Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 18 تا 24 اپریل 2014

ہ رسالہ

7 - 12
ملامتی طبقہ
گرمیوں کی چھوٹی راتوں میں جب صبح چار سوا چار بجے اذان ہوتی ہے تو کبھی سوچا کہ یہ اذان کس نے دی ہوگی؟ سرد ٹھٹھرتی راتوں میں جب سارے کمبل لپیٹے پڑے ہوتے ہیں ایسے میں روزانہ اللہ اکبر کی صدا گونجتی ہے اور روزانہ ایک مقررہ وقت پر گونجتی ہے۔ کبھی خیال آیا یہ کون ہے جو اتنا پنکچوئل ہے؟ دن میں پانچ مرتبہ مقررہ وقت پر یہ اذان کون دیتا ہے؟ کبھی دو منٹ دیر نہیں ہوتی۔ دن میں پانچ مرتبہ صاف ستھرے کپڑے پہن کر گھڑی کے الارم کی طرح ایکوریٹ ٹائمنگ رکھنے والا شخص آگے بڑھ کر مسجد کا مصلیٰ سنبھال لیتا ہے۔ اذان اور نماز کی وقت پر ادائیگی، مسجد کی صفائی ستھرائی، انتظام۔ وہ مسجد جہاں دن میں پانچ مرتبہ سینکڑوں لوگ آتے ہیں پھر بھی ہر مرتبہ صاف ملتی ہے، صفیں درست ہوتی ہیں، سردیوں میں اندر کا ہال اور گرمیوں میں صحن میں صفوں کا انتظام، وضو خانے اور واش رومز کی صفائی کا اہتمام اور انتظام و انصرام، یہ سب کون کرتا ہے؟ یہ سب اتنی خاموشی اور آسانی اور منظم انداز میں کیسے ہوجاتا ہے۔ کبھی سوچا آپ نے؟


میڈیا پر ان کو ملا کہہ کر ان کی کردار کشی، ہر آفت کا ذمے دار انہی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ قوم کی ترقی میں رکاوٹ ان کو قرار دیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں شادی میں 300 افراد نے آنا ہو تو کتنے دن پہلے سے انتظام شروع ہوجاتا ہے؟ شادی کے کتنے دن بعد تک سمیٹنا پڑتا ہے؟ مسجد میں تو روزانہ پانچ وقت سینکڑوں لوگ آتے ہیں۔ وضو خانے کا پانی اور واش رومز کی ٹونٹیاں اور لوٹے تک سب موجود اور درست حالت میں ملتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ کیسے ہوجاتا ہے؟ نہ شور شرابہ نہ دکھلاوا۔ اگر نماز لیٹ ہوجائے، امام کو دیر ہوجائے، اذان میں تاخیر ہوجائے، فجر میں مسجد مدرسہ کا دروازہ دیر سے کھلے تو ہم کیسی کیسی باتیں سناتے ہیں اس بے چارے امام کو، مؤذن کو، خادم کو اور یہ سب خاموشی اور خندہ پیشانی سے سنتے، سہتے اور مسکراتے ہیں اور خاموشی سے خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ نہ احتجاج، نہ ہڑتال، نہ دھرنا اور پھر ایک دن حق گوئی کی پاداش میں کبھی مسجد مدرسہ میں گھس کر اور کبھی کسی شاہراہ پر انہیں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ ہم جنازہ پڑھ کر مکان خالی کرواتے ہیں ان کی فیملی سے اور پھر نیا امام، مؤذن اور خادم رکھ لیتے ہیں۔ پھر نیا امام، نیا مؤذن، نیا خادم آکر اسی خدمت میں لگ جاتا ہے۔ کیا خیال ہے؟ یہ لوگ کبھی بیمار نہیں ہوتے؟ ان کے بچے بیمار نہیں ہوتے؟ ہر نماز میں صاف ستھرے ہوکر ہنستے مسکراتے ہوئے پورے دھیان اور توجہ سے نماز کا پڑھانا۔ رکعت پہلی ہے یا دوسری، دوسری ہے یا پھر چوتھی یہ سب یاد رکھتے ہوئے نماز پڑھانا۔ حالانکہ ہمارا اپنا دھیان کہاں ہوتا ہے اور ہم خود نماز کتنی توجہ سے پڑھتے ہیں یہ سب، ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ لوگوں کے نکاح، ان کے جنازے، مردوں کے لیے تسلسل سے دعائیں، بحث کرنے والوں کے جواب میں مسکرانا۔ یہ سب آسان ہے کیا؟
کبھی سوچا کہ آئمہ مساجد سے کیسے کیسے لوگ کس کس قسم کے سوالات کس کس انداز میں کرتے ہیں؟ یہ سب کرکے بھی میڈیا پر ان کو ملا کہہ کر ان کی کردار کشی، ہر آفت کا ذمے دار انہی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ قوم کی ترقی میں رکاوٹ ان کو قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا وظیفہ معاشرے کے ہر طبقے سے کم، کام معاشرے کے ہر فرد سے زیادہ، مہینہ، سال نہیں بلکہ زندگی بھر کوئی چھٹی نہیں۔ جمعہ کے دن تو ان کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ کام بڑھ جاتا ہے پھر بھی سب ان سے ہی ناراض رہتے ہیں۔ عید کے دن سب کی چھٹی ہوتی ہے اور یہ پانچ کے بجائے چھ نمازیں پڑھاتے ہیں۔ دن کے گیارہ بجے تک عیدگاہ کا سامان سمیٹ کر مسجد میں پہنچاکر ہنستا کھیلتا ظہر کی نماز کے لیے پھر سے کون آن کھڑا ہوتا ہے۔ اس خدمت پر تو ہم سب کی گردنیں ان کے سامنے ادب اور عقیدت سے جھکی رہنی چاہئیں اور کبھی ان کے سامنے ہماری آواز تک اونچی نہیں ہونی چاہیے، لیکن جو ہورہا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اللہ کا واسطہ ہے مسلمانو! کچھ تو انصاف کرو اپنے علماء سے، اپنے آئمہ اور اپنے مؤذن اور اپنی مسجد کے خادم سے۔
Flag Counter