Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ -اگست ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

3 - 13
اصلی وطن اور اس کی تیاری !
اصلی وطن اور اس کی تیاری

انسان کی زندگی سفر سے عبارت ہے۔ دوران سفر ہر شخص راحت کا خواہشمند ہوتا ہے، اسی طرح ایک سفرِ آخرت بھی سب کو پیش آنا ہے، جس کو آسان بنانے کے لئے اہتمامِ عمل کی ضرورت ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں اسی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ شوق وطن
ارشاد فرمایا کہ:جب دنیا سے کوئی جاتا ہے تو عالم برزخ میں اس کی خبر کردی جاتی ہے تو اس کے اعزہ واقرباء جو وہاں پہلے جاچکے ہیں، وہ اس کا استقبال کرتے ہیں، جیسے یہاں حاجیوں کا استقبال کرتے ہیں، ایسے ہی وہاں بھی معاملہ ہوتا ہے، چنانچہ وہ اعزہ واقرباء کا حال پوچھتے ہیں کہ فلاں کا کیا حال ہے؟ فلاں کا کیا حال ہے؟۔ اس سلسلے میں اپنے یہاں مدرسہ میں بچوں کو ایک سبق بھی یاد کرایاجاتا ہے کہ ان سے پوچھئے کہ تمہارا وطن کہاں ہے؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ہمارا وطن عارضی تو فلاں جگہ ہے (جس جگہ کے رہنے والے ہوں گے اس کا نام بتلائیں گے) اور اصلی وطن ہمارا جنت ہے۔ اس کا اسٹیشن کیا ہے؟ تو بتلائیں گے کہ اس کا اسٹیشن قبرستان ہے۔ وطن کا سفر کس گاڑی میں ہوگا؟ تو کہتے ہیں کہ قبر کے سلیپر میں لیٹ کرہوگا۔ وطن کا سفر آسان کیسے ہوگا؟ تو کہتے ہیں کہ علمِ دین سے۔ اور طے کیسے ہوگا؟ کہتے ہیں کہ عمل کرنے سے۔ یہ عنوان ایسا ہے کہ جس سے وحشت نہیں ہوتی، بلکہ وطنِ اصلی سے ایک طرح کی رغبت ہوجاتی ہے۔ جس طرح وطنِ عارضی کے لئے تیاری اور انتظام پہلے سے کرتے ہیں، ایسے ہی وطنِ اصلی کے سفر کی بھی تیاری اور فکر پہلے سے کرنا چاہئے۔ (مجالس محی السنة ص:۱۱۶)
دنیا سے جانے والے کے اعزازات
ارشاد فرمایاکہ: اللہ تعالیٰ کا دربار عجیب ہے۔ سوچو! وطنِ اصلی کوئی جانا چاہتا ہے تو ان کے لئے کیا کیا اعزازات ہیں؟ سب سے پہلے یہ اعزاز واکرام ہے کہ جانے والا زندگی میں جن کی خدمت کیا کرتا تھا،آج اس کو ان کا مخدوم بنادیا گیا، یہ جن کے ہاتھ دھلاتا تھا، پیر دھلاتا تھا، منہ دھلاتا تھا، آج ان کے لئے حکم ہے کہ یہ وطنِ اصلی جارہا ہے، لہذا اب یہ سارے کام آپ کے ذمہ ہیں کہ اب آپ اس کو وضو کرایئے، غسل کرایئے۔ دوسرا اعزاز یہ ہے کہ دیکھئے! یہ آپ کی جوتیاں اٹھاتا تھا، آپ کی خدمت بھی کیا کرتا تھا، لیکن آج یہ اصلی وطن جارہا ہے، اس لئے اب آپ لوگ ہاتھ کے سہارے سے اس کو اٹھایئے، ہاتھ کے سہارے سے اٹھا کر تخت پر لٹا یئے، پھر ہاتھ کے سہارے سے اٹھاکر چار پائی پر لٹا یئے، کفن پہنا یئے، کفن سفید رنگ کا ہونا چاہئے۔تیسرا اعزاز کہ جو وطنِ اصلی کی طرف سفر کرتا ہے، اس کے لئے سواری کیا تجویز کی گئی ہے کہ اشرف المخلوقات کے کندھوں پر سوار ہوکر جاتا ہے، کتنا بڑا اعزاز ہے؟۔ سب سے بڑا اعزاز بادشاہ کا ہوتا ہے، اس کے لئے بھی سواری کے لئے عمدہ قسم کے گھوڑے ہوتے تھے، اب تو ہوائی جہاز اور عمدہ قسم کی کاریں ہوتی ہیں، اس کے لئے بھی سواری اشرف المخلوقات نہیں ہے۔پھر یہ اعزاز کہ اس کو امام بناکر چلو، اس سے آگے مت چلو۔ اور دیکھو حکم ہے کہ چلنے میں اس کا خیال رکھو کہ نہ تو بہت دوڑو اور نہ بالکل ہلکے ہلکے چلو، بلکہ تیز چلو اور پورا قدم اٹھاکر چلو۔ پھر یہ اعزاز کہ قبر میں یوں ہی ڈال نہ دو، بلکہ اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر قبر کے اندر قاعدے سے رکھو۔ جانے والے کے ساتھ اس طرح معاملہ کرنے کا شریعت نے حکم دیا۔ میرے عرض کرنے کا منشا یہ ہے کہ کس کس طرح اس کے ساتھ اعزاز واکرام کا معاملہ کیا جارہا ہے۔
عمل کی ضرورت
اب یہ سوچنا چاہیئے کہ جانے والے کا تو اتنا اعزاز واکرام کیا گیا، لیکن خود جانے والے کا عمل کیسا ہے؟ حالات کیسے ہیں؟ جب اس قسم کا معاملہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو اس سے سبق ملتا ہے کہ انسان ایسے اعمال وافعال کرے کہ جس کی بنا پر یہاں سے جیسے اعزاز واکرام کے ساتھ رخصت کیا گیا ہے، وہاں بھی اسی اعزاز وراحت کا معاملہ کیا جائے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اہتمامِ سنت، ہر معاملہ میں سنتوں پر عمل کرے تو ان شاء اللہ! اس کی برکت سے وہاں بھی اکرام واعزاز کا معاملہ ہوگا ۔ (مجالس محی السنة ص:۱۱۸)
سفرِ آخرت کیسے عزت وراحت سے ہو؟
سفر میں آدمی یا تو عزت کے ساتھ جائے گا یا ذلت کے ساتھ، آرام سے جائے گا یا تکلیف سے۔ ایک شخص سفر کرتا ہے، بھیڑہے، اب کیا کرے؟ جگہ نہیں ملتی، کھڑا کھڑا جارہا ہے، تکلیف سے جارہا ہے،اور ایک شخص ہے جس نے ریزرویشن پہلے سے کرالیا ہے، وہ آرام سے بیٹھ کر لیٹ کر جارہا ہے۔ نیز سفر میں دیر سے پہنچے گا یا جلدی پہنچے گا۔ ایک پیدل جارہا ہے، ایک ریل سے جارہا ہے تو دیر لگے گی اور ایک ایکسپریس سے جارہا ہے تو جلدی پہنچے گا، جیسا انسان کا ٹکٹ ہوتا ہے، ویسا ہی اس کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے۔ دنیا کا سفر جو ہے آخرت کے سفر کی طرح ہے۔ جب میدان محشر قائم ہوگا، اس میں حساب وکتاب ہوگا تو یا تو آرام کی زندگی ہوگی یا پھر مشقت اور تکلیف کی زندگی ہوگی، بھائی! جیسا ٹکٹ ہوگا، ویسا ہی معاملہ ہوگا۔ اس لئے انسان کو اچھے اعمال کا اہتمام کرنا چاہئے، اسی کا دوسرا نام ہے اہتمامِ سنت، سنت کا جتنا اہتمام ہوگا، اس پر جتنا عمل ہوگا، تو پھر ان شاء اللہ سارا معاملہ آسان ہو جائے گا۔ (مجالس محی السنة ص:۶۷)
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۲ھ -اگست: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: مغرب کی اذان کے بعد وقفہ !
Flag Counter