Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن25 تا 31 جولائی 2014

ہ رسالہ

8 - 9
عید کا انتظار
یہ عید بھی عجیب چیز ہے۔، ہر سال ہی آجاتی ہے اور شاید جتنا انتظار ہم عید کا کرتے ہیں ، اتنا رمضان کا نہیں کرتے ، چنانچہ ہوتا یہ ہے ہمارے نہ چاہنے کے باوجود رمضان صاحب چپ چپاتے آدھمکتے ہیں اور پورے مہینے کا انتظار ساتھ لے آتے ہیں... جی ہاں! ادھر ہم پہلا روزہ رکھتے ہیں اور ادھر کہتے سنائی دیتے ہیں : ’’بس ! عید میں صرف 28 دن رہ گئے۔‘‘ کچھ بھلے مانس 29 کا ہندسہ بھی بول جاتے ہیں جس پر دوسرے انہیں گھور نے لگتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں : ’’28 کہتے تمہیں موت آتی ہے کیا۔‘‘ انتظار 29 دن کا ہو یا 28 دن کا، بہت مشکل ہے... وہ بھی عید کا انتظار... ایک ایک روزے کو بار بار گنا جاتا ہے... یعنی آج اٹھارہواں روزہ ہے نا... نہیں یار... سترہواں ہے... یہ کہنے والے کو تیز نظروں سے گھورا جاتا ہے... کہ اس نے اٹھارہویں کو سترہواں کیوں بنادیا...؟ بعض لوگ تو ایسے جواب پر کھاجانے والی نظروں سے گھورتے ہیں ۔
ویسے آپ کو سچی با ت بتائے دیتاہوں... عید اپنے ساتھ بے شمار خوشیاں لاتی ہے ، لیکن ان بے شمار خوشیوں میں جو خوشی سب سے وزنی ہے، وہ ہے روزوں کے ختم ہونے کی خوشی... حقیقت یہی ہے کہ اگر روزے ختم ہونے کی خوشی اس خوشی میں شامل نہ ہو تی تو عید کی خوشی ماند پڑجاتی... یا یوں کہہ لیں کہ پھیکی پڑ جاتی... مطلب یہ کہ یا ر لوگ روزوں سے فراغت کی خوشی کو عید کی خوشی کا نام دے دیتے ہیں...
اس خوشی میں ایک بات عجیب ہے... بلکہ غریب بھی ہے اور وہ یہ کہ ہم لاکھ خوش ہوں... عید کی خوشیوں میں سر شار ہوں... پھولے نہ سما رہے

ہوں ، اپنے سارے ہی شوق پور ے کر رہے ہوں... لیکن کسی کونے سے، کسی کھدرے سے، بالکل غیرمحسوس طور پر ایک ہلکا سا، بالکل مہین ساغم آدھمکتا ہے... اس قدر غیرمحسوس طور پر کہ ہمیں پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ غم کس طرف سے اچانک آنکلا ہے... اور وہ غم ہے اپنے بچھڑجانے والے پیاروں کا غم... ہر عید کے موقعے پر بچھڑے ہوئوں کا غم ضرور تشریف لے آتا ہے اور عید کی تمام تر خوشیوں پر... .
بہت وزنی اور قیمتی خوشیوں پر... ان خوشیوں پر جن کی تیاری ہم نے پورا مہینا کی تھی... روزے رکھ رکھ کر نہیں ، خریداری کر کر کے بھاری بھر کم خوشیاں خریدیں تھیں... بھاری بھر کم اس لیے بھی کہ ان خوشیوں کو خریدنے کے لیے ہم نے بھاری بھاری جیبیں جو ہلکی کی تھیں...
ان بھاری بھر کم خوشیوںپر وہ بالکل ہلکا سا ، مہین سا غم حاوی ہو جاتاہے... تمام خوشیوں کو ایک لخت سمیٹ لے جاتا ہے... پل بھر کو یوں لگتا ہے جیسے ہم حد درجے غمگین ہوں اور عید کی کوئی خوشی ہمیں جیسے چھو کر بھی نہ گزری ہو... ہم غم کے بوجھ تلے دبتے اور دبتے ہی چلے جا تے ہیں... لیکن پھر بچوں کا شور ہمیں واپس نئی دنیا میں لے آتا ہے... بچھڑنے والوں کا غم گویا پر لگا کر اڑ جاتا ہے ، اور ہم پھر سے خوشیوں کے جھولوں میں جھولنے ، مسکرانے اور ہنسنے لگ جاتے ہیں... طرح طرح کے پکوان ہمیں اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں... ان کی خو شبوئیں بچھڑنے والوں کے غم کو اپنے ساتھ ملا کر اڑالے جاتی ہیں... اور ہم ان کھانوں یا ملنے کے لیے آنے والوں سے اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ ہمارے آس پاس عید کی خوشیاں ہی رہ جاتی ہیں... لگتا ہے... انسان صرف محسوسات کے خول اوڑھے ہوئے ہے... ہوا کے جھونکے سے کوئی خول اڑ جاتا ہے تو پیچھے سے دوسر ا نکل آیا ہے... ویسے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
شب ِغم سے کہہ دو ، دبے پائوں گزرے
چراغوں کی لو جھلملانے نہ پائے
خوشی کا یہ دن... یعنی وہ دن جس کا ہم نے پورے ایک ماہ انتظا ر کیا تھا... ایک ایک روزے کو کئی کئی بار گن گن کر کاٹا تھا... وہ اس طرح یک دم گزر جاتا ہے کہ جیسے ہماری زندگی میں آئے بغیر ہی ہوا کے جھونکے کی طرح گزر گیا ہو... اور دوسرے دن پھر اپنی زندگی کا وہی معمول... زیاد ہ سے زیادہ کوئی دوسرے دن بھی عید کی خوشیاں محسوس کر لیتا ہے... تیسرے یا چوتھے دن تو پھر دفاتر کھل جاتے ہیں اور ذہنوں میں یہ تک سوار ہو جاتا ہے کہ لو بھئی... رمضان کے آنے میں صرف گیارہ مہینے ر ہ گئے ہیں... اُف رمضا ن تو بس آیا ہی کھڑا ہے...
گیارہ مہینے ہم رمضان کے مہینے کا انتظار نہیں کرتے ، لیکن وہ پھر بھی آجاتا ہے... اور رمضان کا پور ا مہینہ ہم عید کے دن کا انتظا رکرتے ہیں او ر وہ آکر ہوا کے جھونکے کی طرح گزر جاتاہے... کبھی محسوس کیا آپ نے... یہ سب کیا ہے...؟ اور کیوں ہے...؟ یہ سب دنیا میں کھو جانے کی بات ہے... اگر ہم دنیا میں کھوئے ہوئے نہیں ہیں تو پھر تو ہونا یہ چاہیے... کہ ہم گیارہ مہینے رمضان کے مہینے کا گن گن کر انتظار کریں اور رمضان کے گز رجانے کا غم محسوس کر یں اور غم اس قدر وزنی ہو... اس قدر حاوی ہو کہ عید کی تمام خوشیوں پر حاوی ہو جائے۔ ایسا حاوی ہو جائے کہ عید کی خوشیاں سرے سے ہمیں محسوس ہی نہ ہوں...لیکن ایسا نہیں ہے ، ایسا نہیں ہوتا... عید کی خوشی قدرتی ہے... ہونی چاہیے... لیکن یہ دیرپا بھی ہونی چاہیے... اس کا اثر اس قدر دیرپا ہو کہ اگلی عید تک ہم محسوس کرتے رہیں... یہ مشکل نہیں، نا ممکن نہیں... ہم خوشی کے اس دن کو پائیدار بنا سکتے ہیں... اس دن کی خوشیوں کو مستقل بناسکتے ہیں... اتنی خوشی بھی کوئی خوشی ہے... خوشی تو وہی ہے جو سارا سال رہے... یہاں تک کہ پھر عید کا دن آجائے...
عید کے دن کی خوشیوں کو آپ مستقل بنا سکتے ہیں... پائیدا ربنا سکتے ہیں... آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں ، یہ تجربہ زیادہ مہنگا بھی نہیں... نسخہ سستا ہے... آپ دوسروں کو خوشی دیں... آپ کو حقیقی خوشی محسوس ہونے لگے گی... اس خوشی میں جب تک دوسروں کو شامل نہیں کریں گے... کچھ نہیں ہو گا... عید کے دن کی خوشی عارضی ہی رہے گی... میں آپ کو مستقل خوشی کی دعوت دیتاہوں...
Flag Counter