امریکی چھتری کے سائے میں
تحریر ناگفتنی / مولانا محمد اسماعیل ریحان
منگل 11 ستمبر 2001ء کو امریکا کے مقامی وقت کے مطابق صبح کے 8 بج کر 48 منٹ ہوئے تھے۔ پاکستان میں لوگ مغرب کی نماز پڑھ کر فارغ ہوچکے تھے۔ ہر شخص اپنی اپنی دھن میں مگن تھا۔ نیویار ک میں ایک مسافر طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جنوبی ٹاور سے جاٹکرایا۔ ہر طرف کہرام مچ گیا۔ 9 بج کر 3 منٹ پر ایک اور طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاور میں گھس گیا۔ 110 منزلہ کوہِ پیکر عمارت دیکھتے ہی دیکھتے ملبے کاڈھیر بن گئی۔ اس حادثے کی ذمہ داری القاعدہ پر ڈال کر امریکانے 7؍ اکتوبر 2001ء کو رات کے 9 بج کر 40 منٹ پر افغانستان میں فوجی کارروائی کا آغاز کردیا۔ صدر بش نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’یہ مہم دہشت گردی کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ اس جنگ میں امریکا تھکے گا نہ ناکام ہوگا اور نہ ہی کوئی غلطی کی جائے گی۔‘‘ جنگ کے نتیجے میں افغانستان سے پاکستان دوست اسلام پسند طالبان کی حکومت ختم ہوئی۔ امریکا نے جرمنی کے شہر بون میں افغانستان کے ان سابق سیاست دانوں کو مدعو کیا جو افغانستان کے المیوںسے لاتعلق کب سے گوشہ عافیت میں چھپے ہوئے تھے۔
اس کانفرنس میں کیے گئے فیصلوں کے مطابق 22 دسمبر 2001ء کو حامد کرزئی کی قیادت میں ایک عبوری حکومت نے 6 ماہ کے لیے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا، مگر یہ 6 ماہ تین سال طویل ہوگئے۔ افغانستان جنگ کی آگ میں جلتارہا۔ 2004ء کے اواخر میں صدارتی انتخابات ہوئے۔ حامد کرزئی کو امریکا کی پوری سرپرستی حاصل تھی، اس لیے مخالف دَھڑوں کے افراد آسانی سے خرید لیے گئے۔ یوں 7 دسمبر 2004ء کو حامد کرزئی نے 5 سال کی مدت کے لیے افغانستان کے منتخب صدر کی حیثیت سے اقتدار سنبھال لیا۔ ایک افغان شاعر غلام رسول خوش بخت نے صدارتی الیکشن کی ’’شفافیت‘‘ پر ایک طنزیہ نظم لکھی تواسے القاعدہ کا وفادار قرار دے کر گرفتار کرلیا گیا۔ صدارتی الیکشن کے بعد پارلیمانی انتخابات کی تیاری اور ’’مناسب وقت‘‘ کے انتظارمیں ایک سال اور گزرگیا۔ 18 ستمبر 2005ء کو افغانستان میں پارلیمانی الیکشن ہوئے۔ نتائج سامنے آنے کا عمل 7؍ اکتوبر کو مکمل ہوا۔ امریکا اس الیکشن کے نتائج پر بھی پوری طرح اَثرانداز رہا۔ وہ نہیں چاہتا تھا صدارتی قلم دان اور پارلیمنٹ ایک ہی دھڑے کے ہاتھ میں ہو، اس لیے پختونوں کی جگہ شمالی اتحاد کو آگے بڑھایا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا، بلکہ نکالا گیا کہ قومی اسمبلی میں شمالی اتحاد کے غیرپختونوں کو برتری حاصل رہی۔ 2004ء اور 2005ء کے صدارتی اورپارلیمانی الیکشن سخت خطرے کی زد میں ہوئے تھے، کیونکہ طالبان کے حملوں کا اندیشہ تھا۔ کئی جگہ طالبان نے پولنگ اسٹیشنوں کو نشانہ بھی بنایا تھا، مگر جلد ہی طالبان نے اپنی حکمت عملی تبدیل کردی، کیونکہ اس طرح مخالفین کو اس پروپیگنڈے کا موقع مل رہا تھا کہ طالبان اپنی نامقبولیت کو چھپانے کے لیے ایسا کررہے ہیں۔ طالبان جان گئے تھے البتہ پولنگ روکنے کے لیے کیے گئے حملوں سے اُلٹا خود حملہ آوروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔
23 نومبر پارلیمانی انتخابات کے نتائج جاری ہوگئے جن کے مطابق افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار پختونوں کو 249 میں سے صرف 100 نشستیں مل سکیں۔ ازبک، تاجک اور ہزارہ اقلیتیں جیت گئیں۔ 5 سال مزید گزرگئے۔ افغانستان کے مسائل جوں کے توں رہے۔ جنگ جاری رہی۔ بدامنی، کرپشن، افلا س اور لاقانونیت کا بازارگرم رہا۔
اگست 2009ء میں پھر صدراتی انتخابات ہوئے۔ طالبان نے اس بار انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی، بلکہ افغان حکومت کی جانب سے انتخابات کے دوران عارضی جنگ بندی کی پیش کش کا انہوں نے مثبت جواب دیا۔ کرزرئی نے ایک بار پھر دَنگل جیت لیا۔ 18 ستمبر2010ء کو پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ طالبان نے اس بار بھی الیکشن میں رکاوٹ ڈالنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ پھربھی عوام کی بہت کم تعدادنے انتخابات میں حصہ لیا۔ خصوصاً پشتون علاقوںمیںٹرن آؤٹ بہت کم رہا۔ غیرمعمولی دھاندلی اور پشتونوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ازبک، تاجک اور ہزارہ الیکشن میں چھائے رہے۔ بعد میں بہت سے حکومتی ارکان، سرکاری افسران اور غیرملکی مبصرین نے دھاندلی کا اعتراف بھی کیا۔ دھاندلی کے خلاف کابل میں مظاہرہ بھی ہوا، مگر جو ہونا تھا وہ ہوچکا تھا۔
23 نومبر پارلیمانی انتخابات کے نتائج جاری ہوگئے جن کے مطابق افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار پختونوں کو 249 میں سے صرف 100 نشستیں مل سکیں۔ ازبک، تاجک اور ہزارہ اقلیتیں جیت گئیں۔ 5 سال مزید گزرگئے۔ افغانستان کے مسائل جوں کے توں رہے۔ جنگ جاری رہی۔ بدامنی، کرپشن، افلا س اور لاقانونیت کا بازارگرم رہا۔ اب افغانستان میں امریکی چھتری کے سائے تلے تیسری بار صدارتی انتخابات ہوچکے ہیں۔ طالبان نے اس بار بھی کسی کو نہیں چھیڑا۔ اپنی سابقہ پالیسی پر قائم رہے۔ شاید یہ تحریر شایع ہونے تک نتائج بھی آچکے ہوں۔ بعض کالم نگاروں نے اس پر خوب بغلیں بجائی ہیں کہ شاید طالبان اب انتخابی عمل میں آڑے آنے کے قابل نہیں رہے جو ان کی کمزوری اور اتحادی افواج کی برتری کی بہت بڑی دلیل ہے۔ شاید اب افغانستان میں ایک سنہرا دور شروع ہونے کو ہے۔ ان حضرات کو اپنے حافظے کی کمزوری کا علاج کرانا چاہیے۔ یہ نہ ہوسکے تو کسی لائبریری میں جاکر 2009ء اور 2010ء کے انتخابات کے حالات کو ازسرِنو پڑھ لیں۔ طالبان کی پالیسی تو اسی وقت سے یہ ہے کہ وہ انتخابی عمل میں حصہ لیں گے نہ آڑے آئیں گے۔
رہی یہ بات طالبان جمہوری نظام میں حصہ کیوں نہیں لیتے؟ اس کی متعدد وجوہ ہوسکتی ہیں، مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے اگر افغانستان کا کوئی ہمدرد پورے خلوص سے اس ماحول میں انتخابی دنگل میں اُتر بھی جائے تو کون سا تیر مارلے گا؟ کرزئی افغانوں کے نہ سہی پشتونوں کے با پ مشہور ہیں، مگر انہوں نے اپنی قوم کے لیے کیا کرلیا؟ ایک دو بار نہیں متعدد مرتبہ انہوںنے باقاعدہ آنسو بہاتے ہوئے افغانوں کی کسمپرسی اور اپنی بے بسی پر اظہارِ افسوس کیا ہے، مگر اس سے کیا حاصل؟ اگر آنسو بہانے سے کچھ ہوتا تو سرزمینِ افغان کے مصائب و آلام پر اُمت کے اتنے آنسو بہ چکے ہیں کہ انہیں جمع کیا جائے تو کرب و بلا کا ایک سمند رموجزن ہوجائے۔
طالبان اسی لیے اس نام نہاد جمہوری ڈرامے میں حصہ نہیں لے رہے کہ وہ بے بسی اور پشیمانی کے آنسو نہیں بہانا چاہتے۔ وہ غاصب امریکی و اتحادی افواج کو وہی سبق دے کر اپنی دھرتی سے بھگانا چاہتے ہیں جو ان کے بڑوںنے برطانوی اور روسی افواج دیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظالم کی قوت کے سامنے نہ آہوں کے بند باندھے جاسکتے ہیں نہ گریہ وزاری سے اسے نرمایا جاسکتا ہے۔
زورِ بازو آزما !شکوہ نہ کرصیاد سے
آج تک کوئی قفس ٹوٹانہیں فریاد سے