حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ نے رسول اللہﷺ سے حجامت (حجامہ لگوانے) کی اجازت چاہی، تو آپﷺ نے ابو طیبہ کو حکم فرمایا کہ وہ حضرت ام سلمہؓ کو حجامہ لگائے۔ (راوی کہتے ہیں کہ) میرا خیال ہے ابو طیبہ نے کہا کہ وہ ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ کے رضاعی بھائی ہیں، یا وہ نا بالغ تھے۔
ضرورت کے تحت عورتوں کیلئے نامحرم مردوں کا علاج معالجہ کرنا اور اسی طرح مردوں کیلئے نامحرم عورتوں کا علاج معالجہ کرنا جائز ہے۔ بخاری کی درج ذیل روایت سے اس کے جواز کا ثبوت ملتا ہے:
عَنْ الرُّبَیِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ بْنِ عَفْرَائَ قَالَتْ: کُنَّا بِغَذْوٍ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِﷺ نَسْقِي الْقَوْمَ وَنَخْدِمُہُمْ وَنَرُدُّ الْقَتْلَی وَالْجَرْحَی إِلَی الْمَدِیْنَۃِ۔
حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراءؓ فرماتی ہیں کہ ہم (خواتین) ایک غزوہ میں رسول ﷺ کے ساتھ تھیں۔ صحابہ کرام کو پانی پلاتی تھیں اور ان کی خدمت کرتی تھیں اور شُہَدا اور زخمیوں کو واپس مدینہ لے آتی تھیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری جلد (۱۰) صفحہ نمبر (۱۱۱) میں فرمایا کہ مذکورہ حدیث ’’وندادي الجرحی ونرد القتلی‘‘ (یعنی ہم زخمیوں کا علاج اور شہدا کو مدینہ لے آتی تھیں) کے الفاظ سے بھی وارد ہوئی ہے۔ اس حدیث سے عورتوں کیلئے مردوں کے علاج کا جواز ثابت ہوتا ہے تاہم مردوں کیلئے نامحرم عورتوں کا علاج معالجہ اس حدیث پر قیاس کرتے ہوئے ثابت کیا جائے گا۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ضرورت کے وقت نا محرم مرد یا عورت کا علاج معالجہ جائز ہے اور ضرورت کے وقت نا محرم مرد یا نا محرم عورت کا دیکھنا اور ہاتھ لگانا جائز ہے۔
حجامہ کن تاریخوں میں لگانا چاہیے؟
قمری مہینے کی ۱۷، ۱۹ اور ۲۱ تاریخوں میں حجامہ لگانا چاہیئے۔