Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 18 تا 24 اپریل 2014

ہ رسالہ

10 - 12
آخر کیوں
    تحریر اشتیاق احمد 

تقریباً 3 سال پہلے ایک مدرسے کے مفتی صاحب کے دروازے پر دستک ہوئی... خود انہوں نے ہی گھر کا دروازہ کھولا۔ باہر پولیس موجود تھی... فوراً ہی ان سے پوچھا گیا: ’’آپ مفتی... ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’جی ہاں! میں ہی ہوں۔‘‘ آفیسر نے اشارہ کیا۔ کانسٹیبل ان کی طرف بڑھے اور انہیں اٹھا کر گاڑی میں ڈال لیا... بس یہ جا اور وہ جا گھر کے افراد چیختے چلاتے رہ گئے... مفتی صاحب عمر رسیدہ ہیں... لاہور کے ایک مدرسے میںپڑھاتے ہیں... لاہور سے ایک دوست نے مجھے فون کیا... ان کا نام بتایا اور ان کے ساتھ جو ہوا، وہ بتایا... کہنے لگے: ’’آپ کے محکمہ پولیس میں کئی دوست ہیں، ملنے والے ہیں، بس اتنا پتا کر ادیں... وہ انہیں کیوں لے گئے ہیں؟ اور کہاں لے گئے ہیں؟‘‘ میں نے انہیں تسلّی دی اور کہا: ’’میں معلوم کرنے کی کوشش کرتاہوں، آپ ان کا پورا نام، اٹھائے جانے کی جگہ اور وہاں کون ساتھانہ لگتا ہے،یہ بتادیں۔‘‘ انہوں نے ساری معلومات مجھے دیں... اب میں نے پہلے ایک دوست کو فون کیا۔ انہیں صورتِ حال بتائی... انہوں نے کہا: ’’میں پتا کر کے بتا تاہوں...‘‘ پھر کافی دیر تک ان کا کوئی جواب نہ آیا تو میں نے انہیں خود فون کیا، انہوںنے یہ خبر سنائی: ’’میں نے کوشش کی ہے، لیکن کچھ پتا نہیں چل رہا... بہرحال میں مزید کوشش کروں گا۔‘‘
ان کی طرف سے مایو سی ہوئی تو میں نے دوسرے دوست کو فون کیا... انہوں نے بھی وعدہ کیا... اور انتظار کرنے کے لیے کہا... میں نے ایک گھنٹے تک انتظار کیا... لیکن جواب نہ ملا... میں نے انہیں فون کیا... تو انہوں نے بھی یہی کہا: ’’میں معلوم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا... لیکن میں کوشش کر رہاہوں۔‘‘ ان کی طرف سے بھی مایوسی ہوئی۔ میں نے تیسرے دوست کو فون کیا۔ انہیں صورتحال بتائی... انہوں نے کہا: ’’میں ابھی ایک گھنٹے کے اندر اندر آپ کو فون کرتاہوں۔‘‘ ایک گھنٹے کا انتظار کافی مشکل لگا... ادھر لاہور سے ان کا کئی بار فون آچکا تھا۔ وہ ہر بار پوچھتے: ’’کچھ معلوم ہوا؟‘‘ میں جواب دیتا: ’’ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا... کوشش جاری ہے۔‘‘ ٹھیک ایک گھنٹے بعد تیسرے دوست کا فون آیا تو جان میں جان آتی محسوس ہوئی... کیونکہ تین میں سے انہوں نے وعدے کے مطابق خود فون کیا تھا... ان حالات میں یہ بات بھی بہت بڑی تھی... میں نے بے تابی کے عالم میں پوچھا: ’’جی...! کیا پتا چلا؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’میں نے اس علاقے کے ایک شخص سے رابطہ کیا ہے... انہو ںنے بتایا ہے کہ جس علاقے سے بھی کوئی ایجنسی کسی فرد کو اٹھاتی ہے، (باقی صفحہ5پر) اسے اس علاقے کے ڈی ایس پی کے سامنے 24 گھنٹے کے اندر اندر پیش کرنا ہوتاہے اور یہ اجازت لینا ہوتی ہے کہ ہم اسے اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں... تب ڈی ایس پی صاحب اجازت دیتے ہیں... تو 24 گھنٹے پورے ہونے پر وہ اس بندے کو لے کر آئیں گے... اس وقت میرا آدمی ڈی ایس پی صاحب سے پوچھ کر مجھے بتا دے گا کہ اس شخص کو کہاں رکھا گیا ہے؟‘‘ یہ تفصیل سن کر میں نے لاہور میں اپنے دوست کو فون کیا اور بتایا: ’’آپ کو کل تک انتظا کرنا پڑے گا... کل سے پہلے مفتی صاحب کے بارے میں معلوم نہیں ہوگا۔‘‘


لفظ ’’لا پتا‘‘ نے بہت خوف ناک صورت اختیار کرلی ہے... یہ لفظ جب سامنے آتاہے... یا کانوں میں سنائی دیتا ہے تو ایک خو ف طاری ہوجاتا ہے... سوال ذہنوں میں ابھرتاہے... آخر کیوں؟

انہوں نے میرا بہت زبردست طریقے سے شکر یہ ادا کیا... کیونکہ اس وقت تک مفتی صاحب کے بارے میں سرے سے کچھ بھی معلوم نہیں ہو سکا تھا... اب کل کا انتظار شروع ہو ا... آخر اللہ اللہ کر کے 24 گھنٹے پورے ہوگئے... اس کے تقریباً 5 گھنٹے بعد کہیں جا کر اس دوست کا فون آیا... انہوں نے بتایا: ’’ڈی ایس پی صاحب نے بتایا ان کے سامنے کسی کو پیش نہیں کیا گیا جس کا مطلب یہ ہے انہیں سی آئی اے والے اٹھا کر لے گئے ہیں۔‘‘ اس کا مطلب تھا، سی آئی اے والے اس بات کے پابند نہیںکہ وہ اٹھائے گئے کسی شخص کو متعلقہ علاقے کے ڈی ایس پی کے سامنے پیش کریں... میں نے اپنے دوست سے پوچھا: ’’سی آئی اے تو امریکی ادارہ ہے... کیا ہمارے ملک میں غیرملکی ادارے بھی اس طرح لوگوں کواٹھا سکتے ہیں؟‘‘ جواب میں انہوں نے بتایا: ’’ایک سی آئی اے تو ملکی ہے... ایک امریکی... مجھے معلوم نہیں امریکی سی آئی اے ہمارے ملک میں کیا کچھ کر سکتی ہے...؟ بہرحال زیادہ امکان یہی ہے کہ ملکی سی آئی اے والے انہیں لے گئے ہیں۔‘‘
یہاں ہم لوگوں کی کوششوں کا سلسلہ بالکل رک گیا... لواحقین تو ظاہر ہے مارے مارے پھرے ہوں گے... ان کی لگی کو تو وہی جانتے ہیں... میں کبھی کبھار اپنے لاہور والے دوست کو فون کر کے پوچھ لیتا تھا... : ’’ہاں جی! مفتی صاحب کا کچھ پتا چلا؟‘‘ ہر مرتبہ ان کا جواب یہی ہوتا: ’’جی نہیں! ان کا ابھی تک کچھ پتا نہیں چلا۔‘‘ اس طرح تقریباً 3 سال گزر گئے... دل میں کبھی کبھی ایک درد بھری ٹیس اٹھتی نہ جانے بے چارے مفتی صاحب کہاں ہوں گے...؟ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ میں نے تو انہیں کبھی دیکھا بھی نہیں تھا... جس روز انہیں اٹھا یا گیا... اسی روز دوست نے ان کا نام بتایا تھا... اور بس...
تین سال بعد ابھی چار روز پہلے انہی دوست کا فون آیا... پریشان کن آواز میں کہہ رہے تھے: ’’اشتیاق صاحب...! کچھ دن پہلے ان حضرات نے مفتی صاحب کو عدالت میں پیش کیا تھا... چند پیشیاں ہوئیں... آج انہیں عدالت نے بری کردیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ ان کے خلاف کوئی بات نہیں ہے... لہٰذا انہیں بری کیا جاتا ہے... ا س کے بعد جب مفتی صاحب کمرئہ عدالت سے باہر نکلے... اسی وقت پولیس نے انہیں پھر گرفتار کرلیا۔ گاڑی میں بٹھا کر لے گئی... ان کے گھر انے کے لوگ اور دوست وغیرہ سب دھک سے رہ گئے کہ یہ کیا ہوا...؟ گھر کے افراد نے جب پولیس سے یہ پوچھا کہ انہیں تو عدالت نے بری کر دیا ہے... اب انہیں کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ’’ابھی ان کے بارے میں کچھ تفتیش باقی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ انہیں لے گئے... آپ ذرا پتا کر یں کہ اب کیا بات ہے...؟‘‘
دوست نے تھانے کا اور پولیس آفیسر کا نام وغیرہ میرے نمبر پر ایس ایم ایس کردیا... اب میں نے پھر اپنے انہی دو دوستوں کو فون کیا: ’’یہ مسئلہ ہے...‘‘ پہلے دن دونوں طرف سے کوئی جواب نہ ملا... دوسرے دن میں نے خودانہیں فون کیا... دوسرے دوست نے کہا: ’’میں آج شام تک آپ کو بتا دوں گا کہ کیا معاملہ ہے۔‘‘ میں نے شکریہ ادا کر کے فون بند کر دیا... یہ وہی دوست تھے جنہوں نے 3 سال پہلے ڈی ایس پی صاحب کے سامنے پیش کرنے والی بات بتائی تھی... اس روز شام تک ان کی طرف سے کوئی اطلاع نہ ملی... ادھر لاہور والے دوست بار بار فون کر رہے تھے... میں بھی بہت پریشان ہو گیا تھا اب ان بے چاروں کو کیا بتائوں... 3 سال بعد انہیں یہ دن دیکھنا نصیب ہوا تھا کہ ان کے گھر کا فرد عدالت سے رہا ہو گیا تھا، لیکن ابھی وہ رہائی کی خوشی بھی نہیں منا سکے تھے کہ انہیںپھر دھر لیا گیا تھا... اس روز رات نو بجے تک دوست کا فون نہ آیا... میں جلد سوجانے کا عادی ہوں... ان کا فون کہیں میرے سونے کے بعد آیا... اور مجھے گھنٹی سنا ئی نہ دی... دوسرے دن میں نے انہیں فون کیا تو انہوں نے بتایا: ’’وہ شخص واقعی اسی تھانے میں ہے جس میں آپ نے بتایا تھا... مجھے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں... وہ یہ ہیں... ان کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکا... عدالت نے واقعی انہیں بری کردیا ہے... لیکن اس قسم کے کیسوں میں پولیس کا ایک ضابطہ ہے... وہ یہ ہے کہ عدالت سے باہر نکلتے ہی ایسے شخص کو پھر قبضے میں لے لیا جاتا ہے... اور 48 گھنٹے تک اپنے پاس رکھا جاتاہے... ایک ایک ایجنسی کواس کانام وغیرہ بتاکر پو چھا جاتا ہے۔‘‘ ’’اس نام کا شخص ہمارے پاس موجود ہے، عدالت نے اسے بری کردیا ہے... آپ کو تو یہ شخص کسی سلسلے میں مطلو ب نہیں۔‘‘ یہ بات ہر ایجنسی سے پوچھی جاتی ہے۔ یہ کام 48 گھنٹے کے اندر اندر مکمل کرلیا جاتاہے... جب ہر طرف سے معاملے کے صاف ہونے کا پتا چل جاتاہے... تو پھر اسے چھوڑ دیا جاتاہے۔‘‘ یہ معلومات حاصل کرکے میں نے لاہور والے دوست کو فون کیا اور یہ ساری بات بتائی... 48 گھنٹے کل کسی وقت پورے ہو گئے تھے... لیکن ان کی رہائی کی خبر نہیں ملی تھی... شاید آج کسی وقت یہ اطلاع مل جائے... کیونکہ بہرحال ان مفتی صاحب کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکاتھا...
یہاں ذہن میں سوال اُبھرتے ہیں... 3 سال تک پولیس ان سے کیا تفتیش کرتی رہی...؟ کیا تفتیش کے لیے اتنا لمبا عرصہ درکار ہوتاہے...؟ کیا ایسے لوگوں کے لواحقین کا کوئی حق نہیں ہوتا کہ 3 سال گزر جاتے ہیں اور انہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ان کا بندہ ہے کہاں...؟ یہ ایک لاپتا کیس میرے علم میں آیا... سپریم کورٹ میں آج کل لا پتا افراد کا کیس چل رہا ہے... لفظ ’’لا پتا‘‘ نے بہت خوف ناک صورت اختیار کرلی ہے... یہ لفظ جب سامنے آتاہے... یا کانوں میں سنائی دیتا ہے تو ایک خو ف طاری ہوجاتا ہے... سوال ذہنوں میں ابھرتاہے... آخر کیوں؟
آخر کیوں ملکی قانون کے مطابق ایسے حضرات کو گرفتار کر کے 24 گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا...؟ عدالت سے کیوں اجازت نہیں لی جاتی... کہ ہم اس شخص سے تفتیش کرنا چاہتے ہیں...؟ آخر ایسی کیا مجبوریاں ہیں کہ ایسے حضرات جن پر خفیہ سرگرمیوں کا شبہ ہو انہیں غائب ہی کرنا کیوں ضروری ہے...؟ معروف طریقے سے کیوں تفتیش نہیں کی جا سکتی ہے...؟ ظاہر ہے... پولیس کی کچھ مجبوریاں ہوں گی... لیکن ان مجبوریوں کا حل بھی تلاش کیا جا سکتاہے... قانو ن کے دائرے میں رہ کر کیوں قانون کی حکمرانی قائم نہ کی جائے...؟ کیا اس سے ہمارے ملک کے حالات بہتر نہیں ہوں گے...؟ ایسے لوگوں کو بھی اگر انسان سمجھ کر تفتیش کرلی جائے... تو ملک میں جو یہ خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے... کم ازکم وہ ختم ہوسکتا ہے... ورنہ نفرت کے اور دشمنی کے بیج بو کر ہم کبھی بھی محبت کی فصل نہیں کاٹ سکتے... ہمارے ملک کو اس وقت محبت کی فصل کی ضرورت ہے نہ کہ نفرت کی... ان حالات تک ہمیں پہنچایا ہی نفرت کی فصل نے ہے...
Flag Counter