Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ -اگست ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

5 - 13
اسلامی احکام کے بارہ میں چند سوالات کاجواب !
اسلامی احکام کے بارہ میں چند سوالات کاجواب
(۲)
انتقامی جذبہ کی تسکین کے لئے عورت کو نہ طلاق دے کر آزاد کیا جاتا تھا اور نہ اس کے حقوق کی ادائیگی کی فکر ہوتی تھی، طلاق دے کر عدت کے آخر میں رجوع کرلیا جاتا اور یوں بے شمار طلاقوں کا سلسلہ جاری وساری رہتا۔ چونکہ یہ مثبت انداز کی تحریر ہے، ورنہ تہذیب جدید کے علمبرداروں کے اس ناروا سلوک کا بھی تفصیلاً ذکر کیا جاتا، جسے چھپا کر آج اہلِ یورپ اور مغرب حقوقِ نسواں کے خوشنما ناموں سے عورت کے استحصال کو فروغ دے رہے ہیں۔
بہرحال! اس طرح کے معاشرتی حالات میں اسلام نے حقوق نسواں کا جو دستور پیش کیا، وہ مکمل عدل اور انصاف پر مبنی تھا: بیٹیوں کی پرورش کو جنت کا سبب ٹھہرایاگیا، بچیوں کی نگہداشت پر جنت کی ضمانت دی گئی، عورتوں کے حقوق کے متعلق ان کے مہربانوں کو کوتاہی سے ڈرایاگیا، قرآن میں مؤمنین ومؤمنات، مسلمین ومسلمات کو ساتھ ساتھ ذکر کرکے ان کی دنیوی واخروی مساوات کا ذکر کیاگیا، لیکن اس مساوات کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی جو نامسعود سعی کی جارہی ہے، وہ دانشورانِ ملت کے لئے ایک لمحہٴ فکریہ ہے۔
مرد اپنی فطرت میں خداوند کی حکمت کے موافق جس زور بازو کو لے کر پیدا کیا گیا ہے، ظاہر ہے وہ قوتِ بازو عورت کو عطا نہیں کیا گیا۔ مرد کے کاندھوں پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئیں، وہ اس کی اس فطری بخشش کردہ قدرت کے پیش نظر ڈالی گئیں، جبکہ عورت کی نزاکت کے پیش نظر اس کو اس کی صنف کے مطابق کام کاج کا ذمہ دار ٹھہرایاگیا۔ اس امتیاز کو ناانصافی کی ٹوکری میں ڈال کر مذکورہ امتیازی خصوصیات کی اس تقسیم کو ظلم ٹھہرانا فطرت کے خلاف جنگ ہے اور فطرت کے خلاف جنگ میں تاریخ شاہد ہے کہ فطرت کو ہی جیت ہوتی ہے۔ فطرت نے جو خصلت اور صفت دے کر کسی شخص کو اس سر زمین پر وجود عطا کیا ہے، اس خصلت کو بدلنا پہاڑ کو اپنے مقام اور محل وقوع سے ہٹانے سے بھی زیادہ مشکل ہے، بالفاظ دیگر یہ محال الوجود کو وجود بخشنے کی سعی ہے، جس میں کامیابی کا تصور بھی محال ہے۔
تخلیق کی کمزوری کا مطلب یہ نہیں کہ عورت مرد سے کمتر ہے، سوسائٹی میں اس کی عزت نہیں کی جائے گی، بلکہ تخلیق کی کمزوری اور نزاکت ہی تو وہ دلچسپ پہلو ہے، جس کے نتیجہ میں وجودِ زن سے کائنات کو رنگ بخشا گیا ہے۔ مرد کی فطرت میں جنسی کشش کا میلان نزاکت ہی کی طرف گرتا ہے اور عورت کی نزاکت اور کمزوری کا جنسی میلان قوت اور طاقت کی طرف گرتا ہے اور اس طرح سارے عالم کی اکائیوں میں پیدا کردہ اس ازدواج سے ایک حسین کائنات کو وجود ملتاہے اور ساری رنگینی اس حسین امتزاج کی گود میں سمٹ کر ماتھا ٹیک دیتی ہے۔
زرگر کا کام نزاکت کا خواہاں ہے، وہاں سنگ تراش کا کام نہیں، اسی طرح زرگر سنگ تراشی نہیں کرسکتا۔ یہاں عدم مساوات کا نعرہ لگاکر کوئی ہوش مند یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ زرگر کے حقوق میں کوتاہی برتی جارہی ہے۔
کاشتکار کو ہل جوتنے کے لئے خوب طاقت اور ہمت کی ضرورت ہے، جبکہ موتیوں کی مالابنانے کے لئے ذہنی کاوش چاہیئے۔ کوئی عقلمند یہ کہہ کر زبان طعن دراز کرے کہ موتیوں کی مالا جڑنے والوں کو کاشتکاری کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی، ظاہر ہے دونوں کی معاشرہ کو ضرورت ہے۔ کاشتکار ہل جوت کر گندم اور خوراک فراہم کرے گا، تب ہی تو زرگر کا کشیدہ کردہ زیور اور موتیوں کی مالا اس کے گھر کی زینت بن سکے گی۔
بعینہ اسی طرح عورت کا معاشرہ کی تشکیل میں اسی قدر حصہ ہے، جس قدر مرد کا ہے۔ مرد کی طاقت ہے تو یہ طاقت اپنے اپنے موقع کے لئے ضروری ہے، عورت میں فطری نزاکت اور خلقی کمزوری ہے تو وہ اپنے دائرہٴ کار میں مفید بلکہ ناگزیر ہے، البتہ دنیوی اور اخروی اعتبار سے حقوق کی حدود کے اندر رہتے ہوئے مرد کو عورتوں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اور عورت پر مردوں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے۔ قصاص میں عورت مرد برابر ہیں، جنگ کے موقع پر کسی کو سیاسی پناہ دینے میں عورت مرد برابر ہیں، اعمال صالحہ کے کرنے اور اس پر ملنے والے ثواب وجزاء میں دونوں برابر ہیں۔ اس برابری کے بعد اگر مردوں کو فطری برتری کسی درجہ میں حاصل ہے تو اس کو ظلم کے بجائے عین انصاف کہا جانا چاہئے، اس برتری کے بے جا استعمال پر شریعت نے مرد کو سخت مجرم بھی ٹھہرایا ہے، آخر یہ پہلو کیوں مہمل رہ جاتا ہے یا مہمل کردیا جاتا ہے؟ اس آخری جزء کی تفصیل سوال نمبر ۲ کے تحت آرہی ہے۔
(ب)…جس طرح حقوق کو دبانے سے ایک شدت اور جذبات کی کیفیت ابھرتی ہے اور نرم خوئی ، تشدد پسندی کی جانب بڑھتی ہے، اسی طرح حقوق میں حدود کی رعایت رکھے بغیر آزادی سے جس طرح معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں، وہ آج کی مغربی تہذیب کے آئینے میں عیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ تہذیب ِ نو کی تجدید کے علمبرداروں کے اسلاف نے عورت کو ایک ناپاک حیوان کی حیثیت دے رکھی تھی، زرخرید لونڈی کی طرح انہیں اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر لب کشائی کی جرأت کو قومی جرم سمجھا جاتا تھا۔ یونان وانگلستان کی تاریخ میں گذرے ادوار عورتوں کے معاشرتی کردارکا تاریک زمانہ ہے،ان مظالم سے آخر کار تنگ آکر جب حقوق نسواں کا شور اٹھا اور UNO کی سفارشات پر حقوق نسواں تحفظ کے تحت ”صنفی انصاف“ کے ملمع نام سے، جس کے پیچھے ابلیسی ذہنیت پوشیدہ تھی، عورتوں کے حقوق کی آزادی کے لئے تحریک ہوئی اور منشور برائے آزادئ نسواں پیش کیا گیا، جو کہ UNOکی قرار دادی دستاویزات کا ایک حصہ ہے او رعورتوں کی مساوات کے لئے یہ طریقہ اختیار کیاگیا کہ عورت کو مرد بنادیا جائے اور مردوں کے وظائف عورتوں پر بھی تقسیم کردیئے جائیں، عورتیں شانہ بشانہ کام کرنے لگیں، لیکن درحقیقت باریک بین نگاہیں اس کو دو طرح سے انتہائی مضر سمجھ رہی تھیں:
۱…عورت کی فطرت اس کو مجالس اور محافل کی زینت بنانے کے مخالف ہے اور اس سے ایک ہنگامہ برپا ہوجائے گا۔
۲…ابلیسی ذہنیت کے حامل لوگوں کو عورتوں کے استحصال کامزید موقع مل جائے گا۔
آج مغرب کے پیش کردہ عورتوں کے صنفی تحفظ نے آخر دنیا کو کیا پیش کیا ہے؟ یہی کہ مغربی دنیا میں خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے، عورتیں نمائش کا ذریعہ بن چکی ہیں، صرف جنسی تسکین کا ایک ذریعہ سمجھ لی گئی ہیں، ماں، بیٹی اور بہن ہونے کا اعلیٰ مرتبہ اس سے چھین لیا گیا ہے۔ مغربی تہذیب کے ہم نوا پہلے ان کو بیٹی، بہن اور ماں نہ سمجھ کر ان کے حقوق کی پاس داری نہیں کرتے تھے اور اب ان کو بیٹی، بہن اور ماں سمجھ کر ان کے حقوق کی دوسرے انداز میں پامالی کررہے ہیں اوربے چاری عورت نت نئے ناموں کے پیچھے دوڑ کر اپنے فطری مقام، عزت وعظمت کو اور اپنی عصمت کی چار دیواری کو اپنے ہاتھ سے ڈھاکر بے حیائی کا طوق خرید رہی ہے۔ اسلام نے جاہلیت کے ظلم کو ختم کیا، عورت کو وہ مقام بخشا جس میں عورت کو کسی دوسرے قالب میں پگھلانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ عورت کی فطری ضروریات کو فطری نوامیس کے مطابق پورا کرنے کی استعداد، ایمان والوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ عورت کو کہیں ماں کے روپ میں دکھلاکر اس کی عزت واحترام کو جنت کے حصول کا آسان ذریعہ قرار دیاگیا اور کبھی بیٹی اور بہن دکھلاکر اس کی عصمت کی حفاظت کا ذمہ دار اس کے باپ اور بھائی کو قرار دیا۔ یہ اسلام کا وہ غیر معمولی پیمانہٴ عدل ہے، جس میں افراط کی خوشنما رنگینیاں نہیں اور نہ ہی تفریط کی تاریکیاں ہیں۔ عورت کی کمزوری کے پیش نظراسے صرف گھر کے کام کاج ہی کا ذمہ دار ٹھہرایاگیا اور بغیر ضرورت اپنی عصمت کی چار دیواری سے نکل کر غیروں کے ہاتھ کھیلنے سے بچایا،مردوں کو ان کا سر پرست بناکر ان کے حقوق کی ادائیگی کے لئے ان کو خرچہ اور جائے سکونت کے بندوبست کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اگر مرد اس میں کوتاہی کرکے ظلم کرتا ہے تو عورت کو اسلام نے بے آسرانہیں چھوڑا، بلکہ یہ عورت قاضی کے پاس انصاف کے حصول کے لئے جاسکتی ہے اور قاضی عمومی اختیارات کے تحت اس کے خرچہ اور سکنیٰ کا بند وبست کروائے گا اور اس کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے ہاتھ کو روک دے گا۔
مغربی تہذیب نے صنفی انصاف میں پہلے خود بے راہ روی کے سنکھیا پودے کو نشو ونما بخشی اور پھر جب بے حیائی اور بے شرمی کا سنکھیا پھل نکل کر لہلہانے لگا تو اس کے استعمال سے ناسمجھ اور نادان لوگوں کو روکنے کے لئے تشدد آمیز قوانین بنائے، لیکن ناسمجھ اور سفیہ کو اچھے برے کی کیا تمیز ہوسکتی ہے؟ مغرب میں عورتوں پر ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات اس کی واضح ترین مثالیں ہیں، یہ درحقیقت فطرت سے کی جانے والی اس جنگ کا ثمرہ ہے، جس پر بانیان وپرستارانِ تہذیبِ جدید کے اسلاف نے کمرباندھی اور جس پر آج مغربی تہذیب کے علمبردار کمربستہ ہیں۔
۲…غیر معقولی منطق کا کیا کیجئے کہ جنسی امتیاز کو جنسی کمتری سمجھ کر مغربی تہذیب سے غیر معمولی متأثر لوگوں نے اسلام کے پیش کردہ نظام عدل پر قدغن لگانے یا پھر تاریخ کے چند ضعیف اور کمزور واقعات کا سہارا لے کر اپنی سوچ کے مطابق اسلامی تہذیب کو بھی مغربی تہذیب سے ہم آہنگ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن نام نہاد دانشوروں کو کوئی سمجھائے کہ عقل وخرد کے کچھ سرمائے سے مدد لے کر کم از کم اس غیر معقول منطق سے بیزاری کا اظہار کریں۔ دو چیزوں میں فطرت نے امتیاز رکھا ہے تو اس سے کسی چیز کو کمتر اور برترقرار دینا کس معیار کے مطابق ہے؟ یہ تقسیم کس طرح عمل میں لائی گئی ہے؟
گل لالہ اور چنبیلی میں خصوصیات کے مختلف ہونے کی بناء پر چنبیلی کی قدر کو گھٹانا اور گل لالہ کی قدر کو بڑھانا کس طرح درست ہوسکتا ہے؟حالانکہ چنبیلی کی بہت سی خصوصیات سے گل لالہ عاری ہے اور چنبیلی گل لالہ کی کئی خصوصیات پر رشک کرتی ہے، دونوں پھول ہیں اور دونوں کی قدر کے اپنے پیمانے ہیں، جس طرح گل لالہ چمن کی زینت میں حصہ رکھتا ہے، بعینہ اسی طرح چنبیلی کی خوشبو، گلزار کو مہکاتی ہے۔ عورت اور مرد میں خصوصیات کے فطری فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے لئے الگ الگ قوانین وضع کرنا کہاں کا ظلم ہے؟ اور کس طرح عورت کو کمتر قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر عورت میں بعض مردانہ خصوصیات نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عورت کمتر ہے تو مرد کا بعض زنانہ خصوصیات سے عاری ہونا اس بات کو مستلزم ہوگا کہ مرد بھی کمتر ہے۔ ہرایک کو الگ الگ فضیلت بخش دی گئی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ خداوند تعالیٰ نے تو انبیاء علیہم السلام کی خصوصیات وامتیازات میں تفاوت رکھا ہے تو کیا کسی کو مجال ہے کہ وہ کسی نبی کو کمتر وکہتر اور کسی کو برتر وبالا ثابت کردے؟ بندوں کے لئے سب کو برابر رکھا ہے۔ عقلی حکمتوں کے گورکھ دھندوں سے یک جانب ہوکر ایک مسلمان جو خدائی ہدایت پر کامل یقین رکھتا ہو، وہ اس طرح کا بے جا اعتراض نہیں کرسکتا، یہ اعتراض صرف عقل سے کورے یا بے ایمان لوگوں کا پیدا کردہ ہے۔
تعدد ازواج کی اگر شوہر کو اجازت ہے تو کیا ظلم کی بھی اجازت ہے؟ اس شوہر کے لئے جو بیویوں میں ناانصافی برتے، قیامت کے دن کی سخت شرمندگی اور سزا کی وعید کیوں بھلا دی جاتی ہے؟ قانون وراثت میں اگر عورت کو مرد سے ایک گنا کم حصہ ملتا ہے تو یہ کیوں نہیں دیکھا جاتا کہ عورت پر سوائے چند ناگزیر حالات کے خرچہ کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی، اس کی ذمہ داری کبھی باپ اٹھاتا ہے، کبھی بھائی اور پھر شوہر اور آخر کار اولاد کو اٹھانی ہے۔
عورت کی آدھی گواہی سے عورت کی قدر ومنزلت گھٹانے کو کیا نسبت ہے؟ عورت کو محافل عام میں شرکت سے روک دیاگیا ہے، لوگوں کی ناجائز خواہشات کے لئے آلہٴ کار بننے سے محفوظ کرکے ان کو حیا کی چادر پہنائی گئی ہے۔ عقلی طور پر اس حیا کی چادر کا تقاضا بھی یہی تھاکہ وہ قاضی کی مجلس میں کھل کر بولنے سے بھی اس ”حیاء“ کی پاکیزہ پوشاک کو اتارنے کے لئے تیار نہ ہو اور ہیبت زدہ ہوکر گواہی سے ہی دستبردار ہوجائے اور حقوق تلف ہونے لگیں تو اس کی ہمت بڑھانے کے لئے اس کے ساتھ ایک عورت کا اضافہ کردینا کیا ظلم ہے؟
ایک طرف آیاتِ نشوز کو ہوّا بناکر آج جو بدطینت وبدخصلت لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھاکر اپنی بیویوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالے ہیں، تو دوسری جانب اس آیت کو بنیاد بناکر کوتاہ عقل والوں نے اسلام کو ”مرد“ کو جائز بالادستی بخشنے پر موردِ الزام ٹھہرایا ہے، حالانکہ یہ دونوں گروہ یاتو احکامات کی درست تشریح سے غافل وجاہل ہیں یا پھران کے باطن بدمیں اسلام کے خلاف بغض بھر ہوا ہے۔ مرد کو اگر بیوی کومارنے، پیٹنے کی اجازت ہے تو اس کے مراتب ودرجات کا مفہوم اور ان کی تشریح اس قدر ہے کہ اس کے پیش نظر اس حکم کو ظلم کہنے والے خود ظالم ہیں۔ اس مارنے کو بھی اس شرط کے ساتھ مقید کردیا گیاہے کہ کوئی نشان جسم پر نہ پڑنے پائے اور کیا اس مارنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے؟ ہرگز نہیں! یہاں سورہٴ تغابن کی آیت ”عفو وصفح“ نگاہوں سے کس دباؤ کی بناء پر پوشیدہ رہ جاتی ہے؟ جس میں سرپرست حضرات کو عفو ودرگزر اور غلطیوں کو بھلا دینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ (سورہٴ تغابن، آیت: ۱۴)
”حجاب“ کو کمتری کی دلیل بتلانا اور اس پر ایک عالَم کا متأثر ہوجانا، یہ مسلمانوں کی واضح مرعوبیت اور غلامی کے آثار میں پیدا ہونے والی احساس کمتری کی بیّن دلیل ہے۔ کسی شئ کی حفاظت کے لئے اس کو لوگوں سے چھپا کر رکھنا، یہ اس شئ کی عظمت کی دلیل ہے یا کمتری کی؟ ہدایت اور گمراہی واقعی اس مالک کے ہاتھ میں ہے جو اگر گمراہ کردے تو ہدایت کی طرف راہ یابی ناممکن ہے، کتاب کی جلد بندی کو آج تک کسی نے کتاب کی بے حرمتی نہیں کہا، گندم کے خوشوں پر چڑھے پردے کو کسی نے گندم کی کوتاہی شمار نہیں کیا، مغزیات کے خول میں بند ہونے کی بناء پر کسی نے ان کی قدر کو گھٹا ہوا نہیں پایا، پھر حجاب کو( جو کہ عورت کے قیمتی ہونے کی علامت ہے) اس کی کمتری کی دلیل کیوں اور کس منہ سے قرار دی جارہی ہے؟ اسلام عورت کے احترام اور عظمت کو گندی نگاہوں سے پوشیدہ کرنے میں مضمر سمجھتا ہے۔ ”نمائشی عورت“ کی طرح صرف جنسی جذبات کی تکمیل کے لئے بازار میں نکلنے کا اسلام ہرگز حامی نہیں اور اس طرح زرمبادلہ کی طرح استعمال کو عورت کی حقیقی قدر کو بے قیمت کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔ اگر کسی کوڑھ مغز کو ”حجاب“ کی تہہ میں چھپی حیا اور پاکیزگی کی پوشاک بری لگتی ہو تو وہ اپنا سردھنتا رہے اور اپنی اس جہالت آمیز منطق کے گن گاتا رہے، اہل عقل اور ہوشمند شخص کو ”حجاب“ کی خوبیوں پر مزید کسی دلیل کی حاجت نہیں۔
۳…الف:سب سے پہلے تو یہ ذہن نشین کیا جانا ضروری ہے کہ اسلامی فقہ کے ذخائر جو فی زمانہ ہمارے مکاتب کی زینت اور امت اسلامیہ کے لئے سرمایہٴ افتخار ہیں، قرآن وحدیث سے جدا کوئی انسانی ساختہ قوانین نہیں ہیں۔ اسلامی فقہ دراصل قرآن وسنت یعنی فرمان ِ خدا اور اس کی شرح فرامینِ مصطفی سے حاصل شدہ اصول ومبادی اور فروعات وجزئیات کی روشنی میں اہل علم وفضل اور خدائی حکمت سے بہرہ ور اصحاب ِ فقہ وکمال کا تشکیل کردہ اور ترتیب کردہ دستور اسلام ہے، جس میں کوئی اختراعی فارمولا پیش نہیں کیاگیاہے۔ اس کے بعد سوال کی مذکورہ تحریر میں جس جائزہ کی ضرورت کا ذکر کیاگیا ہے، اس کے متعلق سوال کی ظاہری ساخت خاصی مبہم ہے، جس کے لئے اول تجزیہ وتحلیل ناگزیر ہے ۔ ”اسلامی احکام“ کی نوعیت آپس میں مختلف ہے، ضروریات کے شعبہ سے متعلقہ اسلامی احکام وعقائد میں کوئی تغیر وتبدل آمیز کاوش ہرگز روا نہیں۔
قطعیاتِ دین، دین کی وہ بنیادیں ہیں جن کو نظر انداز کرکے دین کی کوئی تشریح ناقابل قبول ہوگی، جیسے: نماز، روزہ، زکوٰة، حج، محرماتِ قطعیہ اور محللاتِ قطعیہ، جن کا حکم قرآن وسنت اور اجماع امت میں واضح ہے، اس میں مزید کسی جائزہ کی ضرورت نہیں ، چاہے اس جائزہ کا جواز پیش کرنے کے لئے اسے ارتقائی مراحل کا ملمع عنوان کیوں نہ پہنادیا جائے، اس لئے کہ تکمیلِ دینِ اسلام کے اعلان کے بعد اس میں ”ارتقاء“ کے پیش نظر ، زمانہ کی فساد سے بھر پور فضا سے متأثر ہوکر احساس کمتری کی بناء پر کوئی تغیر براہ راست تکمیلِ اسلام کے خدائی دعویٰ پر اشکال کے مترادف ہے۔
احکام کا دوسرا شعبہ اجتہادی فروعی مسائل کا ہے، جو جزئیات فقہاء کرام نے اپنے اپنے مدارکِ اجتہاد کے مطابق طے کردیں اور ہر فقیہ کو تکوینی طور پر پیرو کار میسر آئے اور آئندہ زمانوں میں چار مسالک بنیادی طور پر امت میں عموماً شہرت پذیر ہوئے، جن میں فقہ حنفی کو خصوصی شہرت حاصل ہوئی اور اولین تشکیل سازی وتدوین نگاری کا سہرا اسی کے مجتہدین کے سر ہے، اسی طرح فقہ مالکی، فقہ شافعی اور فقہ حنبلی کو بالترتیب امتِ اسلامیہ میں پذیرائی حاصل ہوئی، ان اجتہادی مسائل کے متعلق جوکچھ تشریح ان ائمہ فقہاء سے منقول ہو، قاعدہ یہ ہے کہ زمانہ ومکان کی رعایت رکھتے ہوئے اور عرف ورواج کو دخل دیتے ہوئے مخصوص شرائط اور اہم تقاضوں اور ضرورت کے پیش نظر کسی بھی ایک فقہ کی تقلید کی جاسکتی ہے، اسی طرح وہ مسائل جو ان ائمہ فقہاء سے منقول نہیں ہیں اور لامتناہی حوادث کا سلسلہ جاری ہے، ان میں ”اجتہاد فی المسائل“ کے شعبہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اہل علم طبقہ ہر زمانہ میں ائمہ سے منقول جزئیات کی روشنی میں جائزہ لیتا رہا ہے اور لیتا رہے گا ۔ ”اجتہاد فی المسائل“ کا یہ درجہ اور رتبہ امت کے فقہاء کو اب بھی حاصل ہے اور وہ نئے پیش آمدہ حوادث میں آئین اسلام کے متفقہ دستور، یعنی مذاہب اربعہ کے فقہی ذخیرے کو کام میں لاکر ان کا حل پیش کرتے رہتے ہیں۔ (۴)
ب… اور دراصل ”اجتہاد فی المسائل“ کے اسی عملی فن کے پیش نظر شاعر مشرق علامہ اقبال نے Spirit of Movementکو اسلامی فقہ کا خاصہ شمار کیا ہے۔ اس کے علاوہ ”نئی قانون سازی“ سے کوئی اور مراد درست نہیں۔
جس قرآنی مساوات اور عدل کا ذکر سوال میں کیا گیاہے، اس کے ضوابط اور شرائط قرآن وحدیث کی روشنی میں اسلامی فقہ کے ماہرین اصول فقہ اور اصولِ حدیث کے نام سے مرتب کرچکے ہیں اور انہی کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کا جائزہ لیا جاتا رہا ہے اور لیا جاتا رہے گا۔ البتہ اس عنوان کے تحت ”آزاد فکری“ اور ”آزاد روی“ کے رجحان کو فروغ دے کر مسلّمہ اصول وقوانینِ شریعت میں جو تغیر وتبدل کیا جارہا ہے، وہ قابلِ صد افسوس اور قابلِ صد مذمت ہے۔
۴…(الف،ب)اسلام جو نظام حیات پیش کرتا ہے، اس میں کسی فطری اور خلقی جذبہ کے ازالہ (بالکلیہ ناپیدکرنے) کے بجائے اس فطری جذبہ اور خمیرہٴ انسان میں رچے بسے ہوئے خصائل اور عادات کو اس کی درست سمت اور جہت کی طرف موڑ دیا ہے۔خواہشاتِ انسانی کی تکمیل کے لئے مرد وزن کو جب بغیر نکاح کے ناپاک ملاپ سے منع کردیا اور اس پر وعیدات وارد کردیں تو ان خواہشات کی تکمیل کے لئے نکاح کا پاکیزہ اور صاف ستھرا رشتہ بطور نعمت مرحمت کردیا، تاکہ کسی کو اپنی بے راہ روی اور آوارگی کے جواز کے لئے ناحق ہتھیار نہ مل جائے۔ مرد وزن کے باہمی پاکیزہ رشتہ ٴ نکاح کو سنوارنے کے لئے ہرایک کے لئے کچھ فرائض مقرر کردیے اور جو فرائض مرد کے اوپر لازم ہیں، وہ ا س کی بیوی کے حقوق ہیں اور جو فرائض عورت کے اوپر لازم ہیں، وہ اس کے شوہر کے حقوق ہیں، اگر ہرایک اپنے فرائض کو صحیح طور پر بجالائے تو آج گھروں کے سارے جھگڑے ہی ختم ہوجائیں، اپنے فرائض میں کوتاہی ہی سے دوسرے کے حقوق پامال ہوتے ہیں اور بدمزگی کی فضا پیدا ہوکر خاندان کو تباہ کردیتی ہے۔ قرآن کریم نے مرد وعورت، ہر دو کے حقوق کو ایک جامع انداز میں صرف ایک سطر میں اس طرح سمودیا کہ فصاحت وبلاغت کی ساری رعنائیاں بیک وقت سمٹ کر اس اجمال میں جھلکنے لگتی ہیں۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَةٌ، وَاللهُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ“۔ (البقرہ:۲۲۸)
ترجمہ:۔”اور عورتوں کا بھی حق ہے، جیساکہ مردوں کا ان پر حق ہے دستور کے موافق، اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور اللہ زبردست، تدبیر والا ہے“۔
جس طرح عورت کو اس کے حقوقِ مناسبہ نہ دینا ظلم وجور اور قساوت وشقاوت ہے، جس کی اسلام نے مکمل بیخ کنی کردی ہے، اسی طرح ان کو کھلے مہار چھوڑ دینا اور مردوں کی نگرانی اور سیادت سے آزاد کردینا، اس کو اپنے گزارے اور معاش کا خود متکفل بنانا بھی اس کی حق تلفی اور بربادی ہے، نہ اس کی ساخت اس کی متحمل ہے اور نہ گھریلو کام کی ذمہ داری اور اولاد کی تربیت کا عظیم الشان کام جو فطرةً اس کے سپرد ہے، وہ اس کا متحمل ہے۔ علاوہ ازیں مردوں کی سیادت ونگرانی سے نکل کرعورت پورے انسانی معاشرہ کے لئے خطرہٴ عظیم ہے، جس سے دنیا میں فساد وخونریزی اور طرح طرح کے فتنے پیدا ہونا لازمی اور روز مرہ کا مشاہدہ ہے، اس لئے قرآن کریم نے عورتوں کے حقوق واجبہ کے بیان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ:”وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَةٌ“ یعنی مردوں کا درجہ عورتوں سے بڑھا ہوا ہے اور دوسرے لفظوں میں یہ کہ مرد ان کے نگران اور ذمہ دار ہیں۔
ذیل میں شوہر اور بیوی کے باہمی حقوق اور ان کی ذمہ داریوں کے متعلق بنیادی اصول پر مشتمل اجمالی خاکہ پیش کیا جاتا ہے:
۱…امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم میں سے ہر شخص (اپنے اپنے شعبے اور اپنے اپنے متعلقہ امور کا) نگران اور ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ ہوگی: حاکم وقت نگران ہے، اس سے عوام کے متعلق پوچھ ہوگی، مرد اپنے اہل وعیال کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا (یعنی اہل وعیال کے حقوق کی ادائیگی) کے متعلق پوچھ ہوگی، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران اور محافظ ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا، ملازم اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس کے متعلق پوچھا جائے گا (بہرحال) تم میں سے ہرشخص کسی نہ کسی شعبہ کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا“۔ (۵)
۲…ترمذی شریف میں روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”سب سے زیادہ کامل ایمان والا مؤمن وہ ہے، جس کے اخلاق اچھے ہوں اوربہتر وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے“۔ (۶)
۳…مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کوئی مؤمن شوہر اپنی مؤمن بیوی سے بغض نہ رکھے، اگر اس کی کوئی ایک عادت بری لگتی ہے تو دوسری عادت سے وہ خوش ہوگا“۔(۷)
۴…ابوداؤد شریف میں یہ روایت منقول ہے کہ ایک صحابی معاویہ بن حیدہ  نے بیوی کے حقوق کے متعلق دریافت کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جب تو کھائے تو اس کو بھی کھلا، جب تو پہنے تو اس کو بھی پہنا، چہرے پر مت مار، برا بھلامت کہہ (اور اگر بیوی کی بدخلقی پر اس کو سرزنش کرنے کے لئے اس کو اپنے بستر سے علیحدہ کرنے کی ضرورت پڑے تو) گھر ہی میں علیحدہ کر “۔ (۸) ۵…حجة الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے متعلق جو نصائح امت کو ارشاد فرمائیں، ان کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ:
”خبردار! عورتوں کے بارے میں بھلائی کی روش اختیار کرو، وہ تمہارے ماتحت نگرانی میں ہیں، وہ تمہاری مملوکہ لونڈیاں ہرگز نہیں، تم صرف نگران ہو، البتہ اگر وہ کوئی بری حرکت (زنا، فحش وغیرہ) کرتی ہیں تو ان کو بستر سے علیحدہ کردو اور ان کو اس طرح مارو کہ اس مار سے کوئی نشان نہ پڑے اور اگر تمہاری فرمانبرداری کرنے لگیں تو تمہیں ان پر کوئی اختیار نہیں، خبردارر ہو! تمہارے حقوق کی ادائیگی ان پر ضروری ہے اور ان کے حقوق کی ادائیگی تم پر ضروری ہے ، تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر کو کسی غیر شخص سے گندا نہ کریں اور جو لوگ تمہیں ناپسند ہیں ان کو گھر آنے نہ دیں اور خبردار! تم پر عورتوں کا یہ حق ہے کہ تم ان کے کھانے، پہننے کا خوب اچھی طرح خیال رکھو“۔ (۹)
۶…صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد اور سنن نسائی میں یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جب شوہر( اپنی جائز خواہش کو پورا کرنے کے لئے) اپنی عورت کو بستر پر بلائے اور پھر (بغیر کسی عذر کے، محض شوہر کو رنج پہنچانے کے واسطے) وہ نہ آئے اور شوہر غصہ کی حالت میں رات گزارے تو فرشتے ایسی عورت پر صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں“۔ (۱۰)
۷…طبرانی نے اوسط میں یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”دو شخص ایسے ہیں، جن کی عبادت قبولیت کے واسطے ان کے سروں سے بھی اوپر تجاوز نہیں کرتی (چہ جائیکہ آسمان تک پہنچ کر ان کے نامہٴ اعمال میں مندرج ہو): ایک غلام جو اپنے آقا سے بھاگ جائے، یہانتک کہ وہ دوبارہ لوٹ نہ آئے، دوسری وہ بیوی جس نے شوہر کی نافرمانی کی ہو، یہانتک کہ وہ اس سے راضی ہوجائے“۔ (۱۱)
۸… طبرانی نے اوسط ہی میں ایک اور روایت یہ بھی ذکر فرمائی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب عورت گھر سے ایسی حالت میں نکلتی ہے کہ شوہر اس کے اس نکلنے پر رضامند نہیں ہوتا تو آسمان کے فرشتے اور سوائے انسان وجن کے ہر وہ چیز جس کے پاس سے وہ گذرتی ہے، اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں، یہانتک کہ وہ لوٹ کر گھر واپس آجائے“۔ (۱۲)
ترمذی، ابوداؤد اور نسائی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں عدل ومساوات نہ برتتا ہو تو قیامت کے دن ایسی حالت میں حاضر ہوگا کہ اس کا ایک پہلو گراہوا ہوگا“۔ (۱۳)
۱۰…سنن ابوداؤد اور سنن نسائی کی روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”آدمی کے گناہ گار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جن کی روزی رسانی کا ذمہ دار ہو، اس کو ضائع کردے (اور ان کا خیال نہ رکھے)“۔ (۱۴)
درج بالا احادیث کی روشنی میں شوہر وزن کے باہمی حقوق کا تعین بھی بخوبی ہوگیا، نیز گھریلو کام کی قدر وقیمت اور زن کی بحیثیت زن ہونے کے ذمہ داری بھی واضح ہوجاتی ہے، اسی طرح بیوی کی معاشی ذمہ داری کی وضاحت بھی خوب ہوجاتی ہے۔
عورت کو شادی میں انتخاب کا بہرحال حق حاصل ہے، لیکن آوارگی کا اسلام نہ حامی ہے اور نہ اس کی اجازت فطرتِ سلیمہ پر مبنی عقل دے سکتی ہے کہ از خود عورت عدالتی نکاح چھپ چھپا کر کرلے، ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ عورت کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح نہیں کیا جاسکتا ہے۔
جسمانی بلوغت اور ذہنی بلوغت کی جو تقسیم زور وشور سے پیش کی جارہی ہے، وہ ایک نئی اختراع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جسمانی بلوغت کے ساتھ ہی ذہنی بلوغت کے حصول کا فطری قانون جاری فرمارکھا ہے۔ اس تقسیم میں مزید بحث اس وقت کی جاسکتی ہے، جب کہ اس تقسیم کی تشریح واضح طور پر بیان کردی جائے اور دونوں کی حدود کو متعین اور واضح کردیا جائے۔
اسلام عدل وانصاف کا ضرور حکم کرتا ہے او رعدل نہ کرنے والے کے لئے وعیدات بھی سناتا ہے، لیکن عدل کرنے والوں کے فضائل بھی بیان کرتا ہے اور قیامت کے دن ان کے لئے نور کے منبر بچھائے جانے کی بشارت بخشتا ہے۔ (۱۵)
یہ سیدھا سادا مفہوم سمجھ لینے کے بعد یہ ذہن نشین کر لیجئے کہ اسلام اسی عدل کی سفارش کرتا ہے، ورنہ اسلام شادی کے معاملہ میں آزاد مرد کو چار تک بیویاں بیک وقت عقد نکاح میں رکھنے کی باقاعدہ اجازت دیتا ہے اور پھر اس اجازت کے ساتھ عدل کو مضبوط تھامنے کا حکم دیتا ہے، نیز عدل کا مفہوم جب ہی واضح ہوسکتا ہے، جب کہ ایک سے زائد بیویاں اس کے نکاح میں ہوں: عدل پر سختی کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ مرد کے لئے ایک سے زائد شادی ممنوع اور حرام ہوگئی ہے، بلکہ علمائے تفسیر فرماتے ہیں کہ وہ آیت جس میں دو سے چار تک شادی کی اجازت فرمائی گئی ہے، اس میں دو بیویوں سے ابتداء کرنے سے اس طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ دو یا اس سے زائد شادیاں کرنا مستحب ہے ۔ (۱۶)
اگر عدل وانصاف نہ کرسکتا ہو اور معاشی مجبوریاں کسی مرد کو اس بات کی اجازت نہ دیتی ہوں تو پھر اس کو ایک ہی شادی کرنا مناسب ہوگا۔
۵…نکاح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے وہ عظیم نعمت ہے، جس کے ضمن میں اور کئی نعمتیں انسان کو بیک وقت حاصل ہوجاتی ہیں: اس نکاح کے ذریعہ توالد وتناسل کا مقصد حاصل ہوتا ہے اور فطرت کی پیدا کردہ انسانی خواہش کی تسکین کے لئے پاکیزہ راہ فراہم کی جاتی ہے۔ اس نکاح سے جہاں مرد گھریلو ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتا ہے ،وہاں عورت کو اپنی عفت وعصمت کی حفاظت کا سامان بہم میسر آجاتا ہے اور آپس کے اس امدادِ باہمی اور تعاونِ جانبین سے ایک پاکیزہ معاشرہ وجود پاتا ہے۔
نکاح کے اس عظیم تحفہ کو ختم کرنے کا اختیار اگرچہ مرد کو حاصل ہے، عورت کو شریعت نے طلاق دینے کا ہرگز اختیار نہیں دیا، تاہم طلاق کو ”ابغض المباحات“(مباح امور میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ) قرار دے کرشوہرکو اس انتہائی سنگین اقدام سے گویا روک دیا گیا ہے (۱۷) کیونکہ اس سے صرف دوزندگیاں ہی نہیں، دو خاندان باہم دست وگریبان ہوجاتے ہیں اور سوسائٹی اعلیٰ اقدار سے پستی کی طرف جانے لگتی ہے، جس کو اسلام ہرگز پسند نہیں کرتا، البتہ طبائع کے فطری اختلاف کی بناء پر اگر میاں بیوی کا آپس میں رہنا قطعاً دشوار ہو اور اس اختلاف کی وجہ سے جھگڑا اور فساد ہوتا رہے تو معاشرتی اور انسانی نجی زندگی کو ایسی بے اطمینانی کی کیفیت سے نکالنے کے لئے شریعت نے طلاق اور خلع کا حکم مرحمت کیا ہے۔طلاق کے متعلق مرد کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ اس سنگین اور خطرناک اقدام کی طرف بڑھنے سے پہلے اس بات کو ذہن نشین کرلے کہ اگر اس عورت میں کچھ خرابی ہے تو انسان اس سے مبرّا نہیں، کوئی دوسری عورت اگر بیاہ لی جائے تواس میں بھی اس کی طبیعت کے ناموافق کوئی نہ کوئی بات ضرور ہوگی، پھر آخری درجہ میں جب سمجھانے کے طریقے ختم ہوجائیں اور نباہ بالکل مشکل ہوجائے تو ایسی پاکی کی حالت میں جس میں صحبت نہ کی ہو، ایک طلاق دے کر عورت کو عدت گذارنے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ ایک طلاق اس لئے تاکہ بعد ازاں اگر اللہ تعالیٰ موافقت پیدا کردیں تو پشیمان نہ ہونا پڑے اور بآسانی رجوع کیا جاسکے۔ اور پاکی کی حالت میں اس لئے تاکہ عورت کے لئے تین ماہواریاں جلد گذارنا آسان ہوجائیں، ورنہ اگر حیض کی حالت میں طلاق دی جاتی تو اس حیض کے گزارنے کے بعد علیحدہ تین حیض گذارنے پڑتے اور عدت لمبی ہوجاتی۔ عدت گذرجانے کے بعد عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا مکمل اختیار ہے۔
مراجع ومصادر
۴-اصول الفقہ الاسلامی للدکتور وہبة الزحیلی،مجال الاجتہاد ۲/۱۰۵۲،ط:دار احسان ۱۹۹۷ء
۵-الترغیب والترہیب، ترغیب الزوج فی الوفاء بحق زوجتہ وحسن عشرتہا الخ ۳/۴۸،ط:دار احیاء التراث العربی ۱۳۸۸ھ=۱۹۶۸ء
۶-حوالہٴ سابق ۳/۴۹
۷-حوالہٴ سابق ۳/۵۰
۸-حوالہٴ سابق ۳/۵۱
۹-حوالہٴ سابق ۳/۵۱
۱۰-حوالہٴ سابق ۳/۵۸
۱۱-حوالہٴ سابق ۳/۵۹
۱۲-حوالہٴ سابق ۳/۵۹
۱۳- حوالہٴ سابق ۳/۶۰
۱۴-حوالہٴ سابق ۳/۶۵
۱۵-الترغیب والترہیب، الترہیب من ترجیح احدی الزوجات وترک العدل بینہم ۳/۶۰،ط: داراحیاء التراث العربی
۱۶-احکام القرآن للتھانوی، استحباب الزیادة علی الواحد لمن لم یخف عدم العدل ۲/۹۴،ط: ادارة القرآن
۱۷-الترغیب والترہیب، ترہیب المرأة ان تسأل زوجہا الطلاق من غیر بأس ۳/۸۴،ط:دار احیاء التراث العربی ۱۳۸۸ھ=۱۹۶۸ء (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۲ھ -اگست: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: تجوید کی اہمیت…اکابر کی نظر میں !
Flag Counter