے مارنے سے قبل پورے میڈیا کو باقاعدہ اطلاع دے کر ان کی حاضری کو یقینی بنایا جاتا تھا اور پھر اس چھاپہ مار مہم کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا۔ اس سے لگتا ہے کہ یہ آپریشن مدارس کے میڈیا ٹرائل اور ایک منظم مہم کا حصہ تھا۔ ان چھاپوں کے بعد ایک اور بات یہ نوٹ کی گئی کہ بعض نجی چینلز کے بعض اینکر پرسنز نے مداس کو آڑے ہاتھوں لیا اور بعض نام نہاد دانشوروں اور قلم کاروں نے مدارس کے خلاف مزید کارروائی کے لیے ہلہ شیری دی اور بتدریج مدارس کے خلاف ماحول بنایا جانے لگا۔ یہ سب کچھ ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں لگتی ہیں۔

ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے تناظر میں مدارس پر چھاپے مار کر جہاں اس عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے ڈانڈے مدارس سے ملانے کی کوشش کی گئی وہیں حکومتی اداروں نے اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے بھی مدارس کو ہی اپنا ہدف بنایا۔ ہمارے ہاں یہ عجیب ماحول بن گیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی وارداتیں کروانے والی اصل قوتوں کو بے نقاب کرنے کے بجائے ”مرے کو مارے شاہ مدار“ کے مصداق ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے دینی مدارس پر چڑھ دوڑتے ہیں اور اپنے نمبر بنانے اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف اصل تخریب کاروں کو افغانی بھیس، جعلی نمبر پلیٹ، ناجائز اسلحہ سمیت گرفتار کرکے اپنے ”صوابدیدی اختیارات“ کی بنیاد اور ایک فون کال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

مدارس کے خلاف یہ کریک ڈاﺅن ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب وطن عزیز تاریخ کے انتہائی نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے گلے شکوے دور کئے جائیں اور مختلف ناراض طبقات کے خدشات کے ازالے کی فکر کی جائے جبکہ ہمارے ارباب اختیار الٹا نت نئے محاذ کھول رہے ہیں اور مدارس کے لاکھوں طلباءہزاروں علما اور مدارس کے ملک بھر میں پھیلے معاونین اور متعلقین میں تشویش و اضطراب پیدا کرکے وطن عزیز کو مزید بدترین حالات اور بحرانوں سے دوچار کررہے ہیں، موجودہ حالات میں مدارس کے خلاف چھاپے جہاں غلامانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں، وہیں بدترین نا عاقبت اندیشی کے زمرے میں بھی آتے ہیں۔ اس وقت اعلیٰ سرکاری حکام کو سوچنا چاہیے کہ کہیں کوئی ایسی خاص قسم کی لابی تو نہیں جو دانستہ طور پر حالات کو بگاڑنا چاہتی ہے اور حکومت اور دینی قوتوں کے مابین محاذ آرائی کے لیے راہ ہموار کررہی ہے۔

مدارس پر حالیہ چھاپے مدارس کے خلاف امتیازی سلوک بھی ہے کیونکہ وہ عصری ادارے جہاں سے آئے روز اسلحہ برآمد ہو رہا ہے، جہاں قتل و غارتگری اور طلباءکے مابین تصادم روز کا معمول بن گیا ہے ان کے خلاف کریک ڈاﺅن کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی اور سارا نزلہ صرف مدارس پر گرایا جاتا ہے۔ اسی طرح نجی ہاسٹلز، ہوٹلوں اور دوسری جگہوں پر کریک ڈاﺅن نہیں ہوتا صرف مدار س کے خلاف ہی کیوں ہوتا ہے؟

دینی مدارس جہاں سے ہر وقت قال اﷲ و قال الرسول اﷲ کی صدائیں گونجتی ہیں، جہاں ملک کے استحکام و سالمیت کے لیے قرآن کریم کا ختم، سورہ یٰسین کی تلاوت اور آیت کریمہ کا ورد کیا جاتا ہے، وہاں اس طرح چھاپے مار کر ان اداروں کا تقدس پامال کرنا نہایت افسوسناک ہے۔ بعض جگہوں سے یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ پولیس اہلکار جوتوں سمیت مسجدوں میں گھس گئے، بعض جگہوں پر بچیوں کے مدارس میں چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال کیا گیا۔ یہ کس قدر شرمناک بات ہے؟ پاکستان کے عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ دینی مدارس کو اس لیے نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ وہ مراکز جو اسلام کی حفاظت کے قلعے ہیں ان میں نقب لگائی جائے اور جو ادارے لوگوں کے دین سے وابستگی اور حصول علم کا ذریعہ ہیں ان کو بدنام کردیا جائے اس لیے اس قسم کے کریک ڈاﺅن کا سلسلہ فی الفور بند ہونا چاہیے تاکہ عوامی تشویش و اضطراب کا خاتمہ ہوسکے۔

میں نے ان چھاپوں کے بعد تقریباً ہر مدرسہ کی انتظامیہ اور مہتمم صاحبان سے رابطہ کیا، ان کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کی، اس دوران یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی کہ اس قسم کی کارروائیوں سے ملک بھر میں بہت زیادہ اشتعال اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ان چھاپوں کے بعد راولپنڈی ، اسلام آباد کے علماءکرام نے تمام اہم سرکاری شخصیات اور اعلیٰ حکام سے وفد کی صورت میں ملاقاتیں کیں، اسی طرح کراچی کے علماءنے گورنر سندھ سمیت دیگر لوگوں سے گفتگو کی اور خود میں نے وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک، سیکریٹری داخلہ آئی جی پنجاب ، ہوم سیکریٹری، چیف کمشنر اسلام آباد اور دیگر تمام اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی مدارس کے خلاف ہونے والے کریک ڈاﺅن کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ ہر ایک دوسرے پر ڈال رہا ہے اور زبانی طور پر مدارس کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی جاتی ہے لیکن عملاً پھر مدارس پر چڑھائی کردی جاتی ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ تعلیم و تعلم میں مصروف لوگوں کے غم و غصہ اور مدارس کے طلباءکے اشتعال کو آخر کب تک کنٹرول کیا جاسکتاہے اور ہم یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس صورتحال کو کیا نام دیا جائے؟ …. قول و فعل کا تضاد کہا جائے یا کسی تیسری قوت کی کارستانی؟ …. اسلام دشمنی سمجھا جائے یا استعماری قوتوں کی غلامی؟ …. اور متاثرہ فریق کو صبر و تحمل کی ترغیب دیں یا لانگ مارچ کی تیاری؟…. کیوکہ اس ملک میں لانگ مارچ کے بغیر نہ تو کوئی مطالبہ منوایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اپنا حق حاصل کیا جاسکتا ہے۔ 
Flag Counter