Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 18 تا 24 اپریل 2014

ہ رسالہ

9 - 12
طیب اردگان کو تمام اسلامی تحریکوں کی حمایت حاصل ہے
    تحریر انٹرویو پینل : مفتی ابو لبابہ ، انور غازی ،عبدل منعم فائز ، عمر فاروق راشد 

ضرب مومن: ترک عوام کو نشے سگریٹ اور بدعنوانی سے بچاکر ملکی ترقی، تعلیم، تجارتی پیش رفت اور ایک اچھے ذہن کی طرف لانے میں یہ شخص کس طرح کامیاب ہوا؟ اور ہم لوگ کیسے ان سے استفادہ کرسکتے ہیں؟ ڈاکٹر ندیم احمد: ترکی نے جو اقتصادی ترقی کی اور اس سے عوام کو سہولتیں میسر ہوئیں تو اسی وجہ سے لوگ بد عنوانی سے بھی رک گئے۔ پھر اس نے سختی بھی کی۔ بد عنوانی صرف یہ نہیں کہ چھوٹی چھوٹی سطح کی جو رشوت لے اس کے پیچھے بھاگے، بلکہ بد عنوانی کے جو مرکزی اڈے ہیں، اس نے پہلے وہ ختم کیے۔ جو بڑے مگرمچھ ہیں، پہلے ان پر ہاتھ ڈالا ہے۔ تو اس سے اب وہاں بدعنوانی بہت کم ہوگئی ہے۔ ضرب مومن: مثلاً؟


٭ ترکی نے جو اقتصادی ترقی کی اور اس سے عوام کو سہولتیں میسر ہوئیں تو اسی وجہ سے لوگ بد عنوانی سے بھی رک گئے۔ ٭

ڈاکٹر ندیم احمد: مثلاً :ڈرائی پورٹ وغیرہ جو گروہ کا گروہ ہوتا ہے، یعنی وہ ایک بندہ نہیں۔ انٹیلی جنس کا ادارہ اس کی مسلسل خبریں لیتا رہتا تھا۔ چھے مہینے یا ایک سال سے ریکارڈ لیتے رہتے تھے، کیا ہورہا ہے؟ جب سارے ثبوت سامنے آجاتے تو چھاپہ مارتے۔ اس طرح تیس، چالیس، پچاس یا سوکے قریب آدمی ایک دم پکڑے جاتے۔ ان کے پہلے سے اتنے زیادہ ثبوت اکٹھے کرچکے ہوتے کہ وہ انکار نہیں کرسکتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک ہی پولیس کے ایک بلاک نے دوسرے بلاک پر چھاپا مارااور ان کے کسی بڑے افسر کو گرفتار کرکے لے گئے۔ یہاں تک کہ پورے ترکی کے مین ہیڈ آفس انقرہ کا وائس بھی اس میں پکڑا گیا۔ تو اس طرح اوپر والے درجے کے جب پکڑے جاتے ہیںتو نیچے خودبخود فرق پڑہی جاتا ہے۔
ضرب مومن: آج کل ہم جس طرح کے مسائل کا شکار ہیں، کہ ہمارے ملک میں افراتفری ہے، بد نظمی ہے، قومی مفادات پس پشت ڈال دیے گئے ہیں، صبح شام لوگ ذاتی مفادات کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اس طرح کی صورت حال کا ترکی بھی شکار تھا، ہم اپنے حالات بدلنے میں آپ حضرات کے تجربے سے کیا مدد لے سکتے ہیں؟
ڈاکٹر ندیم احمد: قومی یکجہتی اور قومی مفادات قوم کو دوبارہ یاد کرانے کی ضرورت ہے۔ برائی کا تذکرہ چھوڑکر اچھائی کے تذکرے کی ضرورت ہے۔ یہاں جو یہ بات پھیل گئی ہے کہ او جی! ہر کوئی کھاتا ہے،ہر کوئی یوں کرتاہے۔ یعنی غلط غلط چیزوں کا پچھلے دس سالوں سے اتنا تذکرہ ہورہا ہے کہ یہاں ہر کوئی دوسرے سے دلیل پکڑ کر اپنے مفادات کا ذکر کرتا ہے۔ اس طرح کی صورت حال سے جو لوگ قومی سوچ رکھتے ہیں، ان میں سے بھی بہت سارے ذاتی مفاد پرستی کی طرف نکل گئے ہیں۔ یعنی قومی مفاد کا تصور اُجاگر کرنے اور اس کو ذہن نشین کروانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر نظام تعلیم میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جب اسکول سے یہ سیکھ کر نکلیں گے کہ قومی مفاد کیا ہے؟ اس کی اہمیت کتنی ہے؟یونیورسٹیوں سے جب سیکھ کر نکلیں گے تو اس سے فرق پڑے گا۔ ضرب مومن: شام کے بارے میں عجیب عجیب خبریں سنتے ہیں، اور وہاں کی صورت حال جاننا چاہتے ہیں۔ آپ تو قریب ہی رہتے ہیں، وہاں کی حقیقت حال کیا ہے؟
ڈاکٹر ندیم احمد: شام کے حالات بہتر ہوجانے کے لیے ترکی اپنے طور پر بہت کوشش کررہا ہے۔ شروع میں موجودہ حالات کے پیدا ہونے سے قبل طیب اردگان اور اس کی حکومت نے بشارالاسد کو بہت سمجھانے اور سنبھالنے کی کوشش کی۔ ان سے کہا آپ ایسے حالات میں نہ چلے جانا جیسے دوسرے عرب ممالک چلے گئے۔ آپ کے ملک کا نظام ٹھیک نہیں۔ جیسے دیگر غلط نظام والے ممالک میں ہنگامہ آرائی ہوئی ہے، کہیں آپ کے ملک میں نہ ہوجائے۔ اس ہنگامہ آرائی سے قبل اپنے نظام میں تبدیلی لے آؤ۔ بتدریج اصلاحات کے عمل کو لے کر چلو۔ یہ طے کرو کہ چھ ماہ بعد یہ ہوگااورنو ماہ بعد یہ اور یہ ہم ختم کررہے ہیں۔ عوام جس چیز کا مطالبہ کرے گی، تم خود اسے ختم کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اس کے لیے اگر ٹیکنیکل سپورٹ کی ضرورت ہے تو ہم دینے کو تیار ہیں۔ بشارالاسد شروع میں تو ہاں کرتا رہا کہ جی ٹھیک ہے،لیکن کیا کچھ بھی نہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے ارد گرد جو وڈیرے بیٹھے ہوئے ہیں، انہوں نے نہیں کرنے دیا۔
بشارالاسد طیب اردگان کی بات مان کر چلتا تھا۔ ان میں بڑی اچھی دوستی تھی۔ بالآخر تنگ آکرطیب اردگان نے کھری کھری سنادیں کہ یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ (باقی صفحہ5پر)
اس پر وہ بگڑ گیا۔ اس نے کہا: اگر آپ یہ نہیں کروگے، اپنے عوام پر ظلم کرتے رہو گے تو ہماری تمہاری دوستی نہیں چل سکتی۔ جیسے پاکستان افغانستان کا بارڈر لمبا ہے، ایسے ہی ترکی اور شام کا تقریباً کوئی سات، آٹھ سو کلو میٹر کے قریب لمبا بارڈر ہے۔ اس کے دونوں طرف آباد لوگ آپس میں رشتے دار ہیں۔ اس طرح اس اضطراب کا اثر دونوں طرف تھا۔ اس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ شام ہمارے لیے اہم ہے۔ اس میں اس طرح ہنگامہ آرائی کا عام ہونا ٹھیک نہیں۔
لیکن وہ کسی صورت بھی لائن پر نہ آیااور پبلک کو مارنا شروع کیا۔ یوں یہ آپس میں بگڑ گئے۔ ترکی نے بارڈر کھول دیا۔ شام سے ترکی منتقل ہونے والے لوگ چار، پانچ لاکھ کے قریب ہیں۔ غیر رجسٹر ہوسکتا ہے دس لاکھ کے قریب ہوں، یہ سب اس طرف منتقل ہوچکے ہیں۔ اب وہ ہماری گلیوں، محلوں اور شہروں میں بھی نظر آتے ہیں۔ چار، پانچ آبادی کے لیے کیمپ بنایا گیاہے۔ شاید ہی دنیا میں کسی جگہ اتنے معیار کے کیمپ ہوں۔ بجلی، پانی حتیٰ کہ اسکولنگ تک کی سہولت ہے۔ یہ سوچ کر کہ جب اتنے لوگ ہیں، ان کے بچے بھی ہیں، پتا نہیں یہ ہنگامہ آرائی چھ ماہ چلے گی یا ایک سال؟ عارضی اسکول کیمپ بنائے گئے ہیں، تاکہ ان بچوں کی تعلیم خراب نہ ہو۔ ہر طرح کی سہولت انہیں میسر ہے۔ اتنا اچھا نظام بنایا ہوا ہے،ظاہر ہے اس پر بہت بڑے اخراجات آئے ہیں۔
ضرب مومن: ہمارے ہاں ایک ہفت روزہ میگزین ’’شریعہ اینڈ بزنس‘‘ صرف تاجروں کے لیے ہے۔ ترکی نے تجارت میں بڑا نام کمایا ہے۔ بڑی اعلیٰ درجے کی مصنوعات بنا تے ہیں۔ بات کے پکے اور وعدے کے سچے ہیں۔ پھر ہمارے ہاں شریف برادران بھی تجارت میں بڑا اچھا پس منظر رکھتے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کیا چین کے بعد ترکی ایسا دوسرا بڑا ملک بن سکتا ہے جوہمارے لیے، ہماری تجارت کے لیے اور دونوں ملکوں کی معیشت کو بہتری کی طرف لے جانے کے حوالے سے ایک اچھا ساتھی ثابت ہو؟
ڈاکٹر ندیم احمد: جہاں تک میری معلومات ہیں پچھلے دنوں میری ایک سفارت کار سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بھی ذکر کیا کہ شریف برادران کی نظر میں ترکی کی بڑی اہمیت ہے۔ چین کے بعد وہ اسی کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھ رہے ہیں۔ شریف برادران کی بڑی کوشش اور توقعات ہیں کہ ترکی کے ساتھ تجارتی معاملات ہوں۔ خاص طور پر پاکستان کے بڑے مسائل( انرجی اور بجلی وغیرہ) کے حل کے لیے بھی یہ وہاں بات چلا رہے ہیں۔ لیکن ہر سطح پر دو طرفہ تجارت کی ضرورت ہے۔
باقی رہا کہ وہ قول کے پکے ہیں، تو دنیا میں ہر طرح کے لوگ ہیں۔ وہاں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو اچھے نہیں ہیں، یہاں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو اچھے نہیں ہیں۔ لہٰذا تجارت کو اپنے اصول و ضوابط کے تحت صحیح طرح سے کیا جائے۔ ایسی مسائل کو پہلے قدم پر حل کرنا چاہیے کہ کوئی غلط آدمی نہ مل جائے۔ لیکن یہ بات بہرحال ہے کہ دونوں ملکوں کو آپس میں تجارت کی سخت ضرورت ہے۔ بھائی چارے کے لیے بھی اور’’ امت پنے‘‘ کے لیے بھی۔ ترکی ایسا ملک ہے جس کے عوام پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت رکھتے ہیں۔ ہمارے جتنے حضرات وہاں جاتے ہیںوہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ پاکستان کا نام سن کروہ فرط جذبات میں نہایت محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ جب میں شروع میں وہاں گیا تھا تو پہلے سالوں میں کبھی کسی مرکزی شہر سے ادھر ادھر چلا جاتا،کسی مسجد میں جاتا،اس وقت میری ڈاڑھی کالی تھی، تو لوگ مجھے دیکھ کر کھڑے ہوجاتے اور سارے قطار میں لگ کر نوجوان بھی اور بڑے بوڑھے بھی مجھ سے ہاتھ ملانے لگتے۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ وہ مجھے گلے لگا کر رویا کرتے تھے۔ نہ مجھے سمجھ آتی تھی کہ وہ کیوں روتے ہیں اور نہ وہ بتا سکتے تھے۔ بس صرف اس لیے میں پاکستانی ہوں، وہ مجھ سے مل کر رونے لگتے۔ یہ صرف محبت کی وجہ سے تھا۔ ہمارا آپس میں محبت کا تعلق ہے۔ بس! اور کوئی تعلق نہیں۔ اس کے باوجود تجارت ہم دوسرے ممالک سے کر رہے ہیں۔
ضرب مؤمن: اسلام پسندوں کی ترکی میں حکومت کے بعد پاکستانیوں کے تاثرات اچھے بن گئے تھے، لیکن وہاں سے ایسی فلمیں بن کر آنا شروع ہوئیں جس سے یہاں ترکی کے بارے میں بہت منفی تأثر بن گیا ہے۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟
ڈاکٹر ندیم احمد: اس کی کہانی وہی ہے جو طیب اردگان کی ترقی کی ہے۔ اردگان نے ترقی کے ساتھ ساتھ اسلام کا نام بھی لیا۔ وہاں کے اسلامی ذہن کے لوگوں کے سامنے آنے کے راستے بھی کھلے،اس سے دشمن کے کان کھڑے ہوگئے۔ جب فریڈم فلوٹیلا والا مسئلہ ہوا تو اس کے بعد اس نے اسرائیل کے صدر کو سیدھی سیدھی سنادیں۔ پتا نہیں یہ یہاں دکھایا گیا یا نہیں؟ البتہ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ وہ دیکھنے کی چیز ہے اگر کسی کو موقع ملے۔ اس نے وہ بات کہہ دی جو آج سے پہلے کسی نے نہیں کہی تھی۔ اس نے کہا:’’تم قاتل ہو!‘‘ اس سے ساری عرب دنیا طیب اردگان کی عاشق ہوگئی۔ اس کے بعد ایک امریکن اخبار نویس نے سروے کیا اور رپوٹ میں لکھاکہ ترکی کے اردگرد جو دس ملک ہیں( یہی عرب ممالک) ان دس ملکوں کے مقبول ترین سیاسی قائدین سے طیب اردگان زیادہ مقبول ہے۔
سارے عرب ممالک اور ساری اسلامی دنیا کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہو گئی تھیں۔ وہ ملک میں ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر اسلامی دنیا میں بھی مضبوط ہوگیا تھا۔ اس کی طاقت کو توڑنے کے لیے یہ سازشیں کی گئیں۔ ان فلموں کو طیب اردگان اپنے ملک میں بننے سے نہیں روک سکتا کیونکہ قانون تاحال سیکولر ہے۔ پہلے سے موجود قوانین اور سکول سسٹم کی موجودگی میں اس کے بننے سے روک تو نہیں سکتا لیکن میں نے خود دیکھا ہے کہ وہ اپنی تقریروں میں ان فلموں کی تردید کرتا ہے کہ جو دکھایا جارہا ہے یہ اصل نہیں۔ اور کہتے ہیں:’’یہ کیا ہے؟ اس کا ترکی تہذیب و تمدن سے کوئی تعلق نہیں۔ ‘‘ جھوٹ موٹ عجیب و غریب چیزیں بنا کر اس کی ڈبنگ کی گئی اور اسے عرب ممالک میں پھیلا دیا گیا۔ جس جس ملک میں وہ ترکی کا تعلق دیکھتے تھے وہاں پھیلاتے تھے۔ جب شریف برادران نے میٹرو بس کے سلسلے میں ترکی کا رخ کیا تو وہی فتنے ادھر بھی آ گئے۔ بہرحال! ترکی ڈرامے پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں پھیلاکر یہ دکھانا مقصود ہے کہ جس ملک کو تم اپنا لیڈر سمجھتے ہو اس کی اصلیت دیکھو۔ جب یہ پیش کی جائیں گی تو مسلمان یہی کہیں گے: ’’اچھا تویہ ہے ترکی، اس کو دفعہ کرو‘‘ تو دشمن یہ کھیل کھیلنا چاہتے ہیں، ورنہ وہاں صرف یہی فلمیں تھوڑا بن رہی ہیں، بڑی اچھی اچھی چیزیں بن رہی ہیں، ان کوکو ئی نہیں دکھاتا۔
ضرب مؤمن: فلموں کی طرح تعلیم کا بھی مسئلہ ہے۔ تعلیم کے حوالے سے خود ہم نے بھی ایک بار لکھا تھا کہ پاکستانی نوجوانوں کو یورپ و امریکا کے بجائے ترکی جانا چاہیے۔ اعلی درجے کی تعلیم بھی حاصل کریں اور نظریاتی طور پر ایک اچھے مسلمان، ایک اچھے محب وطن و ملت لوگ بن کر آئیں۔ لیکن یہاں پاک ترک اسکول کے نام سے جو کام کر رہے ہیں یہاں سے پھر پڑھ کر اعلی تعلیم کے لیے ترک جانے والوں کے لیے اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ تو دشمن ہوں گے۔
ڈاکٹر ندیم احمد: ظاہر ہے یہ اندیشہ تو ہونا ہی چاہیے کیوں کہ گولن گروپ کے بارے میں جو صورت حال سامنے آئی ہے، اس سے تو اندیشہ ہوگاہی۔ اگر ہم اس پر نظر نہ رکھیں تو یہ تو کسی بھی غلطی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ جہاں جہاں یہ اسکولز ہیں اور یہ 140یا 160کے قریب تعداد میں ہیں۔ ان سب کے بارے میں یہ بات چل رہی ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا مسئلہ ہے؟ ضرب مؤمن: دینی اداروں میں طلباء کی نظریاتی تربیت ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے۔ آپ دنیاوی اداروں کی کیسے تر بیت کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹر ندیم احمد: میرے خیال میں ترک قوم میں سلطنت عثمانیہ سے ہی سیاسی شعور ہمارے ملکوں کی نسبت زیادہ ہے۔ یعنی وہاں کے دینی اداروں میں بھی۔ یہاں پاکستان اور بر صغیر کے اداروں میں فقہ، حدیث اور دوسری چیزوں کی طرف توجہ زیادہ ہے لیکن وہاں کا طالب علم خواہ دینی علوم کا ہی ہو،اس کے ساتھ ساتھ ضرور سیاست پر نظر رکھتا ہے۔ سیاسی شعور یہاں ضرور حاصل ہوتا ہے۔ میں نے ایک دفعہ ایک بزرگ سے سنا تھا کہ مولانا شبلی نعمانی ؒ جوانی کے زمانے میں ترکی گئے۔ وہ ایک مدرسہ میں گئے۔ وہاں ہندوستان کے کسی عالم کی منطق یا فلسفہ کی کتاب پڑھائی جارہی تھی۔ ان سے ترکی کے ایک مولوی صاحب نے کہا:’’اچھا تو آپ ہندوستان سے آئے ہیں۔ ہم یہاں ہندوستان کے علماء کی کتابیں پڑھاتے ہیں۔ ‘‘ مولانا شبلیؒ فرماتے ہیں: جب میں نے جاکر دیکھا تو وہ کتاب خود میری ہی تصنیف کردہ تھی۔ جو میں نے درمیانے درجے کے طلباء کے لیے لکھی تھی۔ اس کتاب کو وہ بڑے شوق ذوق سے بڑی زبردست کتاب سمجھ کر پڑ ھا رہے تھے۔ شبلی ؒ کہتے ہیں کہ ایک طرف میں نے یہ دیکھا وہ علم میں خاص درجے کے نہیں، پھر جب میرے سامنے بیٹھے تو سارے کے سارے میرے ساتھ ہندوستان کی سیاست پر گفتگو کرنے لگے۔ مطلب یہ کہ سیاسی شعور ان میں پہلے سے چلا آرہا ہے۔ یہاں سیاست سے ہر درجے کے لوگ وابستہ رہتے ہیں۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب آدمی کو پتاہو کیا ہورہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے؟ تو زیادہ تر لوگ صحیح نتیجے تک پہنچنے میں کامیاب رہتے ہیں، اور درست غلط کی پہچان کرلیتے ہیں۔ ضرب مؤمن: ترکی سے جو فلمیں آرہی ہیں، جن سے اسلامی تہذیب و تمدن کو تہس نہس کیا جارہا ہے، اس کی روک تھام کے لیے کوئی قانون سازی ہورہی ہے یا نہیں؟
ڈاکٹر ندیم احمد: جی ہو رہی ہے لیکن سب کچھ آئین کے اندر رہ کر کرنا پڑ تا ہے۔ صرف یہی مسئلہ نہیں بلکہ اس جیسے اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن پر آئین کی وجہ سے ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس کے لیے انہوں نے آئین کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ تیسر ی بار الیکشن میں کامیابی کے بعد سب سے بڑا کام یہی تھا کہ آئین کو تبدیل کریں۔ جب انہوں نے اس کے لیے کوششیں شروع کیں تو سیکولر طبقہ آڑے آگیا۔ سیکولر لوگوں اور اداروںنے بہت شور مچایا کہ الیکشن جیتنے والا شخص آئین نہیں بنا سکتا۔
طیب اردگان نے ان کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے یہ کیا کہ آئین تبدیل کرنے کے واسطے ایک کابینہ کمیٹی بنا دی۔ ترکی کے تقریبا ہر ادارے کو اس نے آفر کی کہ آئین کے لیے رائے دو۔ تجارتی اداروں سے رائے طلب کی۔ حتی کہ اس نے کہا ہر فرد شخصی رائے رکھتا ہو اور اس پر کوئی رائے دینا چاہتا ہو تو دے۔ اتنے وسیع درجے میں سب کی رائے لے کر آئین بنانے کی کوشش کی۔ اس سے یہ ہوا کہ حزب اختلاف یامخالف پارٹیاں جو سیکولر ازم کو قائم رکھنا چاہتی ہیںان کو بھی موقع ملاکہ اس پر بات کریں۔ پچھلے دو سالوں میں اس پر محنت ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 60 کے قریب معاملات پر سب اکٹھے ہو گئے۔ ٹوٹل 150 کے قریب معاملات ہیں جن پر بحث چل رہی ہے۔ آگے کچھ ایسی چیزیں ہیں جن پر وہ اڑ گئے ہیں۔ اگر کسی طرح اس میںسے گزر جاتے ہیں اور آئین میں ایک نیا آئین دے دیتے ہیںتو پھر وہ جو آپ سمجھ رہے ہیںوہ تبدیلی آئے گی، اس کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ضرب مؤمن: مستقبل قریب میں پاکستا ن کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ ترکی جیسے ملک کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے، نیز ہم لوگ جن مسائل کا شکار ہیں ان سے نجات پانے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر ندیم احمد: ملک کے اندر قومی یکجہتی کو ہر حال میں قائم رکھنا، اس کی طرف قدم اٹھانا یعنی قدر مشترک کو سامنے رکھتے ہوئے، سب کا خیال رکھتے ہوئے۔ مذہبی، علاقائی اور لسانی تعصب کو ہمارا دشمن بڑے آرام سے استعمال کر تا ہے۔ اس لیے علاقائی تعصب کو بھی اور لسانی تعصب کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ کسی کے ساتھ زیادتی ہوگئی ہے توا ن زیادتیوں کو بڑے حوصلے کے ساتھ قبول کرکے ان کی تلافی کی جائے۔ اگربلوچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو پنجاب کو چاہیے کہ اس کی تلافی کی کوشش کرے۔
ضرب مؤمن: آپ نے ضرب مؤمن کو پڑھا، اس کو کیسا پایا؟ ڈاکٹر ندیم احمد: (مسکراتے ہوئے) ’’ضرب مؤمن‘‘ کو مؤمن کی ضرب کی طرح پایا۔ ہم جو تھوڑی دیر پہلے بات کر رہے تھے کہ دونوں ملکوں کو آپس میں قریب لانے کی ضرورت ہے۔ دو طرفہ تجارت کی ضرورت ہے تو یہ آپ کے تجارتی رسالے ’’شریعہ اینڈ بزنس‘‘‘ کے حوالے سے بات اس طرف چلی گئی۔ اس میں ایک بڑی اہم بات یہ ہے کہ ایک بڑا فقرہ بولا جاتا ہے۔
ع زبان یار من ترکی و ترکی نمی دانم ترکی میں ایسا کوئی شخص نہیں ہے جو اس ہفت روزہ میگزین کو منتقل کر سکے۔ یعنی اردو جاننے والے وہاں اتنے کم ہیں جتنے یہاں ترکی جاننے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اور جو یونی ورسٹی میں پڑھائی جاتی ہے وہ کمزور سی ہے۔ زبانوں کی اجنبیت کی بنا پر پیدا ہونے والا فاصلہ کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے جانبین کو فائدہ ہوگا۔
Flag Counter