Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن25 تا 31 جولائی 2014

ہ رسالہ

4 - 9
ایثار کی مثال
حضرت ابوطلحہ انصاریؓ انصار میں سے سب سے زیادہ دولت مند تھے۔ ان کی اپنی وسیع جائیداد تھی۔ اس جائیداد پر عالی شان کھجور کے باغات بھی تھے۔ ان باغوں سے آپ لاکھوں درہم کماتے تھے۔ آپ کا باغ تھا ’’بیرحائ‘‘۔ یہ باغ آپ کو بہت پیارا تھا۔ اگر دنیا میں کوئی چیز حضرت ابو طلحہ انصاریؓ کو پسند یا محبوب تھی تو وہ یہ ’’بیرحائ‘‘ باغ تھا۔ یہ باغ انہیں کیوں محبوب تھا؟ اس کی وجہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ ہمارے نزدیک یہ اس لیے محبوب ہوا ہوگا، کیونکہ اس سے آپ لاکھوں درہم کماتے تھے، لیکن حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کو یہ باغ اس لیے پسند نہیں تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد کبھی کبھی اس باغ میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اس باغ سے تازہ پانی نوش فرماتے تھے۔ ابوطلحہ انصاریؓ کو یہ باغ بس اس وجہ سے زیادہ محبوب تھا اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جایا کرتے تھے۔ پانی نوش فرماتے تھے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔ دوسری وجہ مسجد نبوی کے سامنے واقع ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں نماز ادا فرما لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں شرکت کا شرف مل جاتا تھا یعنی دین اور دنیا ساتھ ساتھ چل رہے تھے، اس لیے حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کو یہ باغ بہت عزیز تھا۔
ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی ایک آیت نازل ہوئی۔ سورۃ آل عمران کی اس آیت کا ترجمہ ہے: ’’نیکی اور مقبولیت کا مقام تم کو اس وقت تک نہیں حاصل ہو سکتا جب تک کہ تم پنی محبوب ترین چیزوں کو راہِ خدا میں خرچ نہ کرو۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس حکم خداوندی کو صحابہ تک

پہنچایا تو حضرت ابوطلحہ انصاریؓ یہ ارشاد سن کر چونک اٹھے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے۔ حضرت ابوطلحہ انصاریؓ بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے۔ عرض کرنے لگے: یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے اور مجھے اپنے سارے مال سے سب سے زیادہ محبوب ’’بیرحائ‘‘ ہے، اس لیے اب وہی میری طرف سے اللہ تعالیٰ کے لیے صدقہ ہے۔ مجھے امید ہے آخرت میں مجھے اس کا ثواب ملے گا اور میرے لیے ذخیرہ ہوگا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں وہ فیصلہ فرمادیں جو اللہ تعالیٰ آپ کے ذہن میں ڈالے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ انور پر مسکراہٹ بکھرگئی۔ فرمایا: ’’واہ واہ! یہ تو بڑی نفع مند اور کارآمد جائیداد ہے۔ میں نے تمہاری بات سن لی۔ تمہاری منشاء سمجھ لی۔ میں سمجھتا ہوں تم اس کو اپنے ضرورتمند قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔‘‘ حضرت ابوطلحہ انصاریؓ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! میں یہی کروں گا۔‘‘ چنانچہ حضرت ابوطلحہ انصاریؓنے وہ باغ اپنے قریبی رشتہ داروں اور چچازاد بھائیوں میں تقسیم کردیا۔


٭ صحابہ کرامؓ کے ایمان کی حقیقی تصویر اور عمل و ایثار کی یہ مثال ہم اُمت کے لیے مشعل راہ ہے۔ ٭ عید کے اس موقع پر پاکستان بھر میں غریب اور نادار صاحبِ ثروت حضرات کی راہ دیکھ رہے ہیں ٭

یہ باغ اس قدر قیمتی تھا بعد میں حضرت معاویہؓ نے صرف حضرت حسان بن ثابتؓ کا حصہ ایک لاکھ درہم میں خریدا تھا۔
یہ ہے راہ خدا میں خرچ کرنے کا حقیقی جذبہ۔ حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کے اس جذبۂ ایثار کو سامنے رکھیں تو فی زمانہ ہم میں سے کون ہے جو اپنی قیمتی اور محبوب ترین جائیداد بارگاہ خداوندی میں صدقہ کردے؟ ہم میں ہے کوئی جو اپنے پورے کے پورے باغ کو ایثار کر دے؟ یہ ہے صحابہ کرامؓ کے ایمان کی حقیقی تصویر اور عمل و ایثار کی یہ مثال ہم اُمت کے لیے مشعل راہ ہے۔ ہم اگر اس مثال کو بنیاد بنائیں اور معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں اپنا معاشرہ تقسیم در تقسیم دکھائی دے گا۔ مثال کے طور پر ہمارے یہاں ایک بڑی تعداد امراء و رئوسا کی ہے۔ یہ لوگ دولت کی کانوں پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔ امیر دن بہ دن امیر اور غریب روز بروز غریب تر ہو رہے ہیں۔ اشرافیہ کا یہ طبقہ مال و زَر کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہا ہے۔ جائیدادیں بن رہی ہیں۔ کئی کئی سو کینال پر محیط سوسائیٹیز زیرِ تعمیر ہیں۔ درجنوں منزلہ پلازے کھڑے ہیں۔ اپارٹمنٹس تعمیر ہیں۔ شہر کے شہر ایک شخص کی ملکیت میں ہیں۔ سینکڑوں کلومیٹر کے باغات کے مالکان موجود ہیں۔ صنعتوں اور بڑے کارخانوں پر بھی چند بڑے خاندانوں کا قبضہ ہے اور یہ طبقہ اشرافیہ دولت سمیٹنے میں مصروف ہے۔
دوسرا طبقہ درمیانے درجے کا ہے۔ یہ تاجر ہیں، آڑھتی ہیں، درمیانے درجے کی کمپنی، کارخانے یا بلڈنگز کے مالک ہیں۔ یہ طبقہ بھی دولت کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے۔ تیسرا طبقے میں پانچ، سات ہزار روپے کمانے والے ملازمین ہیں۔ دیہاڑی دار مزدور ہیں۔ چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے حضرات ہیں۔ ان لوگوں کی زندگی بمشکل گزر رہی ہے۔ پیچھے رہ جاتا ہے پسا ہوا طبقہ۔ یہ تباہ حال لوگ ہیں۔ ان کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ ان کے پاس تن ڈھانپنے کو کپڑا نہیں، روزی روٹی کمانے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ ان میں اکثریت بھکاریوں کی ہے۔ یہ چھت سے محروم ہیں۔ یہ جھونپڑ پٹیوں میں رہائش پذیر ہیں یا پھر فٹ پاتھوں اور کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہاں غربت کا عالم یہ ہے نومولود بچے دودھ کے لیے تڑپ تڑپ کر جان دے جاتے ہیں۔ کچرا کنڈیوں سے والدین فروٹ اور خوراک اٹھاتے ہیں۔ بچوں کو کھلانے پر مجبور ہیں۔ معاشرے کی یہ تفریق ایسے ہی نہیں۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ جب غرباء و مساکین کو دیکھتے ہیں تو عموماً ایک جملہ کستے ہیں: ’’ہٹے کٹے ہو کماتے کیوں نہیں؟‘‘ یہ بھی کہا جاتا ہے: ’’رزق کا رازق اللہ ہے۔ یہ اسی کی تقسیم ہے‘‘، لیکن ہمارا یہ طرزِ تکلم، ہمارا یہ طرزِ عمل انتہائی غیرمناسب اور غلط ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں رزق دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اس میں بھی ذرا برابر شبہ نہیں تقسیم کرنے والا بھی اللہ ہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے ہم انسان اللہ کی اس تقسیم پر راضی نہیں۔ ہم ہوس و لالچ میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں۔ ہم دوسروں کا حق مارتے ذرا بھر ہچکچاتے نہیں۔ جو کمزور ہے اس پر جاگیردار، وڈیرہ اور سرمایہ دار چڑھ دوڑے گا۔ اس کی جائیداد، اس کے مال پر قابض ہو جائے گا۔ یتیموں کا مال قبضے میں لے لیا جائے گا۔ ان کو پائی پائی کا محتاج کر دیا جائے گا اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جو اس پسے ہوئے طبقے کے لیے متعین کر دیا تھا ہمارے جیسے وڈیروں نے اس پر بھی ڈاکا ڈال لیا۔ ہم اپنی طاقت اور رعونت سے اس پربھی قابض ہوگئے جس کی وجہ سے معاشرے میں یہ تفریق پیدا ہوگئی۔
اس کی دوسری وجہ ایثار و صدقہ و خیرات ہے۔ اللہ کا شکر ہے ہم میں بے تحاشا لوگ جاگیردار اور سرمایہ دار ہیں، لیکن یہ اپنے سرمائے، اپنی جائیداد پر زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ عُشر دیتے ہیں اور نہ ہی صدقہ و خیرات کرتے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں میرے دادا سیب کے باغات سے عُشر نکالتے تھے۔ مثال کے طور پر اگر ہمارے باغ سے 50 من سیب حاصل ہوتے تو دادا جان 50 من سیب غرباء میں تقسیم کردیتے تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے ہمارے مال سے (مویشیوں سے) بھی اکثر ایک دو جانور غریبوں کو دے دیے جاتے تھے، لیکن آج کے دور میں زکوٰۃ کا تو پھر بھی کہیں تذکرہ ہے، لوگ دیتے بھی ہیں، لیکن عُشر نام کی شے ختم ہوچکی ہے۔ یہ اسلام کی وہ تعلیمات تھیں جس کی وجہ سے غریب کو بھی کچھ نہ کچھ حصہ مل جاتا تھا اور مالکوں کے مال میں بھی برکت آ جاتی تھی، مگر مال کے ہوس میں آج ہم یہ سب بھول چکے ہیں۔ ہم اپنے مال سے ایک کوڑی کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا نتیجہ ہے دولت مخصوص ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی۔ معاشرہ تباہی کے دہانے پہنچ گیا۔ یہ بہت ہی خوفناک صورتحال ہے۔ زکوٰۃ و عُشر یا صدقہ و خیرات اسلام کا وہ ضابطہ تھا جس سے معاشرے میں استحکام تھا۔ غریب بھی بھوکا نہیں سوتا تھا۔ محتاج اور نادار بھی امراء کی خوشیوں میں شریک ہوتے تھے۔ بڑے بڑے صاحبِ مال حضرات ناداروں اور مسکینوں کی مدد کر کے دلی تسکین پاتے تھے، لیکن آج اسلام کی ان تعلیمات سے روگردانی کی وجہ سے ہم چاروں اطراف سے مصائب میں گھرے ہیں۔ برکت نام کی چیز اُٹھ چکی ہے۔ بیماریوں اور پریشانیوں نے ہر گھر کو گھیر رکھا ہے اور ہر انسان اپنے ہی اندر تباہ ہو رہا ہے۔ آج ہم اُمت مسلمہ صدقِ دل سے یہ ارادہ کر لیں۔ ہم اپنے مال پر زکوٰۃ دیں گے، ہم عُشر نکالیں گے اور ہم غریبوں اور مفلسوں کی داد رسی کریں گے تو یقین کیجیے! یہ اُمت جو کبھی امریکا کے پائوں چاٹتی نظر آتی ہے، کبھی آئی ایم ایف کی دہلیز پر ماتھا ٹیکے دکھائی دیتی ہے، یہ اپنے پائوں پر کھڑی ہوجائے، ہم ترقی و خوشحالی کی راہ پر آ جائیں۔
عید کے اس موقع پر جہاں پاکستان بھر میں غریب اور نادار صاحبِ ثروت حضرات کی راہ دیکھ رہے ہیں وہیں المیہ یہ کہ 9 لاکھ سے زائد آپریشن متاثرین بے آب و گیاہ جگہ پر رہائش پذیر ہیں۔ ان کے پاس کھانے پینے کی قلت ہے۔ موسم کی شدت سے ان میں بیماریاں پھوٹنے کے خدشات لاحق ہیں۔ بحیثیت اُمت ہمارا یہ فرض ہے ہم زیادہ نہیں تو فطرانے کی رقم ہی ان متاثرین کے لیے وقف کردیں۔ ہم انہیں اپنے مال سے زکوٰۃ ہی بھیج دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے رشتے داروں، عزیزوں اور دوستوں میں بھی کمزور حال لوگوں کا خیال رکھیں کہ یہی دینِ اسلام کی تعلیمات ہیں۔ اسی میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا شامل ہے۔ آپ سوچیں ابوطلحہ انصاریؓ حکم خداوندی سنتے ہی، بلا سوچے سمجھے اپنا قیمتی اور عزیز ترین باغ راہِ خدا میں وقف کر دیتے ہیں تو ہم بھی اُمت محمدی ہو کر ہوس و لالچ کا شکار کیوں ہیں؟
Flag Counter