Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن25 تا 31 جولائی 2014

ہ رسالہ

5 - 9
مکالمہ: بین المذاہب کے بین السطور میں
فی زمانہ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں، اس میں اُمت مسلمہ پر بعض خطوں میں عسکری سے زیادہ فکری یلغار ہورہی ہے اور بعض علاقوںمیں فکری سے زیادہ عسکری یلغار ہورہی ہے۔ ملت مسلمہ کا جو طبقہ جہاں جس اعتبار سے مضبوط ہے، اس پر اس قسم کی جنگ مسلط کی جارہی ہے۔
وطنِ عزیز پرمغرب کی شکار گاہوں میں تیار شدہ دو فکری منصوبوں کی یلغار شروع کی جاچکی ہے اور چند دنوں میں ان کا وہ طوفان آئے گا کہ الامان والحفیظ! ایک تو صوفی ازم کے نام پر مشرکانہ بدعات و جاہلانہ رسومات، غیر شرعی جھاڑ پھونک، عرس کے نام پر رسومات وخرافات بھرے میلوں کا رواج، کہ قدم قدم پر آپ کو عرس کے عنوان سے ایسے ایسے پہنچے ہوئے پیروں، فقیروں سے پالا پڑے گا کہ ایک چوک سے دوسرے چوک تک اشتہاری مہم کا خود رو مرکزی کردار بدل جائے گا۔ آپ کو سمجھ بھی نہ آئے گی کہ یا اللہ ! اس گنہگار ر قوم میں یکایک اتنے اعلیٰ پائے کی روحانی شخصیات کہاں سے وجود میں آگئیں کہ زمینی سجدہ گاہوں کے لیے ماتھے کم پڑتے جارہے ہیں۔ دوسرا فتنہ جسے’’ اکبر الفتن‘‘ کہا جانا چاہیے اور جسے فقیر نے ’’عصر حاضر کا دین اکبری‘‘ کا نام دے کر لفظی تفنن پیدا کرنے کے ساتھ اس کی معنوی فساد وتخریب کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، وہ ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ کے نام پر ہونے والا عظیم فتنہ ہے جس نے پرپرزے نکال لیے ہیں اور مغرب اس پر اتنی بڑی سرمایہ کاری کر ے گا کہ یہ فائیو اسٹار ہوٹلوں اور کلب و آڈیٹوریم سے نکال کر عام محفلوں کا موضوع بن جائے گا، اور چونکہ یہ لبرل ازم کی راہ ہمورار کرنے کا دوسرا نام ہے، اس لیے تصور کیا جاسکتا ہے کہ کمزور ایمان والے مسلمان جو پہلے ہی دین کے آخری سرے پر کھڑے ہیں

، انہیں یہ مہم کہاں پہنچا کر چھوڑے گی۔
آگے بڑھنے سے پہلے بطور تمہید عرض کرتا چلوں کہ مکالمہ بین المذاہب ایک ایسی شاطرانہ اختراع ہے جو بیک وقت دو دھاری چھری سے جاں بلب مسلمان کو ذبح کررہی ہے۔ ایک طرف تو وہ تمام بنی آدم کو ایک ملغوبہ نما معجون مرکبی مذہب پر لانا چاہتی ہے جس کا شرعا کوئی تصور ہی آج تک نہیں، نہ وہ عقلاً ممکن ہے، دوسری طرف وہ تمام بنی نوع آدم کو مذہب کے رہے سہے روحانی اثرات سے محروم کر کے ٹنڈ منڈ، گڑبڑ گھوٹالا جیسا نیم رنگین جانور بنا رہی ہے۔ یہ درحقیقت مکالمہ بین المذاہب ہے ہی نہیں، یہ ’’مجامعہ بین المذاہب‘‘ یا ’’تلفیق بین المذاہب‘‘ ہے جو بلا شبہ ایک ایسا نیا دین گھڑنے کے مترادف ہے جس کا کسی مذہب میں کوئی تصور ہی نہیں۔ نہ اسے کسی مذہب کے اصول قبول کرسکتے ہیں۔ لہٰذا فی الواقع یہ تحریک تمام مذاہب کے انکار کے مترادف ہے اور ایک ’’نیا عالمی مذہب‘‘ گھڑ کر ’’یک قطبی عالمی حکومت‘‘ ’’یک کرنسی مالیاتی نظام‘‘ اور ’’یک جہتی سماجی اقدار‘‘ کے اس منصوبے پر کام کررہی ہے جن کی طرف احقر ایک سے زائد مرتبہ اشارہ کرچکا ہے۔
اب ذرا موضوع کی تحقیق کی طرف آتے ہیں۔ راقم نے عرض کیا کہ ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ کی پرفریب اصطلاح سے نہ تو کوئی سے دومذاہب کے درمیان معاہدہ مراد ہے، نہ مناظرہ، نہ مباہلہ، نہ تقابل وجائزہ، نہ کسی مسئلے کی افہام وتفہیم، نہ دعوت و تبلیغ، نہ ایک دوسرے سے قطع نظر یا صرف نظر کی روایت کو رواج دینا۔ اگر کوئی ایسا کہے توابلیسی تلبیس کر رہا ہے، اس سے درحقیقت مختلف مذاہب والوں کے درمیان بلکہ فی الحقیقت مسلمانوں اور یہود ونصاری کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے نام پر توحید ورسالت کے حقیقی مفہوم کی نفی، اسلام کی جامعیت وکمال کا انکار، تبلیغ وجہاد دونوں کی بیک وقت تردید، حق میں باطل کی پیوند کاری اور بعض مواقع پر اسلام کے شعائر کی تضحیک وتوہین مراد ہے۔ سیدھے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ اسے کسی اورمذہب کاکسی اور مذہب سے مکالمہ مقصود نہیں، صرف اور صرف مسلمان اس کا ہدف ہیں کہ وہ اپنے آپ کو یا صرف اپنے آپ کو حق پر سمجھنا چھوڑ دیں، روحِ محمدی (علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام) کی اس نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں جس نے ابھی تک ان کا شیرازہ بکھرنے سے بچا رکھا ہے اور ایک ایسی شخصیت کے استقبال کے لیے تیار ہوجائیں جسے انسانیت کے عظیم ہمدرد اور رہنما کے طور پر تیا ر کیا جارہا ہے۔
آپ ذرا غور فرمائیے کہ وہ مذاہب آپس میں ہم آہنگ نہیں ہوسکتے جن کی اصل شکل بھی مسخ ہوچکی ہے تو اسلام جو اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے، کسی منسوخ یا ممسوخ مذہب سے کیسے ہم آہنگ ہوسکتا ہے؟ وہ حق ہی کیا ہوا جو باطل سے حسن سلوک،خندہ پیشانی اور معاہدوں کے احترام کے بجائے ان کی خاطر اپنے کسی برحق موقف سے دستبردار ہوجائے اور مدارات اور مراسات سے اتر کر مداہنت قبول کرلے۔
مکالمہ بین المذاہب ایسی دجل بھری اصطلاح ہے جس کی آڑ میں ایک ایسے عالمی مذہب کی بنیادیں رکھی جارہی ہیں جو نہ الہامی ہے نہ روحانی۔ نہ وہ عقلاً و نقلاً ممکن ہے۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے یہ عاجز قارئین کی توجہ چاہے گا۔ آج کی مذہبی دنیا کا آفاقی جائزہ لیا جائے تو دنیا کے الہامی مذاہب میں کسی قسم کی ہم آہنگی نہیں، نہ دور دور تک اس کا کوئی امکان ہے تو غیرالہامی مذاہب میں ایسا کیسے ممکن ہوگا جو سرے سے کسی ماوراء الطبیعاتی بنیادہی سے محروم ہیں۔ مثلاً آپ دیکھیے! یہودیت کے ہاں عیسائیت کی کوئی حقیقت نہیں، جبکہ عیسائی یہودیت کو قصہ پارینہ سے زیادہ کوئی درجہ نہیں دیتے۔
جو لوگ خلوص نیت سے کسی قسم کی بین المذاہب ہم آہنگی چاہتے ہیں یا اسے ممکن سجھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ پہلے ان دو مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے جملہ مفاہیم میں سے کسی کو بھی بروئے کار لانے کی کوشش کر دیکھیں۔ان دونوںمذاہب کے پیروکاروں نے ماضی میں بھی ایک دوسرے پر بے تحاشا ظلم کیے ہیں اور مستقبل میں بھی ’’مسیحائے منتظر‘‘ کے قطعا متضاد مفہوم کا قائل ہونے کی وجہ سے ان میں زبردست عالمی جنگ کا امکان موجود ہے۔ اس وقت مادی ترقی، سرمایہ، وسائل، افراد وغیرہ کے لحاظ سے یہ دنیا کے بڑے دو مذہبی گروہ ہیں۔ اگر ان میں باہمی ہم آہنگی کی بیل منڈھے چڑھ جائے تو پھر دوسرے مذاہب کی اصلاح یعنی ان کو قریب لانے اور امن کی آشا پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے۔یہ کیا مشق ستم ہے کہ چند ایسے لوگ ہمارے یہاں ایرکنڈیشنڈہالوں میں جمع ہوکر دنیا بھر کے مذاہب کو نیا رخ دینے کی بات کرتے ہیں جن کی اپنے گھر میں کوئی حیثیت نہیں وہ اپنی کوئی حیثیت سمجھتے ہیں تو انہیں مغرب کے باحیثیت لوگوں سے بات کرنی چاہیے۔ یہاں بیٹھ کر دانش وری بگھارنے سے کیا حاصل ہے؟
Flag Counter