Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ -اگست ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

10 - 13
امتِ مسلمہ کی مشکلات کا میدان ذاتی زندگی یا اجتماعی نظم !
امتِ مسلمہ کی مشکلات کا میدان․․․ ذاتی زندگی یا اجتماعی نظم
سب سے پہلے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور ان کے جملہ رفقاء اور معاونین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے، انتہائی اہم موقع پر اہلِ علم ودانش کی یہ بزم سجائی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میں ان تمام حضرات کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے آپ حضرات سے مخاطب ہونے کا موقع دیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے آج ”امت مسلمہ کی مشکلات کا میدان… ذاتی زندگی یا اجتماعی نظم“ کے عنوان پر چند معروضات پیش کرنی ہیں۔
میرے خیال میں آج اگر امت مسلمہ کے مسائل ومشکلات کی بات کی جائے تو وہ ذاتی زندگی سے متعلق بھی ہیں اور اجتماعی نظم سے بھی، انفرادی زندگیوں میں بھی بے شمار کوتاہیاں دیکھنے میں آرہی ہیں اور معاشرتی سطح پر بھی کمزوریاں بڑھتی چلی جارہی ہیں،عوام کو بھی اپنی اصلاح کی فکر کرنی ہے اور حکمرانوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ اس لئے میں کوشش کروں گا کہ اس فورم سے ان امور کی نشاندہی کی جائے جو ہمارے مسائل ومشکلات، بگاڑ وفساد اور زوال وانحطاط کا اصل سبب ہیں۔ جب عوام وخواص، رعایا اور حکمران، فرد اور معاشرہ سب اپنی کمزوریوں اور ذمہ داریوں کا احساس وادراک کرکے ان اسباب کے ازالے کی فکر کریں گے، تب کہیں بہتری کے آثار نمودار ہونا شروع ہوں گے۔ انشاء اللہ
۱…ایمانِ محکم، عملِ صالح، خوفِ خدا اور فکرِ آخرت
آیئے! سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے اپنے معاشرے کی اصلاح کی؟ اور کن بنیادوں پر حضرات صحابہ کرام کو کھڑا کیا کہ وہ زمانے کے مقتداء وپیشوا بن گئے؟۔
آپ ذرا تصور تو کیجئے کہ ایک ایسا معاشرہ جو جہالت اور گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہواتھا،جہاں قتل وغارتگری کا رواج تھا، وہ لوگ راہ راست سے اس حد تک بھٹکے ہوئے تھے کہ کوئی ان پر حکمرانی کرنے کے لئے تیار نہ تھا، ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاشرے کا نقشہ بدل دیا۔ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی محنت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاشرے کو ایمانِ محکم، عملِ صالح، خوفِ خدا اور فکرِ آخرت کی ایسی بنیادیں فراہم کیں کہ جن کی وجہ سے پورا معاشرہ یکسر بدل گیا: وہ لوگ جو پہلے قاتل اور لٹیرے تھے، وہ زمانے کے مقتداء اور پیشوا بن گئے، ان کا معاشرہ جنت کا نمونہ بن گیا، وہ قیصر وکسریٰ جیسی عالمی طاقتوں سے ٹکرا کر فاتح ٹھہرے۔ آج اگر ہم دیکھیں تو ہمارے حکمرانوں کا معاملہ ہو یا عوام کا، انفرادی زندگیاں ہوں یا اجتماعی نظم، یقین محکم کی قوت، کردار وعمل کی طاقت، خوفِ خدا کے زادِ راہ اور فکرِ آخرت کی دولت سے ہم انفرادی او راجتماعی طور پر محروم ہوگئے۔جب ہمارے پاس ایمان ویقین کی بنیاد اور اخلاص پر مبنی جذبہ ہی نہیں، کردار وعمل کے اعتبار سے ہم کمزور ہوگئے، محاسبہ کی فکر سے آزاد ہوگئے، مرنے کے بعدکی زندگی کو بھول بیٹھے، تو یہ وہ پہلی اینٹ ہے جو غلط رکھ دی گئی، اس اینٹ کو جب تک صحیح نہیں کیا جائے گا اور ان چار بنیادوں پر اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی کولانے کی کوشش نہیں کی جائے گی، اس وقت تک اصلاحِ احوال کا خواب کبھی شرمندہٴ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
۲…”وہن“ کی بیماری
اس وقت امت مسلمہ مسائل ومشکلات کے جس گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، ہرطرف ظلم وستم کی آندھیاں زوروں پر ہیں، ہرجگہ مسلمانوں کا لہو بہہ رہا ہے، ہرآنے والا دن گزرے دن سے زیادہ مصائب وآلام لے کر طلوع ہوتا ہے، دشمن اہل ایمان کو کاٹ کھانے اور صفحہٴ ہستی سے مٹاڈالنے کے لئے بھوکوں کی طرح امت مظلومہ پر ٹوٹا پڑرہا ہے، اس صورتِ حال سے نہ صرف یہ کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بہت پہلے خبر دار کردیا تھا، بلکہ اس زوال وانحطاط کی وجہ بھی بتادی تھی کہ جب امت ”وہن“ کی بیماری میں مبتلا ہوجائے گی ، یعنی دنیا سے محبت کرنے لگے گی اور موت کی ناپسندیدگی کا شکار ہوجائے گی تو پھر اس قسم کے حالات سے دو چار ہوجائے گی۔ اس وقت ہمیں امت مسلمہ میں یقینِ محکم،عملِ صالح، خوفِ خدا اور فکرِ آخرت کا شعور اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی باقاعدہ مہم چلانے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے اجتماعی نظم اور اپنے دل ودماغ سے ”وہن “کی بیماری کو، یعنی دنیا کی محبت اور موت کی ناپسندیدگی کو ختم کردیں، کیونکہ دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے، موت کی ناپسندیدگی بزدلی اور غیروں کی غلامی کا سبب بنتی ہے، جب ہم اس بیماری سے نجات پاجائیں گے تو اس کے نتیجے میں بہت سی مشکلات پر قابو پانا آسان ہوجائے گا۔ انشاء اللہ
۳…اتحاد واتفاق کا فقدان
اس وقت امت مسلمہ کے مسائل ومشکلات کی ایک بڑی وجہ ”اتحاد واتفاق کا فقدان“ ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی بنیادوں پر، مسلکی بنیادوں پر، علاقائی بنیادوں پر اور لسانی بنیادوں پر نفرتوں کے ایسے بیج بوئے گئے ہیں کہ ان کی فصل اب بالکل تیار ہے۔ دشمن نے ”لڑاؤ اور حکومت کرو“ پالیسی کے تحت ہمیں یوں آپس میں دست وگریباں کیا کہ ہمارے مابین دوریوں کی خلیج حائل ہوگئی اور امت کا شیرازہ بری طرح بکھر کررہ گیا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے” عصبیت“ کے جن کلموں کو بدبودار باتیں کہہ کر چھوڑنے کا حکم دیا تھا، انہی چیزوں نے اس ”امتِ واحدہ“ کو بانٹ رکھاہے۔ ”اختلافِ رائے“ اس امت کے لئے ”رحمت“ کا باعث تھا، لیکن ہم نے اسے مخالفت اور مخاصمت کا رنگ دے کر ”زحمت“ بنا ڈالا ہے۔ ہمارے مسلکی اختلافات، مخالفت اور تشدّد کی شکل اختیار کرجاتے ہیں اور پھر نہ ختم ہونے والے فساد اور انتشار کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اگر آج مسلکی ہم آہنگی، عصیبت کے خاتمے، علاقائی اور لسانی تفریق کو مٹانے اور جدید وقدیم کی خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسائل ومشکلات ہمیں یوں ہی گھیرے رکھیں اور اگر آج ہم ”نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر“ تک پھیلی ہوئی اسلامی دنیا کو اتحاد واتفاق کی لڑی میں پرونے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ہمارا مقدر یقینا بدل سکتا ہے۔ آج اگر یورپی یونین کی شکل میں یورپی ممالک کا بلاک موجود ہے، افریقی ممالک آپس میں معاہدے کرکے ایک قوت بن سکتے ہیں، سارک ممالک اکٹھے ہوسکتے ہیں، تو اسلامی دنیا مشترکات پر اکٹھی ہوکر اپنا ایک بلاک بنالینے کی ہمت کیوں نہیں کرتی؟ یادرکھئے !جب تک اس پہلو پر توجہ نہیں دی جائے گی، اس وقت تک ہماری پریشانیاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی رہیں گی۔
۴…تعلیم کی کمی
امت مسلمہ کے مسائل کی ایک بڑی وجہ ”تعلیم کی کمی“ ہے اور یہ بھی ایک ایسا سبب ہے جس کے ذمہ دار افراد بھی ہیں اور مسلمان معاشرے بھی، عوام بھی ہیں اور حکمران بھی، ایک ایسی امت جس کی پہلی وحی کا آغاز ”إِقرأ “سے ہوتا ہے، ایک ایسی امت جس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ”قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْماً“ کا حکم ہوتا ہے، ایک ایسی امت جس کی شناخت اور پہچان ہی تعلیم وتعلم ہے، اگر وہ امت تعلیم کے میدان میں دنیا سے پیچھے رہ جائے تو اس پر افسوس کے اظہار کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے؟۔
مسلمانوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کے ذمہ دار جہاں حکمران ہیں کہ انہوں نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام،تعلیمی سہولیات وضروریات کی فراہمی، اعلیٰ معیار کی درس گاہوں کے انتظام وانصرام، تعلیم کے لئے معقول بجٹ مختص کرنے اوراپنی قوموں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے معاملے میں ہمیشہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا، وہیں عوام نے بھی انفرادی طور پر اس معاملے میں افسوسناک حد تک تغافل برتا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہو یا جدید ایجادات، میڈیکل اور انجینئرنگ ہو یا کوئی دوسرا علم، ہم اپنے شاندار اور تابناک ماضی کے حوالے تو دیتے ہیں، چند مسلمان سائنسدانوں کا تذکرہ تو کرتے ہیں، لیکن کیا ہم نے سوچا کہ آج وہ بڑے بڑے سائنسدان کیوں جنم نہیں لیتے؟ آج ہم ہرمعاملے میں غیروں کے محتاج کیوں ہیں؟ آج اسلامی دنیا میں شرح خواندگی اتنی کم کیوں ہے؟ آج دنیا کی معیاری درسگاہیں اور صدگاہیں عالمِ اسلام میں کیوں نہیں؟ یونیورسٹیز کی ریٹنگ میں اسلامی دنیا کے تعلیمی اداروں کا سراغ تک کیوں نہیں ملتا؟ ہمیں اس معاملے پر خوب سوچ وبچار کرکے اس کے تدارک کی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی، ورنہ مستقبل مزید تاریک سے تاریک تر ہوتا چلا جائے گا۔
۵…سستی، کاہلی اور عیش پرستی
امت مسلمہ کے مسائل میں سے ایک اور بڑا مسئلہ ہماری اجتماعی اور انفرادی ”سستی ، کاہلی اور عیش پرستی“ بھی ہے: ہم لوگ محنت سے جی چراتے ہیں، کام کرنے سے جان چھڑاتے ہیں، ہمارے حکمرانوں کا شاہانہ طرزِ زندگی ہو یا امراء ورؤساء کی عیش پرستی، عوام کی سہل پسندی ہو یا نوجوانوں کی عیش کوشی، ان چیزوں نے نہ صرف یہ کہ ہمیں زوال وانحطاط سے دوچار کیا، بلکہ دنیا کے سامنے تماشابنا کررکھ دیا ہے۔ ہمارے نوجوان شمشیر وسنان چھوڑ کر طاؤس ورباب کے دلدادہ ہوگئے۔ فحاشی و عریانی کے زہرنے ہماری پوری نسل کو کھوکھلا کر ڈالا۔ لایعنی مشاغل اور فضولیات ولغویات میں انہماک نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ وہ لوگ جو ایمان کی دولت سے بھی محروم ہیں اور اللہ کی نصرت ومدد کا بھی ان سے کوئی وعدہ نہیں، لیکن جب انہوں نے محنت کو اپنا شعار بنایا تو کامیابی وکامرانی ان کامقدر بنتی چلی گئی اور ہم ہاتھوں پر ہاتھ دھرے اچھے مستقبل کے انتظار میں بوڑھے ہوتے چلے گئے۔ہمیں اس اجتماعی اور انفرادی کمزوری کا احساس بھی کرنا ہوگا اور اس معاملے پر قابو پانے کی کوشش بھی کرنی ہوگی۔
۶…وسائل کا ضیاع اور اسراف
جس طرح ہم وقت اور انسانی صلاحیتوں کو بے دریغ ضائع کرتے ہیں، اس سے کہیں بڑھ کر ہم قدرتی وسائل کو بھی ضائع کررہے ہیں۔ اللہ رب العزّت کا خصوصی فضل وکرم ہے کہ عالم اسلام کے پاس ہر قسم کے وسائل کی فراوانی ہے، سیال سونے کے کنویں موجود ہیں، معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے یا زرعی لحاظ سے، معدنی اعتبار سے بات کی جائے یا موسمی اعتبار سے، سب سے زیادہ وسائل اور ترقی کے مواقع عالم اسلام کے پاس ہیں، لیکن ہم نے انہیں بروئے کار لانے اور منصوبہ بندی سے برتنے کا اہتمام ہی نہیں کیا۔ اسلامی دنیا سے تیل دشمن نکال کرلے جاتے ہیں، ریکوڈک سے سونا نکالنے کا ٹھیکہ ہم کسی اور کو اونے پونے داموں میں دے دیتے ہیں، دریاؤں پر ڈیم بنانے کی ہمیں توفیق نہیں ہوتی۔ ہمیں تو ”وَأَعِدُّوْا لَہُمْ مَّااسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ“ کا حکم تھا،لیکن ہم دشمن کے خلاف قوت جمع کرنا تو کجا ،اپنی ضرورت کے وسائل کو سلیقے سے برتنے کی توفیق سے بھی محروم ہیں اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ وسائل کے ضیاع کے ساتھ ساتھ اسراف (جسے قرآن نے شیطان کے بھائیوں والا کام قرار دیا ہے) کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی بیگمات کے سونے اور زیورات کے قصے آپ نے سنے اور پڑھے ہوں گے اور شادی بیاہ سے لے کر لباس وپوشاک تک اور موبائل فون سے لے کر پانی وبجلی کے استعمال تک عام لوگوں کے طرز عمل کا مشاہدہ کیا ہوگا۔ وسائل کے بے دریغ ضیاع اور فضول خرچی واسراف کی عادت میں ہم نے سب کو مات دے دی اور یہی وہ کمزوری ہے جس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، اگر اس معاملے میں ہم حضرت یوسف علیہ السلام والی حکمت عملی اپنائیں اور جس طرح انہوں نے دیانت، کفایت شعاری اور منصوبہ بندی کے صرف تین گُر اپناکر پورے مصر کو قحط سالی میں ریلیف مہیّا کیا، ہم بھی ان تینوں چیزوں یعنی دیانتداری، کفایت شعاری اور بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے پورے عالم اسلام کے فقر وافلاس اور زوال وانحطاط کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔
۷…کرپشن اور بددیانتی
”کرپشن اور بددیانتی“ ہمارے معاشرے کا ایسا ناسور ہے، جس نے آج ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بُری طرح لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ حکمران ہوں یا عوام جس کو، جب، جہاں اور جو موقع ملتا ہے، وہ لوٹ کھسوٹ، بددیانتی اور کرپشن سے خود کو نہیں بچاپاتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید انہی حالات کے بارے میں پیشن گوئی فرمائی تھی کہ قرب قیامت میں دیانت وامانت کو اٹھالیا جائے گا، لوگ کہیں گے کہ فلاں قبیلے یا فلاں علاقے میں ایک شخص ہے جو بڑا امانت دار اور دیانت دار ہے۔ آج اگر ہماری ریاستیں، ہمارا معاشرہ، ہمارے ممالک، ہمارے ادارے اور ہماری انفرادی زندگی کرپشن اور بددیانتی کی لعنت سے پاک ہوجائے تو دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے۔
۸…ظلم وزیادتی اور ناانصافی
حضرت علی کا مشہور قول ہے کہ” معاشرے کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتے ہیں، لیکن ظلم کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتے“۔ آج ہمارے ہاں ظلم کی جو مختلف شکلیں رائج ہیں، ناانصافی کے جو افسوسناک مناظر دیکھنے میں آتے ہیں، ان کی وجہ سے بھی امت مسائل ومشکلات کا شکار ہے۔غیروں اور دشمن کے مظالم اور زیادتیاں تو اپنی جگہ، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر طاقت، قوت، دولت اور اثر ورسوخ رکھنے والا دوسروں کو اپنے ظلم وزیادتی کا نشانہ بنارہا ہے۔ انصاف اور مساوات کے تصورات معدوم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ جب تک ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر انصاف کی بالادستی اور انظام عدل کے نفاذ کے لئے کوشش نہیں کریں گے، اس وقت تک ہمارے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جائیں گے۔
۹…احساسِ کمتری
ہمارے مسائل کی ایک بڑی بنیاد ”احساس کمتری“ بھی ہے۔ اس احساس کمتری کی وجہ سے مرعوبیت، دوسروں کی غلامی اور حاشیہ نشینی، بیرونی قوتوں کی مداخلت اور ڈکٹیشن قبول کرنے سے لے کر اپنی اقدار وروایات کو ترک کرکے دوسروں کی نقالی اور ان کی تہذیبوں کو فخر کے ساتھ اپنانے کی جو روش چل نکلی ہے، اس سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا از حد ضروری ہے۔ جب تک ہمیں سراٹھاکر جینے کا ہنر نہیں آجاتا، اپنی خود مختاری کی حفاظت کا سلیقہ نہیں آتا، اپنی اقدار وروایات پر ناز کرنے کی ہمت نہیں ہوتی، اس وقت تک ہم کسی کو کیا الزام دے سکتے ہیں؟۔
۱۰…طبقاتی تفریق
ہمارے مسائل ومشکلات کی ایک بڑی وجہ ”طبقاتی تفریق“ بھی ہے۔ V.I.P کلچر، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام اور بیوروکریسی کی مختلف شکلیں اس طرح ہمارے اوپر مسلط ہیں کہ کبھی یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ہم نے طبقاتی اور معاشرتی اونچ نیچ اور ذات پات کے چکر میں ہندوؤں کو بھی مات دے دی ہو۔ ہمارے قواعد وضوابط اور قوانینِ جزا وسزا ہرایک کے لئے الگ الگ ہیں: امیر اور طاقتور ہرقسم کے قاعدے اور ضابطے سے مستثنیٰ ہے اور غریب ہر ظلم وزیادتی کا شکار ہے، حالانکہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورتحال کو سابقہ قوموں کی تباہی وبربادی کی وجہ قرار دے کر اس سے اجتناب کا درس دیا تھا۔
آخری بات دوسروں کی اصلاح اور خود سے غفلت
یہ بھی ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ہمارے ہاں جو بھی امت مسلمہ کے مسائل ومشکلات کے اسباب کی نشاندہی کرکے ان کے تدارک اور امت کی اصلاح کا بیڑہ اٹھاتا ہے، وہ ہمیشہ اصلاح کا عمل دوسروں سے شروع کرتا ہے اور خود کو بھول جاتا ہے۔ عوام حکمرانوں کو کوستے ہیں اور حکمران عوام کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قوموں اور حکمرانوں کو بہترین قرار دیا جو ایک دوسرے سے محبت کریں، ایک دوسرے کے لئے دعا گو رہیں اور ایک دوسرے کی بھلائی اور خیر خواہی کے لئے سرگرم اور فکر مندر رہیں اور ان لوگوں اور ان حکمرانوں کو بُرا اور موجب لعنت قرار دیا جو ایک دوسرے پر لعن طعن کریں۔ یہ اعتماد کا فقدان اور الزام تراشی کی روش صرف عوام اور حکمرانوں کے مابین ہی نہیں ہے، بلکہ مختلف طبقات اور مختلف افراد بھی اس کا شکار ہیں، بلکہ بحیثیت مجموعی ہم سب قول وفعل کے بدترین تضاد میں مبتلا ہیں، اس لئے ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی، معاشرے میں پھیلی تاریکیوں اور ظلمتِ شب کا شکوہ کرنے کی بجائے اپنے حصے کا چراغ جلانا ہوگا اور امت کو اجتماعی اور انفرادی اور حکومتی اور عوامی مسائل ومشکلات سے نجات دلانے کے لئے تَن مَن دَھن کی بازی لگانی ہوگی۔اللہ رب العزت ہمیں اس کی توفیق مرحمت فرمائیں۔ (آمین)
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۲ھ -اگست: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: تبلیغِ دین ودعوت الی اللہ !
Flag Counter