Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن25 تا 31 جولائی 2014

ہ رسالہ

9 - 9
متاثرین کو بھی یاد رکھیں!

تفصیلات
    مشاہدات: 13 

دنیا بھر میں مہاجرین کو دو بڑے گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک ’’آئی ڈی پیز‘‘ (Internally displaced person) کہلاتا ہے۔ یہ گروہ اپنے ہی ملک کے اندر کسی آفت کا شکار ہو کر ہجرت پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دوسرا گرو ’’ای ڈی پیز‘‘ (Externally Displaced Persons) کا ہو تا ہے۔ یہ گروہ بیرونِ ملک ہجرت کر جاتا ہے۔ پچھلی ایک صدی میں ای ڈی پیز کی سب سے بڑی تعداد فلسطینی مسلمانوں کی ہے جو 51 لاکھ کی تعداد میں دنیا کے مختلف ملکوں میں بکھر گئے ہیں۔ انہیں صہیونی آندھیوں نے جڑوں سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ دوسرے نمبر پر افغان مہاجرین ہیں جن کے گھر گھروندے روسی طوفانوں نے مسمار کردیے۔ ان میں 40 لاکھ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں سکونت پر مجبور ہو گئے۔ تیسرے نمبر پر شامی مہاجرین ہیں جن کو بشارالاسد کی حرص اقتدار نے مہاجر بنا دیا۔ 25 لاکھ سے زیادہ شامی باشندے مصر، عراق، اُردن اورلبنان میں پناہ گزین ہیں۔ چوتھے نمبر پر صومالیہ ہے جس کے 11لاکھ 21 ہزار باشندے سرحدیں عبور کر کے پڑوسی ملکوں میں چلے گئے ہیں۔ چوتھے نمبر پر سوڈان ہے جس کی آبادی کا 6 لاکھ 36 ہزار حصہ ملک چھوڑکر چلا گیا۔ ساتویںنمبر پر عراق ہے جس کے 4 لاکھ ایک ہزار مسلمان غریب الوطنی پر مجبور ہو گئے۔ یہ تعداد ہمیں بتاتی ہے کہ آج کی دنیا میں آفات کی برق سب سے زیادہ مسلمانوں پر گرتی ہے۔ اسلامی ملکوں کو حکمرانوں کی ہوس اقتدار، بیرونی طاقتوں کی مداخلت، ان کے وطن پر بزورقبضہ، خانہ جنگیاںاپنا گھر بار چھوڑدینے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ بیسویں صدی اور اب اکیسویں صدی میں بھی مسلمان نسبتاً سب سے زیاد ہ تباہ حال قوم ہے۔ ان کا مقدر بے نشان رہگزاروںکی دھول ہے۔

ان کا نصیب وطن سے دوری ہے۔
اگر ہم آئی ڈی پیز کو دیکھیں تو یہ زلزلے، سیلاب، سمندری طوفان یا پھرلینڈسلائڈنگ کی وجہ سے اپنے ملک کے اندر مہاجر ہو جاتے ہیں۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ایسی مثالیں بہت ہی کم ہیں کہ ان کو کسی فوجی آپریشن کے نتیجے میں نقل مکانی کرنی پڑجائے۔ پاکستان میں سوات آپریشن کے بعد یہ دوسرا آپریشن ہے جس میں 5 لاکھ 72 ہزار پاکستانیوں کو شمالی وزیرستان سے ایک دن کے نوٹس پر نکلنا پڑا۔ 13 جون 2014ء کا دن ان لوگوں کے لیے قیامت کی گھڑی تھا۔ انہیں قبائلی جرگہ نے ایک دن کے اندر اندر شمالی وزیرستان چھوڑدینے کا حکم دیا۔ آپ اندازہ کیجیے کہ ان لوگوںکو کس درجہ اذیت کا شکار ہونا پڑا ہو گا۔ یہ لوگ شدید گرمی، حبس اور ’’لو‘‘ کے تھپیڑوں میں گھروں سے نکل پڑے۔ انہیں راشن پانی اکھٹا کرنے کی مہلت بھی نہ مل سکی۔ پسماندہ قبائلی زندگی برق رفتار ٹرانسپورٹ کی سہولتوں سے محروم ہے۔ یہ لوگ تن تنہا پیدل افتانو خیزاںدوڑ پڑے۔ ان میں سے ایک لاکھ 12 ہزار افغانستان میں خوست اور پکتیکاکی طرف نکل پڑے جن سے شمالی وزیرستان کی مغربی سرحدیں ملتی ہیں۔ زیادہ تر مشرق میں بنوں اور کرک کی سمت روانہ ہوئے۔ سفری اذیتوں نے متعدد بوڑھوں، عورتوںاور بچوں کی جانیں لے لیں۔ درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ 40 گھنٹوں کا سفر تھا، جب یہ بنوں پہنچے تو ان کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی خاص خاطرخواہ انتظامات نہ تھے۔ یاد رہے کہ سوات آپریشن میں مہاجرین کی تعداد ان سے دوگنی تھی، مگر ان میں سے ہر ایک کوخیمے، راشن، پانی، دوائیاں، ڈاکٹر مہیا کیے گئے تھے۔ اس ہجرت میں بچے قے، دست اور پیٹ کی دوسری بیماریوں کا شکار ہو گئے۔ بوڑھے تاب و تواں کھو بیٹھے۔ عورتیں جنہوں نے زندگی بھر کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا تھا، اب اناج اور بچوں کی خوراک کے لیے ماری ماری پھرنے لگیں۔ بہادر غیور قبائلیوں کو شدید ترین گرمی میں راشن کے لیے میلوں لمبی قطاریں بنانی پڑیں۔ انہیں خالی پیٹ رجسٹریشن کے بعد 12 ہزار روپے دیے گئے، جن میں رہائش کے سامان کے لیے 5 ہزار اور اشیائے خوردونوش کے لیے 7 ہزار شامل ہیں۔ وزیراعظم نے 20 ہزار روپے ماہانہ کا اعلان کردیا ہے۔ وزارت خزانہ نے ڈیڑھ ارب روپے کے فنڈز جاری کردیے ہیں۔ صوبائی حکومت اس بڑے کرائسس کے لیے مرکز سے 6 ارب روپے مانگ رہی ہے۔ 44 ہزار 633 خاندانوں کی رجسٹریشن ہوئی۔ 32 کروڑ 95 لاکھ روپے ان میں بانٹے گئے۔ ساڑھے 4 ہزار ٹن امدادی اشیاء مہیا کی گئیں۔ بنوں کے 3 بڑے امدادی سینٹروں میں حالات اس درجہ ناگفتہ بہ ہیں کہ شدید گرمی میں انسانی رہائش جہنم میں قیام کے مترادف ہے۔ 14 جون سے لے کر اگلے 10 دن شدید بدانتظامی اپنے نقطہ عروج پر رہی۔ اس انسانی المیے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ متعدد خاندان اپنے بچے اور دیگر افراد خانہ راستے میں گم کر بیٹھے۔ قیامت کا سماں تھا۔
مائیں دیوانہ وار خوراک ہاتھوں میں لیے اپنے بچوں کو آوازیں دے رہی تھیں۔ بی بی سی نے ایک خاتون دکھائی جس نے کئی دن تک ایک لقمہ خوراک حلق سے نہ اتارا تھا۔ وہ اپنے گمشدہ بچے کی تلاش میں دیوانہ وار چلچلاتی دھوپ میں ہر خیمے میں جھانکتی پھر رہی تھی۔ متعدد مہاجرین کے پاس ایک جوڑا کپڑے تھے۔ ان کا سب کچھ وزیرستان میں رہ گیا تھا۔ 15 لاکھ مال مویشی بے آسرا ہونے کی وجہ سے اندیشہ ہے موت کے گھاٹ اترجائیں گے۔ گھر کی چھت کتنی بڑی نعمت اس کا اندازہ ان لوگوں کی بپتا سے لگایا جا سکتا ہے۔ متعدد زار و قطار روتے ہیں۔ نہ بجلی، نہ پانی خوراک کی تقسیم میں کئی افراد کو اسپورٹس کمپلیکس میں مارا پیٹا گیا۔ ان کے آنسو نہ تھمتے تھے۔ رجسٹریشن کے پیچیدہ عمل میں ہزاروں متاثرین گھروں سے شناختی کارڈنہ لانے پر خوراک کی فراہمی والی فہرست سے خارج ہو گئے۔ نابالغ لڑکوں سے بھی شناختی کارڈ مانگے جاتے رہے۔ عدم فراہمی پر ان کو رجسٹر نہیں کیا گیا۔ فارموں پر مہر نہ ہونے سے وہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دربدر بھیک مانگنا شروع ہوگئے۔ ایسے افراد کی تکلیف دیکھ کر مہاجرین نے اپنی خوراک کا بیشتر حصہ ان میں بانٹ دیا۔ یوں ایثار و ہمدردی کے اعلیٰ نمونے بھی دیکھنے میں آئے۔
ٹانک، لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان کے کیمپوں میں سہولیات شدید کم پائی گئیں۔ کھانا کھانے، پانی پینے کے برتنوں کی کمی، حوائج ضروریہ کے لیے خاطرخواہ انتظا م کا نہ ہونا ان کیمپوں میں زندگی کو اذیت بنا رہا ہے۔ پیٹ کی بیماریوں کی وبائیں پھیل گئی ہیں۔ ہسپتالوں میں ادویات ناپید ہیں اور مریضوں کے لیے بستر نہ ہونے کی وجہ سے برآمدوں میںچادر بچھا کر مریضوں کو لٹا دیا جاتا ہے۔ لوگ خیموں میں اناج کی بوریوں پر سر رکھ کر سوئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ رمضان کی آمد اور 16 گھنٹے کے روزوں نے اس بدانتظامی کو مزید عریاں کردیا۔ بیرون ملک سے بھی امداد آنا شروع ہوگئی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ غریب الوطنی کے گہرے گھائو پر مہربانی کی مرہمیں فراہم ہونا شروع ہو جائیں گی۔ چند دنوں تک حالات میں کافی بہتری کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ خدا ان لوگوں کی تکلیفوںں کو کم کرے۔
بدقسمتی سے 2005ء کے زلزے اور 2010ء کے سیلابوں میں قوم نے انسانی ہمدردی کے جو گہرے نقوش چھوڑے تھے، وہ اس بار نظر نہیں آئے۔ چند مخیر حضرات، کچھ اسلامی فلاحی تنظیموں اور پاکباز علمائے کرام کے علاوہ سول سوسائٹی نے اس سنگین انسانی المیے پر لاتعلقی کی خاموشی طاری کیے رکھی۔ رمضان کے مہینے میںجب پتھردل بھی موم ہو جاتے ہیں، ہم نے من حیث اقوام اپنا اجتماعی فرض ادا نہ کیا۔ ہمیں چاہیے تھا کہ اپنی خوراک کا کچھ حصہ، اپنے کپڑوں کا ایک جوڑا ان بدقسمتوں کے لیے دے دیتے۔ کون جانتا تھا وہ لوگ اس سال روزوں کے مہینے میں ہوں گے۔ ان کی نمازِ عید اپنی آبادیوں میںعید گاہوں میں نہ ہو گی۔ وہ صاف ستھرے لباس پہن کر خوشبو عطرسے ملک کے دوست احباب سے عید نہ مل پائیں گے۔ ان کی عید کا دن محرم کی سرحد سے جا ملے گا۔ وہ اپنے ہی وطن میں اجنبی ہوجائیں گے۔
مرکزی اور صوبائی حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اہم ترین ذمہ داری کو نبھانا ہو گی۔ متاثرین کے سر پر دست شفقت رکھنا ہو گا۔ ان کی بہتر رہائش، اشیاء خورنوش، علاج معالجے کو اولیت دینا ہو گی۔ انہیں زندگی کی اس نازک گھڑی میں بے آسرا چھوڑ دینا بہت بڑا اخلاقی جرم ہوگا۔ کوشش کی جائے کہ ان کی عزت نفس بحال ہو۔ وہ قطاروں میں قہر برساتے سورج تلے کھڑے نہ ہوں۔ افرادی قوت مہیا ہو جو ان کو دہلیز پر تمام اشیائے ضرورت مہیا کر سکیں۔ ان کی دستگیری ہو۔ گھر کا سکون چھن جانے کے بعد انہیں مہاجرت کی سنگین سختیاں کم سے کم سہنا پڑیں۔ ریاست کو اپنی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیں۔ اگر ہم سوات آپریشن کے وقت متاثرین کو بہتر سہولتیںدے پائے تھے تو کوئی وجہ نہیں کہ اب ہم اس میں ناکام ہو جائیں۔
یہ درست ہے کہ آپریشن الٹی میٹم کے بغیرشروع ہوا۔ ایک افتادناگہانی کی طرح یہ متاثرین کو بہا کر لے آیا ہے۔ اس کے باوجود ہماری حکومت کو ہر وقت کسی بھی مشکل گھڑی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہر بار ہم بیرونی طاقتوں کے بازوں کا سہارا ڈھونڈنا چاہتے ہیں۔ ہم اقوام متحدہ یورپی یونین جی ایٹ، دولت مشترکہ وغیرہ کی طرف التجا بھری نظریں اٹھائے منتظر رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہیے۔ ہم جو وزیراعظم کے 12 ماہ میں 14 بیرون ملک دوروں پر 26 کروڑ روپے خرچ کر دیتے ہیں۔ ہمیں ہر دورہ 2 کروڑ میں پڑتا ہے۔ اگر ہم سادگی اپنائیں، ہمارے وزراء مشیر، سفیراور بیورو کریٹ کفایت شعاری کی راہ پر چلیں تو ہمارا خزانہ خالی نہ ہوگا۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جس پر خدا کی خصوصی عنایات ہیں۔
- See more at: http://zarbemomin.com.pk/index.php/yasir-muhammad-khan/160-mutasareen-ko-bhi-yad-rakhain#sthash.GqnZIocm.dpuf
Flag Counter