Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1430ھ

ہ رسالہ

6 - 15
***
زكوٰة اور اس كے اسرار و متعلقات
امام عبدالرحمن ابن جوزى
زكوٰة اسلام كے بنيادى اركان ميں سے ہے، اللہ تعالىٰ نے اس كو نماز كے ساتہ ملايا ہے - فرمايا:
ترجمہ:” نماز قائم كرو اور زكوٰة ادا كرو-“
زكوٰة كے انواع واقسام اور ا س كے وجوب كے اسباب تو ظاہرى ہيں، فقہ كى كتابوں ميں اپنے مواقع پر مرقوم ہيں، ہم صرف بعض شرائط اور آداب كا تذكرہ كريں گے-
شرائط ميں سے يہ بہى ہے كہ منصوص عليہ چيز سے زكوٰة ادا كى جائے اور اُس كى قيمت ادانہ كى جائے، صحيح يہى ہے اور جس نے قيمت ادا كرنے كو جائز كہا ہے، اُس نے صرف حاجت پورى كرنے كو ملحوظ ركہا ہے اور حاجت كا پورا كرنا ہى مقصود نہيں ہے ، بلكہ اس كا كچہ حصہ ہے كيوں كہ شريعت كے واجبات تين قسم كے ہيں:ايك قسم تو وہ ہے، جس ميں صرف بندگى كااظہار ہے ، جيسے جمرات كو كنكرياں مارنا، اس سے شريعت كا مقصد صرف بندے كا امتحان ہے كہ وہ تعميل كرتا ہے يا نہيں، تاكہ بندے كى غلامى ايسے فعل سے ظاہر ہوجس كے معنى بہى وہ نہيں سمجہ سكتا-
دوسرى قسم اس كے برعكس ہے اور وہ ايسے واجبات ہيں جن سے اظہار غلامى مقصود نہيں ہے، بلكہ اس كا مقصد خالص حقوق ہيں، جيسے لوگوں كا قرضہ ادا كرنا اور چہينى ہوئى چيز كو واپس كرنا وغيرہ - اس ميں نيت اور فعل كا اعتبار بہى نہيں ہے ،بلكہ جس طرح بہى مستحق كو اس كا حق پہنچ جائے، مقصود حاصل ہو جائے گا - يہ دونوں قسم كے واجبات غير مركب ہيں-
تيسرى قسم مركبّ واجبات كى ہے اور ان سے دونوں چيزيں مقصود ہيں ، مكلف كا امتحان بہى اور بندوں كے حقوق بہى - ان ميں جمرات كو كنكر مارنے كى عبوديت او رحقوق ادا كرنے كا حصہ، دونوں جمع ہو جاتے ہيں- ضرورى نہيں كہ ان ميں سے جو زيادہ باريك معنى ہيں ، يعنى اظہار عبوديت ان كو نظر انداز كر ديا جائے اور شايد جو زيادہ دقيق ہے، وہى زيادہ اہم ہے اور زكوٰة بہى اسى قسم سے ہے - اس ميں فقير كا حصہ حاجت پورى كرنے ميں ہے اور عبوديت كا حق، حكم كى تفصيلات ميں اتباع شريعت، شريعت كا مقصود ہے اور اسى اعتبار سے زكوٰة، نماز اور حج كے قريب ہو گئى ہے - واللہ اعلم-
زكوٰة كے باطنى آداب
آخرت كے طلب گار پراس كى زكوٰة ميں چند ايك ذمہ دارياں ہيں:
پہلى ذمہ دارى يہ ہے كہ وہ زكوٰة كے مقصد كو سمجہے اور يہ تين چيزيں ہيں - پہلى اپنى محبوب چيز نكالنے سے اللہ كى محبت كے دعويدار كا امتحان- دوسرى بخل سے پاك ہونا او رتيسرى مال كى نعمت كا شكر-
دوسرى ذمہ دارى يہ كہ زكوٰة پوشيدہ طور پر نكالى جائے، كيوں كہ اس ميں ريا كى آميزش نہيں ہوتى - ظاہر كركے دينے ميں لينے والے كى ذلت كا اظہار بہى ہے، پہر اگر اسے خوف ہو كہ زكوٰة نہ دينے كا اس پر الزام عائدہ ہو گا، تو اعلانيہ طور پر كسى ايسے حاجت مند كو دے، جو جماعت كے سامنے لينے كو بُرا نہ سمجہتا ہو-
تيسرى يہ كہ احسان جتا كر اور تكليف دے كر اس كو ضائع نہ كرے اور يہ اس طرح ہوتا ہے كہ انسان جب اپنے آپ كو زكوٰة لينے والے پر احسان كرنے والا اور انعام كرنے والا سمجہتا ہے تو بسا اوقات اس سے اس كا اظہار بہى ہو جاتا ہے، اگر غور كرے تو اسے معلوم ہو گاكہ حاجت مند خود اُس پر احسان كرنے والا ہے، كيوں كہ وہ اُس سے اللہ كا وہ حق قبول كرتا ہے جو اُس كے مال كو پاك كرتا ہے-
ساتہ ہى اس بات كو بہى مدِّنظر ركہے كہ اُس كا زكوٰة ادا كرنا نعمتِ مال كا شكرانہ ہے ، تو پہر اُس كے اور زكوٰة لينے والے كے درميان كوئى تعلق ہى نہيں رہتا او ريہ كسى صورت بہى درست نہيں كہ لينے والے كو اس كى غريبى كى وجہ سے حقير سمجہے، كيوں كہ نہ مال سے فضيلت ہے اور نہ غريبى كوئى نقص-
چوتہى يہ كہ اپنے عطيے كو حقير سمجہے، كيوں كہ اپنے كام كو عظيم سمجہنے والا مغرور ہو جاتا ہے - اوريہ بہى كہا گيا ہے كہ حقيقى نيكى تين باتوں سے حاصل ہوتى ہے: اُسے ہلكا سمجہے اور جلدى كرے اور پوشيدہ كرے-
پانچويں يہ كہ اپنے مال ميں سے سب سے زيادہ حلال اور اچہے اور محبوب مال كا انتخاب كرے-
حلال اس ليے كہ اللہ تعالىٰ خود بہى پاك ہے اور پاك چيز ہى كو قبول كرتا ہے او راچہا اس ليے كہ اللہ تعالىٰ نے فرمايا:
ترجمہ: ”اور خرچ كرتے وقت ردّى چيز كا انتخاب نہ كرو“-
چاہيے كہ اس ميں دو باتوں كو ملحوظ ركہے: ايك تو اللہ تعالىٰ كا حقِ تعظيم ہے اور اللہ كا زيادہ حق ہے كہ اس كے ليے منتخب چيز دى جائے - اگر كوئى شخص اپنے مہمان كے سامنے ردّى كہانا ركہے تو اس كا سينہ جل اُٹہے گا- دوسرى يہ كہ جو كچہ وہ آج آگے بہيجے گا كل قيامت كو وہى كچہ اس كو ملے گا، چناں چہ چاہيے كہ اپنے ليے بہتر چيز كا انتخاب كرے-
باقى رہى سب سے پيارى چيز تو وہ اس ليے كہ اللہ تعالىٰ نے فرمايا ہے :
ترجمہ:” تم اس وقت تك بہلائى نہيں پاسكتے جب تك كہ اپنى پسنديدہ چيز خرچ نہ كرو-“
حضرت عبداللہ بن عمر رضى اللہ عنہ كى عادت تہى كہ جب آپ كسى چيز سے بہت زيادہ محبت كرتے تو اُسے خدا كى راہ ميں قربان كر ديتے - بيان كيا جاتا ہے كہ آپ جحفہ ميں آئے تو بيمار تہے، آپ نے مچہلى كہانے كى خواہش كى، بڑى مشكل سے صرف ايك ہى مچہلى ملى- بيوى صاحبہ نے تيار كركے آپ كے سامنے ركہى تو اسى وقت ايك مسكين آگيا- حضرت ابن عمر رضى اللہ عنہ نے وہ مچہلى اسے عطا فرما دى - بيوى صاحبہ نے كہا ہمارے پاس اور بہت كچہ كہانے كو ہے - ہم وہ اسے دے ديتے ہيں- تو آپ نے فرمايا: نہيں يہى دو، كيوں كہ ہميں يہى سب سے زيادہ پسند ہے-
بيان كيا جاتا ہے كہ حضرت ربيع بن خيثم كے دروازے پر ايك سائل آيا - آپ نے فرمايا اسے انگوريا كہجوريں كہلاؤ - گہر والوں نے كہا ہم اسے روٹى كہلا ديتے ہيں، وہ اس كے ليے زيادہ اچہى ہے ، تو آپ نے فرمايا: تم پر افسوس ہے ، اسے انگور كہلا ،كيوں كہ ربيع كو انگور پسند ہيں -
چہٹى يہ كہ اپنے صدقے كے ليے مستحق آدمى كا انتخاب كرے اوريہ كچہ خاص لوگ ہيں اور ان كى كچہ صفات يہ ہيں:
پہلى صفت تقوىٰ ہے - اپنے صدقے كے ليے پرہيز گار لوگوں كو منتخب كرے كہ اس سے اُن كى توجہ اللہ تعالىٰ كى طرف اور زيادہ ہو جائے گى-
حضرت عامر بن عبداللہ بن زبير عبادت گزاروں كو سجدے كى حالت ميں دينا پسند كرتے - آپ دينا ريا درہم كى تہيلى لے آتے اور چپكے سے ان كے پاؤں كے پاس ركہ ديتے، اس طرح كہ اُن كو تہيلى كا تو پتہ چل جاتا، ليكن يہ پتہ نہ چلتا كہ كون ركہ گيا ہے - آپ سے كہا گيا آپ ان كے گہروں ميں كيوں نہيں بہيج ديتے، تو جواب ديا: مجہے يہ پسند نہيں كہ جب وہ مجہے يا ميرے ايلچى كو ديكہيں تو ان كا چہرہ ندامت سے متغير ہو جائے -
دوسرى صفت علم ہے كہ عالم كو دينے ميں علم اور دين كى تبليغ ميں اعانت ہے اور يہ شريعت كى تقويت ہے-
تيسرى يہ كہ وہ ان لوگوں سے ہوں جو انعام صرف اللہ تعالىٰ كى طرف سے سمجہتے ہيں اور اسباب كى طرف اتنا ہى متوجہ ہوتے ہيں، جتنا كہ شكريہ اداكرنے كے ليے مستحب ہے - وہ آدمى جو عطيہ لے كر مدح كرنے كا عادى ہو اس كو جب نہ ملے گا تو وہ ہجو بہى كرے گا-
چوتہى يہ كہ وہ اپنے فقر كى حفاظت كرتا ہو ، يعنى اپنى حاجت كو چہپاتا ہو - تكليف كو ظاہر نہ كرتا ہو ، جيسا كہ اللہ تعالىٰ نے فرمايا ہے :
ترجمہ:” سوال سے بچنے كى وجہ سے بے خبر آدمى اُن كو دولت مند سمجہتاہے-“
پانچويں يہ كہ وہ عيال دار ہو يا بيمارى يا قرضے ميں گرفتار ہو تو يہ محصر (بند كيے گئے ) لوگوں ميں سے ہے اور ان پر صدقہ كرنا ان كو قيد سے چہڑانا ہے-
چہٹى يہ كہ وہ قرابت دار ہو اور ذوى الارحام سے تعلق ركہتا ہو ، كيوں كہ ان پر صدقہ كرنا، صدقہ بہى ہے اور صلہ رحمى بہى، جس آدمى ميں ان ميں سے دو صفتيں يا زيادہ پائى جائيں تو اس كو دينا اتنا ہى افضل ہو گا-
زكوٰة لينے والے كے آداب
ضرورى ہے كہ زكوٰة لينے والا آٹہ قسموں ميں سے ہو ، كيوں كہ زكوٰة لينے ميں بہى كچہ فرائض ہيں-
اول يہ كہ وہ سمجہے اللہ تعالىٰ نے اُس كو زكوة اس ليے دلوائى ہے كہ اُس كى پريشانياں دور ہو جائيں اور اسے ايك ہى فكر اللہ تعالىٰ كى رضا مندى حاصل كرنے كى رہ جائے -
دوسرا يہ كہ دينے والے كا شكريہ ادا كرے او راُس كے ليے دعا اور اس كى ثنا كرے اور يہ چيزيں صرف اتنى ہوں جتنى كہ سبب كا شكر ادا كرنے كى ہوتى ہيں، كيوں كہ جس نے لوگوں كا شكريہ ادا نہ كيا اُس نے خدا كا شكر بہى ادا نہ كيا، جيسا كہ حديث ميں آيا ہے اور پورا شكريہ ادا كرنے كا ايك حصہ يہ بہى ہے كہ اس عطيے كو حقير نہ سمجہے ، اگر چہ وہ تہوڑا ساہى ہواور اُس كى مذمّت نہ كرے اور اُس ميں اگر كوئى عيب ہو تو اس كو ظاہر نہ كرے اور جيسا كہ دينے والے كا ذمہ يہ ہے كہ وہ اپنے عطيے كو حقير سمجہے اسى طرح لينے والے كا ذمہ يہ ہے كہ اُسے بڑا سمجہے اور يہ تمام باتيں، نعمت كو اللہ تعالىٰ كى طرف سے سمجہنے كے برخلاف نہيں ہيں ، كيوں كہ جو آدمى واسطے كو واسطہ نہ سمجہے وہ جاہل اور جو واسطہ كو اصل سمجہ لے وہ منكر ہے -
تيسرے يہ كہ جو كچہ اُسے مل رہا ہے اس ميں غور كرے، اگر وہ حلال مال سے نہ ہو تو بالكل نہ لے كيوں كہ غير حلال مال سے دينا زكوٰة نہيں - كچہ بہى مشتبہ ہو تو اُس سے پرہيزكرے، الايہ كہ تنگى ميں مبتلا ہو، پہر جس كا اكثر مال حرام كا ہو وہ زكوٰة نكالے اور جو مال نكالا ہے اُس كے خاص معيّن مالك كو نہ جانتا ہو تو اس ميں فتوىٰ يہ ہے كہ اس سارے مال كو صدقہ كر دے، البتہ تنگى كے وقت اگر صاف مال نہ مل سكے تو اس مال سے بقدر ضرورت لينا جائز ہے-

Flag Counter