Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1430ھ

ہ رسالہ

2 - 15
***
پاكيزه زندگى.. پاكيزه ماحول سے بنتى ہے
مولانا محمد عمر پالن پوری 
انسان کو الله تعالیٰ نے دنیا میں مختصر وقت کے لیے بھیجا ہے
الله تعالیٰ نے ہم سب انسانوں کو اس دنیا میں تھوڑے وقت کے لیے بھیجا ہے او رزندگی بسر کرنے کا وہ طریقہ بتایا کہ جس پر چلنے سے دنیا کے اندر بھی ہم کامیاب ہو جائیں گے اور آخرت کے اندر بھی ہم کامیاب ہو جائیں گے اور الله تعالیٰ کے خزانوں سے ہم خوب فائدہ اٹھانے والے بن جائیں گے۔ زندگی بسرکرنے کا وہ طریقہ بتانا نبیوں کا کام تھا اور وہ اپنے اپنے علاقوں میں یہ کام کرتے تھے کہ انسانوں کا ذہن بنایا جائے، خدا سے تعلق پیدا کرنا اور آخرت کی فکر پیدا کرنا اور الله تعالیٰ کے بتائے ہوئے ، اعمال پر چلنا یہ نبیوں کا کام تھا ۔ لیکن انبیائے کرام کی آمد رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کی آمد سے بند ہو گئی۔ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے تشریف لانے سے نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے ۔ البتہ دعوت کا دروازہ بند نہیں ہوا ۔
نبوت کا دروازہ بند ہوا، دعوت کا دروازہ نہیں
رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کے تشریف لانے سے نبوت کا دروازہ بند ہو گیا اور اب نبیوں والا کام سارے کاسارا اس امت پر آیا۔ الله تعالیٰ نے انتخاب کیا اس امت کا دعوت کے لیے، اب ہمارا کام اپنا ذہن بھی بنانا اور ہمارے اپنے علاقے والوں کا ذہن بھی بنانا اور پورے عالم کا ذہن بنانا جو نبیوں نے بنایا اور وہ یہ کہ زندگیوں کا بنانا اور زندگیوں کا بگاڑنا یہ الله تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
دکھائی تویہ دیتا ہے کہ دنیا کے اندر کی پھیلی ہوئی چیزوں سے ، کہ فلاں آدمی کے ہاتھ میں مال بہت ہے ، تو اس کی زندگی بہت بن گئی ۔ دیکھو! کتنے آرام میں ہے ۔اور یہ بھی انسان کو دکھائی دیتا ہے کہ فلاں آدمی کو ڈاکوؤں نے پکڑ کر مار ڈالا، کیوں کہ اس کے پاس مال بہت تھا ، تو یہ بھی دکھائی دیا کہ مال سے زندگی بنی اور یہ بھی دکھائی دیا کہ مال سے زندگی بگڑی۔ روزانہ یہ ہم دیکھتے ہیں، مشاہدے کی چیزیں ہیں ۔ الله تعالیٰ نے پچھلے واقعات بیان فرمائے، کیوں کہ پچھلے واقعات میں نتیجہ برآمد ہو چکا ہے ۔ موجودہ زمانے کے آدمیوں کو دیکھ کر آدمی اپنی زندگی کی ترتیب قائم نہیں کرسکتا۔ پچھلے واقعات میں الله تعالیٰ نے یہ بتایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام وزیر تھے اور کامیاب ہوئے۔ دنیا وآخرت دونوں میں کامیاب ہوئے اور ہامان بھی مصر کا وزیر تھا، مگر دنیا وآخرت میں ناکام ہو گیا۔
مال حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بھی تھا، وہ دنیا وآخرت میں کامیاب وسرفراز ہوئے۔ اور مال قارون کے ہاتھ میں بھی تھا، مگر وہ ناکام رہا ۔ مال سے کامیابی وناکامی نہیں۔ اس طرح سارے واقعات بتائے۔ انصاری صحابہ سارے کھیتوں، باغیچوں والے تھے، ان کی زندگیاں دنیا وآخرت میں بنیں اور قوم سبا بھی کھیتوں والے او رباغات والے تھے اور بڑے عجیب وغریب باغات تھے۔ سایہ میں ایک مہینہ تک چلتے تھے، مگر سایہ ختم نہیں ہوتا تھا۔ دھوپ نہیں ملتی تھی ۔ اتنا گنجان سایہ ہوتا تھا اور کھیتوں کی بہت آمدنی تھی، لیکن انجام یہ نکلا کہ ان کی زندگی ان کھیتوں اور باغیچوں میں اُجڑ گئی اور انصاری صحابہ کی زندگیاں بن گئیں۔
مال ودولت سے کامیابی وناکامی نہیں
کھیتوں، باغیچوں سے زندگی نہیں بنتی اور نہ بگڑتی ہے۔ یا یوں کہو کہ ان سے زندگی بن بھی سکتی ہے او ربگڑ بھی سکتی ہے ۔ دونوں باتیں ہیں۔ تجارت کی بہت بڑی منڈیاں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے ہاتھ میں تھیں اور مکہ مکرمہ کے رہنے والے صحابہ میں بہت سے صحابہ ایسے تھے کہ جن کے ہاتھ میں بھی تجارت کی منڈیاں تھیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت ابوعبیدہ، حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہم لیکن ان صحابہ کی زندگیاں بنیں اور حضرت شعیب علیہ السلام کی نافرمان قوم کی زندگی بگڑی۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو زندگی کا بننا اوربگڑنا مخلوقات میں دکھائی دیتا ہے ۔ لیکن حقیقت میں زندگی کا بننا اور بگڑنا یہ الله تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ الله تعالیٰ جس کی زندگی بنانا چاہے اس کی توبنتی ہے اور الله تعالیٰ جس کی زندگی بگاڑنا چاہے تو اس کی بگڑتی ہے، اگر آدمی ان واقعات اور موجودہ زمانے کے حالات کے اندر تھوڑا سا غور کرے تو بہت آسانی کے ساتھ یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ زندگی کا بنانا اور زندگی کا بگاڑنا الله تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ ان مخلوقات کو الله تعالیٰ زندگی کے بگاڑنے میں یا زندگی کے بنانے میں استعمال کرتے ہیں اور یہ مخلوقات خدا کے لشکر ہیں۔ الله فرماتا ہے :
ترجمہ:” الله تعالیٰ کا لشکر الله ہی جانتا ہے“۔(سورة المدثر،آیت:31)
ترجمہ:” اور وہ بہت بڑا ٹھکانہ ہے اور آسمان وزمین کا سب لشکر الله ہی کا ہے اور زبردست حکمت والا ہے۔“(سورة الفتح، آیت:7)
زمین وآسمان کے سارے لشکر الله کے ہاتھ میں ہیں!
زمین وآسمان کے تمام لشکر براہ راست الله کے ہاتھ میں ہیں اور الله ہی ان لشکروں کو استعمال کرتے ہیں ۔ ہوا، پانی، زمین، سورج، چاند، سب الله تعالیٰ کے لشکر ہیں۔ یہاں تک کہ چیونٹی بھی الله کا لشکر ہے ، پرندے ، مچھر، یہ سب الله کے لشکر اور الله کے قبضے میں ہیں، ان چیزوں سے الله جوچاہے گا وہ ہو گا۔ اصل الله کے ارادے سے ہوتا ہے، مگر دکھائی دیتا ہے پھیلی ہوئی چیزوں میں زندگی بنانے کا۔ الله تعالیٰ حفاظت کا ارادہ کرے تو غار ثور میں مکڑی سے جالا تنواکر نبیوں کے سردار حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت کردی۔ باوجود یہ کہ اسباب سارے موت کے تھے۔ سب نے طے کر دیا تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو شہید کر دیا جائے۔
لیکن سارے موت کے اسباب میں الله کا ارادہ حفاظت کا ہوا تو مکڑی کو استعمال فرمایا اور مکڑی سے جالا تنوا کر نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت کرلی۔ اور جب الله تعالیٰ زندگی اجاڑنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو زندگی بننے کے سارے اسباب نمرود کے پاس موجود ہیں ۔ طاقت وحکومت بہت بڑی، نمرود کے پاس پیسہ بھی بہت زیادہ اور کہیں سے الله تعالیٰ نے اس پر حملہ نہیں کروایا، کہیں اس کو پانی میں نہیں ڈبویا اور زمین میں بھی نہیں دھنسایا۔ لیکن الله تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا کہ اس کی زندگی اجڑ جائے تو ایک لنگڑا مچھر ناک کے راستے اندر گھسا اور ساری زندگی بننے کے اسباب کے اندر ایک لنگڑا مچھر ناک کے راستے سے اندر گھسا کر اس کی زندگی اجاڑ دی۔ جب الله زندگی اجاڑنے پر آئے تو الگ الگ راستوں سے اجاڑتے ہیں اور جب الله زندگی بنانے پر آئے تو الگ الگ راستوں سے بناتے ہیں۔
جو نسی مخلوق کو الله چاہے استعمال کرتے ہیں !
الله تعالیٰ جس مخلوق کو چاہے زندگی بنانے میں استعمال کرے اورجس مخلوق کو چاہے زندگی اُجاڑنے پر استعمال کر ے۔ زندگیوں کا بنانا اور زندگیوں کا بگاڑنا یہ الله تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ کامیابی اور ناکامی، اطمینان اور پریشانی، عزت اور ذلت، موت وحیات ، بیماری وتن درستی ، خوف اور امن جتنے بھی انسانوں پر حالات آتے ہیں ، طبیعت کے موافق یا طبیعت کے خلاف، جتنے بھی انسانوں پر حالات آتے ہیں ان حالات کے لانے والے الله تعالیٰ ہیں، لیکن انسانوں کو چیزوں میں دکھائی دیتے ہیں ۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ زندگی بنانے اور بگاڑنے کا خدائی ضابطہ اور قانون کیا ہے ؟ دنیا کے اندر پھیلی ہوئی چیزیں تو ضابطہ نہیں ہیں۔ زندگی بنانے پر آئے تو آگ میں ڈال کر زندگی بنائی اور اگر زندگی بگاڑنے پر آئے تو سونا چاندی کے ڈھیر دے کر زندگی بگاڑی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی آگ میں بنا دی اور قارون کی زندگی سونا چاندی کے ڈھیر میں اجاڑ دی۔ تو دنیا کی پھیلی ہوئی چیزوں سے زندگی بننے اور بگڑنے کا تعلق نہیں رہا۔الله زندگی جس کی بنائے، بنے گی اور جس کی بگاڑے، بگڑے گی۔ مگر الله تعالیٰ مخلوقات کو اس میں استعمال کریں گے، چاہے جونسی مخلوق کو جیسے بھی استعمال کریں۔
زندگی کے بننے اور بگڑنے کا خدائی ضابطہ وقانون
زندگی بسر کرنے کا جو طریقہ الله پاک نے نبیوں کے ذریعے بتایا اگر آدمی اس طریقے پر آجائے تو الله تعالیٰ زندگی بنا دیں گے اور اگر اس طریقے کو چھوڑ دے تو الله تعالیٰ اس کی زندگی بگاڑ دیں گے ۔ یہ خدا کا قانون وضابطہ ہے ۔ ہر زمانے میں نبیوں کو بھیجا اور تمام نبیوں نے وہ طریقہ بتایا ۔ 80 آدمیوں نے اس طریقے کو مانا اور حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے اور بڑی بھاری اکثریت وہ تھی جو حضرت نوح علیہ السلام کے طریقے کے خلاف تھی اور انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی بات کو نہیں مانا تو الله تعالیٰ نے اکثریت والوں کی زندگیاں اجاڑ دیں ، ان کو ہلاک کر دیا اور ہم سارے ان 80 آدمیوں کی نسل میں ہیں۔
الله تعالیٰ نے ہر زمانے میں نبیوں کو بھیج کر وہ طریقہ بتایا اور حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی تشریف آوری پر اس پاکیزہ طریقہ کو بتایا اور یہ پاکیزہ طریقہ قیامت تک چلے گا۔ رسول پاک صلی الله علیہ وسلم جو پاکیزہ طریقہ لے کر تشریف لائے وہ طریقہ پوری دنیا کے بسنے والے انسانوں کو قیامت تک کامیاب بنانے والا طریقہ ہے۔ ہر رنگ وہرزبان والوں کو کامیاب بنانے والا طریقہ ہے، اس پاکیزہ طریقے پر تاجر وکسان، حاکم ومحکوم، کالے اور گورے سب کامیاب ہوں گے۔ اگر اسی پاکیزہ زندگی کو اختیار کریں اور قبول کریں اور پوری دنیا میں اس کی تبلیغ کریں۔
کامیابی والا طریقہ وہ ہے جو الله تعالیٰ نے بتایا اور نبیوں کے ذریعے بتایا۔ جو کام ہم کریں اس میں دیکھیں کہ حکم خدا کا کیا ہے ؟ اور طریقہ رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کا کیا ہے ؟ یہ دو باتیں اگر آگئیں تو آدمی اگر کچے مکان میں بھی ہے تو کامیاب ہے او راگر پکے مکان میں بھی ہو گا تو کامیاب ۔ مال دار ہو یا غریب، کالا ہو یا گورا،الله اسے کامیاب کریں گے، بشرطیکہ یہ پاکیزہ طریقہ اس کی زندگی کے اندر آجائے۔
انسانی اعضا کا صحیح استعمال
اگر اس پاکیزہ طریقہ کے مطابق انسان کی آنکھوں کا، کان کا ، زبان کا ، ہاتھ کا ، پیر کا ، دل کا ، دماغ کا استعمال صحیح ہو جائے تو اسی کو اعمال صالحہ کہتے ہیں ۔ اسی کو نیک کام کہتے ہیں۔ اب یہ نیک کام او راعمال صالحہ زندگیوں میں آئیں کیسے؟ جب آئیں گے تو آخرت کی زندگی ، قبر کی زندگی اور حشر کی زندگی بنے گی اور انسان جنت میں داخل ہو گا اور ہمیشہ وہاں رہے گا۔ یہ مبارک طریقہ انسانی زندگی میں آئے کیسے؟ اس کے لیے ایک ذہن بننا ضروری ہے، نبیوں کا کام پہلے ذہن بنانا تھا، پورے قرآن پاک میں زیادہ ترانسانی ذہن بنایا گیا۔
ذہن بننے پر اس پاکیزہ طریقے پرآنا آسان ہو گا۔ آدمی کا ذہن بن جائے اور غلط فہمی دور ہو جائے ۔ انسان اپنی سمجھ کے مطابق زندگی بسر نہ کرے۔ بلکہ خدا کے کہنے کے مطابق زندگی بسر کرے۔ اگر اپنی سمجھ کے مطابق انسان زندگی بسر کرے گا تو اس کے اندر کی کمزوریوں کا اثر پڑ کر زندگی اس کی اُجڑے گی ۔ خدا کے کہنے کے مطابق اگر زندگی بسر کرے گا تو الله تعالیٰ کی طاقت اس کے موافق بن کر اس کی زندگی بنا دے گی اور الله کی نعمتوں کے خزانے اس کے ساتھ ہو کر دنیا وآخرت کی زندگی بنے گی۔
انسان کے اند ربڑی بڑی تین کمزوریاں!
انسان کے اندر بڑی بڑی تین کمزوریاں ہیں اور الله تعالیٰ ہر لائن میں کمال والے ہیں ۔ الله ہر لائن میں قوت والے ہیں ۔
”الله بہت بڑی طاقت والے ہیں۔،،(سورة مجادلہ، آیت:28)
اور انسان کے متعلق فرماتے ہیں:
”انسان ہر لائن میں ضعیف اور کمزور ہے۔“(سورة نساء، آیت:28)
انسان کی تین بڑی بڑی کمزوریاں یہ ہیں:
ایک کمزوری تو انسان میں یہ ہے کہ اسے جہاں بھی ہو جگہ پوری دکھائی نہیں دیتی۔ مکان اسے پورا دکھائی نہیں دیتا۔ ماں کے پیٹ میں تھا تو پوری عورت دکھائی نہیں دیتی تھی ۔ دنیا میں آگیا تو ساتوں زمین آسمان دکھائی نہیں دیتے ۔ دنیا کے اند راسے قبر کے حالات دکھائی نہیں دیتے۔ قبر میں چلا گیا تو قیامت کے دن کیا تکلیف آنے والی ہے وہ اسے وہاں دکھائی نہیں دیتی۔ قیامت کا دن آگیا تو جہنم کی تکلیف کتنی بڑی ہے وہ اس کے سامنے نہیں تو انسان کے اندر ایک کمزوری یہ ہے کہ جگہ اسے پوری دکھائی نہیں دیتی اور دوسری کمزوری یہ ہے کہ اسے پورا زمانہ دکھائی نہیں دیتا۔ زمانے تین ہیں ۔ ایک تو گزرا ہوا زمانہ ، گزرا ہوا زمانہ تو انسان کے ہاتھ سے نکل گیا اور ایک اگلا زمانہ ہے وہ انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
اگلا زمانہ مستقبل اتنا لمبا چوڑا ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں ۔ عام طور پر انسانی ذہن یہ ہے کہ مر گئے تو زمانہ ختم ہو گیا۔ مٹی میں مل گئے تو بات نمٹ گئی۔ حالاں کہ یہ بات نہیں، بلکہ مرنے کے بعد بھی زمانہ باقی ، جیسے دنیا میں انسان کو راحت وتکلیف ہے ۔ مرنے کے بعد بھی اگر راحت ہے تو دنیا کی ساری راحتوں سے زیادہ اور اگر تکلیف ہے تو دنیا کی سار ی تکلیفوں سے زیادہ۔ پھر جہنم کی تکلیف تو بے حد سخت ہے۔ وہ بڑھتی رہے گی ۔ جنت کے اندر راحت بہت زیادہ ہے اور وہ بھی بڑھتی رہے گی ، تو انسان کو زمانہ بھی پورا دکھائی نہیں دیتا، پچھلا زمانہ اس کے ہاتھ سے نکل چکا ۔ اگلا زمانہ لامحدود اور بے حساب ، جو آنے والا ہے ، وہ اسے پورا دکھائی نہیں دیتا۔ آنے والا زمانہ پورا تو کیا اسے پانچ منٹ بعد کا زمانہ بھی دکھائی نہیں دیتا ۔ جس مکان میں ہے وہ مکان پورا دکھائی نہیں دیتا اور اس کے بعد پانچ منٹ بعد کیا ہو گا وہ اسے پورا دکھائی نہیں دیتا، چاہے یہ انسان پلان 100 سال کے بنا دے، لیکن اسے پانچ منٹ کے بعد کا زمانہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔
ایک مکان کے اندر بہت بڑی طاقت رکھنے والا عہدے دار انسان بیٹھا ہوا ہے اور اس مکان میں دوسرے بھی بہت بڑے عہدیدار بیٹھے ہوئے ہیں اور آپس میں میٹنگ کر رہے ہیں اور اس مکان کے اندر ایک ٹائم بم بھی رکھا ہوا ہے ۔ لیکن دکھائی نہیں دیتا، چوں کہ پورا مکان دکھائی نہیں دیتا تو وہ ٹائم بم جو پیچھے سے رکھا گیا تھا وہ بھی دکھائی نہیں دیتا اور پانچ منٹ بعد وہ بم پھٹنے والا ہے ،وہ بھی اسے دکھائی نہیں دیتا ۔ اب یہ آدمی کیسے انتظام کریں ؟ اور اگر انتظام کریں بھی تو کیسے کریں ؟ کیوں کہ نہ تو مکان پورا دکھائی دیتا ہے او رنہ زمانہ پورا دکھائی دیتا ہے اور پانچ منٹ کے بعد بم پھٹنے والا ہے۔
اب اگر الله کو منظوریہ ہے کہ ان کی زندگیاں ابھی ختم نہ ہوں تو الله غیب سے کوئی انتظام فرمائے گا اور ایسا انتظام فرمائے گا کہ ان کی زندگیاں ختم ہونے سے بچ جائیں گی ۔ وہ یہ سمجھتے رہیں گے کہ دیکھو ہم کیسے چوکنے !ہم کو معلوم ہو گیا ،وہ یہ فخر یہ کہتے رہیں گے۔ حالاں کہ وہ خدا کا انتظام ہو گا۔ اور اگر الله تعالیٰ کو یہ منظور ہو کہ ان کا وقت پورا ہو چکا ہے، اب یہ مریں گے تو انہیں کوئی پتہ نہیں چلے گا اور وہ بم پھٹے گا۔ اب جس کے مقدر میں موت ہو گی وہ مرے گا اور جس کے مقدر میں نہیں ہے وہ کسی طریقے سے بچ جائے گا اور انسان کا مرجانا یہ ناکامی نہیں ہے۔
انسان پر موت کا آجانا یہ خدا کی پکڑ نہیں!
موت تو ایک ایسا پل ہے جس پر سے ہر آدمی کو گزرنا ہے ، چاہے آدمی بھلا ہو یا برا ۔ موت تو ایک پل ہے اس پر گزرنا سب کو ہے، موت کا آجانا اور آدمی کا مر جانا یہ خدا کی پکڑ نہیں ہے ۔ بلکہ خدا کو ناراض کرکے موت کا آجانا یہ خدا کی پکڑ ہے، کیوں کہ جاتے ہی فرشتے مارکٹائی شروع کریں گے اور الله تعالیٰ کو راضی کرکے موت کا آنا خدا کی بہت بڑی نعمت ہے، کیوں کہ مرتے ہی فرشتے انعامات واحسانات کرنا شروع کر دیں گے۔
اُحد کے اندر 70 جلیل القدر صحابہ شہید ہوئے اور بدر کے اندر 70 بڑے بڑے دشمن قتل ہوئے ۔ موت اِن پر بھی آئی اور اُن پر بھی آئی، دونوں مرے ، ایمان لانے سے پہلے ابو سفیان نے حضرت عمر  سے کہا کہ ہم نے پورا بدلہ لے لیا۔ ستر تمہارے مرے اور ستر ہمارے بھی مرے۔ تو حضرت عمر نے فرمایا کہ پورا بدلہ کیا ہوا؟ تمہارے جو ستر مرے وہ تو جہنم میں گئے اور ہمارے جو ستر مرے وہ شہید ہوئے او رجنت میں گئے ۔ تم تو خالی تعداد کے پورا ہونے کو پورا بدلہ کہتے ہو ۔ بلکہ یہ دیکھو کہ ان کا آخری انجام کیا ہوا؟ تو موت کا آنا خدا کی پکڑ نہیں ہے، موت کا آکر پھر جہنم میں جانا یہ خدا کی پکڑ ہے۔
تو بم کا پھٹ کر موت کا آجانا ہم اس کو خدا کی پکڑ نہیں کہیں گے، اگر آدمی کی زندگی غلط ہے تو اسے ہم خدا کی پکڑ کہیں گے اور اگر آدمی کی زندگی صحیح ہے تو پھر موت کا آجانا خدا کی پکڑ نہیں ہو گی، بلکہ موت کا آنا ایک سبب تھا اور موت کے پل پر سے یہ آدمی گزرا اور الله پاک آگے لے جاکر اسے کامیاب کریں گے، اس کا مرنا ہی اس کی کامیابی ہے ، تو دو کمزوریاں انسان کے اند ربڑی بڑی ہو گئیں ۔ ایک تو زمانہ اسے پورا دکھائی نہیں دیتا اور ایک اسے مکان پورا دکھائی نہیں دیتا۔
انسان خود اپنی زندگی کی ترتیب قائم نہیں کر سکتا
اگر یہ انسان اپنی زندگی کی ترتیب خود قائم کرے گا تو ادھوری سمجھ پر قائم کرے گا۔ سمجھ بھی اس انسان کی ادھوری ہے ،پوری سمجھ انسان کی نہیں ہے اور الله تعالیٰ سارے مکان کوجانتے ہیں ۔ سمندر کے اندر جو مچھلیاں ہیں خدا وہ بھی دیکھتا ہے اور ساتویں زمین پر جو کالے پتھر پر جو کالا کیڑا ہے وہ بھی خدا کو نظرآتا ہے اور الله اس کے چلنے کی آواز بھی سنتے ہیں ۔ الله تعالیٰ کے خزانے کمال والے، الله کی قدرت کمال والی، الله تعالیٰ کا سننا کمال والا، الله پاک کی نعمتیں کمال والی، الله کی پکڑ بھی کمال والی ، الله کی ہر چیز کمال والی او رہر چیز بہت بڑی ہے، چوں کہ الله بڑے تو ان کی پکڑ بھی بڑی۔ ان کی گرفت بھی بڑی تو ان کا جیل خانہ بھی بہت بڑا ،جس کا نام جہنم ہے اور ان کا مہمان خانہ بھی بہت بڑا، جس کا نام جنت ہے۔
الله کا جیل خانہ جہنم او رمہمان خانہ جنت!
الله تبارک وتعالی کا جیل خانہ بہت بڑا ہے اور وہ جہنم ہے، جس کے مختلف طبقات ہیں اور الله تعالیٰ کا مہمان خانہ بھی بہت بڑا ہے، جس کا نام جنت ہے اور اس کے بھی مختلف درجے ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی جنت بھی مومن کو الله مرحمت فرمائیں گے تو وہ پوری دنیا سے دس گنا بڑی ہو گی ۔ ستر ، بہتر بیویاں ہوں گی، اسی ہزار نوکر چاکر ہوں گے اور سونے چاندی کے مکانات ہوں گے ۔ دودھ کی، شہد کی، پانی کی، پاکیزہ شراب کی نہریں جاری ہوں گی اورکبھی کوئی نعمت ختم نہیں ہو گی ۔ تو الله پاک کا مہمان خانہ بہت بڑا ہے اور الله تعالیٰ نے فرمایا:
”جنت کے اندر تختوں پر بیٹھے ہوں گے اور آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔“ کیوں کہ وہاں پر نہ دین کا کام ہو گا اور نہ دنیا کا کام اور دنیا کا کام یعنی کھانا پینا تو ہو گا، لیکن ہل چلانا ، کھیتوں میں جانا وغیرہ کوئی کام نہیں ہو گا۔ اور دین کا کام نماز پڑھنا ،روزے رکھنا، تبلیغ کرنا، جہاد کرنا یہ بھی وہاں نہیں ہو گا۔ وہاں تو عیش کرنا اور آرام سے رہنا ہے، الله تعالیٰ فرماتے ہیں:
”اورگلاس بھرے ہوئے پاکیزہ شراب کے مشروب لے کر خدمت گزار سامنے آئیں گے اور وہ چھوٹی عمر کے ہوں گے اور ہمیشہ چھوٹی عمر کے ہوں گے۔“ یہ اس لیے کہ چھوٹے کو بے تکلف کام بتایا جاتا ہے ۔ وہ شراب بالکل پاک اور صاف، جس کے پینے کے بعد آدمی بالکل بکواس نہیں کرے گا۔ نہ اس کے سر میں درد ہو گا۔ دنیا کی شراب آدمی جب پیتا ہے تو بکواس کرنے لگتا ہے اور سر میں درد رہتا ہے ۔ لیکن وہ شراب بالکل پاکیزہ اور صاف۔
جس پھل کو پسند کرے اور کھا لے ۔جس پرندے کو شکار کرکے کھائے ۔ جنت میں داخل ہونے سے پہلے روٹی کا تذکرہ ہر وقت دنیا میں ملتا ہے، لیکن جنت میں داخل ہونے کے بعد وٹامن ہی وٹامن، پرندوں کا گوشت، پھل اور عیش وآرام اور خوب صورت بیویاں۔
” خوب صورت بیویاں جو چھپے ہوئے ہیرے کی طرح ہوں گی “ یہ تمام نعمتیں کب ملیں گی؟
دنیا کے اندر جو عمل کیا ہو گا یہ اس کا بدلہ ہے، یہ عمل کا بھاؤ (قیمت) ہے، چیزوں کا بھاؤ نہیں اور ہاں! چیزوں کا بھاؤ کب بنے گا؟ جب ان چیزوں سے عمل صحیح بنالو۔ دس روپے ہیں ، وہ کسی غریب کو دے دیے یا کسی بھوکے کو کھانا کھلایا، تو پھر اس دس روپے پر جنت نہیں ملی، بلکہ دس روپے کے خرچ کرنے پر ملی اور خرچ کرنا ایک عمل ہے۔ جنت کی قیمت دنیا کا مال ودولت نہیں، بلکہ جنت کی قیمت انسان کا عمل ہے۔
جنت کی قیمت مال ودولت نہیں بلکہ انسانی عمل ہے
جنت کی قیمت دنیا کا مال ودولت نہیں، بلکہ جنت کی قیمت انسانی عمل ہے اور انسان کا وہ عمل جو خدا کے حکم کے مطابق ہو اور رسو ل اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طریقے پر ہو ۔ جب انسانی اعمال اس طریقے پر آجائیں تو جنت کی ساری نعمتیں آدمی کو حاصل ہوں گی اور الله کی رحمتیں وبرکتیں برسیں گی۔
جنت کی نعمتوں میں تین بڑی بڑی خوبیاں
جنت کی نعمتوں میں تین بڑی بڑی خوبیاں ہیں ۔ ایک تو ہر نعمت مقدار میں زیادہ ہو گی ۔ جنت کی نعمتیں مقدار میں ہر وقت زیادہ ہو ں گی۔ جنت کی نعمتوں کی قسم اعلیٰ ہو گی۔ اعلیٰ قسم کی نعمتیں ہوں گی ۔اورتیسری خوبی جنت کی نعمتوں میں یہ ہے کہ وہ نعمتیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوں گی ۔ کبھی ختم نہ ہونے والی ہوں گی ۔ جس نعمت کو جتنی کھائے گا اور استعمال کرے گا تو وہ نعمت کم نہیں ہو گی۔ بلکہ اس کی مقدار زیادہ ہوگی اور ہمیشہ کے لیے ہو گی، جنت کی نعمتوں کی انتہا نہیں ہے۔
دنیا کی ہر نعمت میں تین کمزوریاں
دنیا کی ہر نعمت تعداد اورمقدار میں بھی کم اور زمانہ کتنا ہی لمبا ہو، ختم ہونے والا ہے ، سب کچھ ایک دن ختم ہو گا ۔ عزت، عیش وآرام ،سب کچھ اس دنیا کے اندر ایک وقت میں ختم ہو گا۔ لیکن جنت کی نعمتیں، جن کے متعلق الله تعالی نے فرمایا:
”ہمیشہ ہمیشہ وہاں پر رہنا ہے اور ہر چیز وافر مقدار میں ہو گی۔“ پچاس سال تک کھاتا رہے تو کوئی تکلیف نہیں او راگر پچاس سال تک نہ بھی کھائے تو بھی کوئی تکلیف نہیں ہو گی، جتنی جو نعمتیں کھائیں گے وہ بھوک کے طورپر نہیں کھائیں گے بلکہ مزے کے طور پر کھائیں گے اور جنتی جنت میں سیر کرتے رہیں گے اور ایک دوسرے کی جنت میں بغیر پاس پورٹ اور ویزا کے وہاں پر جانا جائز ہو گا، کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی جنت میں بھی جانا جائز ہو گا اور ہر امتی حضور صلی الله علیہ وسلم کی جنت میں جاسکے گا تو الله تعالیٰ کا مہمان خانہ بہت بڑا اور زبردست قسم کا ہے۔
الله تعالیٰ کا قید خانہ جہنم بہت بڑا ہے
الله تعالیٰ کا قید خانہ جہنم بھی بہت بڑا ہے او راتنا بڑا کہ چاروں طرف سے اژدھوں کا کاٹنا، آگ کا جہنم میں جلانا اور فرشتوں کی مار کٹائی اورمارنے والے فرشتے ایسے ہیں کہ جن کو دکھائی بھی نہیں دیتا۔ یعنی وہ دیکھ بھی نہیں سکتے کہ ان کے دلوں میں رحم آجائے۔ اور وہ بہرے ہیں ، جہنمی کی چیخ وپکار بھی نہیں سن سکتے کہ چیخ وپکار سے دلوں میں رحم آجائے، جہنم میں اندھیرے کا ستانا ، بھوک او رپیاس کا ستانا، آنکھوں سے آنسوؤں کی نہروں کا بہنا اور چیخ وپکار کا مچانا اور یہ جہنمی شیطان سے کہے گا کہ بچالے ! وہ کہے گا میں خود عذاب میں گرفتار ہوں، میں تمہیں کیسے بچاؤں؟! جب یہاں سے مایوس ہوں گے تو پھر فرشتوں سے کہیں گے کہ ہمیں بچالو۔ وہ کہیں گے کہ ہمیں تو الله تعالیٰ کا حکم ہے اور ہم تو خدا کے حکم کے خلاف نہیں کرسکتے۔ پھر جوجہنم کا بڑا فرشتہ داروغہ ہو گا اسے کہیں گے، مگر وہاں سے بھی یہی جو اب ملے گا ۔ یہ پکاریں گے۔الله سے دعا کریں گے کہ ہم جائیں لیکن آواز آئے گی کہ تمہیں تو ہمیشہ یہاں رہنا ہے۔ اب تو کوئی موت نہیں، موت کے پل سے تم گزرے ہوئے ہو، شیطان سے بھی مایوس ہوں گے ، فرشتے بھی ساتھ نہیں دیں گے اور جو بڑے بڑے چوہدری دنیا میں تھے وہ بھی وہاں پر ساتھ نہیں دیں گے ۔
پانچ مرتبہ جہنمی الله تعالیٰ سے گفتگو کریں گے اور آخر میں کہیں گے۔
”دفعہ ہو جاؤ ہم سے بات مت کرو۔“ (سورہ مومنون:آیت108)
” میرا مال میرے کام نہیں آیا اور میرا دبدبہ میرے کام نہیں آیا، دنیا میں میرا دبدبہ اور رعب بہت تھا، لیکن یہاں پر وہ کام نہیں آیا۔“ (سورہ مومنون:آیت29-28)
تو محترم دوستو! پورے عالم کو اس جیل خانے سے بچانا ہے ۔ اس جہنم میں جانے سے پوری انسانیت کو بچانا ہے اور اس کام کے لیے نیت بہت وسیع ہونی چاہیے، نبی پاک صلی الله علیہ وسلم اس نیت کو لے کر دنیا میں مبعوث ہوئے کہ پورے عالم کے انسانوں کو زندگی بسر کرنے کا پاکیزہ طریقہ بتایا جائے اور قیامت تک انسان صحیح طریقے پر چل کر جہنم کے عذاب سے بچیں اور جنت کے اندر بھی داخل ہو جائیں اور جب وہ پاکیزہ طریقہ زندگیوں کے اندر آئے گا تو دنیا کے اندر بھی امن وامان ، چین وآرام اور سکون ہو گا۔ اس پاکیزہ طریقے کے زندگیوں سے نکل جانے کی بنا پر آج پوری دنیا کے اندر سے امن وامان ختم ہو چکا ہے ۔ کسی کی جان محفوظ نہیں، کسی کا مال محفوظ نہیں اور کسی کی آبرو محفوظ نہیں، چاہے وہ آدمی کتنی بڑی طاقت اور عہدے والا ہو، لیکن باوجود پورے حفاظتی انتظامات کے دنیا کے اندر حادثے ہوتیچلے جارہے ہیں اور کوئی شخص محفوظ نہیں ۔ سب پریشانی کے عالم میں ہیں، ساری دنیا پریشان وبے چین ہے اور نجات کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے، لیکن ان کے پاس نجات کا کوئی راستہ نہیں۔ راستہ مسلمان کے پاس ہے۔
نجات کا راستہ مسلمان کے پاس
نجات کاراستہ تو مسلمانوں کے پاس ہے، لیکن یہ نجات کا پاکیزہ راستہ کتابوں میں موجود ہے، مسلمان کی ذات میں موجود نہیں ہے ۔ اس لیے اس پاکیزہ طریقے کا فائدہ دنیا نہیں دیکھ رہی اور ساری دنیا پریشان ہے اور پھر سب سے زیادہ مسلمان پریشان ہیں کہ اس پاکیزہ طریقے کو رکھتے ہوئے وہ اس پر نہیں چلتے، مسلمان کے پاس پاکیزہ طریقہ موجود ہے، لیکن بجائے نفوس کے نقوش میں ہے، عملی زندگی میں نہیں۔
طاقت دو قسم کی ہے!
ایک طاقت وہ جس پر مخلوق کا نام آگیا ہو ۔ جو بنی ہوئی ہے جس پر مخلوق کا ہاتھ لگاہوا ہے۔ اور ایک طاقت وہ ہے جو بنانے والے کی ذات میں ہے، بنی ہوئی طاقتیں بالکل چھوٹی اور بنانے والی ذات کی طاقت وقدرت بہت بڑی اور لامحدود۔ توبنی ہوئی طاقتیں استعمال کریں گے ۔ لیکن اب خدا کی مرضی کہ اس سے زندگی اجاڑے یا آباد کرے اور بنائے ۔ استعمال کرنے والی ذات الله تعالیٰ کی ہے ۔ وہ قدرت سے استعمال فرماتے ہیں ۔ جو طاقتیں بن چکی ہیں یہ ساری طاقتیں چھوٹی ہیں، بڑی نہیں، بنی ہوئی طاقتیں آپس میں چھوٹی بڑی ہو سکتی ہیں ۔ آپس میں ایک دوسرے سے چھوٹی بڑی ہو سکتی ہیں، مثلاً ڈنڈا ایک طاقت، تلوار اس سے بڑی، پستول اس سے بڑی ، توپ ، ٹینک اس سے بڑی طاقت، بم اس سے بڑی اور راکٹ اس سے بڑی طاقت، یہ سب آپس میں ایک دوسرے سے بڑی ہو سکتی ہے ۔ جن طاقتوں پر الله تعالیٰ نے انسان کا ہاتھ لگوایا اس کی آخری طاقت ایٹم بم ہے۔ اس کے بننے میں الله تعالیٰ نے انسان کا ہاتھ لگوایا اور الله تعالی لگواتے ہیں۔ الله ان کے محتاج نہیں، بلکہ ہمارے امتحان لینے کے لیے ہاتھ لگواتے ہیں ۔ یہ دیکھتے ہیں کہ میری طاقت مانتا ہے یا اپنی طاقت مانتا ہے۔ اس لیے تھوڑا ہاتھ لگواتے ہیں ، کاروبار میں ہاتھ لگوالیا۔ حالاں کہ الله تعالیٰ ہمیں یہ دکھارہے ہیں کہ ہاتھی، شیر وغیرہ کو بغیر کاروبار کے پالتے ہیں۔
(جاری ہے)

Flag Counter