Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 18 تا 24 اپریل 2014

ہ رسالہ

3 - 12
طواف کوئے ملامت
    تحریر کالم نما/ ملا مسکین 

ہم عصر کے بعد چہل قدمی کرتے ہوئے اس گلی کی طرف نکل گئے، جہاں ہمارے دوست مسٹر کلین کا دولت خانہ آباد ہے۔ مسٹر کلین کا گھر دکھائی دیا تو بے ساختہ غالب کا یہ شعر زباں پر آگیا ؎ دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا صنم کد ہ ویراں کیے ہوئے مگر ہمارا ارادہ صرف ’’طواف کوئے ملامت‘‘ کا ہی تھا۔ مسٹر کلین سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کا خود ہمارے پاس وقت نہیں تھا۔ مغرب کی نماز ہم نے ان کے محلے کی مسجد میں ادا کی۔ مسجد میں ہمیں ایک نوجوان ملے جو ہمیں کسی حوالے سے جانتے تھے۔ انہوں نے نماز کے بعد شربت وغیرہ پلانے کے لیے بہت اصرار کیا۔ ہمیں ان کی محبت کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ ہم ابھی قریبی جوس کی دوکان میں بیٹھے کیلے کے جوس کی تیاری کا انتظار کر رہے تھے کہ ہمارے دوست مسٹر کلین بھی دوکان کے سامنے سے گزرتے دکھائی دیے۔ ہماری خوش قسمتی تھی ان کی نظر کرم ہم پر پڑگئی۔ وہ مڑ کر ہمارے پاس تشریف لائے۔
موصوف بڑے خوش گوار موڈ میں تھے۔ چھوٹتے ہی کہنے لگے: ’’ملاجی! آپ نے خواہ مخواہ ہمارے ڈرا ڈرا کر دُبلا کردیا تھا کہ افغانستان میں طالبان نے جنگ جیت لی ہے اور امریکا شکست کھاکر دُم دباکر بھاگ رہا ہے۔ امریکا نے تو وہاں کامیاب الیکشن کروالیا ہے، اب اس کا قبضہ پکا ہوگیا ہے۔ طالبان نے انتخابات ناکام بنانے کی بہت دھمکیاں دی تھیں۔ دیکھا آپ نے وہ دھمکیاں کس طرح گیدڑ بھبکیاں ثابت ہوئیں۔ اب تو آپ ملا لوگوں کی خوش فہمیاں دور ہوجانی چاہییں!‘‘ مسٹر کلین کی اس گفتگو کے دوران جوس کے گلاس آگئے تھے۔ ہم نے اخلاقاً اپنا گلاس ان کے آگے کردیا جو انہوں نے بلا تکلف قبول کرلیا اور نلکی کے ذریعے لمبی لمبی چسکیاں لینے لگے۔


طالبان نے حکمت عملی کے تحت الیکشن میں خلل نہیں ڈالا تاکہ امریکا کو افغانستان میں مزید قیام کا جواز نہ مل سکے۔

ہمارے میزبان نوجوان نے جو غالباً مسٹر کلین کی عادتوں سے واقف تھے۔ ایک خشمگین نگاہ سے مسٹر موصوف کی طرف دیکھا۔ ایک اور گلاس کا آرڈر دیتے ہوئے اپنا گلاس ہماری طرف بڑھادیا۔ خیر! تو ہم نے مسٹر کلین کی بات کے جواب میں گزارش کی کہ ہمیں خوش فہمیاں دور کرنے کا آپ کا مشورہ سر آنکھوں پر، لیکن افغان صدارتی انتخابات سے متعلق مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں پڑ ھ کر آپ کو جو خوش فہمی لاحق ہوچکی ہے، اس کا ازالہ کون کرے گا؟‘‘
مسٹر کلین نے جوس کی آخری ’’گڑگڑاہٹ والی‘‘ چسکی لے کر سوال کردیا: ’’میری خوش فہمی؟ میں تو فیکٹس کی بنیاد پر بات کررہا ہوں۔ کیا افغانستان میں صدارتی انتخاب کامیاب نہیں ہوا؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’دیکھیں! انتخابات کی کامیابی کے تین پیمانے ہوتے ہیں، ایک یہ کہ وہ آزادانہ ہوں، دوسرے یہ کہ پورے ملک میں لوگ جوق در جوق انتخابات میں حصہ لیں اور پھر یہ کہ الیکشن کے دوران امن قائم رہے۔
جہاں تک افغان صدارتی انتخابات کے ’’آزادانہ‘‘ ہونے کا سوال ہے تو اس کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ یہ انتخابات قابض فوج کی نگرانی میں اور عالمی طاقتوں کی چھتری تلے ہورہے ہیں۔ انتخابات میںعوام کی شرکت کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو افغانستا ن اگر صرف شمال کے چند علاقوں اور کابل کے مخصوص آبادی والے حصے کا نام ہے تو آپ کا یہ دعویٰ بالکل درست ہے کہ وہاں کچھ انتخابی گہماگہی دیکھنے میں آئی ہے، مگر جہاں تک جنوبی افغانستان کا تعلق ہے جہاں ملک کی 90 فیصد آبادی رہتی ہے، وہاں عالمی میڈیا بھی بسیار کوشش کے باوجود گہماگہمی اور ووٹروں کی قطاریں نہ دکھاسکا۔ خود افغان کٹھ پتلی الیکشن کے مطابق سیکڑوں کی تعداد میں انتخابی مراکز ایسے تھے جہاں سرے سے کوئی ووٹ ہی نہیں ڈالا گیا۔ اور جہاں تک امن و امان کا سوال ہے تویہ بات درست ہے کہ جہاں بھی الیکشن ہوا مجموعی طور پُر امن وامان کے ماحول میں ہوا…
مسٹر کلین نے یہاں ہماری بات کاٹتے ہوئے کہا: ’’جی! اب اس بارے میں آپ کی تاویل کیا ہے؟ سنا ہے مولویوں کے ہاں تاویل کا باب ’’باب خیبر‘‘ سے بھی بڑا ہوتا ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’دیکھیں! تاویل کی بات نہیں ہے، آپ کو یاد ہوگا، الیکشن سے پہلے ایک ماہ کے دوران کابل کے انتہائی سیکورٹی علاقے میں طالبان نے غیرملکی اہداف پر چار خونی حملے کیے جن میں درجنوں صلیبی مارے گئے۔ اب اگر وہ کابل کے ریڈ زون میں اتنی بڑی کارروئیاں کر سکتے ہیں تو ان کے لیے دیگر علاقوں میں کارروائیاں کرنا کون سا مشکل کام تھا؟ بات یہ ہے کہ طالبان نے اس لیے انتخابی عمل کو نشانہ نہیں بنایا کہ اس سے عام لوگوں کو نقصان ہونا تھا، طالبان عام لوگوں کو کبھی نشانہ نہیں بناتے۔
دوسری بات بعض مبصرین نے یہ کی ہے کہ طالبان نے حکمت عملی کے تحت الیکشن میں خلل نہیں ڈالا تاکہ امریکا کو افغانستان میں مزید قیام کا جواز نہ مل سکے۔ ہم یہاں تک پہنچے تھے کہ مسٹر کلین ایک جھٹکے کے ساتھ اپنی نشست سے اٹھے اورکہا: ’’ اوہ،سوری ملا جی! میرے ہاں مہمان آئے ہوئے تھے، مجھے تو بیگم نے دودھ اوربسکٹ لانے بھیجا تھا!‘‘
Flag Counter