Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ -اگست ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

8 - 13
پرامن اورمتوازن معاشرہ کے لیے علمأ کاکردار !
پرامن اورمتوازن معاشرہ کے لیے علمأ کاکردار

معاشرے کے لیے علماء کا کردار اور اس کی اہمیت:
اس امت میں علماء شریعت کا وہی کردار ہے، جو سابقہ امتوں میں انبیاء کرام علیہم السلام کا رہا ہے، حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کے بنیادی اور اہم مقاصد میں سے ایک مقصد یہ تھا کہ عالم انسانیت سے جور و ظلم کو دور کیا جائے، اس کی جگہ عدل و انصاف کی فضا قائم ہو، جس کے نتیجہ میں انسانی معاشرہ، امن و توازن کا مظہر بن سکے۔ یہی حضرت آدم علیہ السلام کی آرزو بھی تھی،جو ” وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا“ (البقرة:۱۲۵) کی صورت میں پوری ہوئی۔
معاشی فراوانی اور معاشرتی امن ، دعاء خلیل میں بھی شامل رہا۔رزق کی فراوانی اور امن و امان کا حصول قرآنی تعلیمات کے مطابق خیر و بھلائی کے پھیلاوٴ اور برائی کے خاتمہ اور انسداد کے ذریعہ ممکن ہے،جسے”امر بالمعروف“ اور ”نہی عن المنکر“کہا جاتا ہے ، یہ فریضہ یوں تو اپنے اپنے دائرہ کار میں امت کے ہر فرد پر عائد ہوتاہے اور اسی ذمہ داری کے سپرد ہونے کی بناء پر، امت محمد یہ”خیر امت“ کہلاتی ہے ۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ… الآیة۔(آل عمران:۱۱۰)
تاہم اس امت کے علماء از روئے حدیث، انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں، اس لیے ان کے فرائض منصبی میں انبیاء کرام علیہم السلام کے کردار کی تبلیغ اور خیر امت کی صحیح اور بر وقت راہنمائی شامل ہے، جسے علماء کرام الحمد لله اپنے اپنے دائرہ میں بجا لا رہے ہیں، مگر موجودہ قومی اور بین الاقوامی صورت حال کا شدید تقاضا ہے کہ علماء امت اصلاح معاشرہ کی انفرادی کو ششوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر بھی اپنے کردارکو اجاگر کریں، تاکہ علماء کے سود مند وجود سے امت مسلمہ کی پریشانیوں کا ازالہ کیا جا سکے ، چنانچہ اس کار خیر کے لیے ”پاک انسٹی ٹیوٹ فارپیس اسٹیڈیزاسلام آباد“ نے اس محاضراتی و مشاورتی مجلس کا انعقاد کیا ہے، تاکہ علماء کرام معاشرے کے امن و توازن کو بگاڑنے والے محرکات کا مختلف پہلووٴں سے جائزہ لیں ، اصل محرکات کی نشاندہی کریں اور ان محرکات کی اصلاح یا ان سے پیدا شدہ خرابی کے حل کے لیے اپنی گراں قدر تجاویز سے نوازیں۔اس مفید اور ضروری انتظام پر ”PIPS“ داد و تحسین کا مستحق ہے۔ہماری گفتگو کے لیے تجویز کردہ موضوع کا تعلق ان سیاسی ، سماجی اور معاشی محرکات کی نشان دہی سے ہے، جن کے باعث انسانی معاشرہ، بالخصوص وطن عزیز کا امن و امان اور توازن بری طرح متاثر ہو چکا ہے، بدامنی اور عدم توازن کے محرکات سے پہلے امن و توازن کا مفہوم سامنے رکھتے ہوئے آگے چلتے ہیں۔
امن و توازن کا معنی و مفہوم
اہل علم جانتے ہیں ں کہ ”امن“ فساد کی ضد ہے، فساد، خرابی کو کہتے ہیں، ہر نوع کی خرابی کا ازالہ اور انسداد ہونا” امن“ کا مفہوم صادق آنے کے لیے ضروری ہے، ابن منظور لغوی ” امن“ کا تقاضا اور مقتضا بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ”الأ من یرید ان الارض تمتلی بالامن فلا یخاف احد من الناس والحیوان۔(لسان العرب)
یعنی امن کے مفہوم میں فساد کے نہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں اور حیوانوں کا خوف و فساد سے اطمینان میں ہونا بھی داخل ہے، اس لغوی مفہوم پر وہی ” امن“ پورا اترتا ہے جو اسلامی تعلیمات میں ہمیں ملتاہے، اسلامی تاریخ میں حضرت عمر اول اور عمر ثانی (رضی اللہ عنہم) کے ادوار کی متعدد مثالوں سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔نیز جب ہر چیز اپنے موقع و محل میں رچی ، بسی اور سجی رہے، کسی قسم کے جھکاوٴ اور لڑھکاوٴ کا سامنا نہ ہو تو اسی کو ” توازن“ کہتے ہیں۔
معاشرے کی بد امنی اور عدم توازن کے سیاسی محرکات
#… پہلا محرک، مذہب اور سیاست کی تفریق کا نظریہ ہے، جس نے سیاست کو ایسا بے لگام بنادیا ہے، جہاں آسمانی ہدایات اور اخلاقی آداب سے مکمل آزادی کا فلسفہ، مفاداتی تصادم کراتا ہے، اس کے لیے کسی قسم کی حدود و قیود کی پرواہ نہیں کی جاتی، جہاں مفاد کی جنگ انتہاء پر ہو،ہر نوع کی روک ٹوک کا نظریہ پس پشت ڈال دیا گیا ہو، وہاں امن و توازن کا برقرار رہنا محال ہے۔
#…مسلمانوں نے خلافت کی جگہ مغربی جمہوریت کو دے رکھی ہے، جو اپنے فکر و فلسفہ میں اسلام کی ضد ہے، حالانکہ خلافت و امامت کا قیام ، اسلام کی طرف نسبت کرنے والے تمام مکاتب فکر کے ہاں واجب ہے، اس فرض اور واجب سے اجتماعی اعراض اور کفار کی ناجائز پیروی اور کافرانہ نظام کی بالادستی تسلیم کرنے کی وجہ سے امت مسلمہ بحیثیت مجموعی ظلم اور کفران کی مرتکب ہے، اس ظلم و کفران سے اجتماعی توبہ اور علیحدگی کے بغیر اسلامی معاشرے میں امن اور توازن کا خواب شرمندہٴ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
#…سیاسی نمائندگان اور حلقہٴ نمائندگی کے درمیان طبقاتی فرق بے شمار ایسے مسائل کو جنم دیتا ہے، جو طبقاتی کشمکش کا باعث ہوتے ہیں، نمائندگان عموما ًسرمایہ دار اور جاگیر دار طبقہ سے متعلق ہوتے ہیں، جبکہ حلقہ نمائندگی کی اکثریت غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہوتی ہے ، نمائندگان عوام کے مسائل کا ادراک نہیں کر پاتے ، بلکہ عوام میں شعور پیدا کرنے والے راستوں پربھی ناکے لگائے رکھتے ہیں ۔ نمائندہ اپنے حلقہ نمائندگی سے جب شعوری اور لاشعوری طور پر اتنے فاصلوں پر ہو تو سیاسی توازن کیسے ممکن ہوسکتا ہے ؟ چنانچہ عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے ایسے حربے استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے جو بد امنی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
#…ہماری سیاست میں وڈیرہ شاہی، جاگیرداری، سرمایہ داری اور موروثی سیاست نے عوام اور نمائندوں کے درمیان ایک خلیج قائم کر رکھی ہے، جسے عبور کرتے ہوئے کئی موجوں اور اضطرابات سے گزرنا ضروری ہے ، ظاہر ہے ایسے تلاطم میں امن و تواز ن کاتلاش کرنا عقل و بداہت کے خلاف ہے۔
#…سیاست میں عدمِ برداشت بد امنی کا بڑا محرک ہے،حزب ِاقتدار جہاں ہر غلط کو صحیح کہنا سرکاری پالیسی بناتا ہے، حزبِ مخالف ہر صحیح اور غلط کو غلط کہنا اپنا مشغلہ بنائے رکھتا ہے۔اگلے الیکشن کا انتظار کرنے کی بجائے شور شرابہ ، ہلڑ بازی اور قلیل مدتی انتخابات کا واویلا پہلے دن سے ہی شروع کردیتا ہے، اس طرح جس طبقہ کو قوم کے امن و امان کے مسائل پر سوچنا تھا ،وہ خود بدامنی اور عدم توازن کی فضا قائم کرنے کو مشغلہ بنا لیتا ہے۔
#…بد امنی اور عدم توازن کا سب سے بڑا سبب، غلامانہ خارجی پالیسی بھی ہے، جس کے نتیجے میں کفار کی بالا دستی قائم ہے اور قوم میں بد ظنی، بے چینی اور بد اعتمادی کی فضا شروع سے قائم چلی آرہی ہے، اغیار کی بالا دستی کے نتیجہ میں ملک کی جو صورت حال ہے ،وہ آفتاب نیمروز کی طرح واضح ہے ۔آج ملک کو جتنے بڑے سے بڑے چیلنجز کا سامناہے ، ان تمام کاباعث غلامانہ خارجہ پالیسی ہے۔
#… میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ کردار بھی سیاسی فضا میں بد امنی اور عدم توازن کا بڑا محرک ہے۔
#… سیاست میں ظلم و استحصال ، طاقت کا بے جا استعمال، اجتماعی مفاد پر شخصی مفاد کو ترجیح دینا بھی بدامنی کے بنیادی محرکات ہیں۔
سیاسی بد امنی اور عدم توازن کے حل کے لیے تجاویز
ٍٍ #… ان محرکات کا فوری خاتمہ اور انسداد ضروری ہے ، سب سے پہلے یہ نظریاتی اصلاح کی جائے کہ مذہب اور سیاست میں تفریق کرنا غلط ہے ، مسلمان کی سیاست، اسلام کے تابع ہونا ضروری ہے، سیاست کے لیے دینیات و اخلاقیات کا کمال حاصل کرنا لازمی قرار دیا جائے، جیسے بی اے کی ڈگری کوالیکشن لڑنے کے لئے لازمی قرار دیا گیا تھا۔
#…احیاء ِخلافت کے لیے مشترکہ جد و جہد کی جائے اور مغربی جمہوریت سے خلاصی حاصل کی جائے۔
#…برداشت کی فضاء کے قیام اوراسے باقی رکھنے کے لیے سیاسی ضابطہ اخلاق طے کیا جائے۔
#…خارجہ پالیسی پر فوری نظرثانی کی جائے۔
#…نمائندگان کے لیے کم از کم شرعی شہادت کی اہلیت کو ضروری قرار دیا جائے۔
#…میڈیا کے لیے شریعت و قانون کے تحت ضابطہٴ اخلاق بنایا جائے، تاکہ میڈیا کی آزادی کی آڑ میں سماجی بدامنی، عدم توازن اور اشتعال انگیزی پیدا نہ ہو۔
#…علماء و مشائخ سے عوام اور حکمرانوں کا رابطہ، اخوّت اور بھائی چارے کا فروغ ،ایک دوسرے کے حقوق کی نگہداشت اور عملی قوتوں کو بروئے کار لانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جائے۔
سماجی بد امنی اور عدم توازن کے محرکات
#…سماج یا معاشرہ افراد کی اکائیوں سے تشکیل پاتا ہے۔ انفرادی خرابیاں مل کر اجتماعی خرابی بنتی ہیں۔اس وقت مذہب بیزاری اور مذہبی احکامات و تعلیمات سے دوری عملی وا خلاقی گراوٹ کا ایک بڑاسبب ہے،جیساکہ قرآن کریم میں ہے۔ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ… الآیة۔ (الروم: ۴۱)
#…لاقانونیت یا قانون پر عمل درآمد میں رکاوٹ اورکوتاہی بدامنی کا بڑا سبب ہے۔
#…بے حیائی کا فروغ اور پر چار فساد کا ذریعہ ہے ،بے حیائی کے نتیجے میں ” قوتِ شہوانیہ “ بر انگیختہ ہوتی ہے، جس سے کئی جرائم جنم لیتے ہیں۔
#… اچھائی اور برائی کا امتیاز ختم ہو چکا ہے ، بے حجابی اور بے حیائی فیشن اور آزادی کہلاتی ہے، بدکاری کو محبت کا نام دیا جارہا ہے ، شراب کو بئیر اور سود کو بیع کی طرح سمجھا جارہا ہے۔
#…معاشرے میں” دینی واخلاقی دعوت “ کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اتحاد و اتفاق کا فقدان، فروعی مسائل میں غلوکی وجہ سے بے جا جدال و نزاع کی کیفیت بنی ہوئی ہے، جو معاشرے کے امن وتوازن کے لیے مضر ہے۔
#…جذباتیت ہمارے معاشرے میں بُری طرح سرایت کرچکی ہے، تحمل، رواداری اور احترام انسانیت ختم ہوچکا ہے، یہ معاملہ زندگی کے ہر شعبہ اور ملک کے ہر طبقہ میں بلا امتیاز پایا جاتاہے۔
#…ہرقسم کا تعصب، لسانی ،علاقائی ، صوبائی اور مذہبی ، اپنی انتہاء کو چھو رہا ہے۔
#…انتہاء پسندی فیشن بن چکی ہے ، یہ بھی زندگی کے ہر شعبہ، ہر طبقہ اورہر جماعت میں موجودہے، خاص کر جو لوگ انتہاء پسندی کا واویلا کرنے میں پیش پیش ہیں ،وہ خود توانتہاء سے بھی آگے گزر چکے ہیں ۔
#…خیانت ،بد دیانتی اوررشوت معاشرہ کا حصہ بن چکی ہے۔
#…علم کی کمی اور جہالت کے اندھیرے ، رسوم و رواج کی بھرمار بھی سماج کی بے چینی کا ایک سبب ہے۔
سماجی بد امنی و عدم توازن کے حل کے لیے تجاویز
دعوتی و تبلیغی بنیادوں پر علماء کرام، اپنے اپنے حلقوں میں امن و امان کا درس دیں، فساد پیدا کرنے والی دو قوتوں ” قوت غضبیہ“ اور ”قوت شہوانیہ“ کی اصلاح کو بطور خاص موضوع بنائیں ،رواداری کا درس صرف رسمی و رواجی نہیں، بلکہ حقیقی معنوں میں دیں ، اختلافات کو ہوا نہ دیں، اپنے حلقے کو یہ درس دیں کہ ” اپنامسلک چھوڑ و نہیں، دوسرے کا چھیڑو نہیں“ ورنہ لا دین طبقہ، ہر برائی اور بد امنی کا ذمہ دار مذہبی طبقہ کو ٹھہراتا رہے گا۔
#… نیز اسلامی مواخات اور پر امن بقائے باہمی کو اپنے دروس و بیانات کا خصوصی موضوع قرار دیں۔
#…معتدل اور دینی مزاج کا حامل نظام تعلیم تشکیل دیا جائے،تاکہ جہالت کی وجہ سے پیدا شدہ مسائل کا خاتمہ ہو اور معاشرے میں علمی و دینی شعور پیدا ہو۔
بدامنی اور عدم توازن کے معاشی محرکات
#…اسلامی معاشی نظام سے عدم واقفیت اور اس نظام کی ترتیب و ربط کا فقدان بنیادی سبب ہے، ورنہ عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ کے دور کی طرح اب بھی کوئی مسلمان مستحق زکوٰة نہیں رہے گا۔
#…وسائل معاش پر سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقہ کا قبضہ ہے اور اپنے تحفظ و بقاء کے لیے ایسے اصول و قواعد بناتے ہیں جو دولت کا بھاوٴ غریب کی طرف جانے نہیں دیتے ،بلکہ امیروں کی طرف ہی رہتا ہے، جس کے نتیجہ میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے ، جس معاشرے میں غربت و افلاس غالب رہے، وہاں امن و امان اور توازن کبھی قائم نہیں ہوسکتا۔
#…مغربی معاشی نظام اور اس کی کورانہ تقلید نے معاشی توازن برباد کر رکھا ہے۔
#… چوری، ڈکیتی ، رشوت ، کرپشن اور مہنگائی کی روک تھام کے لیے اقدامات نہ کرنا معاشی بد امنی اور عدم توازن کا مرکزی سبب ہے۔
#…ناپ تول میں کوتاہی ، لوگوں کے اموال اور حقوق کی پرواہ نہ کرنا فساد فی الارض کا محرک ہے۔صرف ان خرابیوں کی وجہ سے ایک سابقہ امت پر قہر الٰہی نازل ہوا تھا۔
#…ٹیکسوں کے نظام کی ابتری بھی ایک بڑا محرک ہے، جہاں غریبوں سے ہمہ قسم کے ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں اور بڑے بڑے سرمایہ دار اس سے استثناء حاصل کر لیتے ہیں، یا ٹیکس چوری کے جرائم کے راستے کھلے رہتے ہیں۔
#…بیرونی قرضوں کا حصول اور اندرونی قرضوں کی فراہمی کا بدنام ِزمانہ طریقہ بھی معاشی توازن میں بگاڑ کا بڑا محرک ہے اور قوم کی تذلیل کا ذریعہ ہے ،پورا ملک اور قوم اغیار کے ہاں گروی بناہوا ہے۔
#…ملک کے سرمایہ دار طبقہ کا سرمایہ اپنے ملک کے بجائے بیرون ملک اغیار کی معیشت کے استحکام کا ذریعہ بنا ہوا ہے، اس سرمایہ کا ملکی معیشت کے لیے زیر گردش نہ آنا، یہ معاشی بحران کا ایک بڑا سبب ہے۔
#…ملک میں سودی نظام اور سٹہ بازی کا رواج اور تحفظ اللہ اور اس کے رسول سے کھلی جنگ ہے ، ایسے ماحول میں امن و توازن کا خواب دیکھنا کیا معنی رکھتا ہے؟
#… معاشی وسائل ، ذرائع اور طریقہائے مال کاری کے لیے آسمانی ہدایات اور اخلاقی آداب کی پابندی کرانے کاکوئی نظام نہیں، جس کی وجہ سے تاجر آزاد ہے ،جو چاہے کرے۔ایسے ماحول میں مفاد پرستی اور نفع اندوزی کے جذبات سے اجتماعی مفادکا متاثرہونا ایک لازمی بات ہے۔
معاشی توازن اور قیام امن کے لیے تجاویز
#…سپریم کورٹ کے شرعی بینچ اوراسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق، ملکی معیشت سے سودی نظام کا فوری خاتمہ کیا جائے۔
#…معاشی پالیسی میں آسمانی و اخلاقی پابندیوں کا اہتمام کرایا جائے۔
#…بیرونی قرضوں کے حصول اور مقامی سرمایہ داروں کو فراہمی پر پابندی عائد کی جائے۔
#…ٹیکسوں کے نظام کی اصلاح کرکے اسے شفاف بنایا جائے ،غریبوں کا خون چوسنے کی بجائے مالداروں سے صحیح معنوں میں جائز حدود و حقوق کے مطابق ٹیکس وصول کیا جائے۔
#…سرمایہ داروں کے بیرون ملک اثاثوں کو واپس اپنے ملک منتقل کر دیا جائے اورملک کی معاشی ترقی کے لیے زیر گردش لایا جائے۔
#…ہمارا ملک زرعی ملک ہے ، زراعت کے شعبہ کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور مربوط بنایا جائے۔
#…وسائل معاش تک رسائی میں امیر و غریب کی تفریق کے بغیریکساں طور پر مواقع فراہم کئے جائیں۔
#…بازار اور تجارت کی نگرانی کا مربوط نظام ترتیب دیا جائے ،جو غیر شرعی تجارت اور قومی خیانتوں کا سد باب کرے اور تاجروں کی دینی و اسلامی، اصلاح بھی کرے۔
#…ملک کے معاشی نظام کو اسلامی خطوط پر لانے کے لیے دعوت و تبلیغ اور تحریک و ترغیب کا راستہ اختیار کیا جائے، اس سے کم از کم آدھی معیشت آسانی سے اسلامی خطوط پر استوار ہوجائے گی، اس لیے کہ ایک تو ہماری ۵۰٪ تجارت غیر دستاویزی ہے اور جو متوسط طبقہ اس تجارت سے وابستہ ہے ،وہ عموما دینی طبیعت کاحامل ہے، اور بآسانی اسلامی اصلاحات کو قبول کرسکتا ہے۔
ظاہر ہے یہ کام صرف علماء یا صرف چند ادارے انجام نہیں دے سکتے، اس کے لیے سب کو مل کر اجتماعی کوششیں کرنی پڑیں گی۔
اگر ہم نے مذکورہ بالاتجاویزپرعمل کرلیاتوامید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق ہمارے لیے خیر و بھلائی کے راستے کھول دے اور ہمارے رزق کا بندو بست ایسے مناسب راستوں سے کردے جو ہمارے وہم و گمان سے بھی ماوراء ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۲ھ -اگست: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: نماز باجماعت کی اہمیت وفضیلت قرآن وحدیث کی روشنی میں !
Flag Counter