Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 18 تا 24 اپریل 2014

ہ رسالہ

8 - 12
جامعۃ الرشید کے تعلیمی سلسلے
    تحریر اسد اللہ شہباز 

فقہ اسلامی تحقیق وریسرچ تک محدود محض ایک علم وفن نہیں بلکہ یہ وہ مکمل اور منفرد قانونِ معیشت ومعاشرت ہے، جو برسہا برس تک اسلامی ریاستوں کے سرکاری قانون کے طور پر دنیا کے ایک بڑے حصہ میں نافذ العمل رہاہے۔ پھر فقہ اسلامی جس دور میں بھی کسی اسلامی ریاست کا سرکاری قانون رہی ہے، اس میں وقت اور حالات کے لحاظ سے تبدیلیاں اور اضافے ہوتے رہے ہیں۔ اس لیے فقہ اسلامی نے ہر دور میں زمانے کے ارتقاء کا ساتھ دیا ہے اور اسے مسلسل ایسی برگزیدہ شخصیات کی خدمات حاصل رہی ہیں، جنہوں نے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح مالیات ومعاملات کے شعبہ میں بھی اپنے عہد وعصر کی راہنمائی کا فرض نبھاتے ہوئے فقہ اسلامی کی معلومات میں جدید سے جدید امثلہ وجزئیات کا اضافہ کیا ہے۔ اس لیے آج زندگی کے ہر شعبے کی طرح تجارت وکاروبار کے شعبہ میں بھی مسلمانوں کے پاس قرآن وحدیث کی تصریحات اور فقہاء اسلام کی تحقیقات کی شکل میں جو ذخیرہ موجود ہے، اس کی حیثیت ایک ایسے جامع اور مکمل قانون تجارت کی ہے، جس کی جامعیت، ترتیب وتوازن اور باریک بینی کی مثال دنیا کے کسی بزنس لاء میں نہیں ملتی۔


فقہ المعاملات کا نصاب : تخصص فی فقہ المعاملات المالیہ کو تین سال کے دورانیے پر پھیلایا گیا ہے جس میں طلبہ کو ایم بی اے کا مکمل نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ KIMS کے تحت باقاعدہ امتحان بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی علم وفن میں تخصص اور اسپیشلائزیشن کے لیے3کاموں کی ضرورت ہوتی ہے۔ 1۔اس فن کے مسائل کی تحقیق ہو۔ 2۔مسائل فن کی تہذیب وترتیب ہو ۔ 3۔مسائل کی عملی اور عصری تطبیق ہو۔

مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے، تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جب یورپ میں صنعتی انقلاب کے نتیجہ میں کاروبار وتجارت نے ترقی کی تو کاروباری دنیا میں تجارت وکاروبار سے متعلق بہت سی ایسی اصطلاحات اور کاروباری شکلیں وجود میں آ گئیں، جو دینی راہنمائی کے ذمہ دار علمی حلقوں کے لیے بالکل نئی تھیں۔ ایسے میں جہاں ایسے مسائل کے حل کے لیے بڑے پیمانے پر اجتماعی غوروخوض کی ضرورت تھی، وہاں ان نئی اصطلاحات کو سمجھ کر ان کی روشنی میں فقہ اسلامی کی جدید امثلہ وجزئیات کے ساتھ تہذیب نمو کی بھی ضرورت تھی مگر بدقسمتی سے خلافتِ عثمانیہ کے سقوط اور مغلیہ دور اقتدار کے خاتمے کی وجہ سے مسائل کے استخراج واستنباط کا کام ریاست وعدالت کی سرپرستی سے محروم ہوگیا اور فقہی احکام کی جدید ترتیب وتہذیب اور دور جدید کے حالات پر تطبیق کا کام اجتماعی طور پر باقی نہ رہا۔ اس انقلاب کا نتیجہ یہ نکلا کہ کاروباری اخلاقیات کا اسلامی فلسفہ رفتہ رفتہ بازاروں سے نکل کر کتابوں کے اوراق تک محدود ہو کر رہ گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ عملاً کاروبار سے منسلک تجارت پیشہ افراد کے لیے کاروبار کی اسلامی اصطلاحات تک اجنبی بن گئیں اور دوسرانتیجہ یہ نکلا کہ فقہ کا علم محض جزئیات یاد کرنے تک محدود ہو گیا اور فقہی احکام کی معاشرے کے حالات پر تطبیق کی کوششیں تقریباً ناپید ہو گئیں۔
ان حالات میں گومدارس میں ایک مضمون کی حیثیت میں جزوی طور پر فقہ المعاملات کے درس وتدریس کا سلسلہ عرصہ سے جاری ہے، چنانچہ بحمداللہ ہر سال مدارس سے ایسے ذی استعداد طلبہ کی ایک بڑی تعداد فارغ التحصیل ہورہی ہے، جو دیگرعلوم کے ساتھ ساتھ فقہ سے بھی اچھی مناسبت رکھتے ہیں اور ان میں سے بعض طلبہ مختلف دینی جامعات سے افتاء میں تخصص بھی کرلیتے ہیں ،مگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ تجارت ومعیشت کے حوالے سے شرعی راہنمائی اس معیار اور پیمانے پر نہیں ہوپارہی جس طرح زندگی کے دیگر شعبوں میں مفتیانِ کرام راہنمائی فرماتے ہیں۔ v ہمارے خیال میں اس انحطاط کی ایک وجہ جہاں یہ ہے کہ دینی مدارس میں جدید معاشی علوم اور بازاروں میں رائج تجارتی شکلوں اور اصطلاحات کی تعلیم کی طرف معتدبہ توجہ نہیں دی جارہی، وہاں اس کی دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دینی مدارس کے نصاب میں فقہ ، خاص طور پر فقہ المعاملات کی جس قدر پڑھائی ہورہی ہے، مالی معاملات کے طریقوں میں اس کمیونیکیشن کے دور میں جو جدت اور تیز رفتاری آئی ہے، اس کے تناظر میں معاملات مالیہ کے احکام کی اس قدر درس وتدریس کافی نہیںبلکہ ان احکام کو ایک مستقل مضمون کی حیثیت دے کر تفصیل وتحقیق کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت ہے، چنانچہ اس حوالے سے مختلف اکابر عرصہ دراز سے اس فکر میں ہیں کہ دینی مدارس کے نصاب میں فقہ المعاملات کو خصوصی اہمیت دی جائے، اسی فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جامعۃ الرشید نے اپنے سلسلہ تخصصات میں ایک اور منفرد تخصص کا اضافہ کرتے ہوئے’’التخصص فی فقہ المعاملات المالیہ‘‘ کی بنیاد رکھی ہے۔
اغراض و مقاصد :

فقہ المعاملات المالیہ شروع کرانے کے مقاصد یہ ہیں کہ ایسے باصلاحیت مفتیان کرام تیار کیے جائیں جو:

٭ معاملات کے اسلامی احکام کے ساتھ خصوصی مناسبت رکھتے ہوں اور اس حوالے سے فقہاء اسلام کی ذکر کردہ جزئیات اور ان کے علل وحکم کو تفصیل وتحقیق کے ساتھ مطالعہ کرچکے ہوں۔

٭ معیشت واقتصاد کی جدید اصطلاحات کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان اور بزنس کمیونٹی کے مخصوص لب ولہجے اور محاورے سے بھی مانوس ہوں، ان کے کاروباری طریقہ کار سے آگاہ ہوں اور ان کے مسائل سمجھ کر ان کی راہ نمائی کرسکتے ہوں۔

٭ جدید تجارتی شکلوں، ضرورتوں اور تقاضوں کو سمجھتے ہوں اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونیوالی کاروباری سرگرمیوں( انٹرنیشنل ٹریڈ اینڈ فنانس) اور ان کے مکمل طریقہ کار کا ادراک رکھتے ہوں۔ ٭ فقہ حنفی کے کاروباری اصول وقواعد پر بالخصوص اور دیگر فقہی مسالک کے قواعدواصول پر بالعموم نظر رکھتے ہوں۔

٭ معاملات کے بنیادی اصولی احکام کی روشنی میں تجارت وکاروبار کی نئی پیش آمدہ صورتوں کا حل نکالنے کی اہلیت رکھتے ہوں اور اس حوالے سے ماہر اساتذہ کرام کی نگرانی میں تحقیقی  مقالے کی صورت میں کسی ایک تجارتی موضوع پر تحقیقی کام کرچکے ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ ماہر مفتیان کرام کی نگرانی میں افتاء کی تربیت خصوصاً معاملات کے باب میں فتویٰ دینے کی عملی مشق کرچکے ہوں۔

   ٭  غیرسودی بینکنگ، ٹریڈ، فنانس، اکائوئنٹنگ ، آڈٹنگ اور تکافل کے مروجہ نظاموں کو سمجھتے ہوں۔

فقہ المعاملات کا نصاب : تخصص فی فقہ المعاملات المالیہ کو تین سال کے دورانیے پر پھیلایا گیا ہے جس میں طلبہ کو ایم بی اے کا مکمل نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ KIMS کے تحت باقاعدہ امتحان بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی علم وفن میں تخصص اور اسپیشلائزیشن کے لیے3کاموں کی ضرورت ہوتی ہے۔ 1۔اس فن کے مسائل کی تحقیق ہو۔ 2۔مسائل فن کی تہذیب وترتیب ہو ۔ 3۔مسائل کی عملی اور عصری تطبیق ہو۔ 

جامعۃ الرشید کے ارباب فکر ونظر نے فقہ المعاملات المالیہ کا نصاب وضع کرنے میں ان ہی تین باتوں کو پیش نظر رکھا ہے۔

چنانچہ:

(1) مالی معاملات کے شرعی مسائل کی تحقیق کے لیے خاتمۃ المحققین علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ کی کتاب ردالمحتار سے ابواب المعاملات کو شامل نصاب کیا گیا جو فقہ حنفی کے مطابق تحقیق مسائل کے لیے چوٹی کی کتاب سمجھی جاتی ہے۔

(2) مالی معاملات کے اصول وقواعد اور مسائل کی تہذیب وترتیب اور حفظ وضبط کے لیے ، مجلہ الاحکام العدلیہ اور اس کی شرح کو داخل نصاب کیا گیا جس میں مالی معاملات کے احکام کو دستوری دفعات کی شکل میں دفعہ وار مرتب شکل میںجمع کیاگیا ہے۔ یہ کتاب اس کی مستند شروح کی روشنی میں بالتفصیل پڑھائی جاتی ہے۔

(3) مسائل کی عصری تطبیق کے لیے ایم بی اے کے مضامین کو نصاب میں ایک لازمی مضمون کے طور پر رکھا گیا ہے۔ اس بنا پر فقہ المعاملات کے تخصص میں صرف ان ذی استعداد طلبہ کو داخلہ دیاجاتا ہے جو دینی علوم میں اچھی استعداد کے ساتھ ساتھ گریجویٹ بھی ہوں، تاکہ فقہی علوم کے ساتھ متعلقہ عصری علوم اور مہارتوں کی تحصیل میں آسانی کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔

(4) معاملات میں چونکہ بعض اوقات فقہی وسعتوں اور رخصتوں پر عمل کرنے کی بھی تجویز دی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو غیرمعمولی حرج و مشقت سے بچایا جاسکے، اس مقصد کے حصول کے لیے دیگر فقہی مسالک سے اجمالی تعارف کے لیے فقہ مقارن میں علامہ ابن رشد مالکی ؒ کی مشہور کتاب:’’ بدَایۃ المجتھد‘‘ سے معاملات کے ابواب کو شاملِ نصاب رکھا گیا ہے تاکہ اس کی مدد سے ہر ہر مسئلہ میں چاروں فقہی مسالک کی مستند آراء کو ملحوظ رکھا جاسکے۔
(5) انگریزی زبان کا معیار بہتر کرنے کے لیے ایک گھنٹہ انگلش لینگویج کے لیے خاص کیا گیا ہے۔

(6) طلبہ کو مالی معاملات کی جدید صورتوں اور ان کے احکام کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف ماہرین مالیات اور اہل افتاء سے لیکچرز دلوانے کو بھی ایک ہم نصابی سرگرمی کے طور پر لازم کیا گیا ہے۔

(7) معاملات کے مسائل کی تمرین اورعملی مشق کے لیے کسی جدید تجارتی مسئلے پر ایک تحقیقی مقالے کے علاوہ معاملات مالیہ سے متعلق کم از کم سو فتاویٰ لکھنے کو لازم کیا گیا ہے۔

(8) طلبہ کو مالیاتی فقہ کی تطبیق سے متعلق عملی تربیت دینے کے لیے اور انہیں کتابی فقہ کے ساتھ ساتھ ’’فقہ الواقع‘‘ سے باخبر رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف مالیاتی اداروں، تجارتی مراکز اور صنعت و حرفت کے مختلف شعبوں کے تعلیمی دورے کرائے جاتے ہیں۔ طلبہ ان دوروں کی تحریری رپورٹ اور سوال و جواب کی نشستوں کے خلاصے بھی مرتب کرتے ہیں۔

(9) معاملات سے متعلق ملکی اور بین الاقوامی اہم قوانین سے آگہی حاصل کرنے کی خاطر تیسرے تعلیمی سال میں کاروبار سے متعلق مختلف رائج الوقت قوانین کی پڑھائی کا بھی انتظام ہے۔ نیز اس کے ساتھ کتب فقہ سے قضاء و تحکیم سے متعلق ابواب بھی شاملِ نصاب ہیں۔
شرائط داخلہ:

(1) فقہ المعاملات میں داخلہ فارم جمع کروانے کے لیے کم از کم B.A تک کی عصری تعلیم اور ساتھ وفاق المدارس العربیہ سے عالمیہ کا امتحان کم از کم ’’ممتاز‘‘ یعنی ’’A-1‘‘ گریڈ میں پاس کرنا ضروری ہے۔

(2) دوسرے مرحلے میں تحریری اور تقریری امتحان جس میں اردو اور انگریزی زبان کا امتحان بھی شامل ہے۔ اس میں پاس ہونا ضروری ہے۔

(3) جو طلبہ پاس ہوجاتے ہیں ان میں مختلف قسم کی اضافی خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے 15 طلبہ کا انتخاب کرلیا جاتا ہے۔
Flag Counter