آئیے! عہد کریں
یہ پچھلے سال چاند رات کی بات ہے۔ ہم لوگ ایک ٹریفک اشارے پہ رُکے۔ ایک ننھا بچہ دوڑتا ہوا گاڑی کی کھڑکی کے پاس آگیا۔ اس کی عمر 8 سال ہو گی۔ اس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ پائوں میں ٹوٹے ہوئے سلیپر تھے۔ چہرہ نہایت معصوم اور لہجے میں بلا کاسا درد تھا۔ اس نے ایک چھڑی پر موتیے کے ہار اٹھا رکھے تھے۔ اس نے التجا کی کہ اس سے ہار خرید لیے جائیں۔ میں نے فوراً اس سے ہار لیے اور پیسے اس کے حوالے کیے۔ اشارہ چونکہ لمبا تھا، میں نے اس کے بارے میں دریافت کرنا شروع کردیا۔ وہ ایک یتیم تھا۔ 5 بہنوں کا اکلوتا بھائی اور خاندان کا واحد کفیل تھا۔ دن کو وہ ایک ورکشاپ میں کام کرتا، شام کو وہاں سے چھٹی کرتا۔ گھر جاتا اور ہار لے کر سڑکوں پہ نکل آتا تھا۔ میں نے اس سے عید کی تیاریوں کے بارے میں پوچھاتو اس کے آنسو نکل آئے۔ اس کی عیدیں دوسرے بچوں کو خوشیاں مناتے، رنگ برنگے کپڑے پہن کر جشن مناتے ہوئے دیکھتے گزرتی تھیں۔ اس کے پاس عید کے دن کے لیے کوئی نئے کپڑے نہیں ہوتے تھے۔ ماں اور بہنیں بھی بوسیدہ لباس میں عیدیں مناتی تھیں۔ ان کے گھر نہ سویاں پکتیں، نہ مہندیاں لگتیں، نہ غبارے اُڑتے، نہ رنگ برنگی ٹافیاں آتیں۔ کوئی ترس کھا کر کچھ دے جائے تو اسی پر گزارہ کرلیا جاتا۔ میں اور میرے دوستوں نے اسے کچھ عیدی دی۔ ٹریفک لائٹ سبز ہوتے ہی ہم لوگ چل پڑے۔
مجھے یاد ہے کہ اس بچے سے ملاقات کے بعد میں اور میرے دوست گہری خاموشی کے پاتال میں اترگئے تھے۔ یہ مختصر سی ملاقات ہم لوگوں کی سوچ کو منقلب کر گئی۔ ہمیں اندازہ ہوا ماحول میں جب دُکھ اتنے گہرے اور شدید ہوں تو ہماری عیاشیاں کس درجہ بڑا گناہ ہے۔ ہم لوگ بینائی رکھتے ہیں، مگر دیکھتے نہیں۔
ہمیں قوتِ سماعت ملی ہے، مگر ہم سنتے نہیں۔ ہم خودکو خوش کرنے پر اتنی کوششیںکرتے ہیں پھر بھی خوش نہیں ہو پاتے۔ ہم سکونِ قلب کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، پراسے پا نہیں سکتے۔ ہماری خواہشات سمندر کا شورابہ ہیں، ہم جتنا اسے پیتے ہیں پیاس مزید بڑھتی جاتی ہے۔ ہمارے قلب و ذہن میں ’’ہَلْ مِّنْ مَّزِیْد‘‘ کے علاوہ کوئی نعرہ نہیں گونجتا۔ ہم دنیا کے میلے کی چکا چوند میں روح کو تاریک تر کرتے رہتے ہیں۔ جتنی دنیا کی روشنیاں بڑھتی ہیں، ہمارا باطن اتنا ہی تیرہ و تار ہوتا جاتا ہے۔ ہم مسرت کی مچھلی کو دونوں ہاتھوں سے قابو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ پھسل کر ہماری گرفت سے نکل جاتی ہے۔ ہمارے بڑے شہروں کی زندگی میں آپ کو لوگ بھاگتے نظر آتے ہیں۔ ہر کوئی دوسرے سے آگے نکل جانے کی تگ و دو میں دکھائی دیتا ہے۔ ریت پر چمکتے سورج سے پیدا ہونے والے سراب کی طرف اندھا دھند ایک دوڑ ہے جس میں لوگ دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
٭ اگر ہم عید سے سچی خوشی اورمسرت کشید کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم دنیا میں بہشت کا نظارہ کرنا چاہتے تو ہمیں یتیموں اور بیوائوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کرنا ہو گا۔ ٭ ہم زکوٰۃ، صدقہ، خیرات کو حق داروں تک پہنچا کر غریبوں کو عید کی مسرتوں میں شریک کر سکتے ہیں۔ یوں ہم اپنے ربّ کے قریب تر ہو جائیں گے۔ ٭
ہر کوئی آبِ حیات تک پہنچنے کی کوشش میں ہے۔ وہاں پہنچتے ہیں تو ریت ہاتھ آتی ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ عمر سرابوں کے تعاقب میں گزر گئی۔ سچی خوشی نصیب نہ ہوئی۔ آپ دنیا بھر کے پیغمبروں، ولیوں، عالموں، فلاسفروں اور دانائوں کی ساری تعلیمات کا نچوڑ نکال لیں۔ ہر ایک نے کہا ہے کہ خوش وہ رہ سکتا ہے جو دوسروں کی خوشی کے لیے اپنا آپ بھول جائے۔ جو دوسروں کے شب و روز کو مسرت سے بھرے گا، اسے خوشی کے تعاقب کی ضرورت نہیں رہے گی۔ وہ اپنی روح میں اس کے بیش بہا خزانے پالے گا۔
عید کے معنی خوشی اور مسرت ہے۔ ہم رمضان میں بھوک اور پیاس برداشت کرتے ہیں۔ سولہ سولہ، سترہ سترہ گھنٹے نفس کشی میں گزارتے ہیں۔ ہم کلام پاک کی تلاوت کرتے اور عبادت میں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔ ہم تراویح اور نوافل میں خشوع وخضوع دکھاتے ہیں۔ ہمیں عید کا دن انعام میں ملتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم اس دن کی روح تک نہیں پہنچ پاتے۔ ہم سمجھتے ہیں ہمیں نیا لباس ضرور خریدنا چاہیے، نئے جوتے ہمارے پاس ضرور ہونے چاہییں۔ ہمارے گھروں سے نت نئے پکوانوں کی لبھانے والی خوشبوئیں ضرور اُٹھنی چاہییں۔ ہم بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے بے جا اصراف کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم عید سے سچی خوشی اورمسرت کشید کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم دنیا میں بہشت کا نظارہ کرنا چاہتے تو ہمیں یتیموں اور بیوائوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کرنا ہو گا۔ ہم میں سے ہر ایک کو کسی بے کس کے آنسو پونچنے ہوں گے۔ کسی دُکھیارے کے نوحوں پر اس کو مالی سہارا اور دلاسہ دینا ہوگا۔ ہم کسی مفلس بچے کو کپڑے اور جوتے لے کر دے سکتے ہیں۔ اسے اسکول کی کاپیاں اور کتابیں عطا کر سکتے ہیں۔ کسی لاچار بیمار کو دوائیں خرید کر دے سکتے ہیں۔ کسی اپاہج کی دستگیری کر سکتے ہیں۔ اَڑوس پڑوس میں جو کوئی مجبور ہے اس کی حسبِ استطاعت مدد کر سکتے ہیں۔ ہم زکوٰۃ، صدقہ، خیرات کو حق داروں تک پہنچا کر انہیں عید کی مسرتوں میں شریک کر سکتے ہیں۔ یوں ہم اپنے ربّ کے قریب تر ہو جائیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو گا تو ہم وہ روحانی سکون محسوس کریں گے جس کی تلاش میں آج کا انسان پاگل ہوا جارہا ہے اور یہ اس سے ہزاروں میل دور بھاگتا ہے۔ خدا کے بندوں سے پیار ہی وہ کنجی ہے جس سے روحانی مسرت کے خزانوں کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں کے حکمران اربوں کھربوں پتی لوگ ہیں۔ یہ دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں نہایت اونچے درجے پہ ہیں۔ ان کے پاس الف لیلوی دولت کے انبار ہیں۔ یہ شاہانہ محلوں میں رہتے اور چکا چوند روشن شاہراوں پر سفر کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کے پاس سونے سے بنے جہاز اور گاڑیاں ہیں۔ ان کے دستر خوانوں پر غیرملکی ڈشیں، اعلیٰ مشروبات اور بدیسی مکروہات سجی رہتی ہیں۔ یہ ایک ایک وقت کے کھانے پر لاکھوں پائونڈ خرچ کردیتے ہیں۔ یہ سیون اسٹار ہوٹلوں سے کم میں اقامت اختیار کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ ہوٹلوں کے بیروں کو ہزاروں پائونڈ ٹپ دے دیتے ہیں۔ ان کے عشرت کدوں میں رات کو بھی دن کا سماں رہتا ہے۔ کشادہ ڈرائنگ روموں، بیش قیمت پردوں، جھلملاتے فانوسوں اور نایاب نوادرات سے سجے ان کے محل حسن بن صباح کی بنائی جنت کو مات دے دیتے ہیں۔ یہودیوں کے بینکوں میں ان کی دولت اسرائیل کوبے مہار قوت دیتی رہتی ہے۔ یہ حکمران بادشاہ اور شہزادے اس سنگین حقیقت سے بالکل بے حس ہیں کہ آج کی دنیا میں غریب ترین آبادی کا سب سے زیادہ حصہ مسلمان ہیں۔
عراق، افغانستان، شام، سوڈان، فلسطین وغیرہ میں مسلمان بدترین حالات کا شکار ہیں۔ اگر دنیا کے یہ امیر ترین مسلمان ایک عیسائی ’’بل گیٹس‘‘ کی مثال کو ہی فالو کر لیں تو مسلم دنیا کا مقدر بدل سکتا ہے۔ بل گیٹس امریکا کا امیر ترین شخص ہے۔ اس نے ’’بل ملینڈا اینڈ گیٹس‘‘ نامی ایک فلاحی تنظیم بنائی اور کروڑوں ڈالر لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے۔ ہمارے مسلمان دولت مند سونے کے کموڈوں میں رفع حاجت فرماتے اور ایک ہی رات میں 20، 20 لاکھ پائونڈ جوئے میں ہار جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ خدا خوفی کریں اور روزِ جزا کا خیال کریں تو یہ دنیا بھر کے مجبور اور بے کس مسلمانوں کی ڈھال بن سکتے ہیں۔ یہ سائبان بن کر ان کے سروں کو تپتی دھوپ سے بچا سکتے ہیں۔ یہ صحرائوں کے بگولوں سے لڑتے لوگوں کے لیے نخلستان بنا سکتے ہیں۔ ایثار کا یہ جذبہ مسلمانوں کی بکھری طاقت کو سمیٹ دے گا۔ ان کی شیرازہ بندی ہو جائے گی اور اُمت متحد ہوکر ایک بہت بڑی قوت بن جائے گی، ایک لازوال قوت۔
پاکستانی بالادست طبقے نے صرف سوئس بینکوں میں 200 ارب ڈالر غیرقانونی انداز میں جمع کروا رکھے ہیں۔ ایک بینک کریڈٹ سوئس اے جی بینک کے ڈائریکٹر نے بتایا ہے: ’’اس کے ہاں 97 ارب ڈالر پاکستانیوں کے ہیں۔‘‘ یہ ثابت کرتا ہے سیاست اور جمہوریت نے ملک کے غریبوں کے تن سے کپڑا ان کے منہ سے نوالا چھینا ہے۔ ان کی ہوس کی آگ پھر بھی نہیں بجھتی۔ ہمارا حکمران اور رئیس طبقہ مال و دولت اکھٹی کرنے کی دوڑمیں پاگل ہوچکا ہے۔ یہ غیریبوں کے آنسو اپنے دامن میں نہیں لیتا۔ معذروں کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھتا۔ محتاجوں کی حاجت روائی کا روادار نہیں ہوتا۔ یتیموں اور بیوائوں کے سروں پر دست شفقت نہیں رکھتا۔ یہ اس احساس سے عاری ہے کہ اس ملک کا غریب کیسے سسک سسک کر زندگی گزار رہا ہے۔ علاج کے لیے لوگ بھٹکتے پھرتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ان کے لیے نہ ڈاکٹر ہیں نہ دوائیاں۔ چھوٹے چھوٹے بچے اسکول اور تعلیم سے محروم ورکشاپوں میں زندگی کی گاڑی کھینچنے کی سخت تگ و دو میں مصروف ہیں۔ آج عیاشی اور حرام خوری ہماری سیاست کے دو بڑے ستون بن کر رہ گئی ہیں۔
اگر ہمارے اربوں کھربوں پتی سچی خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے محلوں سے باہر جھانکنا ہوگا۔ انہیں غربت کی چکی میں پستے اور بھوک افلاس کے پہیوں تلے کچلی مخلوق خدا کو دیکھنا ہوگا۔ اگر یہ امیر اور رئیس اپنی دولت کا کچھ حصہ ایسے لوگوں کے لیے وقف کردیں تو ایک زبردست معاشرتی و معاشی انقلاب آجائے گا۔ معاشرے میں ایک ایسا سدھار آجائے گا جو اسے بالکل تبدیل کردے گا۔ ملک سے غربت اور بے روزگاری ختم ہو جائے گی۔ سب لوگوں کو علاج کی سہولتیں میسر آجائیں گی۔ غریب اور یتیم بچے پڑھ لکھ کر خاندان کا دست و بازو بن جائیں گے۔ لوگ اپنی بیٹیاں بیاہنے کے مقدس فرض کی ادائیگی کے قابل ہوجائیں گے۔ معاشی انقلاب کے بعد ہمارا کشکول گدائی ٹوٹ جائے گا۔ ہم پورے وقار سے قوموں کی قطار میں بلند کھڑے ہو جائیں گے۔
آئیے! ہم عہد کریں کہ ہم نے ایک دوسرے کا دست و بازو بننا ہے۔ اس ملک کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں لانا ہے۔ تا کہ کچھ گھروں میںروشنی اور باقی سب میں اندھیرا نہ ہو۔ خوشیوں پر صرف چند خاندانوں کی اجاراہ داری نہ رہے۔ ہر آنکھ میں اُمیدیں ٹمٹائیں اور ہر گال پر آسودگی کی سرخی ہو۔ ہر لب پر کلمہ تشکر ہو اور پریشانی پر اُمید کے ستاروں کا جھومر ہو۔ ان شاء اللہ! ہم بھوک اور تنگ کی جہالت سے نکل آئیں گے۔ ہم تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر منزلیں ماریں گے۔ ہم ستاروں پہ کمند ڈالنے والی قوم بن جائیں گے۔ ہم معاشی ناہمواری کے پاتال سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکل آئیں گے۔ ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔ آئیے! چٹانوں جیسا عزم کریں کہ خوشحالی کے پیڑ کا پھل صرف چند لوگوں کی جھولیوں میں نہیں جائے گا۔ ہر پاکستانی کے پاس یہ ثمر پہنچے گا۔ ہر ایک کی زبان اس کا ذائقہ چکھے گی۔