Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن25 تا 31 جولائی 2014

ہ رسالہ

7 - 9
یہ خاموشی کب تک
مسلم اُمہ کے کسی سیاسی رہنما دانشور یا مغربی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کی چوکھٹ پر سجدہ ریز شخص کو اگر دنیا میں کسی بھی جگہ مسلمانوں پر بہیمانہ تشدد اور معصوم عورتوں اور بچوں کی ہلاکتوں کے بارے میں بتائو تو وہ اقبال کے شعر کا ایک مصرعہ دہرانے لگتا ہے: ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘۔ کس قدر بے حس ہیں یہ لوگ۔ ان کے اپنے گھر پر اگر بم گرے ان کے بچے تڑپتے ہوئے جان دیں، ان کی عورتوں کو سپاہی اٹھا کر لے جائیں تو ان کی آنکھوں میں خون اُتر آتا ہے۔ کوئی کتنا بھی کمزور ہو انتقام کی آگ میں کھولنے لگتا ہے۔ ممکن ہو تو حفاظت خود اختیاری کا سہارا لے کر جو بھی اسلحہ گھر میں موجود ہو لے کر بدلہ لینے نکل پڑتا ہے۔ نہتا ہو تو گھر کا سامان بیچ کر انتقام کے لیے اسلحہ خریدتا ہے، کرائے کے قاتلوں سے رابطہ کرتا ہے۔ بدلہ لینے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو شور ضرور مچاتا ہے، واویلا ضرور کرتا ہے، انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ یہ سب نہ بھی کر سکے تو اتنا ضرور کرتا ہے کہ جو لوگ یہ ظلم اور بربریت کرتے ہیں، ان کو اور ان کے پشت پناہوں کو دشمن سمجھتا ہے۔ ان سے شدید نفرت کرتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی اسے اقبال کا جرم ضعیفی والا شعر سنا کر چپ رہنے کو کہے تو اس کا گریبان تھام کر کہتا ہے: ’’تم پر بیتی نہیں، اس لیے تم یہ باتیں کر رہے ہو۔ تمہارا گھر ایسے اُجڑتا تو میں تم سے پوچھتا‘‘، لیکن وہ اُمت جس کی سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ علامت بتائی تھی کہ یہ ایک جسد واحد ہے۔ ایک جسم جس کے کسی بھی حصے کو تکلیف پہنچے باقی تمام عضو مضطرب ہو جاتے ہیں۔ اس امت میں کبھی بوسنیا، چیچنیا، افغانستان، عراق اور اب فلسطین میں معصوم اور نہتے لوگوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور ہم یا تو قاتلوں کے دوست اور اتحادی ہیں یا پھر قاتلوں کے پشت پناہوں

سے بھیک اور امداد مانگ کر گزارا کرنے والے ہیں۔ غیرت و ناموس بیچ کھائی ہو تو جرم ضعیفی جیسے الفاظ کس قدر تسلی بخش ہوتے ہیں۔ کاش! کوئی ویت نام میں لڑنے والے نہتوں کو بھی یہ الفاظ سکھاتا۔
ہمارے ایک دانشور ہیں جنہیں مغرب کے ہر ظلم میں حسن نظر آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم اسپرین تک بنا نہیں سکتے اور امریکا سے مقابلہ کرتے ہیں۔ کاش! وہ یہ بتا دیں ویت نام میں کس نے اسپرین ایجاد کی تھی جو انہوں نے امریکا کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔ افغانستان کا ذکر نہیں کرنا چاہتا جس کے غیور لوگوں نے 100 سال میں تین عالمی طاقتوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔ یہ سب اس اُمت کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس لیے کہ اسے یہ درس بھلا دیا گیا ہے کہ نصرت اور فتح ٹیکنالوجی سے وابستہ نہیں، بلکہ اللہ کی جانب سے ہوتی ہے۔ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے یہ دعوے کرتے ہیں، اس کی سنت پر عمل کرنے کا درس دیتے ہیں، انہوں نے اس ہادی برحق کو بدر کے میدان میں نکلتے ہوئے دیکھا ہے۔ 313 جانثار، 2 گھوڑے، 6 زرہیں اور 8 تلواریں، یہ تھی کل کائنات۔ مقابلے میں تین گنا بڑا لشکر اور تمام سامان حرب۔ کوئی ایک غزوہ بھی ایسا ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ کیا شام، مصر، ترکی اور ایران فتح کرنے والے اپنے مقابل لشکروں سے تعداد اسلحہ اور سامان حرب میں زیادہ تھے؟ ہر گز نہیں، لیکن پھر بھی وہ اپنے دور کی عالمی طاقتوں سے ٹکڑا گئے تھے، اس لیے کہ وہ جرم ضعیفی کی لوریوں میں نہیں پلے تھے، بلکہ اللہ کی طاقت کے بھروسے پر زندگی گزارنے والے تھے۔ اللہ پر بھروسے کی طاقت کو اس اُمت سے چھیننے اور اسے ٹیکنالوجی کے بت کے سامنے سجدہ ریز کروانے میں ایک عرصہ لگا ہے۔ اس میں جنگ عظیم اول کے بعد خلافت کی مرکزیت کا خاتمہ اور موجودہ سیکولر قومی ریاستوں کے مغرب کی دہلیز پر سجدہ ریز حکمرانوں کا بھی حصہ ہے۔ اس اُمت کے ان دانشوروں کا بھی جو روز اس امت کو کم مائیگی کمزوری اور بے حوصلگی کا درس دیتے ہیں۔ یہ ہیں وہ اہلِ مدرسہ جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا۔ اسی نوجوان کے بارے میں اقبال نے کہا تھا
؎ کون کہتا ہے کہ مکتب کا جواں زندہ ہے
مردہ ہے مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس
لیکن اس تن مردہ میں جاں پیدا کرنے کی آوازیں اور تحریکیں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ جرم ضعیفی پر خاموش رہنے اور غیرت و حمیت بیچ کھانے والوں کے مقابل میں نعرہ مستانہ لگانے والوں کی بھی کمی نہیں رہی۔ تاریخ کا یہ بدترین باب ہے کہ وہ جنہوں نے مسلمانوں کو جرم ضعیفی کی سزا تجویز کی۔ انہیں ٹیکنالوجی کے بت کے سامنے سجدہ ریز ہونے پر بہتر مستقبل کی نوید دی۔ وہ سب کے سب ان قومی سیکولر ریاستوں کے حکمران ہی تھے۔ گزشتہ 100 سالہ تاریخ میں سوڈان سے لے کر ملائشیا تک ہر کسی نے مسلمانوں کو ان ریاستوں کے خول میں جکڑ کر بے حس اور مردہ دل بنایا۔ آج یہ عالم ہے کسی شہر کے ایک حصے میں اگر آفت اور مصیبت آئے تو دوسرے حصے کے لوگ اپنی روز مرہ زندگی جاری رکھتے ہیں۔ نہ کوئی ان کی مدد کو بے چین ہوتا ہے اور نہ ان کی مصیبت میں غمگین۔ یہی بے حسی آج غزہ میں مرنے والے معصوم بچوں کے لیے نظر آئی ہے۔یہ بے حسی کیسے پیدا ہوئی؟ ہم نے ایسے ہی مناظر افغانستان اور عراق میں کس قدر خاموشی سے دیکھے۔ ہمیں کہا گیا یہ دہشت گرد ہیں، ان سے دنیا کا امن تباہ ہو رہا ہے۔ ہم سب امن کے خواہاں بن کر ایسا ہی تماشا دیکھتے رہے۔ پھر ہم نے مسلمان ریاستوں کو بھی ظلم کرنے کا ویسا ہی اختیار دے دیا اور بے حسی سے تماشا دیکھتے رہے۔ ہم نے بشار الاسد کو ایسے ہی معصوم بچوں اور عورتوں کو دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر قتل کا لائسنس دیا۔ ہم نے نوری المالکی کو عراق میں خاندانوں کے خاندان قتل کرنے کی اجازت دی تا کہ دنیا سے شدت پسندوں کو پاک کیا جائے۔ ہم تماش بین تھے اور ہمارے سامنے موت کا تماشہ تھا۔ کیا کسی کی آنکھ سے آنسو بہے؟ جب اس سے چند میل کے فاصلے پر ڈرون حملوں سے معصوم بچوں کے جسموں کے پرخچے اڑے۔
کہا جاتا ہے اسرائیل ان کے علاقے پر قابض ہے۔ آزادی ان کا پیدائشی حق ہے تو کیا امریکا اور اس کے حواریوں نے افغانستان اور عراق پٹے پر خریدا ہوا تھا؟ ان کی ملکیت میں شامل تھا؟ کیا پاکستان کے قبائلی علاقے امریکا کی 52 نمبر کی ریاست تھی جس کے معصوم لوگوں کو وہ دہشت گرد کہہ کر ڈرون حملوں سے ہلاک کرتا تھا۔ دنیا میں دو منطقیں نہیں چلا کرتیں۔ جس ظلم نے حماس کو جنم دیا ہے، اسی ظلم نے دنیا کے تمام ممالک میں جہادی سوچ کو پیدا کیا ہے۔ ریاستوں کا چہرہ ایک جیسا ہے ظالم اور سفاک۔ یہی غزہ کا علاقہ پہلی عرب اسرائیل جنگ کے بعد 24 جنوری 1949ء میں اسرائیل مصر معاہدے کے تحت ایک نیم خودمختار متنازعہ علاقہ کہلایا۔ کسی نے اسے حق آزادی نہ دیا، لیکن جب 26 جولائی 1956ء کو جمال عبدالناصر نے نہر سویز کو قومیانے کا اعلان کیا تو جنگ چھڑی اور اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کرلیا۔
اس وقت فلسطینی ایک علیحدہ عرب قوم تصور ہوتی تھی، لیکن 1958ء میں مصر، شام اور فلسطین کو ایک اتحاد جمہوریہ عربیہ متحدہ کے تحت منظم کیا۔ 1959ء سے 1967ء تک غزہ پر مصر کا کنٹرول ہوگیا۔ یہ وہ دور تھا جب پہلی دفعہ غزہ کی ناکہ بندی کی گئی۔ اس ظلم کا موجد جمال عبدالناصر تھا۔ اس کی بھی وہی دلیل تھی اگر غزہ کے رہنے والوں کو کھلا چھوڑا گیا تو امن تباہ و برباد ہو جائے گا۔ غزہ کی داستان پوری اُمت مسلمہ کی داستان ہے۔ یہ بے حسی اور بے ضمیری کا نوحہ ہے۔
Flag Counter