Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۲ھ -جون ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

9 - 12
عالمِ انسانیت اور پیٹ کا مسئلہ !
عالمِ انسانیت اور پیٹ کا مسئلہ

کسی موسم کی اچانک اور غیر معمولی تبدیلی کمزور طبائع کے لئے ہیجان واضطراب کا باعث بن جاتی ہے، بعض کے لئے موت کا پیغام لاتی ہے اور بعض کے لئے مختلف امراض کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے، کسی مریض پر اگر بحرانی کیفیت طاری ہوجائے اور اس کی حالت دگرگوں نظر آنے لگے تو اس کے گھروالوں، تیمار داروں اور معالجوں کی توجہ ہر طرف سے ہٹ کر مریض پر جم جاتی ہے، وہ نہ صرف اپنا سب کاروبار بھول جاتے ہیں، بلکہ یہ حادثہ انہیں انسان کی طبعی ضروریات سے بھی غافل کردیتا ہے اور اہم سے اہم مشاغل ثانوی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں، بالکل یہی حال اس وقت عالمِ انسانیت کا ہے، وہ اپنی تمام خوبیوں کے باوجود پیدائشی طور پر کمزور طبیعت واقع ہوئی ہے۔ ”وَخُلِقَ الإِنْسَانُ ضَعِیْفاً“ مال وجاہ کی محبت اس کا موروثی مرض ہے، مادیت کے مختلف موسموں کی تبدیلی کے زیر اثر وہ ہمیشہ نت نئے امراض کا شکار رہا ہے اور ناپختہ عزمی تلون اور سپر اندازی اس کی فطرت بن کر رہ گئی ہے، ادھر کچھ مدت سے اسے ”شکمی حادثہ“ بھی پیش آگیا ہے، جس کے نتیجہ میں اس پر بحرانی کیفیت طاری ہے اور وہ موت وحیات کی کشمکش میں گرفتار ہے۔ انسانیت کے غمخواروں، تیمار داروں اور معالجوں کی تمام تر توجہات کا مرکز اس وقت ”مسئلہٴ شکم“ بنا ہوا ہے، چنانچہ آج کل تمام عالم میں عموماً اور دولتِ خدا داد پاکستان میں خصوصاً ”معاشی نظام“ کا ایک اچھا خاصا ہنگامہ برپا ہے، گویا دنیا میں دوسرا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا، اگر دینی سطح پر دیکھئے تو اسلام کے معاشی نظام ،تقسیم دولت، گردشِ دولت وغیرہ وغیرہ مسائل پر گرما گرم بحثیں ہیں اور اخبار وجرائد میں مضامین ومقالات کا ایک طومار نظر آتا ہے، اگر سیاست کے میدان میں آیئے تو ایک شور برپا ہے، کہیں مساوات کے نعرے ہیں، کہیں سوشلزم کی دہائی ہے، کہیں اسلام کی پیوند کاری ہے، کہیں مزدوروں کا نام استعمال کیا جارہا ہے، گویا تمام عالم میں صرف ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے پیٹ کا مسئلہ، اور دنیا کی ساری تگ ودو کا محور بس ایک پیٹ ہے۔
دوسری طرف سرمایہ داری نازک حالت میں ہے، سرمایہ دار سراسیمہ ہیں اور سرمایہ داروں کی حمایت کرنے والے حکمران بدحواس ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح جلد پیٹ کا مسئلہ حل ہو جائے تو انہیں سکون واطمینان کا سانس نصیب ہو۔
تیسری طرف جاہلیت کی علمبردار انقلابی پارٹیاں اور اسلامی ممالک میں ریشہ دوانی کرنے والی طاقتیں اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اور حکومتوں کے لئے مشکلات پیدا کررہی ہیں۔
بلاشبہ اس صورتِ حال کا اصلی سبب تو وہ سنگدلی اور بے رحمی ہے جو فقراء ومساکین کے ساتھ کی گئی ہے اور وہ غلط نظامِ حکومت ہے، جس نے رعایا کے پسماندہ افراد کی خبر گیری کے بجائے انہیں مختلف طریقوں سے استحصال کا نشانہ بنایا ہے اور ان سب سے بڑھ کر وہ بے ہودہ نظامِ معیشت ہے، جس نے بینکاری، قمار بازی اور ساہوکاری کے ذریعہ معاشرے کا توازن بگاڑ کر رکھ دیا، ایک طبقہ کو دولت کی فراوانی کا تخمہ (بدہضمی) ہے اور دوسری طرف عام طبقہ زندگی قائم رکھنے کے لئے بنیادی وسائل سے بھی محروم ہے، یہ صورتِ حال یقینا خدا فراموشی کی سزا ہے جو قوموں اور حکومتوں کو مل رہی ہے، لیکن بعض لیڈروں کے غلو کی بھی انتہاء ہوگئی ہے کہ انہیں تمام اسلام اور سارے قرآن کریم میں سوائے اس مادی نظام کے اور کچھ نظر ہی نہیں آتا، اس سلسلہ میں قرآن کریم کی آیات کی تحریف وتبدیل سے بھی یہ لوگ نہیں ڈرتے اور بلاخوف ِ تردید نہایت صفائی کے ساتھ قرآنی مفہومات اور حقائق کو مسخ کرکے آج کل کی نام نہاد ”مساوات“ کے دلائل پیش کئے جارہے ہیں ، کوئی سورہٴ نحل کی آیت:
”وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِیْ الرِّزْقِ فَمَا الَّذِینَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّیْ رِزْقِہِم عَلیٰ مَا مَلَکَتْ أَیمَانُہُمْ فَہُمْ فِیْہِ سَوَآءٌ“ (النحل:۷۱)
ترجمہ:۔”اور اللہ نے بڑائی دی تم میں ایک کو ایک پر روزی میں ،سو جن کو بڑائی دی وہ نہیں پہنچادیتے اپنی روزی ان کو جن کے مالک ان کے ہاتھ ہیں کہ وہ سب اس میں برابر ہوجائیں۔“
سے مساوات کے لئے استدلال کرتا ہے اور کوئی سورہٴ سجدہ کی آیت:
”وَقَدَّرَ فِیْہَآ أَقْوَاتَہَا فِیْ أَرْبَعَةِ أَیَّامٍ سَوَآءً لِّلسَّائِلِیْنَ“ (السجدہ:۱۰)
ترجمہ:۔”اورٹہرائیں اس میں خوراکیں اس کی چاردن میں پورا ہوا پوچھنے والوں کو“
میں تحریف کررہا ہے، حالانکہ پہلی آیت تفاضل اور عدمِ مساوات کے لئے نصِ صریح ہے اور دوسری آیت کا اس موضوع سے تعلق ہی نہیں۔ کوئی ”نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ“ ․․․․ہم نے بانٹ دی ہے ان میں روزی ان کی دنیا کی زندگانی میں․․․سے غلط استدلال کرکے مساوات کا نتیجہ نکال رہا ہے اور تعجب ہے کہ بعض مشاہیر اہلِ قلم بھی ان غلط فہمیوں میں بھٹک رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر حیرت کی بات یہ کہ بعض اہلِ حق کی جماعت سے وابستہ لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں۔
بلاشبہ معاشی اور مالی نظام عالم کون وفساد کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہے اور حق تعالیٰ نے معاشرے کے اس مادی نظام کی اصلاح کے لئے ایک مستقل رسول حضرت شعیب علیہ الصلاة والسلام جیسی جلیل القدر شخصیت کو مبعوث فرمایا ہے، جنہوں نے خرید وفروخت اور تجارتی لین دین میں ظالمانہ، غیر عادلانہ اور بے رحمانہ نظامِ معیشت کی اصلاح کے لئے پیغمبرانہ دعوت دی اور شاید تاریخِ انسانیت میں یہ سب سے پہلا ظالمانہ معاشرتی نظام تھا کہ آسمانی وحی کے ذریعہ اصلاح کی دعوت دی گئی اور اسے تسلیم نہ کرنے پر بارگاہِ قدس کی عدالت سے اس قوم کی تباہی کا فیصلہ کیاگیا، قرآن کریم کی ایک مستقل سورت کا موضوع ہی لین دین میں کمی اور نقصان کرنے والوں کی بدانجامی کا بیان کرنا ہے، میری مراد سورٴ تطفیف سے ہے۔
امام حجة الاسلام غزالی نے ”جواہر القرآن“ میں یہ بحث کی ہے کہ قرآن کریم نے تجارت اور بیع وشراء وغیرہ نظامِ معیشت کو اس لئے ذکر کیا ہے کہ نظامِ معاش جب تک قابلِ اطمینان نہ ہو تو فلاحِ معاد کی طرف توجہ مشکل ہوتی ہے، دینی خدمات کی انجام دہی کے لئے ضروری ہے کہ معاش ومعیشت کا نظم ونسق درست ہو، حجة الاسلام کے الفاظ یہ یاد پڑتے ہیں: ”ومالم ینتظم امر المعاش لایتم امر المعاد والتبتل الیہ تعالی“۔
اسی وجہ سے قرآنی ہدایات اور پیغاماتِ ربانیہ میں تجارت کو ”فضل“ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسی لئے سود اور سٹے، جوئے اور رشوت کو شدید طور پر حرام کردیا گیا ہے اور سخت ترین وعید سنادی گئی ہے اور دنیا وآخرت دونوں میں اس کے برے انجام پر متنبہ کردیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ حقوق العباد کی حفاظت کا یہ بنیادی نکتہ ہے، قرآن کریم جیسے آخری پیغامِ حیات میں اس پر کیونکر توجہ نہ دی جاتی؟ اور مستقبل میں جو مختلف نظامِ معیشت پیدا ہونے والے تھے، ان کی اصلاح کے بارے میں بنیادی ہدایات کو قرآن حکیم کیسے نظر انداز کرسکتا تھا؟ اور ان سے حق تعالی کا آخری پیغامِ نجات، دستورِ حیات، اور نظامِ ہدایت کیونکر خالی ہوسکتا تھا؟ فقراء ومساکین اور یتامیٰ کے لئے صدقات وعشر اور خیرات وانفاق کا عظیم الشان نظام نازل فرمایا ہے، بلکہ زکوٰة وعشر کو مالی فریضہ اور عظیم الشان عبادت قرار دیا ہے، اس سے انکار کرنے کو کفر وارتداد کہا گیا ہے۔ ان فرض وواجب صدقات کے علاوہ عام خیرات وانفاق کے لئے ترغیب دلائی ہے، ان کے لئے آخرت کے اجر وثواب اور جنتِ نعیم کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔ کیا دنیا کا کوئی بھی نظامِ معیشت آسمانی ہو یا غیر آسمانی اسلام کے اس حیرت انگیزنظامِ مواسات کی ہمسری کا دعویٰ کرسکتا ہے؟ کیا دنیا کا کوئی نظام ایسا ہے جس نے غریبوں ، کسانوں اور مزدوروں کا مسئلہ پیدا ہی نہ ہونے دیا ہو؟۔
معاشی علوم ہوں یا معیشت کے نکات، اقتصادی نظام ہو یا مال ودولت کمانے کا نظم، قرآن کریم کا دامن اس سے متعلق ہدایات سے لبریز ہے۔یہ حقائق سب صحیح، سب درست ہیں، کسی کو مجال انکار نہیں، لیکن اسلام کو موجودہ معاشی تحریکوں پر منطبق کرنا، اس کی سراسرمادی تعبیریں کرنا اور کھینچ تان کر نصوص سے وہی کچھ منوانا جو آج کے معاشییّن کہتے ہیں، بدترین غلطی اور مقاماتِ نبوت سے بے خبری کی دلیل ہے۔ وحی الٰہی اور نبوت ورسالت کا حقیقی منصب ان حقائقِ الٰہیہ کو بیان کرنا ہے، جن کے ادراک سے انسانی عقول قاصر ہیں، جہاں تک نہ عقلِ افلاطون پہنچی ہے، نہ ارسطو کا فلسفہ، نہ یونان کے حکماء پہنچے ہیں، نہ روما کے قانون دان ، نہ مارکس کو اس کی ہوالگی ہے نہ لینن کو۔
قرآن کریم کیا ہے؟
قرآن کریم تذکیر وموعظت کی کتاب ہے، مابعد الطبیعات کے ربانی حقائق ، حق تعالی کی ذات وصفات اور اس کی قدرتِ جلال وجمال کا مرقع ہے، جنت، دوزخ، ملائکہ، حشر اجساد، معاد، قیامت کی تفصیلات، مابعد الممات کے احوال، برزخ کے واقعات، عبادات وطاعات کے اصول ومہمات کی عظیم الشان دستاویز ہے، حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول وعمل سے ان رموز واشارات کی شرح اور ان مجمل ہدایات کی تفصیل فرمائی ہے، چنانچہ قرآن وحدیث اور کتاب وسنت دونوں لازم وملزوم ہیں، دونوں میں تفریق کا امکان نہیں، البتہ حدیث جاننے اور پرکھنے کے لئے فن کی اعلیٰ مہارت چاہیئے اور یہی حال قرآن کریم کا بھی ہے، جتنا اونچا کلام ہوگا، اس کے سمجھنے میں اتنی ہی دقت ہوگی، ناقصین نے جب بھی دخل دیا، الحاد وتحریف دنیا کے سامنے آئی۔
بہرحال قرآن وحدیث کی تعلیم کا نقطہٴ آغاز وہ اساسی وبنیادی عقائد وحقائق ہیں جو ہزاروں سال سرمارنے کے باوجود عقل مجرد کی گرفت میں نہیں آسکتے، پھر اس کی جامعیت کا یہ حال ہے کہ تمام احکامِ الٰہیہ خواہ عبادات ہوں یا معاملات، انفرادی مسائل ہوں یا اجتماعی،راعی کے مسائل ہوں یارعیت کے، معاشرت کے آداب ہوں یا تجارت کے اصول، الغرض زندگی کا کوئی گوشہ اور کوئی موضوع ایسا نہیں جسے کتاب وسنت نے بیان نہ کیا ہو، اور اسلام کی ہر نوع کی تعلیمات میں ایسی متانت ورزانت اور اعتدال ومیانہ روی ہے کہ عصرِ حاضر کی نام نہاد اصلاحی تحریکیں اس کی گرد کو بھی نہیں پاسکتیں، قرآن کریم اگرچہ جدید اصطلاح میں دستور یاقانون کی کتاب نہیں ہے، جسے عنوانات ودفعات پر مرتب کیا گیا ہو، لیکن اس میں انسانیت کے تمام ہمہ گیر مسائل کی طرف اصولی اشارات دیئے گئے ہیں، جو آنحضرت ا کی سنت مبارکہ اور سیرت طیبہ میں متشکل ہوکر سامنے آتے ہیں، خلافت راشدہ کی تشریحات اور فقہاء امت کی تنقیحات کے بعد وہ ایسا کامل ومکمل دستور ہے کہ دنیا کا کوئی دستور نہ اس کی ہمسری کرسکا ہے، نہ کرسکے گا۔
واضح رہے کہ قرآن کریم کے ارشادات وتعلیمِ نبوت کے دوحصے ہیں: ایک حصہ تو ان شرعی احکامات کا ہے جن کا درجہ قانون کا ہے، اس میں کوتاہی کرنے پر نہ صرف یہ کہ ”اسلامی حکومت“ گرفت کرسکتی ہے بلکہ ایسا شخص شرعی اصطلاح میں عاصی اور گنہگار بھی ہے، جس کے لئے آخرت کی سزا وعقوبت کی دھمکی دی گئی ہے۔ زکوٰة وعشر، صدقہٴ فطر اور دیگر صدقاتِ واجبہ اسی شعبہ میں داخل ہیں۔ دوسرا حصہ اخلاقی ترغیبات کاہے، ان کا درجہ قانون کا نہیں، بلکہ اخلاقی فضیلت کا ہے، انفاق فی سبیل اللہ کا ایک بڑا حصہ دوسری قسم سے وابستہ ہے۔ آج کل بہت سے نااہل قرآن کریم میں غور کرتے ہوئے ان دونوں حصوں کو باہم ملا دیتے ہیں، یہی وہ خلطِ مبحث ہے جو ان کی خامی ونااہلی کی دلیل ہے، آج کل معاشی مسائل میں یہ خلط مبحث انتہاء کو پہنچ گیا ہے۔ ان دوحصوں کو الگ سمجھنے کے لئے عہد نبوت کی عملی زندگی، آنحضرت ا کی سیرت مقدسہ اور پھر خلافتِ راشدہ کے دور میں ان قوانین ومسائل کی تشکیل سے دونوں کا امتیاز واضح ہو جاتا ہے۔
غزوہٴ تبوک میں عسرت وتنگدستی عام تھی، دور دراز کا سفر تھا، ایک منظم طاقت سے مقابلہ تھا اور جزیرة العرب سے باہر جاکر جہاد کرنا تھا، ایسے نازک موقع پر بھی حضرت رسول اللہ ا نے کسی مالدار سے جبراً کوئی استحصال نہیں کیا، بلکہ صرف ترغیب دی۔ اعلان کردیا، جنت ومغفرت کے وعدے سنا دیئے، فرمایا: ”من یجہز جیش العسرة اضمن لہ الجنة“ چونکہ قلوب کی اصلاح ہوچکی تھی، اس لئے ہر شخص نے اپنی ہمت واستطاعت کے مطابق جتنا چاہا برضا ورغبت پیش کردیا اور ضرورت پوری ہوگئی، یہی طرز ومعاملہ تمام اسلامی ادوار میں رہا، بعد کے بعض ادوار میں ایسے واقعات ضرور پیش آئے، جبکہ تاتاریوں کا سیلاب آیا تو بعض ممالک میں ان کے مقابلہ کے لئے بیت المال کا خزانہ کافی نہ تھا، اس وقت علماء نے فتویٰ دیا کہ جہاں ایسی صورت پیش آئے کہ بیت المال کا خزانہ کافی نہ ہو اور تمام اونچے مناصب والوں کی اعانت بھی کافی نہ ہو تو عوام سے ان کے فاضل اموال لئے جاسکتے ہیں، لیکن یہ حق بھی ان اسلامی حکمرانوں کو ہوتا ہے جو اسلامی قوانین ملک میں نافذ کرچکے ہوں اور اسلامی حکومت صحیح معنی میں اسلامی حکومت ہو، جس کی سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ معاملات وحقوق میں پورے کا پورا اسلامی قانون نافذ کرے، شرعی تعزیرات وحدود کا اجراء کرے اور معاشرے کوکتاب وسنت کا پابند بنائے۔ اسلامی سلطنت کے سربراہ کو یہ حق حاصل ہے کہ ملک کے فقراء ومساکین کی کفالت یا ریاست کی دفاعی ضروریات کے لئے اگر بیت المال کی رقم ناکافی ہو تو اغنیاء سے ترغیبی چندہ اور قرضہٴ حسنہ لے اور اگر اس سے بھی ضرورت پوری نہ ہو اور اربابِ دولت وثروت بخل سے کام لیں اور وہ رضا کارانہ طور پر دینے کے لئے آمادہ نہ ہوں تو ان سے زبردستی وصول کرے تا آنکہ وہ ہنگامی ضرورت پوری ہوجائے، ہمارا خیال ہے کہ کسی صحیح اسلامی معاشرہ میں یہ نوبت آہی نہیں سکتی۔
اس شدید وقتی تقاضے کے پیشِ نظر مدرسہ عربیہ اسلامیہ (حال جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن )نے چاہا کہ علمی انداز سے اسلامی معاشیات پر ایک مفصل کتاب مدون ہوجائے، جو قرآن واحادیث وفقہاء ِ امت کے ارشادات اور تاریخِ اسلام کی روشنی میں مرتب ہو، جس میں نہ خدا فراموش سوشلزم یا کمیونزم کے جراثیم ہوں، نہ دین فراموش سنگدل سرمایہ دارانہ ذہنیت کار فرما ہو، اس کے لئے ضرورت تھی کہ چند مستند علماء ایک جگہ بیٹھ کر اس کام کا خاکہ تیار کریں، چنانچہ پہلے مرحلہ پر جن حضرات کو جمع کیا گیا، راقم الحروف کے علاوہ ان کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں:
مولانا مفتی ولی حسن صاحب، مولانا مفتی رشید احمد صاحب، مولانا مفتی محمود صاحب (ملتان) مولانا محمد رفیع صاحب مدرس دارالعلوم کراچی، مولانا محمد تقی صاحب مدرس دارالعلوم ومدیر البلاغ، جناب محمد اقبال صاحب ایڈوکیٹ۔اس اجتماع میں مزارعت، احیاءِ موات اور زمینی مسائل سے متعلق ایک مختصر خاکہ تیار کیا گیا تھا، جس کی حیثیت بھی صرف استفتاء ہی کی ہوسکتی ہے، نہ اس کی کتابی تدوین وترتیب تھی، نہ وہ آخری رائے تھی، بلکہ ناتمام خاکہ تھا سائیکلوسٹائل کرکے شائع کیا گیا تھا، تاکہ اسے علماء کے پاس بھیجا جاسکے اور اس کی اشاعت کی غرض بھی یہی تھی، لیکن خود غرض حضرات نے اس کو آخری فیصلہ سمجھا، اس سے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرنے لگے، یہ جلد بازی ہے۔ دوسرے مرحلے پر شرکاء مجلس کچھ کم ہوگئے اور کتاب کے مختلف ابواب تجویز کرکے کام تقسیم کردیا گیا اور حسب ذیل حضرات اس پر کام کررہے ہیں۔
۱…مولانا مفتی ولی حسن صاحب، مدرسہ عربیہ اسلامیہ (حال جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن )کراچی، ۲…مولانا محمد ادریس صاحب ، مدرسہ عربیہ اسلامیہ (حال جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن )کراچی، ۳…مولانا مفتی رشید احمد صاحب، اشرف المدارس کراچی، ۴…مولانا محمد تقی صاحب ، دارالعلوم کراچی۔
یہ کام جاری ہے، تکمیل تک نہیں پہنچا، حق تعالی جلد اس کی تکمیل کرائے، پھر بھی یہ آخری رائے نہ ہوگی، علماء کو تبصرہ وتنقید کا موقع دیا جائے گا، ہوسکتا ہے کہ جرح وتعدیل کے بعد اس کو آخری شکل دی جاسکے۔ ضرورت تھی کہ اس صورتِ حال کو واضح کردیا جائے، تاکہ بعض معاصر رسالوں میں جو ابتدائی خاکہ شائع ہوگیا ہے، اس کو علماء کی آخری رائے نہ سمجھا جائے۔ والله ولی التوفیق۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۲ھ -جون: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: شعر وشاعری اور محفل سماع کی حقیقت !
Flag Counter