Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 18 تا 24 اپریل 2014

ہ رسالہ

1 - 12
افغانستان کا مستقبل
    تحریر یاسر محمد خان 

11ستمبر 2001ء کو دنیا کا منظر نامہ بدلا۔ امریکا اور اتحادیوں نے اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر حملہ کردیا۔ طالبان کی حکومت کابل سے ختم ہوگئی۔ کرزئی مسکرائٹیں بکھیرتا افغانستان کی دھرتی پر آن اترا۔ انٹرنیشنل کانفرنس آن افغانستان دسمبر2001ء کو جرمنی کے شہربون میں ہوئی۔ وہاں کرزئی کو 6 ماہ کے لیے افغانوں کا چیئرمین منتخب کرلیا گیا۔ یوں 22 دسمبر 2001ء کو کرزئی کابل کا بے تاج بادشاہ بن گیا۔ جون 2002ء میں اسے لویہ جرگہ نے افغانستان کا صدر چن لیا۔ اکتوبر 2004ء میں صدارتی انتخابات ہوئے۔ امریکیوں نے اسے آشیرباد دی۔ وہ 34 میں سے 21 صوبوں میں برتری کے ساتھ سامنے آگیا۔ اس نے اپنے 22 حریفوں کو شکست دے دی۔ 54.4 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

یوں اسے 8.1 ملین ووٹوں میں 4.3 ملین ووٹ ملے۔ دسمبر2004ء کو اس نے حلف اٹھایا۔ اس تقریب میں 3 سابق امریکی صدر اور اس وقت کا نائب امریکی صدر ڈک چینی بھی شامل تھا۔ ظاہر شاہ کو خصوصاً اس تقریب کے لیے لایا گیا۔ کرزئی کا عہد افغانستان کے لیے کرپشن، بدعنوانی اور اقربا پروری کا دور لایا۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت شاہی محل یا بیرون ملک دورں میں گزارتا تھا۔ اس کی حکومت کے کابل سے باہر پر جلتے تھے۔ 2006ء میں اس کی بدعنوانی کے خلاف تحریک چلی۔ 7 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہوئے۔ کرزئی اس کے 6 بھائیوں اور بہنوئی نے لوٹ مار کا بازار گرم کردیا۔ افغانستان میں دوبارہ پوست کاشت ہونے لگی۔ کرزئی نے منشیات فروشی کو بزنس کا درجہ دے دیا۔ اس کے خاندان نے اتنا مال بنایا کہ شکاگو اوردوسرے بڑے امریکی شہروں میں ہوٹلوں کی ایک پوری چین بنالی۔ کرزئی سی آئی اے، ایران اور دوسرے ملکوں سے آنے والی رقم کا تنہا وارث بن گیا۔ وہ جس بھی ملک کا دورہ کرتا وہاں دست طمع دراز کرنا نہ بھولتا تھا۔


یہ وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے کہ ہم افغانستان کے نئے منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ پاک افغان تعلقات کا جائزہ لیں اور نئے دور کا آغاز کریں۔

یوں افغانستان مفلوک الحال اور کرزئی زبردست خوشحال ہوتا چلا گیا۔ طالبان جو وقتی طور پر پسپا ہو گئے تھے انہوں نے کئی صوبوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرلیا اور کرزئی حکومت کے پر کاٹ دیے۔ کرزئی کا دائرہ اختیار کابل شہر تک محدود ہو کر رہ گیا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اسے’’ کابل کے میئر‘‘ کاخطاب دلنواز عطا کردیا۔ امریکی اور نیٹوافواج کو طالبان کے خلاف سخت مزاحمت پیش آنے لگی۔ وہ کرزئی کی بداعمالیوں سے چشم پوشی کرکے اسے افغان حکومت کے سمبل کے طور قائم رکھنے پر مجبور تھے۔ کرزئی ان کے لیے ایک ’’یس مین‘‘ تھا جو ان کے اشارہ ابرو پر ہر قدم اٹھانے کو تیار تھا۔ 2009ء آن پہنچا۔ کرزئی کا عرصۂ صدارت پورا ہونے کو آیا۔ وہ پھر صدارت کا اُمیدوار بن کر سامنے آیا۔ 20 اگست 2009ء کو اسے بدترین دھاندلی کے بعد 50 فیصد ووٹوں کے ساتھ صدر چن لیا گیا۔ اس نے 24 وزیروں کی ایک لسٹ افغان پارلیمنٹ کو بھجوائی۔ ان میں سے بیشتر وہ بدترین چور تھے جن کے اعمال ناموں سے خلق خدا خوب آگاہ تھی۔ پارلیمنٹ نے 24 میں سے 17 وزیروں کو فارغ کردیا۔ کرزئی نے دوبارہ 17 نئے نام بھیجے۔ان میں سے 10 کو پارلیمنٹ نے مسترد کردیا۔ افغان الیکشن کمیشن نے جن امیدواروں کو ری جیکٹ کیا تھا۔ کرزئی نے ایک اسپیشل کورٹ بنا کر انہیں دوبارہ اقتدار کی بارہ دری تک رسائی دے دی۔ امریکی حکومت کی شہ پر یونیورسٹیوں نے کرزئی کو آنریری ڈگریاں دیں۔ یوں 2014ء تک آتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق کرزئی کا افغانستان کرپشن میں صومالیہ اور شمالی کوریا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑا تھا۔ کرزئی کو تاریخ ایک نااہل اور بے ضمیر حکمران کے طور پر یاد رکھے گی۔ ستمبر 2013ء میں نئے افغان صدر کے انتخابات کا پراسیس شروع ہوا۔ اکتوبر 2013 میں 26 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کروائے۔ الیکشن کمیشن نے 16 امیدواروں کے کاغذات مسترد کردیے۔ باقی 11 میں سے 3 دستبردار ہو گئے۔ 

23 نومبر پارلیمانی انتخابات کے نتائج جاری ہوگئے جن کے مطابق افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار پختونوں کو 249 میں سے صرف 100 نشستیں مل سکیں۔ ازبک، تاجک اور ہزارہ اقلیتیں جیت گئیں۔ 5 سال مزید گزرگئے۔ افغانستان کے مسائل جوں کے توں رہے۔ جنگ جاری رہی۔ بدامنی، کرپشن، افلا س اور لاقانونیت کا بازارگرم رہا۔ اب افغانستان میں امریکی چھتری کے سائے تلے تیسری بار صدارتی انتخابات ہوچکے ہیں۔ طالبان نے اس بار بھی کسی کو نہیں چھیڑا۔ اپنی سابقہ پالیسی پر قائم رہے۔ شاید یہ تحریر شایع ہونے تک نتائج بھی آچکے ہوں۔ بعض کالم نگاروں نے اس پر خوب بغلیں بجائی ہیں کہ شاید طالبان اب انتخابی عمل میں آڑے آنے کے قابل نہیں رہے جو ان کی کمزوری اور اتحادی افواج کی برتری کی بہت بڑی دلیل ہے۔ شاید اب افغانستان میں ایک سنہرا دور شروع ہونے کو ہے۔ ان حضرات کو اپنے حافظے کی کمزوری کا علاج کرانا چاہیے۔ یہ نہ ہوسکے تو کسی لائبریری میں جاکر 2009ء اور 2010ء کے انتخابات کے حالات کو ازسرِنو پڑھ لیں۔ طالبان کی پالیسی تو اسی وقت سے یہ ہے کہ وہ انتخابی عمل میں حصہ لیں گے نہ آڑے آئیں گے۔ رہی یہ بات طالبان جمہوری نظام میں حصہ کیوں نہیں لیتے؟

اس کی متعدد وجوہ ہوسکتی ہیں، مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے اگر افغانستان کا کوئی ہمدرد پورے خلوص سے اس ماحول میں انتخابی دنگل میں اُتر بھی جائے تو کون سا تیر مارلے گا؟ کرزئی افغانوں کے نہ سہی پشتونوں کے با پ مشہور ہیں، مگر انہوں نے اپنی قوم کے لیے کیا کرلیا؟ ایک دو بار نہیں متعدد مرتبہ انہوںنے باقاعدہ آنسو بہاتے ہوئے افغانوں کی کسمپرسی اور اپنی بے بسی پر اظہارِ افسوس کیا ہے، مگر اس سے کیا حاصل؟ اگر آنسو بہانے سے کچھ ہوتا تو سرزمینِ افغان کے مصائب و آلام پر اُمت کے اتنے آنسو بہ چکے ہیں کہ انہیں جمع کیا جائے تو کرب و بلا کا ایک سمند رموجزن ہوجائے۔ طالبان اسی لیے اس نام نہاد جمہوری ڈرامے میں حصہ نہیں لے رہے کہ وہ بے بسی اور پشیمانی کے آنسو نہیں بہانا چاہتے۔ وہ غاصب امریکی و اتحادی افواج کو وہی سبق دے کر اپنی دھرتی سے بھگانا چاہتے ہیں جو ان کے بڑوںنے برطانوی اور روسی افواج دیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظالم کی قوت کے سامنے نہ آہوں کے بند باندھے جاسکتے ہیں نہ گریہ وزاری سے اسے نرمایا جاسکتا ہے۔

زورِ بازو آزما !شکوہ نہ کرصیاد سے

آج تک کوئی قفس ٹوٹانہیں فریاد سے
Flag Counter