Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1430ھ

ہ رسالہ

8 - 15
***
مدرسے كى ضرورت ....كيوں؟
مولانا قارى محمد حنيف جالندهرى
جنوبى ايشيا پر برطانوى استعمار كے تسلط اور تاجِ برطانيه كى حكومت قائم هونے كے بعد جب يهاں كے صديوں سے چلے آنے والے نظام تعليم كو ختم كر ديا گيا تو اس نظامِ تعليم سے وابسته افراد نے اسے باقى ركهنے كے ليے عوام كے تعاون سے ايك نئے تعليمى نظام كى بنياد ركهى، جو رضاكارانه اور پرائيويٹ تها، كيوں كه اگرچه رياستى طور پر عدالتى اور دفترى نظام كى مكمل تبديلى اور نئے نظام كے نافذ هو جانے كى وجه سے اس حواله سے اس كى ضرورت باقى نهيں ره گئى تهى، ليكن عام مسلمانوں كے دين كے ساته تعلق كو باقى ركهنے، انهيں ان كے عقيده كے مطابق دين كى تعليم اور تربيت فراهم كرنے اور زندگى كے انفرادى، خاندانى اور معاشرتى مسائل ميں ان كى دينى راهنمائى كے ليے اس نظام تعليم كى ضرورت بدستور موجود تهى كيوں كه اس نظام تعليم كے خدانخواسته مكمل خاتمه كى صورت ميں يه خطره پيدا هو گيا تها كه مسلمان اپنے مذهب اور دين سے محروم هو جائيں گے، اس ليے مسلمانوں كے مذهب اور كلچر كے تحفظ اور ماضى كے ساته ان كا تعلق برقرار ركهنے كے ليے پرائيويٹ سطح پر اس نظامِ تعليم كو دوباره استوار كيا گيا اور1865ء ميں ديوبند كے قصبے سے اس كا آغاز هوا، جس كے بعد جنوبى ايشيا كے طول و عرض ميں اسى ضرورت كے تحت هر جگه لوگوں نے مدارس قائم كيے اور ابهى تك ان كا سلسله نه صرف جارى هے بلكه اس كا دائره روز به روز پهيلتا جا رها هے-
ان مدارس كے ليے يه پاليسى اور حكمت عملى طے كى گئى كه يه عام مسلمانوں كے رضاكارانه تعاون سے چلائے جائيں گے- حكومت سے كوئى امداد نهيں لى جائے گى اور نه هى مستقل طور پر كوئى ذريعه آمدنى اختيار كيا جائے گا، تاكه عام آدمى كا ان مدارس كے ساته اور مدارس كا عام آدمى كے ساته تعلق قائم رهے يه بهى طے كيا گيا كه انتهائى سادگى اور قناعت كے ماحول ميں دينى تعليمات اور اسلامى طرز معاشرت كو باقى ركهنے كى كوشش كى جائے گى-
ان مدارس كے نظام تعليم كا بنيادى هدف يه رها هے اور اب بهى هے كه عام مسلمانوں كو مساجد ميں نماز پڑهنے كے ليے امام و خطيب، قرآن كريم كى تعليم كے ليے حافظ و قارى اور اسى طرح دينى مدارس ميں اسلامى علوم كى تعليم كے ليے مدرسين اور سوسائٹى كى دينى راهنمائى كے ليے علمائے كرام ميسر آتے رهيں، اس ليے حكمت عملى كے تحت يه طے پايا كه ان ميں صرف وهى كچه پڑهايا جائے گا جس كى اس دائرے ميں ضرورت هو گى- چنانچه عصرى علوم كو ان كے نصاب سے الگ ركها گيا- اس ليے نهيں كه ان علماء كو عصرى تعليم كى ضرورت نهيں تهى، بلكه اس ليے كه جن اهداف و مقاصد كے ليے ان مدارس ميں لوگوں كو تعليم دى جا رهى هے وه ان كى لائن سے هٹ نه جائيں اور سوسائٹى ميں مسجد و مدرسه كے ادارے كو حسب ضرورت افرادِ كار ملتے رهيں، جبكه عصرى تعليم كے ليے ملك ميں ديگر بهت سے ادارے موجود هى تهے- اپنے ان اهداف ميں يه مدارس نه صرف يه كه كامياب رهے، بلكه مسلسل پيش رفت كر رهے هيں اور صرف جنوبى ايشيا ميں نهيں بلكه دنيا كے بهت سے ديگر ممالك اور علاقوں ميں بهى ان مدارس كے تعليم يافته حضرات امامت، خطابت، تدريس اور دينى راهنمائى كے فرائض سرانجام دينے ميں مصروف هيں اور عام مسلمان كا دينى تعليمات كے ساته رشته قائم ركهے هوئے هيں-
قيام پاكستان كے بعد حكومتوں كى جانب سے مسلسل اس بات كى كوشش كى گئى كه مدارس كے اس نظام كو اجتماعى دهارے ميں شامل كرنے كے عنوان سے سركارى كنٹرول ميں ليا جائے، ليكن هر دور ميں ان مدارس نے نه صرف يه كه اس تجويز كو قبول نهيں كيا، بلكه ايسى هر كوشش كى مزاحمت بهى كى، جس كى وجه سے يه مدارس اب بهى آزادانه ماحول ميں مكمل انتظامى اور مالياتى خودمختارى كے ساته اپنے فرائض سرانجام دے رهے هيں-
سركارى كنٹرول اور مداخلت كو قبول نه كرنے كى ايك وجه يه انديشه هے كه مدارس پر اجتماعى دهارے كے نام پر مدارس كے تعليمى تشخص كو ختم كركے ركه ديا جائے گا اور وه اپنى تعليم و تربيت كا وه ماحول قائم نهيں ركه سكيں گے جو ان كى حقيقى دينى ذمه دارى هے اور وه اس صورت ميں الله تعالىٰ اور قوم دونوں كے سامنے مجرم ٹهريں گے اور تجربه ومشاهده بهى يه هے كه ماضى ميں بهت سے دينى تعليمى اداروں كو ان كا نظام بهتر بنانے كے عنوان سے سركارى تحويل ميں ليا گيا، مگر وه آهسته آهسته اپنے تعليمى تشخص اور دينى كردار سے محروم هو گئے- ان ميں بطور مثال جا معه عباسيه بهاولپور اور جامعه عثمانيه اوكاڑه كو پيش كيا جا سكتا هے-
ايك وجه يه بهى هے كه دينى مدارس يه ديكه رهے هيں كه موجوده عالمى تهذيبى كشمكش ميں اسلامى تعليمات و عقائد اور تهذيب و تمدن كو مسلسل نشانه بنايا جار ها هے اور مسلمانوں كو اس سے هٹانے كى كوشش كى جا رهى هے، اس ليے دينى مدارس كے اساتذه و طلبه دينى مدارس كے حواله سے اصلاحات كے نعرے كو بهى اسى پس منظر ميں ديكهتے هيں اور اسے بچانے كى هرممكن كوشش كر رهے هيں-
دينى مدارس كو اپنے نظام و نصاب ميں كسى ايسى ترميم يا تبديلى سے كبهى انكار نهيں رها جو ان كے روايتى كردار اور تعليمى تشخص كو بهتر بنانے كے ليے مفيد هو اور ايسى هر تجويز كو يه دينى مدارس هر دور ميں قبول كر كے اپنے نظام كا حصه بناتے چلے آ رهے هيں، ليكن ايسى كوئى تجويز اور اصلاح ان كے ليے كسى بهى درجه ميں قابلِ قبول نهيں هے، جس سے ان كے تعليمى اهداف اور تشخص ميں فرق پڑتا هو يا ان كے اس آزادانه تعليمى كردار كى حيثيت مجروح هوتى هو،جسے وه مسلمان معاشرے ميں دينى تعليم اور راهنمائى كے حوالے سے اپنى ذمه دارى كو صحيح طور پر ادا كرنے كے ليے ضرورى سمجهتے هيں-
اس مجموعى پاليسى كو ملك بهر كے دينى مدارس اور تمام مكاتب فكر كے دينى مدارس كے وفاقوں كى اجتماعى حمايت حاصل هے اور ملك كے عوام بهى يهى چاهتے هيں كه مسجد و مدرسه كا اداره پورى آزادى، اعتماد اور خودمختارى كے ساته اپنا كردار ادا كرتا رهے، كيوں كه موجوده عالمى تهذيبى كشمكش كے تناظر ميں اسلام اور اس كى تعليمات كا تحفظ و بقا، اسلامى عقائد و تعليمات اور تمدن و ثقافت كے ساته تعلق برقرار ركهنے كے ليے ناگزير تصور كيا جاتا هے-

Flag Counter