Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ -اگست ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

7 - 13
نماز باجماعت کی اہمیت وفضیلت قرآن وحدیث کی روشنی میں !
نماز باجماعت کی اہمیت وفضیلت قرآن وحدیث کی روشنی میں

ہر انسان جب کلمہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے ایمان کی شہادت دیتا ہے اور جنت کے بدلے اپنی جان ومال کا سودا کرتا ہے، اس وقت سے وہ اللہ تعالیٰ کا غلام ہے اور اس کی جان ومال اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اب اس پر زندگی کے آخری سانس تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔ اس معاہدہ کے بعد جو سب سے پہلا حکم اللہ تعالیٰ کا اس پر عائد ہوتا ہے، وہ پانچ وقت کی نماز قائم کرنا ہے۔ ایک عاجز اور محتاج بندے کی اس سے بڑی اور کیا خوش نصیبی ہوسکتی ہے کہ اذان کے ذریعے شہنشاہ کی طرف سے پکار آئے اور مالک کائنات اس کو اپنے گھر میں آنے کا شرف بخشیں اور اس کو اپنا قرب وتعلق عطا فرمائیں؟!۔
اسلام خدا کا آخری اور مکمل دین ہے۔ اس کے سارے احکامات بہت گہری حکمتوں اور بے شمار فوائد پر مبنی ہیں، اس کا ایک حکم بھی بے مقصد اور فضول نہیں ہے۔ پھر نماز تو اسلام کا اتنا اہم فریضہ ہے کہ اس کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا نہایت ضروری ہے، بغیر عذرِ شرعی کے جماعت کو ترک کرنا سخت گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سینکڑوں آیات میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار احادیث میں اس کی ادائیگی اور پابندی کا حکم دیا ہے اور جماعت کا اہتمام نہ کرنے والوں کے لئے بڑی سخت وعیدیں قرآن پاک واحادیث میں صراحةً مذکور ہیں۔بطور نمونہ چند آیات اور احادیث ملاحظہ ہوں:ارشاد ربانی ہے:
”وَاَٴقِیْمُوْا الصَّلوٰةَ وَاٰتُوْا الزَّکوٰةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ“۔ (البقرہ:۶۹)
ترجمہ:۔”اور قائم رکھو نماز اور دیا کرو زکوٰة اور جھکو (نماز میں) جھکنے والوں کے ساتھ“۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں:
”یعنی باجماعت نماز پڑھاکرو۔ پہلے کسی دین میں باجماعت نماز نہیں تھی اور یہود کی نماز میں رکوع نہ تھا۔ خلاصہ آیت کا یہ ہوا کہ صرف امور مذکورہ بالانجات کے لئے تم کو کافی نہیں، بلکہ تمام اصول میں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو اور نماز بھی ان کے طور پر پڑھو، جس میں جماعت بھی ہو اور رکوع بھی۔ (تفسیر عثمانی،ج:۱، ص:۸۵)
نماز کا حکم اور اس کا فرض ہونا تو لفظ ”اَٴقِیْمُوْا الصَّلوٰةَ“ سے معلوم ہوچکا تھا، اس جگہ ”مَعَ الرَّاکِعِیْنَ“ کے لفظ سے نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
یہ حکم کس درجے کا ہے؟ اس میں علماء وفقہاء کا اختلاف ہے، ایک جماعت صحابہ وتابعین اور فقہاء امت کی جماعت کو واجب قرار دیتی ہے اور اس کے چھوڑنے کو سخت گناہ سمجھتی ہے۔ اور بعض صحابہ کرام تو اس نماز ہی کو جائز قرار نہیں دیتے جو بلاعذر شرعی کے بدون جماعت پڑھی جائے۔ یہ آیت ظاہری الفاظ کے اعتبار سے ان حضرات کی حجت ہے جو وجوبِ جماعت کے قائل ہیں۔ (معارف القرآن ج:۱، ص:۲۱۷)سورة النساء میں جہاں صلوة الخوف کی نماز کا ذکر ہے، وہاں یہ حکم واضح طور پر ہے کہ:
”وَإِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَأَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلوٰةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْہُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْٴخُذُوْا اَٴسْلِحَتَہُمْ“۔ (النساء:۱۰۲)
ترجمہ:۔”اور جب تم ان میں موجود ہو، پھر نماز میں کھڑاکرے تو چاہئے ایک جماعت ان کی کھڑی ہو تیرے ساتھ اور ساتھ لے لیویں اپنے ہتھیار“۔ (ترجمہٴ شیخ الہند)
جماعت کی اہمیت اور تاکید اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ ایسے نازک موقع پر جہاں جان کی بازی لگی ہو، موت سر پر کھڑی ہو اور لڑائی کا بازار گرم ہو، وہاں بھی جماعت کے قائم کرنے کا حکم دیا جارہا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ ایک جماعت ہو، لشکر کے دو حصے کردیئے جائیں، امام ایک حصے کو لے کر میدان سے ہٹ جائے اور آدھی نماز اس کے ساتھ پڑھے، یہ حصہ دشمن کے مقابلے میں چلاجائے اور امام بیٹھا ہوا دوسرے حصے کا انتظار کرے، جب دوسرا حصہ آجائے تو بقیہ نماز اس کے ساتھ پڑھ کر امام سلام پھیردے اور یہ دونوں حصے اپنی نماز پوری کرلیں۔محض جماعت کے لئے، بلکہ اس لئے بھی کہ دومرتبہ جماعت نہ ہو، نمازکے اندر چلنا، پھرنا، قبلہ کی طرف سے ہٹ جانا، بوقت ضرورت نماز ہی کے اندر لڑنا، امام کا متبوع ہونے کے بجائے تابع ہونا، یعنی مقتدیوں کے انتظار میں آدھی نماز پڑھ کر بیٹھا رہنا، ان سب امورکو جائز قرار دیا گیا، مگر اس کی اجازت نہ ملی کہ جماعت چھوڑ کر تنہا نماز پڑھ لی جائے، اس سے جماعت کی جو بے انتہاء تاکید اور اہمیت معلوم ہوتی ہے، وہ بخوبی واضح ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں ان مؤمنین کی خاص صفات بیان کی گئی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نور ہدایت کے خاص مورد اور مسجدوں کو آباد رکھنے والے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”رِجَالٌ لاَّتُلْہِیْہِمْ تِجَارَةٌ وَّلاَبَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللهِ وَإِقَامِ الصَّلٰوةِ“۔ (النور:۳۷)
ترجمہ:۔”وہ مرد نہیں غافل ہوتے سودا کرنے میں اور نہ بیچنے میں اللہ کی یاد سے اور نماز قائم رکھنے سے“۔ (ترجمہٴ شیخ الہند)
یعنی معاش کے دھندے ان کو اللہ کی یاد اور احکام الٰہیہ کی بجا آوری سے غافل نہیں کرتے، بڑے سے بڑا بیوپار یا معمولی خرید وفروخت، کوئی چیز خدا کے ذکر سے نہیں روکتی، صحابہ کرام کی یہی شان تھی۔ (تفسیر عثمانی ج:۲،ص:۱۸۹)
تفسیر ابن کثیر میں منقول ہے کہ یہاں ذکر سے جماعت کی نماز مراد ہے، مزید لکھتے ہیں کہ: ایک بار حضرت عبد اللہ ابن مسعود  نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ اذان ہوتے ہی خرید وفروخت بند کرکے نماز کے لئے چل دیئے ہیں، آپ نے یہ دیکھ کر فرمایا: یہی لوگ ہیں جن کو حق تعالیٰ شانہ نے ”رجال الله“ سے یاد فرمایا ہے۔ ( تفسیر ابن کثیر ج:۲،ص:۲۹۵)
ان آیات کے علاوہ احادیث سے بھی نماز کا باجماعت واجب ہونا سمجھا جاتا ہے، ایک حدیث میں ہے:
”لاصلوة لجار المسجد الا فی المسجد“۔ ( ابوداؤد)
مسجد کی نماز سے ظاہر ہے کہ جماعت کی نماز مراد ہے تو الفاظ حدیث سے یہ مطلب نکلا کہ مسجد کے قریب رہنے والے کی نماز بغیر جماعت کے جائز نہیں ، محدثین کرام اس کا یہ مطلب قرار دیتے ہیں کہ یہ نماز(جو بغیر جماعت کے پڑھی گئی) کامل اور مقبول نہیں۔
جماعت کی اہمیت اور ضرورت کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کا بیان بہت واضح اور کافی ہے، جس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔:فقیہ الامت حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا کہ:
” جو شخص یہ چاہتا ہو کہ کل (محشر میں) اللہ تعالیٰ سے مسلمان ہونے کی حالت میں ملے تو اس کو چاہیئے کہ ان (پانچ) نمازوں کے ادا کرنے کی پابندی اس جگہ کرے جہاں اذان دی جاتی ہے (یعنی مسجد) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ ہدایت کے طریقے بتلائے ہیں اور ان پانچ نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا انہی” سنن ہدیٰ “میں سے ہے اور اگر تم نے یہ نمازیں اپنے گھر میں پڑھ لیں، جیسے یہ جماعت سے الگ رہنے والا اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہے (کسی شخص کی طرف اشارہ کرکے فرمایا) تو تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر تم نے اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کوچھوڑ دیا تو تم گمراہ ہو جاؤگے (اور جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح پاکی حاصل کرے) پھر کسی مسجد کا رخ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہرقدم پر نیکی اس کے نامہٴ اعمال میں درج فرماتے ہیں اور اس کا ایک درجہ بڑھادیتے ہیں اور ایک گناہ معاف کردیتے ہیں اور ہم نے اپنے مجمع کو ایسا پایا ہے کہ منافق بیّن النفاق(یعنی کھلے منافق) کے سوا کوئی آدمی جماعت سے الگ نماز نہ پڑھتا تھا، یہاں تک کہ بعض حضرات کو عذر اور بیماری میں بھی دو آدمیوں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسجد میں لایا جاتا تھا اور صف میں کھڑا کردیا جاتا تھا“۔
اس بیان میں جس طرح باجماعت نماز کی پوری اہمیت وضرورت کا ذکر ہے، اسی کے ساتھ اس کا یہ درجہ بھی بیان فرمادیا کہ وہ ”سننِ ہدیٰ“ میں سے ہے، جس کو فقہاء کرام ”سنتِ مؤکدہ“ کہتے ہیں، چنانچہ اگر کوئی شخص شرعی عذر مثلاً مرض وغیرہ کے بغیر تنہا نماز پڑھ لے اور جماعت میں شریک نہ ہو تو اس کی نماز تو ہو جائے گی، مگر ”سنت مؤکدہ “کے ترک کی وجہ سے مستحقِ عتاب ہوگا اور اگر ترک جماعت کی عادت بنالے تو سخت گنہگار ہوگا۔ (معارف القرآن ج:۱،ص:۲۱۷) مسجد مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اور عبادت الٰہی کا مرکز ہے، اس میں ادا کی جانے والی نماز کا اجر وثواب کسی دوسری جگہ پر ادا کی جانے والی نماز کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثواب کے اعتبار سے مساجد کے مراتب بھی بتلائے ہیں،جیساکہ حدیث میں ہے:
عن انس بن مالک قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: ”صلوة الرجل فی بیتہ بصلوة، وصلوتہ فی مسجد القبائل بخمس وعشرین صلوة، وصلوتہ فی المسجد الذی یُجمّع فیہ بخمس مائة صلوة، وصلوتہ فی المسجد الاقصیٰ بخمسین الف صلوة وصلوتہ فی مسجدی بخمسین الف صلوة، وصلوتہ فی المسجد الحرام بمائة الف صلوة“۔ (ابن ماجہ، ص:۲۱۲، مکتبہ رحمانیہ)
ترجمہ:۔”حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے گھر پر نماز پڑھے تو صرف ایک نماز کا ثواب اس کو ملتا ہے اور محلہ کی مسجد میں پچیس گنا ثواب ملتا ہے اور جامع مسجد میں پانچ سوگنا ثواب زیادہ ملتا ہے اور بیت المقدس کی مسجد میں پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور میری مسجد(یعنی مسجد نبوی) میں پچاس ہزار کا ثواب ہے اور مکہ مکرمہ کی مسجد میں ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ہے“۔
جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں درجات کی ترقی اور فرشتوں کا دعا کرنا بھی ثابت ہے، جیساکہ روایت میں ہے کہ:
عن ابی ہریرة قال: ”قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: ”صلوة الرجل فی جماعة تضعف علی صلوتہ فی بیتہ وفی سوقہ خمساً وعشرین ضعفاً وذلک انہ اذا توضأ فأحسن الوضوء ثم خرج الی المسجد لایخرجہ الا الصلوة لم یخط خطوة الا رفعت لہ بہا درجة وحط عنہ بہا خطیئةً فاذا صلی لم تزل الملائکة تصلی علیہ مادام فی مصلاہ مالم یحدث اللہم صل علیہ اللہم ارحمہ ولایزال فی صلاتہا ما انتظر الصلوة“۔ (بخاری ،ج:۱،ص:۸۹)
ترجمہ:۔”حضرت ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:آدمی کی نماز باجماعت گھر یا بازار کی نماز سے پچیس درجہ بڑھ کر ہوتی ہے (یعنی ثواب کے اعتبار سے) کیونکہ جب کوئی شخص پورے طور پر وضوء کرکے مسجد کی طرف صرف نماز کے ارادے سے نکلتا ہے تو ہر قدم پر ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوجاتا ہے، پھر جب نماز سے فارغ ہوکر اسی جگہ بیٹھا رہتا ہے تو جب تک باوضوء بیٹھا رہے گا تو فرشتے اس کے لئے مغفرت ورحمت کی دعا کرتے ہیں اور جب تک وہ نماز کے انتظار میں رہتا ہے، نماز کا ثواب پاتارہتا ہے“۔
نوٹ:ایک دوسری حدیث میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں ستائیس درجہ کی زیادتی بتلائی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک جماعت کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا صحابی کو بھی گھر میں انفرادی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ:
” قال اتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجل اعمیٰ، فقال یا رسول الله! لیس لی قاعد یقودنی فی المسجد، فسأل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ان یرخص لہ یصلی فی بیتہ فرخص لہ، فلما ولی دعاہ، فقال: ہل تسمع النداء بالصلوة؟ قال نعم، قال: فأجب“۔ (مشکوٰة،ص:۹۵) ترجمہ:۔” نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک نابینا شخص نے حاضر ہوکر دریافت کیا کہ مجھے کوئی مسجد پہنچانے والا نہیں ہے (یعنی کیا ایسی حالت میں اس عذر کی وجہ سے تنہا نماز پڑھ سکتا ہوں؟) یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دیدی، مگر جب وہ شخص جانے لگا تو حضو صلی اللہ علیہ وسلمنے اسے بلاکر دریافت فرمایا کہ کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: تب تو تم کو جماعت میں حاضر ہونا چاہئے“۔ درحقیقت آج ہم دین کے ہر معاملے کو کم اور حقیر جان کر ترک کردیتے ہیں، اگر ہمیں صرف جماعت کی اہمیت کا ہی استحضار ہوجائے تو ہم ہر صورت میں جماعت کی شرکت کو لازم کرلیں اور کسی صورت میں بھی جماعت کے ترک کرنے کو تیار نہ ہوں، جیسے حضرت ابوامامہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے:
”عن ابی امامة ان النبیصلی اللہ علیہ وسلم قال:” لو یعلم ہذا المتخلف عن الصلوة فی الجماعة ما لہذا الماشی الیہا، لاتاہا حبواً علی یدیہ ورجلیہ“۔ (الترغیب، ص:۲۴۱)
ترجمہ:۔”حضرت ابوامامة سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جماعت سے پیچھے رہنے والے کو اگر جماعت کی طرف جانے کا ثواب معلوم ہوجائے تو وہ اپنے ہاتھوں اور پیروں پر گھسٹتا ہواآئے“۔
ہاتھ اور پاؤں پر گھسٹتے ہوئے آنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر چلنے کی بھی قوت وطاقت نہ ہو، تب بھی جماعت کا مخصوص اجر وثواب حاصل کرنے کے لئے گھسٹتا ہوا آئے اور جماعت میں شریک ہو۔ اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کی نماز کے اجر وثواب کو کس قدر اہمیت اور مبالغہ کے ساتھ بیان فرمایا ہے، کاش! ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر پورا یقین رکھتے اور اپنی سستی، کاہلی اور دنیوی اشغال واعذار کو جماعت کی شرکت کے لئے بہانہ نہ بناتے۔
اور یہ دینِ اسلام ہی کی جامعیت ہے کہ اگر کسی عمل میں تھوڑی سی مشقت اور تکلیف ہو تو وہ اس کے اجر وثواب کو بڑھا دیتی ہے، جیسے مدینہ منورہ میں آباد قبیلے ”بنو سلمہ“ کے متعلق آتا ہے کہ ان کے مکانات مسجد سے دور تھے، انہوں نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب ہی مکانات میں منتقل ہوجائیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو معلوم ہوا تو ارشاد فرمایا:
”یا بنی سلمة! دیارکم تکتب آثارکم، دیارکم تکتب آثارکم“۔ (مشکوٰة:۶۸)
ترجمہ:۔”اے بنو سلمہ! تم اپنے گھروں کو لازم پکڑو،تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں،تم اپنے گھروں کو لازم پکڑو، تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں“۔
یعنی درازئ مسافت سے شاکی ہوکر مسجد کے قریب منتقل نہ ہوں، کیونکہ تم طویل مسافت کے طے کرنے کے لئے جو قدم اٹھاتے ہو، ہر قدم محبوب ہوتا ہے اور اس پر اجر وثواب خدا کے ہاں لکھا جاتا ہے، قریب آجانے پر یہ فضیلت اور منفعت حاصل نہ ہوگی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلمنے صرف اپنے اقوال وارشادات سے ہی جماعت کی اہمیت وضرورت کو بیان نہیں فرمایا، بلکہ عملی طور پر خود اس قدر جماعت کا اہتمام فرمایا کہ ہمیشہ اس پر مواظبت اور مداومت فرمائی۔ مرض الوفات میں بھی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی کے حملے ہو رہے تھے، جماعت کا اتنا اہتمام تھا کہ جب ذرا ساافاقہ ہوا تو جماعت سے نماز ادا کرنے کے لئے دو شخصوں کے سہارے مسجد تشریف لے گئے اور نماز جماعت سے ادا فرمائی،بخاری میں حضرت عائشہ  کی روایت منقول ہے:
”لما ثقل النبی صلی اللہ علیہ وسلم واشتد وجعہ استاذن ازواجہ ان یمرّض فی بیتی فاذنّ لی فخرج بین رجلین تخطّ رجلاہ الارض وکان بین العباس وبین رجل اٰخر“۔
ترجمہ:۔”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گرانی ہوئی اور مرض بڑھ گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات سے اجازت چاہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیمار داری میرے گھر میں کی جائے، چنانچہ سب نے اجازت دیدی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اسی بیماری کی حالت میں) دوشخصوں کے سہارے (یعنی) حضرت عباس اور ایک دوسرے شخص کے ہمراہ زمین پر پاؤں گھسیٹتے ہوئے (جماعت سے نماز پڑھنے کے لئے) تشریف لے گئے“۔
اس واقعہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلمکا جماعت کے ساتھ انتہائی اہتمام اور شغف ظاہر ہے کہ اس شدید بیماری کی حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جماعت کا ترک گوارا نہ ہوا اور دوسروں کے سہارے جماعت میں تشریف لے گئے، ایک ہم لوگ ہیں کہ جو زبانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت والفت کا دعویٰ تو کرتے ہیں، لیکن محض آرام وراحت اور موسم گرما کا بہانہ کرکے صحت وتندرستی ہونے کے باوجود بھی اس اہم اور ضروری عمل کو نہایت بے توجہی وبے اعتنائی سے ترک کردیتے ہیں،حالانکہ نماز ہی وہ عبادت ہے جو مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا کرتی ہے۔ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے مسلمانوں میں دوسری چیزوں کے علاوہ اجتماعیت کا بھی جذبہ پیدا ہوتا ہے، اخوت و محبت، ہمدردی اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی روایت زندہ ہوتی ہے۔، جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں انسان کو اجتماعیت کا سبق سکھایاگیا ہے: سب نمازی ایک امام کے پیچھے ایک قبلہ کی طرف منہ کرکے ایک خدا کے سامنے جھک رہے ہوتے ہیں، معلوم ہوا کہ سب کا مقصد زندگی بھی ایک ہی ہے، اس مقصد کے حصول کے لئے سب کو مل جل کر رہنا ہوگا۔ جماعت کی نماز میں انسان کو مساوات کا سبق سکھایاگیا ہے: زبان ، رنگ، نسل کے اعتبار کو نیست ونابود کیا گیا ہے۔نیز جماعت کے منجملہ فوائد میں سے یہ فوائد بھی ہیں کہ پانچوں وقت مسلمان آپس میں ملیں گے، ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوں گے، میل ومحبت پیدا ہوگی، اتفاق واتحاد پیدا ہوگا، دوسروں کو دیکھ کر عبادت کا زیادہ شوق پیدا ہوگا، عبادت میں طبیعت لگے گی، اور یہ احساس پیدا ہوگا کہ سب مسلمان اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، نہ گورے کو کالے پر فضیلت ہے، نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے، جو شخص جس قدر متقی اور پرہیزگار ہوگا، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کا مقرب ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذان، روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
مسجدیں ہیں مرثیہ خواں نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازی نہ رہے
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۲ھ -اگست: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: اجتماعی شادیوں کی تقریب اور دلہوں ودلہنوں کے نام !
Flag Counter