Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1430ھ

ہ رسالہ

14 - 15
***
تصوف و سلوك، ايك الهامى نظام
مولانا سيد ابوالحسن على ندوى
الله تعالىٰ نے اس امت كو اجتماعى الهام كى دولت سے نوازا هے ، جو هر قسم كے خطرے و ضرر اور انفرادى كمزوريوں اور غلط فهميوں سے پاك اور محفوظ هے-
اس اجمال كى تفصيل يه هے كه جب اسلام اور مسلمانوں كے سامنے كوئى نازك اور اهم مسئله آتا هے او راس كے بارے ميں فيصله كرنا اور كسى نتيجه پر پهنچنا مشكل هو جاتا هے يازمانه كے تغير اور حالات كے تقاضے سے كوئى نئى ضرورت سامنے آتى هے تو الله تعالىٰ علماء ومخلصين كے ايك معتدبه گروه كے دل ميں، جو نفس زكى اور ارادهٴ قوى كے مالك هوتے هيں، اس ضرورت كى تكميل كا شدت سے خيال پيدا كر ديتا هے اور همه تن ان كو اس طرف اس طرح متوجه كر ديتا هے كه وه اپنے كو اس كام كے ليے مامور اور عندالله مسئول سمجهنے لگتے هيں ، ان كو اس كام كى تكميل ميں كهلے طور پر تائيد الهٰى اور نصرت غيبى نظر آتى هے اور وه دل كى گهرائى سے يه محسوس كرتے هيں كه وه اس كى طرف كشاں كشاں لے جائے جارهے هيں ، يه وه حقيقت هے جس كو هم نے اجتماعى الهام يا جماعتى هدايت سے تعبير كيا هے اور تاريخ اسلام اس كى مثالوں سے پُر هے -
كبهى يه الهام معدودے چند اصحاب كو هوتا هے، جيسا كه اذان كے واقعه ميں عبدالله بن زيد  اور حضرت عمر بن خطاب كے ساته پيش آيا كه دونوں كے خواب يكساں نكلے اور دونوں كو خواب ميں كلمات اذان كى تلقين كى گئى اور رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ان كى تصويب فرمائى اور اذان كو شرعى حيثيت دے دى، جو آج تمام عالم اسلام ميں رائج هے اور جيسا كه ليلة القدر كے سلسله ميں پيش آيا ،جس كے بارے ميں شيخين نے حضرت عبدالله بن عمر سے روايت كيا هے كه ”چند صحابه حضور صلى الله عليه وسلم كى خدمت ميں حاضر هوئے، جنهيں خواب ميں ليلة القدر كو رمضان كى اخير سات راتوں ميں د كهايا گيا تها تو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه ميں ديكهتا هوں كه تمهارے خواب سات آخر راتوں كے بارے ميں يكساں هيں تو جو اُسے تلاش كرنا چاهتا هے وه انهيں سات راتوں ميں تلاش كرے-“
اور اسى كے قريب صلوٰة تراويح كا معامله هے، جس كى اصل نبى صلى الله عليه وسلم سے ثابت هے، جسے آپ نے تين دن كے بعد اس خيال سے چهوڑ ديا تها كه يه امت پر فرض نه هو جائے اور اس طرح مشقت كا سبب نه بن جائے، مسلمان اسے اكيلے اكيلے پڑهنے لگے ، حضرت عمر نے اس كى جماعت قائم كر دى ، حضرت عمر كا يه فعل الهام الهٰى پر مبنى اور آسمانى رهنمائى كا نتيجه تها اور اس ميں بڑا هى خير پوشيده تها ، الله تعالىٰ نے مسلمانوں ميں اس نماز كو باجماعت ادا كرنے كا خيال اور اس ميں ختم قرآن كا شوق پيدا كر ديا ، جو حفظ وحفاظت قرآن كا بڑا ذريعه ثابت هوا اور اس كى وجه سے مسابقت اور رمضان كى راتوں ميں بيدار رهنے كا داعيه پيدا هو گيا ، اس سلسله ميں اهل سنت، جنهوں نے تراويح كو اپنايا اور ان جماعتوں كے درميان، جنهوں نے اس كا انكار كيا اس كهلے فرق كو ديكها جاسكتا هے، جو حفظ قرآن كى كثرت اور اس كے مطالعه واهتمام كے سلسله ميں پايا جاتا هے-
او ركبهى يه الهام مسلمانوں كى ايك بڑى تعداد اور جم غفير كو هوتا هے، جس كا كسى امر پر متفق يا كسى ضرورت كى طرف متوجه هو جانا محض اتفاقى واقعه يا كسى سازش كا نتيجه نهيں كها جاسكتا ، ان كى اس كوشش سے اسلام اور مسلمانوں كو نفع عظيم پهنچتا هے يا مسلمانوں كى زندگى كا كوئى خلا پُر هوتا هے يا كسى مهيب فتنه ، يا رخنه كا سدِباب هوتا هے يا دين كے عظيم مقاصد ميں سے كوئى مقصد پورا هوتا هے -
اس طرح كے مبارك اجتماعى الهام كى مثال ( جوبے شمار راسخ العلم علما اور مخلص و باعمل لوگوں كو هوا) حضرت ابوبكر كے زمانے ميں قرآن كو مصاحف ميں جمع كرنا اور قرن اول وثانى اور اس كے بعد كى ابتدائى صديوں ميں حديث كے جمع وتدوين كا كام، مجتهدين كا استنباط احكام اور جزيات فقه كى تفريع، علم نحو وقرأت، اصول فقه اور قرآن اور اس كى زبان كو محفوظ كرنے والے تمام مفيد علوم كى تدوين اور مدارس كى تعمير ، كتابوں كى نشرواشاعت وغيره اس اجتماعى الهام كى بهترين مثاليں هيں، جس كے ذريعه دين اور امت كى يه اهم ترين ضرورتيں پورى كى گئيں اور آنے والے خطرات كا سد باب كيا گيا-
اسى اجتماعى الهام كى ايك مثال گمراه فرقوں ، ملحدين متشككين، تعطل وبے عملى كى دعوت دينے والے فلسفوں اور تخريب پسند تحريكوں كى ترديد وابطال كا كام بهى هے، جس كے ليے مسلمانوں ميں سے علم وذهانت ، فكرى صلاحيت اور ايمان و قوت ميں امتياز وتفوق ركهنے والے افراد ميدان ميں آئے اورانهوں نے ان دعوتوں اور فلسفوں كو بے نقاب كر ديا، مسلمانوں كو ان كے برے اثرات سے بچا ليا ، يه سب كارنامے الهام ربانى كا كرشمه هيں، جس سے تاريخ اسلام كے هر مرحله اور علم وتهذيب كے هر مركز ميں مسلمانوں كى ايك بڑى جماعت مشرف وسرفراز كى گئى اور جو اس امت پر ( جو آخرى امت اور انسانيت كا مركز اميد هے ) خدا كى عنايت اور الله كے نزديك اس كے بلندى مرتبه كى دليل هے اور يه غير منقطع الهام اور مسلسل مدد الهٰى ختم نبوت اور محمد صلى الله عليه وسلم كے بعد سلسله وحى كے منقطع هونے كى روشن دليل هے، جس كى اگلى امتوں ميں كوئى واضح اور مسلسل نظير نهيں ملتى ، اس ليے كه انهيں اس كى ضرورت بهى نه تهى، كيوں كه سلسله نبوت قائم اور كار نبوت باقى تها-
تزكيهٴ نفس وتهذيب اخلاق كا وسيع ومستحكم نظام، جس نے بعد كى صديوں ميں ايك مستقل علم اور فن كى شكل اختيار كر لى ، نفس وشيطان كے مكايد كى نشان دهى، نفسانى اور اخلاقى بيماريوں كا علاج تعلق مع الله اور نسبت باطنى كے حصول كے ذرائع وطرق كى تشريح وترتيب ،جس كى اصل حقيقت تزكيه واحسان كے ماثور وشرعى الفاظ ميں پهلے سے تهى اور جس كا عرفى واصطلاحى نام بعد كى صديوں ميں ” تصوف“ پڑ گيا ، اسى اجتماعى الهام كى ايك درخشاں مثال هے، رفته رفته اس فن كو اس كے ماهرين نے اجتهاد كے درجه تك پهنچا ديا اور اس كو دين كى بڑى خدمت اور وقت كا جهاد قرارديا، جس كے ذريعه الله تعالىٰ نے قلوب ونفوس كى مرده كهيتيوں كو زنده كيا اور روح كے مريضوں كو شفا دى اور ان مخلص علمائے ربانيين اور ان كے تربيت يافته اشخاص كے ذريعه دنيا كے دور دراز گوشوں اور طويل وعريض ممالك ( جيسے هندوستان، جزائر شرق الهند اور براعظم افريقه) ميں وسيع پيمانه پر اسلام كى اشاعت هوئى اور لاكهوں انسانوں نے هدايت پائى ، ان كى تربيت سے ايسے مردان كار پيدا هوئے ، جنهوں نے اپنے اپنے عهد ميں مسلم معاشرے ميں ايمان ويقين اور عمل صالح كى روح پهونكى اور بارها ميدان جهاد ميں قائدانه كر دارا ادا كيا ، اس گروه كى افاديت اور اس كى خدمات سے انكار يا تو وه شخص كرے گا ، جس كى تاريخ اسلام پر نظر نهيں، يا جس كى آنكهوں پر تعصب كى پٹى بندهى هوئى هے-
جيسا كه حديث متواتر كى تعريف اور اس كے قطعى الثبوت هونے كى دليل ميں اهل اصول كهتے هيں كه ” اتنى بڑى تعداد نے هر زمانه ميں اس كى روايت كى هو كه عقل سليم اور انسانى عادات اس بات كو ماننے كے ليے تيار نه هو كه اتنے كثير انسانوں نے غلط بيانى اور افترا پردازى پر اتفاق كر ليا هے اور يه كسى سازش كا نتيجه هے -“ تاريخ كے سرسرى مطالعه سے بهى يه بات واضح هو جاتى هے كه قرن ثانى سے لے كر اس وقت تك بلا انقطاع اور بلا استثنىٰ هر دور اور هر ملك كے خدا كے كثير التعداد بندوں نے اسى طريقه كو اختيار كيا اور اس كى دعوت دى ، خود فائده اٹهايا اور دوسروں كو فائده پهنچايا اور سارى زندگى اس كى اشاعت ميں مشغول وسرگرم رهے اور ان كو اس كى صحت وافاديت كے بارے ميں، پورا يقين واطمينان حاصل تها ، وه اپنے ماحول ومعاشره كا خلاصه اور عطر تهے اور نه صرف اپنى راست بازى، خلوص وبے غرضى ، پاك نفسى اور نيك باطنى ميں بلكه كتاب وسنت كے علم سنت كى محبت وعشق اور بدعات سے نفرت وكراهت ميں بهى اپنے معاصرين ميں فائق اور ممتاز تهے، ايك دو كا ، يا دس پانچ كا كسى غلط فهمى يا سازش كا شكار هو جانا ممكن هے اور بعيد از قياس نهيں، ليكن لاكهوں انسانوں كا، جو اپنے علم وعمل ميں بهى امت كے صف اول ميں نظرآتے هيں، علىٰ سبيل التواتر صديوں تك اس غلط فهمى ميں مبتلا رهنا، اس پر اصرار كرنا اور اس كى دعوت دينا، اس پر پورے عزم واستقامت كے ساته قائم رهنا خلاف عقل اور خلاف عادت بات هے، پهر ان كے انفاس قدسيه سے لاكهوں كروڑوں انسانوں كا هدايت يافته اور فيض ياب هونا اور اعلىٰ باطنى وروحانى كمالات تك پهنچنا خبر متواتر هے، جس كا انكار ممكن نهيں ، عقلاً وعادتاً يه بات بالكل ناممكن معلوم هوتى هے كه زمانى ومكانى اختلاف كے باوجود صادقين ومخلصين كا يه گروهِ عظيم متواتر ومسلسل طريقه پر ايك غلط فهمى ميں مبتلا رها هے اور الله تعالىٰ نے بهى جو رحيم وحكيم اور هادىٴ مطلق هے او رجس كا وعده هے كه :
”اور جن لوگوں نے همارى راه ميں بڑے بڑے مجاهدے اوركوششيں كى هيں ان كو ضرور بالضرور اپنے صحيح راستوں پر لگا ديں گے، بے شك الله تعالىٰ همت وصداقت كے ساته كام كرنے والوں كے ساته هے “- (العنكبوت،69)
ان كى اس غلط فهمى كا پرده چاك نهيں كيا اور ان كى دستگيرى نهيں فرمائى ، آپ تاريخ اسلام ميں سے ان صادقين ومخلصين كو جن ميں ايك ايك آدمى اپنے عهد كا گل سرسبد، منارهٴ نور اور نوع انسانى كے ليے شرف وعزت كا باعث هے ، نكال كر ديكهيں كه ان كے بعد كيا ره جاتا هے اور اگر ان پر اعتماد نهيں كيا جاسكتا تو پهر كون سى جماعت لائق اعتماد اور سرمايهٴ افتخار هو گى؟

Flag Counter