Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ -اگست ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

12 - 13
مفتی وکیل احمد  کی رحلت !
مفتی وکیل احمد کی رحلت

۱۰/رجب المرجب ۱۴۳۲ھ مطابق ۱۳/جون ۲۰۱۱ء بروز پیر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فاضل ، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر  کے تلمیذ، حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہید کے مسترشد وشاگرد رشید، جامعہ امینہ للبنات نرسری کے استاذ ِ حدیث اور جامع مسجد مکی مظفر آباد لانڈھی کراچی کے امام وخطیب حضرت مولانا وکیل احمد اس دنیا فانی کی اکتالیس بہاریں دیکھ کرعالم جاویدانی کی طرف رحلت فرماگئے۔ انا لله وانا الیہ راجعون، ان لله ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئ عندہ باجل مسمی۔
مفتی وکیل احمد نے ۲۵/ ذو الحجہ ۱۳۹۰ھ مطابق ۱۹۷۰ء میں تخت بھائی ضلع مردان کے مقام پر مولانا عبد الجبار کے گھر میں آنکھ کھولی۔ آٹھویں تک عصری تعلیم اپنے علاقہ تخت بھائی میں حاصل کی، اس کے بعد اسکول کو خیر باد کہہ کر ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد صاحب سے پائی۔
۱۹۸۹ء میں باقاعدہ دینی تعلیم کے حصول کے لئے کراچی کا قصد کیا اور ملک کی عظیم اسلامی یونیورسٹی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا اور جامعہ کی شاخ مدرسہ اسلامیہ ملیر میں درس نظامی کے درجہ رابعہ تک پڑھا، اس سال شعبان ورمضان کی تعطیلات کے دروان امام اہلسنت حضرت اقدس مولانا محمد سرفراز خان صفدر نور اللہ مرقدہ سے دورہٴ تفسیر پڑھا۔۱۹۹۸ء میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے دورہٴ حدیث مکمل کیا اور فقہ اسلامی میں تخصص کے لئے حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہید کا انتخاب کیا اور ان سے افتاء کی مشق سیکھی، درس نظامی اور تخصص کی تکمیل کے بعد حضرت مفتی صاحب نے آپ کو جامعہ امینہ میں تدریس پر مامور کیا۔ مفتی وکیل احمد اپنے وصال تک حضرت مفتی صاحب سے کئے گئے عہد کی پاسداری کرتے رہے اور اسے نبھاتے رہے۔
حضرت مولانا وکیل احمد کو اللہ تعالیٰ نے گوناگوں کمالات اور محاسن سے نوازا تھا۔ آپ حلم وقار کے پیکر اور عجز وانکسار کا مجموعہ تھے، آپ نے ہمیشہ دیانت وامانت اور شرافت وصداقت کے لباس کو زیب تن کئے رکھا اور دین ومذہب کی خدمت کو اپنے لئے سعادت کا ذریعہ باور کیا۔
جامعہ امینہ للبنات میں گیارہ سالہ تدریسی دور میں کبھی بھی انہوں نے اپنے آپ کو ساتھیوں سے ممتاز اور اعلیٰ نہیں سمجھا بلکہ دوسروں کو بڑا سمجھتے تھے، وہ قائد نہیں بلکہ مقتدی بننے میں عافیت سمجھتے تھے اور ادارے کے کام کواپنا کام سمجھ کر کیا کرتے تھے۔ اس گیارہ سالہ تدریس کے زمانہ میں مجھے یاد نہیں کہ کسی ساتھی سے اس کی رنجش یا کوئی تلخ بات ہوئی ہو، بلکہ وہ ہرایک سے ادب اور احترام سے پیش آتے تھے۔
ایک عالم دین نے بتلایا کہ مولانا وکیل احمد صاحب عمر میں چھوٹا ہونے کے باوجود اپنے خاندان کو جوڑ کر رکھتے تھے، خاندان کی آپس کی رنجشوں اور تنازعات کو بڑی خوش اسلوبی اور خندہ پیشانی سے سلجھانے کا عظیم ہنر اور استعداد رکھتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو حسنِ صوت سے بھی متصف فرمایا تھا، آپ جامعہ امینہ للبنات کی اکثر تقریبات میں حاضرین کو اپنی خوبصورت آواز میں بزرگوں کا کلام سنایا کرتے تھے۔ آپ کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ آپ علمائے کرام، طلبہ اور مدارس سے متعلق وابستہ حضرات کا بے حد اکرام کرتے تھے، اگر کوئی عالمِ دین بیمار ہوتا اور انہیں معلوم ہوتا تو فوراً اس کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے اور اگر کوئی عالمِ دین اس دنیا سے رخصت ہوتا تو آپ کی بھر پور کوشش اور خواہش ہوتی کہ ان کے جنازہ میں ضرور شرکت ہو۔
حضرت مفتی وکیل احمد اپنے علاقہ میں رات کو ایک جلسہ میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے تھے، اسٹیج پر بیٹھے تھے کہ آپ کی طبیعت بگڑنے لگی، وہاں سے آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا، ڈاکٹر نے آپ کا بلڈپریشر چیک کیا تو وہ انتہائی تیز تھا، ڈاکٹر نے جناح اسپتال لے جانے کا مشورہ دیا، ہسپتال میں آپ کا چیک اپ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ بلڈ کی تیزی کی بناء پردماغ کی رگ پھٹ گئی ہے اور صبح سات بجے کے قریب آپ کی روح مبارک قفس عنصری سے پرواز کرکے اگلے جہاں کو سدھارگئی۔
تقریباًساڑھے دس بجے آپ کے علاقہ مظفر آباد کالونی کراچی میں آپ کا جنازہ پڑھاگیا اور بذریعہ ہوائی جہاز آپ کی میت براستہ پشاورآپ کے گاؤں لے جائی گئی، وہاں عصر کے بعد آپ کی دوسری بار جنازہ پڑھنے کے بعد آپ کو سپرد خاک کیاگیا۔مفتی وکیل احمد مرحوم نے پسماندگان میں ایک بیوہ، دو بیٹے، دوبیٹیاں، دو بہنیں اور پانچ بھائی سوگوار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت مفتی وکیل احمد کی جملہ حسنات کو قبول فرماکرانہیں جنت الفردوس نصیب فرمائیں اور آپ کے پسماندگان کی کفالت وکفایت فرمائیں۔
حضرت مفتی صاحب کے لئے تمام قارئینِ بینات سے ایصال ثواب کی درخواست ہے۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۲ھ -اگست: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: آہ!…دعوتِ اسلام کے پیکر !
Flag Counter