ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
مگر یوں کہئے کہ پخ ہے کون محنت کرے ـ حدیث سے بھی تعویذ چھوٹے بچوں کے لئے ثابت ہے جو پڑھ ہی نہیں سکتے ـ بڑوں کے لئے کہیں ثابت نہیں ہے ـ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی عادت تھی کہ جو بچے یاد کرنے کے قابل ہوتے تھے ان کو یہ دعا سکھا دیتے تھے اعوذ بکلمات اللہ التامات الخ ـ اور جو پڑھنے پر قادر نہ تھے ان کے گلے میں ڈال دیتے تھے ـ مگر عام عادت تعویذ ہی مانگنے کی ہو گئی ہے اور راز اس کا ( کہ لوگ تعویذ ہی لینے کے سر ہوتے ہیں اگر پڑھنے کو بتا دیا جائے تو اس پر کفاریت نہیں ہوتی ) یہ ہے کہ پڑھنے سے بچتے ہیں جھگڑا معلوم ہوتا ہے محنت نہیں ہوتی ـ اور اسی سلسلے میں یہ بھی فرمایا کہ اصل تو یہ ہے کہ اللہ میاں کا کلام تعویذ گنڈوں کے لئے تھوڑا ہی ہے عمل کرنے کیلئے ہے ـ گو تعویذ گنڈے میں بھی اثر ہوتا ہے مگر وہ ایسا ہے جیسے دو شالے سے کوئی کھانا پکا لے سو کام تو چل جائیگا ـ مگر اس کے لئے وہ ہے نہیں اور ایسا کرنا دو شالے کی بے قدری ہے ایسے ہی یہاں ـ ہاں کبھی کسی وقت اس کا بھی مضائقہ نہیں یہ نہیں کہ مشغلہ ہی کر لے کہ سب چیز کا تعویذ ہی ہو ـ ایک عجیب لطیفہ جس کو سن کر بے اختیار ہنسی آتی ہے ارشاد: عجیب لطیفہ اور واقعہ ہے حضرت والا کا دیکھا ہوا ـ ایک عورت ریل میں سوار تھی اس کے ساتھ ایک بچہ تھا اور ایک بکری بھی ساتھ تھی بکری کا محصول نہیں دیا تھا جب اسٹیشن ہوتا تو اس کو تختہ کے نیچے چھپا دیتی اور جب کوئی اسٹیشن والا اس گاڑی میں آتا ـ اور اتفاق سے وہ بکری بولتی تو وہ اپنے بچے کے دھپ لگاتی اور کہتی کہ دور ہو نگڑی بکرے کی بولی سیکھی ہے اسی طرح دور تک کرتی رہی پھر ہم تو اتر گئے نہیں معلوم کہ ریل سے اتر کر اس نے کیا کیا ہو گا ـ حضرت کو چلتی ریل میں نماز پسند ہے ارشاد: ہمیں تو چلتی ریل میں نماز پڑھنا پسند ہے اطمینان پورا ہوتا ہے اور اتر کر پڑھنے میں ایک تو ریل کے چھوٹنے کا خیال دوسرے اکثر اس درجہ میں مسافر آ گھستے ہیں دقت ہوتی ہے بیٹھنے میں اور چلتے میں تو جو حالت ہے بس وہ ہے ـ گو مسافر زیادہ ہوں اطمینان تو ہے ـ