Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 18 تا 24 اپریل 2014

ہ رسالہ

5 - 12
مودی وزیراعظم بن گیا تو
    تحریر الف اللہ / انوار الحق 

’’نریند درامورداس مودی‘‘ بھارتی سیاستدان اور گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ یہ بھارتی ریاست گجرات کے مہسانہ ضلع میں پیدا ہوئے۔ ایک درمیانے طبقے کے خاندان سے تعلق ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں رضاکارانہ طور پر ریلوے اسٹیشنز پر خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کی زندگی جہدمسلسل سے عبارت ہے۔ بے حد سختیاں بھی جھیلیں۔ مودی کے والد ایک ریلوے اسٹیشن پر خوانچہ فروش کا کام کرتے تھے۔ والدہ دفتروں کی صفائی کرتی تھیں۔ نچلے طبقے سے ہونے کی وجہ سے انہیں زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ مودی صرف 10 سال کی عمر میں انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سے منسلک ہوگئے۔ تنظیم سے وفاداری کا حق ازدواجی زندگی سے لاتعلقی کی صورت دیا۔ سیاسی سفر 1984ء میں شروع کیا۔ راشٹریہ سیوک نے اپنے چند ارکان کو بھارتیہ جنتا پارٹی میں بھیجا تو مودی بھی ان میں شامل تھے۔ یہ وہ بھارتی سیاستدان ہیں جنہوں نے ایڈوانی کی سومناتھ، ایودھیا یاترا، مرلی منوہر جوشی کی کنّیاکماری اور کشمیر یاترا میں حصہ لیا۔ گجرات کے چار مرتبہ وزیراعلیٰ رہے۔ یہ ایک ہندوانتہا پسند بھارتی سیاستدان کے طور پر مشہورہیں۔
گجرات میں ہندو مسلم فسادات کے پیچھے بھی انہی کا ہاتھ تھا۔ 2002ء کے ان فسادات میں ایک ہزار سے زائد مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔ یہ ایک ایسا داغ ہے جو مودی کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے۔ ان کی شہرت اور سیاست کا دارومدار بھی مسلم مخالف اقدامات پر ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت مودی کی سیاست کا جزو اوّل ہے۔ یہی وجہ ہے بھارت میں کروڑوں انتہا پسند ہندو انہیں پسند بھی کرتے ہیں اور ان کی حمایت بھی۔ مودی کی پاکستان مخالف بیان بازی اور رویہ بھی انتہا پسند ہندوئوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہی رویہ ان کی سیاست کے دوام کی اہم وجہ ہے۔ اگر مودی کی سیاست سے مسلمان دُشمنی نکال دی جائے تومودی ایک تیسرے درجے کا سیاستدان بن کر رہ جائے۔ ہاں! مودی اگر گجرات کی معاشی ترقی کو کیش کرانا چاہے تو ہوسکتا ہے وہ ایک بار پھر گجرات کا وزیراعلیٰ بن سکتا ہے، لیکن بھارت کا وزیراعظم ہر گزنہیں۔
دنیائے سیاست کے طرز بھی جداگانہ ہیں۔ دنیا کی ہر سیاسی پارٹی کسی نہ کسی نعرے پر ووٹ لیتی ہے۔ کوئی ترقی کا نعرہ لگاکر اقتدار میں داخل ہو تا ہے۔ کوئی انصاف کا علم اٹھا کر وزارت عظمیٰ کا سہرا سجالیتا ہے۔ کوئی مذہب کو بنیاد بنا کر خلعت شاہی زیب تن کر لیتا ہے، لیکن دنیا میں ایسے لوگ یا ایسی پارٹیاں بہت کم ہیں جو پہلے کچھ کر دکھائیں، اس کے بعد اقتدار کے بام کو چھوئیں۔ پوری دنیا میں صرف نعروں پر ہی عوام کو قائل کیا جاتا ہے۔ مودی وہ شخص ہے جس نے گجرات کا وزیراعلیٰ رہ کر عوام کو عملاً کچھ کر دکھایا۔ وہ واحد چیز مسلمانوں کا قتل عام ہے، لہٰذا بھارت میں ان دنوں انتہاپسند ہندو نریندرامودی کو اگلا وزیراعظم دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔


اب سوال یہ ہے اگر نریندرامودی جیسا انتہا پسند ہندو بھارت کا وزیراعظم بن گیا تو بھارت میں موجود مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟
کیا وہ خطہ جو پہلے ہی آتش فشاں بنا ہے مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد کہیں یہ آتش فشاں پھٹ تو نہیں پڑے گا؟

وزارتِ عظمیٰ کے اس معرکے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے نریندرا مودی، حکمران جماعت کانگریس کے راہول گاندھی اور نومولود جماعت عام آدمی پارٹی کے اروند کیجریوال مدمقابل ہیں۔ نریندر مودی کو متنازعہ ماضی کے باعث اگرچہ تلخ سوالوں کا سامنا ہے، مگر وہ گجرات کی ڈویلپمنٹ کو بنیاد بنا کر کانگریس کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ کانگریس پر کرپشن کی تنقید بھی جاری ہے۔ نہروگاندھی خاندان پر موروثی سیاست کا الزام بھی۔ چین اور پاکستان مخالف بیان بازی پر بھی نریندرا مودی ووٹ حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔ ان کے مقابلے میں راہول گاندھی اس جماعت کی نمایندگی کررہے ہیں جو گزشتہ ایک دہائی سے سونیا گاندھی اور وزیراعظم من موہن سنگھ کی قیادت میں برسراقتدار رہی۔ راہول گاندھی اکثر اپنی جماعت کی ’’غریبوں کے لیے پالیسیوں‘‘ کی بات کرکے ووٹ ہتھیانے کے خواہشمند ہیں۔ خوراک کے حق کے بل حمایت اور سستی خوراک کے وعدوں سے عوام کا دل جیتنا چاہتے ہیں۔
ان دونوں کے مقابلے میں اروند کیجریوال کی سیاست عام آدمی کی سیاست ہے۔ یہ تین سال پہلے بھارت میں کرپشن کے خلاف باہر نکلے۔ لوگوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ انہوں نے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے نام سے سیاسی جماعت بھی میدان میں اُتار دی۔ بھارتی انتخابات میں اروند کیجروال کو متوسط طبقہ کی حمایت حاصل ہے۔ کیجروال بھارت سے کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ بدعنوان سیاستدانوں اور افسران کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ عام آدمی کے مسائل کا بیڑا بھی اُٹھائے ہوئے ہیں۔ پانی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ بھارت میں انقلاب لانے کے خواہشمندبھی ہیں۔ کیجروال کی عام آدمی سیاست سے بھارت کا ایک بڑا طبقہ ان کا حمایتی بھی ہے۔مودی کی مسلمان دشمنی اور حکومتی جماعت کانگریس کی کرپشن کی وجہ سے غریب طبقہ، بالخصوص مسلمان کیجروال کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں بعض مسلمان رہنمائوںنے مودی کی بجائے کیجریوال اور راہول گاندھی کو ووٹ کرنے کا اعلان بھی کیا ہے، لیکن ان سب کے باوجود بھارت بھر میں عام تاثر یہی ہے بھارت کے نئے وزیراعظم نریندرا مودی ہی ہوں گے۔
اب سوال یہ ہے اگر نریندرامودی جیسا انتہا پسند ہندو بھارت کا وزیراعظم بن گیا تو بھارت میں موجود مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ وہ سیاستدان جو ببانگ دہل پاکستان کے خلاف زہر اُگلتا ہے، وہ جو چین کو بھارت کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے، اس کے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے؟ اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ اس وقت ملین ڈالر کا سوال ہے، لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ اس بھارت کے لیے بھی بڑا سوال ہے جو خود کو جمہوریت کا چیمپئن قرار دیتا ہے۔ اگرخدانخواستہ مودی وزیراعظم بن گیا تو سوال یہ بھی اُٹھتاہے کیا بھارت قومی سیاست کی بجائے قوم پرستی کی سیاست میں داخل ہو جائے گا؟ کیا جمہوریت کے دعویدار بھارت پر قوم پرستی کی چھاپ نہیں لگے گی؟ کیا وہ خطہ جو پہلے ہی آتش فشاں بنا ہے مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد کہیں یہ آتش فشاں پھٹ تو نہیں پڑے گا؟ کیا مودی کے وزیراعظم بنتے ہی بھارت میں ہندومسلم فسادات میں اضافہ نہیں ہوگا؟ کیا انتہا پسند ہندوئوں کو کھلی چھوٹ تو نہیں مل جائے گی؟ کیا حکمران جماعت کانگریس کی موروثی سیاست کا خاتمہ تو نہیں ہو جائے گا؟
یہ وہ سوالات ہیں جو بذاتِ خود بھارت کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ (باقی صفحہ5پر) مودی کا وزیراعظم بننا جہاںخطے کے لیے خوفناک ہوگا اس سے کہیں زیادہ بھارت کے لیے خطرناک ہوگا، کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے نریندر مودی متنازع شخصیت ہیں۔ ان کی مسلم مخاصمت ڈھکی چھپی نہیں، تاہم اس کے باوجود نریندرامودی مستقبل کے وزیراعظم کے بڑے اُمیدوار ہیں۔ غیر ملکی سروے کے مطابق بھارت کے 43 فیصد لوگ نریندر مودی کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ کانگریس کے حمایتیوں کی شرح صرف 22 فیصد اور کیجریوال کے مداحوں کی شرح صرف 18 فیصد ہے۔ مودی کی شہرت اور ممکنہ وزیراعظم کے امکانات کے پیچھے چند مزید وجوہات بھی ہیں۔ مثلاًحکمران جماعت نے پچھلے 5 سال میں عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ عوام من موہن سنگھ کی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ درمیانے طبقہ آگ بگولہ ہے۔ نچلی سطح پر غربت اور افلاس نے کانگریس کے حمایتیوں کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔
دوسری طرف کیجریوال اتنے پائے کا لیڈر نہیں کہ وہ مودی کا جم کر مقابلہ کرسکے۔ بھارت میں ہندوئوں کی اکثریت ہے۔ کیجریوال کے مسلمانوں کی حمایت حاصل کر لینے کے بعد ہندوئوں کے ووٹ سے ہاتھ دھوبیٹھنے کے امکانات بھی ہیں۔ یہ بھی اہم ہے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ سیاسی اکھاڑے میں ابھی نومولود ہے۔ صرف 3 سال کی تاریخ سے وزارت کے منصب تک رسائی یقینا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ کیجریوال عام آدمی ہے۔ اس کے پیٹھ پر کوئی بڑا گروپ، کوئی بڑی کمپنی یا کوئی بڑا آدمی نہیں جو کیجریوال کو راہول گاندھی اور مودی کے مقابل کھڑا کرسکے۔ اس کے مقابلے میں نریندرا مودی کی الیکشن مہم میں بھارت کے بڑے گروپ جیسے ٹاٹا گروپ، متل گروپ اور ریلائنس گروپ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ یہ پانی کی طرح پیسہ بہاتے رہے، لہٰذا یہ وہ وجوہات ہیںجن کو بنیاد بنا کر تجزیہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے بھارت کا اگلا وزیراعظم نریندر ا مودی ہی ہوگا۔
اب سوال یہ بھی ہے کیا نریندرامودی وزیراعظم بن کر اپنے وعدوں کا پاس کرسکے گا؟ کیا وہ معاشی ترقی کے نعروں کو عملی شکل دے پائے گا؟ کیا وہ مسلم اور پاکستان مخالف بیان بازی کی تصویر کشی کر سکے گا؟ کیا مودی بطور وزیراعظم پاکستان اور چین سے دشمنی مول لے سکے گا؟ یہ انتہا پسند مودی کی انتہا پسند سوچ تو ہوسکتی ہے۔ یہ مودی کی سیاست اور ووٹ بینک بنانے کا حربہ تو ہوسکتا ہے، لیکن وہ ایسا عملاًکچھ نہیں کر پائے گا۔ اس کی وجہ بھی بہت سادہ ہے۔ اگرمودی مسلمانوں سے امتیازی سلوک پر اُتر آیا تو سب سے پہلے بھارت کے اندر ایک اور پاکستان کی بنیاد رکھ دی جائے گی۔ بھارت کے 20 کروڑ سے زائد مسلمان غلام بن کر ہندوئوں کا ظلم برداشت نہیں کریں گے اور بھارتی ادارے وزیراعظم کو ایسا کرنے نہیں دیں گے۔
دوسرا، بھارت اور پاکستان کے تعلقات خطے بالخصوص دونوں ممالک کی ترقی کے لیے بہت اہم ہیں۔ اگر مودی پاکستان مخالفت کو ہوا دے گا تو وہ معاشی ترقی کے دعوئوں کو عملی شکل نہیں دے پائے گا۔ چین کے ساتھ خراب تعلقات بھی بھارت کے لیے سود مند نہیں، کیونکہ یہ طے ہے بھارت کبھی بھی چین کے ہم پلہ نہیں ہوسکتا۔ لامحالہ مودی کو وزیراعظم ہوتے ہوئے قوم کو لیڈ کرنا ہوگا۔ اسے ملک کو آگے بھی بڑھانا ہوگا۔ اسے پڑوسی ممالک سے تعلقات بھی بہتر بنانا ہوں گے اور اگر خدانخواستہ مودی ایسا نہ کر پایا، اس نے انتخابی نعروں کو عملی شکل دینا شروع کر دی تو یہ چھ ماہ سے زیادہ وزیراعظم نہیں رہ سکے گا، کیونکہ بھارت کی دیگر سیاسی جماعتیں اور سیاستدان مودی کو چلنے نہیں دیں گے۔ v سیاست کا ایک یہ اصول بھی طے ہے۔ سیاست جذبات سے نہیں شعور و ادراک کا نام ہے۔ اقتدار کو بچانے، ملک کو خوشحال بنانے اورخود کو قومی حکمران ثابت کرنے کے لیے دشمن کو بھی گلے لگانا پڑتا ہے۔ یہ طے ہے بڑا سیاستدان اور بڑا لیڈر بننے کے لیے ’’نیلسن منڈیلا‘‘ کی سوچ درکار ہوتی ہے جو گوروں کو سینے سے لگاکر امر ہوجاتا ہے۔ اگر مودی مسلمانوں کا قتل عام کر کے قومی حکمران بننا چاہتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہو گی۔
مودی کا وزیراعظم بننا جہاںخطے کے لیے خوفناک ہوگا اس سے کہیں زیادہ بھارت کے لیے خطرناک ہوگا، کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے نریندر مودی متنازع شخصیت ہیں۔ ان کی مسلم مخاصمت ڈھکی چھپی نہیں، تاہم اس کے باوجود نریندرامودی مستقبل کے وزیراعظم کے بڑے اُمیدوار ہیں۔ غیر ملکی سروے کے مطابق بھارت کے 43 فیصد لوگ نریندر مودی کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ کانگریس کے حمایتیوں کی شرح صرف 22 فیصد اور کیجریوال کے مداحوں کی شرح صرف 18 فیصد ہے۔ مودی کی شہرت اور ممکنہ وزیراعظم کے امکانات کے پیچھے چند مزید وجوہات بھی ہیں۔ مثلاًحکمران جماعت نے پچھلے 5 سال میں عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ عوام من موہن سنگھ کی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ درمیانے طبقہ آگ بگولہ ہے۔ نچلی سطح پر غربت اور افلاس نے کانگریس کے حمایتیوں کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔
دوسری طرف کیجریوال اتنے پائے کا لیڈر نہیں کہ وہ مودی کا جم کر مقابلہ کرسکے۔ بھارت میں ہندوئوں کی اکثریت ہے۔ کیجریوال کے مسلمانوں کی حمایت حاصل کر لینے کے بعد ہندوئوں کے ووٹ سے ہاتھ دھوبیٹھنے کے امکانات بھی ہیں۔ یہ بھی اہم ہے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ سیاسی اکھاڑے میں ابھی نومولود ہے۔ صرف 3 سال کی تاریخ سے وزارت کے منصب تک رسائی یقینا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ کیجریوال عام آدمی ہے۔ اس کے پیٹھ پر کوئی بڑا گروپ، کوئی بڑی کمپنی یا کوئی بڑا آدمی نہیں جو کیجریوال کو راہول گاندھی اور مودی کے مقابل کھڑا کرسکے۔ اس کے مقابلے میں نریندرا مودی کی الیکشن مہم میں بھارت کے بڑے گروپ جیسے ٹاٹا گروپ، متل گروپ اور ریلائنس گروپ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ یہ پانی کی طرح پیسہ بہاتے رہے، لہٰذا یہ وہ وجوہات ہیںجن کو بنیاد بنا کر تجزیہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے بھارت کا اگلا وزیراعظم نریندر ا مودی ہی ہوگا۔
اب سوال یہ بھی ہے کیا نریندرامودی وزیراعظم بن کر اپنے وعدوں کا پاس کرسکے گا؟ کیا وہ معاشی ترقی کے نعروں کو عملی شکل دے پائے گا؟ کیا وہ مسلم اور پاکستان مخالف بیان بازی کی تصویر کشی کر سکے گا؟ کیا مودی بطور وزیراعظم پاکستان اور چین سے دشمنی مول لے سکے گا؟ یہ انتہا پسند مودی کی انتہا پسند سوچ تو ہوسکتی ہے۔ یہ مودی کی سیاست اور ووٹ بینک بنانے کا حربہ تو ہوسکتا ہے، لیکن وہ ایسا عملاًکچھ نہیں کر پائے گا۔ اس کی وجہ بھی بہت سادہ ہے۔ اگرمودی مسلمانوں سے امتیازی سلوک پر اُتر آیا تو سب سے پہلے بھارت کے اندر ایک اور پاکستان کی بنیاد رکھ دی جائے گی۔ بھارت کے 20 کروڑ سے زائد مسلمان غلام بن کر ہندوئوں کا ظلم برداشت نہیں کریں گے اور بھارتی ادارے وزیراعظم کو ایسا کرنے نہیں دیں گے۔
دوسرا، بھارت اور پاکستان کے تعلقات خطے بالخصوص دونوں ممالک کی ترقی کے لیے بہت اہم ہیں۔ اگر مودی پاکستان مخالفت کو ہوا دے گا تو وہ معاشی ترقی کے دعوئوں کو عملی شکل نہیں دے پائے گا۔ چین کے ساتھ خراب تعلقات بھی بھارت کے لیے سود مند نہیں، کیونکہ یہ طے ہے بھارت کبھی بھی چین کے ہم پلہ نہیں ہوسکتا۔ لامحالہ مودی کو وزیراعظم ہوتے ہوئے قوم کو لیڈ کرنا ہوگا۔ اسے ملک کو آگے بھی بڑھانا ہوگا۔ اسے پڑوسی ممالک سے تعلقات بھی بہتر بنانا ہوں گے اور اگر خدانخواستہ مودی ایسا نہ کر پایا، اس نے انتخابی نعروں کو عملی شکل دینا شروع کر دی تو یہ چھ ماہ سے زیادہ وزیراعظم نہیں رہ سکے گا، کیونکہ بھارت کی دیگر سیاسی جماعتیں اور سیاستدان مودی کو چلنے نہیں دیں گے۔
سیاست کا ایک یہ اصول بھی طے ہے۔ سیاست جذبات سے نہیں شعور و ادراک کا نام ہے۔ اقتدار کو بچانے، ملک کو خوشحال بنانے اورخود کو قومی حکمران ثابت کرنے کے لیے دشمن کو بھی گلے لگانا پڑتا ہے۔ یہ طے ہے بڑا سیاستدان اور بڑا لیڈر بننے کے لیے ’’نیلسن منڈیلا‘‘ کی سوچ درکار ہوتی ہے جو گوروں کو سینے سے لگاکر امر ہوجاتا ہے۔ اگر مودی مسلمانوں کا قتل عام کر کے قومی حکمران بننا چاہتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہو گی۔
Flag Counter