Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن25 تا 31 جولائی 2014

ہ رسالہ

1 - 9
عید پھر آئی ہے !
عید الفطر پھر آئی ہے۔ ہر طرف اک خوشی سی چھائی ہے… مگر یہ خوشی اب پہلے کی طرح بھرپور نہیں۔ وہ کیف وہ سرور نہیں… اللہ کی بارگاہ میں سرجھکتا تو ہے، مگر دلوں سے غیراللہ کا خوف نہیں نکلتا۔ ایک زمانہ تھا مسلمانوں کے سر پورا سال اللہ کی بارہ گاہ میں جھکتے تھے اور اغیار کے سامنے ان کی گردنیں تنی رہتی تھیں… تب عید کا دن حقیقی شادمانی کا وقت ہوتا تھا۔ مسلمانوں کی نمازِ عید ان کی قوت، شوکت عزت و افتخار کا ایسا نمونہ ہوتی تھی جسے دیکھ کر اہلِ باطل کی نگاہیں خیرہ ہوجاتی تھیں۔ ہاں! وہ ہمارا ماضی تھا… عید کے موقع پر فتح مکہ کی خوشخبری مدینہ پہنچتی ہے۔

ہر زبان پر حمد کے ترانے جاری ہوجاتے ہیں۔ محمد بن قاسمؒ کے ہاتھوں سندھ فتح ہوتا ہے تو عید کے دن یہ خبر بصرہ پہنچتی ہے۔ چہروں پر وہ چمک آتی ہے جو صرف خوددار اور غیور قوموں کے افراد کے نصیب میں ہوتی ہے۔ وہ بھی عید الفطر کے ایام تھے جب طارق بن زیادکے سرفروش اندلس میں حق و باطل کا وہ تاریخ ساز معرکہ لڑرہے تھے جس کے نتیجے میں 800 سال تک وہاں مسلمانوں کی حکومت رہی۔ زلاقہ میں یوسف بن تاشفین نے الفانسو کو شکست دے کر جب اندلس کی گرتی ہوئی اسلامی حکومت کو بچایا تو اہلِ اسلام نے عید کی نماز کے ساتھ یہ خبر سنی۔ اسلام کے اس مجاہد کی فتح و نصرت کی دل سے دعائیں کیں۔
عیدالفطر ہی کا دن تھا جب اصفہان کے شکست خوردہ مسلمان عیدگاہ میں صفیں بنائے کھڑے تھے۔ ہر آن تاتاریوں کے حملے کا خطرہ سر پر تھا کہ ایسے میں گرد و غبار کے بادلوں سے خوارزم کے مجاہدِ اعظم سلطان جلال الدین کا چہرہ نمودار ہوتا ہے۔ اہلِ اصفہان سلطان جلال الدین کے گرد جمع ہو کر تاتاریوں سے

ٹکر لیتے ہیں۔ انہیں شکست فاش دے کر دریائے آمو کے پار بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ وہ بھی عید کے ایام تھے جب مسلمانانِ پاکستان ایک نئی اسلامی مملکت کی خوشی منارہے تھے۔ بانی ٔ پاکستان محمد علی جناح، ان گنت مسلمانوں کے ساتھ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی اقتداء میںنمازِ عید ادا کررہے تھے، مگر مدت ہوئی عیدوں کا ماحول ہی بد ل گیا۔
یہ کیسی عید ہے کہ غزہ میں مسلمان بچے دواؤں اور زخموں کے علا ج کے بغیر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مررہے ہیں۔ ہمارا جی اچھے سے اچھے جوتوں، عمدہ سے عمدہ کپڑوں اور نئے سے نئے فیشن سے نہیں بھر رہا۔ ادھر شمالی وزیرستان کے لاکھوں لوگ اپنے ہی وطن میں بے وطن ہیں۔ مردوں اور بچوں کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہورہی۔ بارش اور دھوپ انہیں جینے دیتی ہے نہ مرنے دیتی ہے۔ پردہ دار عورتیں گھرو ں سے باہر کھلے میدانوںمیں بے آسرا پڑی ہیں۔ ادھر ہم طرح طرح کی مٹھائیوں اور پکوانوں سے سیر نہیں ہورہے۔ چاہے بدہضمی ہوجائے اور ڈاکٹر کے پاس ہفتوں چکر لگانا پڑیں، مگر پیٹ کو اناڑی کی بندوق کی طرح بھرنا ہی ہمارا ذوق و شوق ہے۔ ہمیں توفیق نہیں ہوتی ہم عید کے اخراجات میں کچھ کمی کرکے ان بھائی بہنوں کی خدمت میں بھی کچھ حصہ ڈالیں جو آج ہمارے تعاون کے شدید ضرورت مند ہیں۔ اگر آج کوئی ان کے لیے جیب سے کچھ نکالتا بھی ہے تو وہ معمول کی زکوٰۃ یا فطرے کا کچھ حصہ جو ویسے ہی ہم پر فرض و واجب ہے۔ جو واجب صدقہ ہر سال نکالا ہی جاتا ہے، اس کی ادائیگی میں کون سا کمال ہوا؟ حالات معمول کے ہوں یا غیرمعمولی، وہ توہمارا مستقل دینی فریضہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ دوسروں کے دُکھوں سے تاثر لے کرہم نے کیا کیا؟ اپنے اوپر کچھ سختی برداشت کرکے، کچھ قربانی دے کر، کچھ چیزوں کی خواہش کو مارکے ہم نے ایک ہمدرد اور غیرت مند مسلمان ہونے کا ثبوت دیا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر بھول جائیے کہ ہم ایک اُمت اور ایک قوم ہیں۔
نہیں ہمارا یہ دعویٰ محض ایک فریبِ نفس ہے جس میں ہم نے خود کو مبتلا کر رکھا ہے۔ جس گھر کے افراد ایک دوسرے کے دُکھ کو اپنا دُکھ درد نہ سمجھیں، اسے کون ایک گھرانہ سمجھے گا؟ جس خاندان میں ایک بیمار بھائی کو موت کے منہ میں دیکھ کر بھی دوسرے بھائی کے ہاتھ سے صرف واجب زکوٰۃ کی کچھ رقم احسان جتلاتے ہوئے دی جائے، وہاں اخلاق و مروت کا ماتم ہی کرنا پڑے گا۔ کوئی نہیں مان سکتا کہ ایسا خاندان کبھی معاشرے میں اونچا مقام پائے گا۔ اگر ہم نام کے نہیں، حقیقی مسلمان ہیں تو پھر عید کے دن ہمیں عالمِ اسلام کے ہر گوشے کا درد اپنے دل میں محسوس کرنا ہوگا۔ اور لازم ہے کہ اس درد کا اظہار ہمارے قول و عمل سے ہو۔ ضروری ہے کہ ہم اس موقع پر ربّ العزت کے حضور گڑ گڑاکر ان مصیبت زدہ بھائی بہنوں کے لیے امن، سکون، حفاظت اور فتح و نصرت کی دعائیں مانگیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنی عید کی کچھ خواہشات، کچھ معمولات، کچھ تفریحات اور پکنک کے پروگراموں کو اس بار ان مستحق افراد کے لیے ترک کردیں۔ اس کی جگہ اتنی رقم امدادی کاموں کے لیے صرف کردیں۔ ان شاء اللہ! اس سے جو ربّ کی رضا ملے گی، اس کے سامنے سب کچھ ہیچ ہے۔ یہی نہیں بلکہ نقد و ہ دلی خوشی اور اطمینان نصیب ہوگاکہ یہ عید ایک یادگارعید بن جائے گی۔
Flag Counter