Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 18 تا 24 اپریل 2014

ہ رسالہ

11 - 12
ترک ناداں سے ترک دانا تک
    تحریر مفتی ابولبابہ شاہ منصور 

ترکی سے تعلق ترکی کی بنا پر نہیں، عثمانی ترکی کی بنا پر، ہر مسلمان کے دل میں پایا جاتا ہے۔ ہم نے جب آنکھ کھولی تو ہمارے اکابرِ ہند کے شاندار ماضی میں جہاں اور کئی مثالی کارنامے موجود پائے… جو دنیا میں اور کہیں کم ہی ملتے ہیں… وہیں تحریک خلافت، تحریک ترکِ موالات اور تحریک ریشمی رومال کے عنوان سے ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کی حمایت اور اس کے لیے دل وجان، مال وآن قربان کرنے کے جذبات بھی سنے اور پڑھے۔


نہ فقیر ایسی جگہوں پر جا سکا۔ اس میں آپ کو صرف اسی تلاش اور جستجو کے نتائج ملیں گے جو مصطفیٰ کمال اتاترک کے خلافتِ قبا چاک کرنے کے بعد اس چاک کو رفو کرنے کے لیے ’’دانا ترکوں‘‘ نے انجام دیے یا انجام دینے کی کوشش کررہے ہیں۔

جب شعور کی آنکھ کھلی تو حضرت والد صاحب دامت برکاتہم کی کتابوں میں ترکانی عثمانی کی تاریخ پر ایک کتاب موجود تھی۔ اسے نجانے کتنی بار پڑھا اور سلطان غازی خان سے لے کر سلطان سلیمان عالی شان، سلطان بایزید یلدرم اور سلطان محمد فاتح جیسی شخصیات کی خدمات اور کارنامے طبیعت میں نقش ہوکر رہ گئے۔ مصطفیٰ کمال کے لیے ’’اتاترک‘‘ کا لقب گھڑنے والوں نے اس ترک ناداں سے جو کام لیے، وہ بھی زندگی کے مختلف ادوار میں پڑھنے کو ملے، حتیٰ کہ ہزاروں ستاروں کے خون اور عظیم قربانیوں سے شبِ تاریک کا پردہ چاک ہوا اور پہلے استاد اربکان پھر طیب اردگان کی شکل میں سحر کے آثار نمودار ہونے کی اطلاع آنے لگی۔ اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے؟ کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا اس دوران لکھنے لکھانے کا مشغلہ شروع ہوچکا تھا۔ ترک حضرات سے سفر حرمین کے دوران ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ اتنے میں کراچی میں ہماری مسجد واقع گلشن اقبال کے قریب ایک ترکی طالب علم ’’اسماعیل کمال اوغلو‘‘ جامعہ احسن العلوم داخلے کے لیے آئے۔ طلبہ نے بتایا کہ ان کو داخلہ تو مل گیا ہے، لیکن رہائش اور کھانے کا نظم نہیں بن سکا۔ احقر نے انہیں اپنی مسجد کے ایک حجرے میں قیام کی سہولت فراہم کی۔ پھر جو ان سے گاڑی چھنی تو کئی سال ہمارے ساتھ گزارے۔ تخصص بھی کیا۔ ہم سب انہیں نام سے پکارنے کے بجائے ’’ترکی بھائی‘‘ کہتے تھے۔ ان کے ذریعے بہت سے حالات معلوم ہوتے رہتے تھے۔ جب ترکی جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ دین دار یا غیر جانب دار ترک پاکستانیوں کو ’’اکاردش‘‘ یعنی پاکستانی بھائی کہتے ہیں۔ اس توافق پر جو مسرت ہوئی وہ ظاہر ہے۔ بات یہ ہے کہ نظریاتی آدمی کو اپنے تعلقات رنگ، نسل یا زبان کی بنیاد پر نہیں، بلکہ نظریات اور متفقہ مقاصد کی بنا پر تشکیل دینے چاہییں۔ اتفاق سے گلشن میں ہمارے پڑوس کی دوسری گلی میں ’’پاک ترک اسکول‘‘ کی قدیم شاخ واقع تھی، جو آج بھی ہے۔ ان کا ہمارے پاس آنا جاناتھا۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوگیا کہ یہ ’’نادان ترکوں‘‘ کے وارث ہیں، جبکہ ہمارے درد کی دوا تو ’’دانا ترکوں‘‘ کی جدوجہد میں ہے۔
ترکی ایک مرتبہ سے زیادہ جا چکا ہوں، لیکن آج تک ’’آیا صوفیہ‘‘ دیکھنے بھی نہیں گیا، چہ جائیکہ دوسرے مشہور تفریحی مقامات؟ وجہ یہ تھی کہ آیا صوفیہ کو تو سلطان محمد فاتح نے فتح کر لیا تھا۔ ’’بابائے ترک‘‘ مصطفی کمال پاشا نے ’’فری میسن‘‘ کے آزاد اصولوں پر عمل کرتے ہوئے یہاں نماز پر پابندی لگادی۔ اب سلطان فاتح کے ورثہ اسے دوبارہ فتح کرنے کے لیے کس طرح کی نظریاتی محنت، کس انداز سے اور کس خشکی پر جہاز چلا کر کر رہے ہیں؟ یہ دیکھنے کی ضرورت تھی۔ عوامی رش کی جگہوں پر ایسے بھی فقیر کا دل گھبراتا ہے، خصوصاً جہاں غیر ملکی سیاح کھڑے ہوکر ’’اتاترک‘‘ کے اس کارنامے کی داد دیں کہ اس نے آیا صوفیہ میں نماز منع کرکے اسے دوبارہ ’’نمائش گاہ‘‘ میں تبدیل کر دیا ہے، وہاں تو انسان کا دم گھٹنے لگے گا۔ لہٰذا اس سفر نامے میں آپ کو کہیں ترکی کے تفریحی مقامات، قدرتی مناظر، وغیرہ کا تذکرہ نہیں ملے گا، (باقی نہ فقیر ایسی جگہوں پر جا سکا۔ اس میں آپ کو صرف اسی تلاش اور جستجو کے نتائج ملیں گے جو مصطفیٰ کمال اتاترک کے خلافتِ قبا چاک کرنے کے بعد اس چاک کو رفو کرنے کے لیے ’’دانا ترکوں‘‘ نے انجام دیے یا انجام دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس دوران راقم نے کوشش کی ہے کہ اپنی جستجو اور تفقد کے نتائج بیان کروں، بے جا حمایت یا مبالغہ آمیز تعریف نہ ہمارے بڑوں کا وطیرہ ہے نہ طبیعت کو بھاتی ہے۔ مستقبل میں نجانے کیا ہو؟ کیونکہ تحریکوں پر ہر طرح کا وقت آتا ہے، ان پر شب خون بھی مارا جاتا ہے اور ان کے ’’فضائی اغوا‘‘ کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ پھر چونکہ ’’دانا ترکوں‘‘ کا سفر بہت دھیما، نہایت پھونک پھونک کر ہے۔ اس لیے عام آدمی کو ترکی کی آنکھوں سے نظر آنے والے حالات کے پیچھے چھپے آنکھوں سے نظر نہ آنے والے حالات کا علم نہیں ہو پاتا۔ وہ ترکی میں اسلامی مظاہر کے بجائے مغربی لباس و اطوار کو دیکھ کر ستر سالہ جبر سے گذری قوم کی مجبوریاں نہیں سمجھ پاتا اور وہاں کے تحریکی لوگوں کے متعلق باتوں کو اسلام پسندوں کی بڑک یا مبالغہ قرار دیتا ہے۔ اس لیے بے جا مبالغہ آمیز حمایت اور معتدل تنقید کے درمیان کا راستہ اپنانے کی کوشش کی ہے۔
اصل مقصد یہ ہے کہ ہم آنکھیں کھلی رکھیں، کانوں سے ڈاٹ نکالیں، اور سیکھنے کی کوشش کریں کہ ہم جیسے حالات میں، ہم جیسے لوگ، ہماری دنیا میں کیا کر سکتے ہیں؟ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے والوں پر فرشتے نہیں، شیطان اترتے ہیں۔ ہمیںکوشش کرنی چاہیے کہ فرشتہ نہ بنیں تو شیطان کے خلاف جنگ سے پیچھے بھی نہ رہیں۔ ترک دانا فرشتے نہیں، لیکن انسان بننے کی کوشش ہم سے بہتر انداز میں کر رہے ہیں۔ ان کی کوششوں کو سمجھنے کی کوشش کرنا! اس غیر روایتی سفر نامے کا حاصل ہے۔ ٭٭٭
Flag Counter