Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۲ھ -جون ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

5 - 12
غلاموں سے متعلق اسلام کے رہنما احکام !
غلاموں سے متعلق اسلام کے رہنما احکام
(۱)
معاندینِ اسلام بالعموم ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کے رواج کو فروغ دیا اور نبی ا نے غلاموں کی حالتِ زار پر کوئی توجہ نہ دی۔ اسی وجہ سے عرب معاشرے میں غلاموں کی حالت انتہائی تشویش ناک ہوگئی تھی اور انہیں سماج میں لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ معترضین کا یہ اعتراض بھی اور دوسرے اعتراضات کی طرح بے وزن ہے اور حقیقت سے اس کا دور دور تک تعلق نہیں۔ غلامی اسلام کی پیداوار نہیں ہے۔ یہ ایک لعنت تھی جو صدیوں سے دنیا کے بیش ترممالک کی طرح مغرب میں بھی رائج تھی، کسی قدیم مذہب کے بانیوں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور نہ ان کی حالتِ زار پر غم کے آنسو بہائے۔ یہ اسلام کا کارنامہ ہے کہ اس نے ان کے واضح حقوق متعین کردیئے، جس کی وجہ سے معاشرہ میں ان کا قد بہت بلند ہوگیا۔
غلامی۔قبل از اسلام
کسی کی جسمانی طاقت کو اپنے آرام وآسائش یا راحت ومسرت کے لئے استعمال کرنے کی خواہش ہی غلامی کی بنیاد ہے۔ یہ خواہش اتنی ہی قدیم ہے جتنی فطرت انسانی۔ اس کے آثار ہر زمانے اور ہرقوم میں پائے گئے ہیں۔ اس کا بیج اس وقت پڑا جب انسانی معاشرہ وحشت کے مرحلے میں تھا اور اس وقت بھی پھلتا پھولتا رہا جب مادی تہذیب کی ترقی نے اس کی ضرورت کو رفع کردیا۔ یہ رجحان نہ صرف جنگی قیدیوں کے ساتھ خاص تھا، بلکہ کبھی کبھی طاقت ور قبیلہ اپنے سے کمزور قبیلہ کو ذاتی مفاد اور دادِ عیش کے لئے غلام بنالیتا تھا۔ راہ گیروں اور مسافروں کو بھی غلام بنائے جانے کی شہادت ملتی ہے۔ غربت وافلاس کے باعث والدین اپنی اولاد کو فروخت کردیتے تھے، اس کے نتیجے میں وہ غلام بن جاتا تھا۔ ایک مرتبہ کسی کی گردن میں غلامی کا طوق پڑگیا تو پھر وہ کبھی اس سے آزاد نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر کوئی اس سے آزاد ہونے کی کوشش بھی کرتا تو اسے اتنے سخت قوانین اور کٹھن مرحلوں سے گزرنا پڑتا کہ وہ اسی میں دب کررہ جاتا۔ انہیں کھانا تو ملتا تھا، مگر اتنا کہ اس کا رشتہ جسم وروح سے برقرار رہ سکے۔ یہ غلام اور لونڈیاں چاہے زمینوں کے کمیرے ہوں، چاہے گھروں کے خدمت گزار، ان سے نفرت کی جاتی تھی اور انہیں بازاروں میں بیچاجاتا تھا۔(۱) معمولی سی لغزش پر انہیں سخت سے سخت سزا دی جاتی تھی۔ تمام تمدنی اور معاشرتی حقوق سے وہ محروم تھے۔ سماجی زندگی میں بھی ان کا کوئی حصہ نہ تھا۔ روم سمیت دنیا کے دوسرے تمام ملکوں کے غلام بھی مظلومی اور بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ کہیں زیادہ تو کہیں ذرا ہلکے اور نسبتًا کم گھناؤ نے رویے کا شکار تھے۔ (۲)
اسلام میں غلامی کی حقیقت
پوری دنیا کی طرح عرب معاشرے میں بھی غلامی پوری طرح رچی بسی تھی۔ بڑی حد تک یہ معاشرے کی ناگزیر ضرورت بن چکی تھی۔ آئے دن کی لڑائی بھڑائی اس رواج کومزید تقویت پہنچا رہی تھی۔ ”مالِ مفت دل بے رحم“ کا چسکا ہر کسی کو لگ گیا تھا ۔ ان حالات میں اسلام اپنی جملہ خصوصیات کے ساتھ ظاہر ہوا، لہذا اس نے اسے فوری طور پر برداشت کیا، لیکن رائج خرابیوں کو رفع کرنے کی پوری کوشش کی۔ سید امیر علی اپنی کتاب ”روح اسلام“ میں لکھتے ہیں:
”اسلام کے بہت سے دستور جو بعد میں منسوخ ہوگئے، شروع شروع میں یا تو خاموشی سے جاری رہنے دیئے گئے یا اعلانیہ قانوناً تسلیم کر لئے گئے۔انہیں میں ایک غلامی کا دستور تھا۔ یہ ایک برائی تھی جو عربوں کے گہرے سے گہرے باہمی تعلقات کے تاروپود سے گندھی ہوئی تھی۔ اسے محو کرنے کا طریقہ یہ نہ تھا کہ جتنے غلام اس وقت موجود تھے، ان سب کو فی الفور آزادی دے دی جاتی، (جوکہ اخلاقی اور معاشی نقطہٴ نگاہ سے ناممکن تھا) بلکہ یہ کہ باحکمت اور انسانیت نواز قوانین کے ذریعے آہستہ آہستہ زائل کیا جاتا، چنانچہ بہت سے قوانین سلبی اور ایجابی بھی غلاموں کی آزادی کو رفتہ رفتہ وجود میں لانے کی خاطر وضع کئے گئے۔ اگر اس کے مخالف کوئی طریق عمل اختیار کیا جاتا تو نوزائیدہ جمہوریے کی عمارت زمیں بوس ہوجاتی“ ۔(۳)
عام لوگوں کے حالات پر غور وفکر کرنے کے بعد اس میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کے لئے اللہ کے رسول ا نے ہرممکن کوشش کی۔ دین کی اشاعت کا محور ومرکز بھی یہی تھا۔ اس طرح اللہ کے رسول کی نظر سماج کے کم زور طبقات پر بھی پڑی، آپ ا نے لوگوں کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کیا جائے، ان میں یہ غلام بھی تھے۔ آپ ا نے جس انداز اور فراخ دلی سے انہیں سماج میں بلند مقام ومرتبہ دلایا، ایک روشن حقیقت ہے۔ آپ ا نے ان کے حقوق کی بحالی کے لئے مختلف قسم کے قانون بنائے، تاکہ غلاموں کو آزادی دی جاسکے یا وہ از خود آزادی حاصل کرسکیں۔ حضورا کے وضع کردہ ضابطے اور قوانین کی وضاحت قدرے تفصیل سے درج ذیل سطور میں کی جارہی ہے۔
کسی آزاد کو غلام بنانے کی ممانعت
عہد نبوی ا میں اسلام پورے خطہٴ عرب میں پھیل چکا تھا۔ لیکن ایسی چنگاری اب بھی موجود تھی جو ذرا سی غفلت پر اسلام کی پوری عمارت کو یک لخت جلا کر بھسم کرسکتی تھی، اس لئے عہد نبوی یا اس کے قریبی زمانے میں بھی اسلام کے استحکام کے لئے مدافعانہ جنگیں ہوئیں۔ اسلام نے صرف ان قیدیوں کو غلام بنانے کی اجازت دی جو شرعی جنگ میں گرفتار ہوئے ہوں۔فرمایاگیا:
”فَإذَا لَقِیتُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا فَضَربَ الرّقَابِ حَتّی إذَا أثخَنتُمُوہُم فَشُدُّوا الوَثاَقَ فَإمَّا مَنَّا بَعدُ وَإمَّا فِدَآءً حَتّی تَضَعَ الحَربُ أَوزَارَہَا“۔ (سورہ محمد:۴)
ترجمہ:۔’پس جب ان کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو، تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اجازت ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کرلو، تاآں کہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے“۔
جنگوں کے علاوہ کسی کو زبردستی غلام بنانے کا جو رواج اور دستور تھا، اس کی اسلام نے بالکل اجازت نہیں دی۔آپ ا نے صاف لفظوں میں فرمایا:
”اللہ تعالیٰ روز قیامت تین آدمیوں سے جھگڑا کرے گا، ان میں سے ایک شخص وہ ہوگا جو کسی آزاد مسلمان کو غلام بناکر بیچ دے گا“ ۔(۴)
غلاموں کی آزادی پر اجر وثواب
اسلام کے ابتدائی عہد میں غلاموں کو بیک وقت آزاد بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن انفرادی طور پر مسلمانوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ اپنے غلاموں کو از خود آزاد کردیں تو عند اللہ وہ اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”وَلٰکِنَّ البِرّ مَن آمَنَ بِاللهِ وَالیَومِ الآخِرِ وَالمَلآئِکَةِ وَالکِتَابِ وَالنَّبِیّینَ وَاٰتٰی المَالَ عَلیٰ حُبّہ ذَوِی القُربیٰ وَالیَتَامیٰ وَالمَسَاکِینَ وَابنَ السَّبِیلِ وِالسَّائِلِینَ وَفِی الرّقَابِ وَأَقَامَ الصّلَاةَ وَآتیٰ الزّکَاةَ“۔ (البقرہ:۱۷۷)
ترجمہ:۔”بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لئے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے۔ نماز قائم کرے اور زکوٰة دے“۔
ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے:
”فَلَااقتَحَمَ العَقَبَةَ، وَمآ أدرٰکَ مَا العَقَبَةَ، فَکُّ رَقَبَةٍ أو إطعَام فِی یَومٍ ذِی مِسغَبَةٍ یَتِیماًذَا مَقرَبَةٍ أو مِسکِیناً ذَا مَترَبَةٍ“۔ (البلد:۱۱-۱۶)
ترجمہ:۔”مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا“۔
غلام اور لونڈیاں خدمت گاری اور منافع حاصل کرنے کے اہم ذرائع تھے۔ اس لئے مالک انہیں آسانی سے الگ کرنے کو تیار نہیں ہوسکتے تھے۔ اللہ کے رسول ا نے بڑے ہی حکیمانہ انداز میں انہیں غلاموں کی آزادی پر آمادہ کیا۔ آپ ا نے فرمایا:
”جو شخص کسی مسلمان غلام کو آزاد کردے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلہ میں اس آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو آتشِ دوزخ سے بچائے گا“۔ (۵)
اسی جذبہ کے تحت صحابہ کرام نے بڑی تعداد میں غلاموں کو آزاد کرنا شروع کردیا۔ بلکہ صحابہ کرام آخرت میں بلند مقام حاصل کرنے کے لئے اللہ کے رسول ا سے دریافت کرتے کہ غلام تو بہت سارے ہیں اور ان میں ہرقسم کے غلام ہیں، کس طرح کے غلام کو آزاد کرنے پر زیادہ ثواب ملے گا؟۔ صحابہ کرام کے اس جوشِ آزادی کو دیکھ کر آپ ا فرماتے:
”جو غلام تم کو سب سے زیادہ محبوب ہو اور جو غلاموں میں سب سے اچھا ہو“۔
قیدیوں اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید
ہجرت مدینہ کے بعد اسلام اور کفر کے درمیان بڑی بڑی جنگیں ہوئیں۔ ان میں بڑی تعداد میں دشمن کی فوج کو قید کیا گیا۔ باوجود اس کے آپ ا نے ان کی رہائی کی مختلف سبیلیں نکالیں۔ ابن قیم جوزی لکھتے ہیں: آپ ا نے جنگی قیدیوں میں سے بعض کو از راہِ احسان رہا کردیا، بعض کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا اور بعض کو قتل کروادیا اور بعض کو مسلمان قیدیوں کے عوض رہا کردیا گیا۔(۷) حسبِ تقاضائے مصلحت آپ ا نے یہ تمام صورتیں اختیار فرمائیں۔ جنگ بدر میں آپ ا کے چچا حضرت عباس گرفتار ہوئے تو بعض صحابہ نے کہا کہ انہیں یوں ہی رہا کردیاجائے یا فدیہ لینے میں ان کے ساتھ کچھ نرمی برتی جائے؟۔آپ ا نے فرمایا کہ: ایک درہم بھی نہ چھوڑا جائے۔(۸) اسی غزوہ میں آپ ا کے داماد یعنی حضرت زینب کے شوہر بھی گرفتار ہوئے۔ آپ ا کی بیٹی نے شوہر کی رہائی کے لئے قیمتی ہار روانہ کیا۔ حضورا کے کہنے پر صحابہ نے زینب کے شوہر کا فدیہ لئے بغیر انہیں اس شرط پر رہا کردیا کہ وہ مکہ جاکر حضرت زینب کوباعزت مدینہ روانہ کردیں گے۔ (۹) کچھ قیدی ایسے تھے جن کے پاس فدیہ ادا کرنے کے لئے کچھ نہ تھا۔ نبی ا نے ان کا فدیہ یہ مقرر کیا کہ وہ مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں اور آزادی حاصل کرلیں، (۱۰) اس سے معلوم ہوا کہ مال کے علاوہ کسی کام کو بھی فدیہ قرار دیاجاسکتا ہے۔ یہ سربراہ مملکت کی صواب دید پر ہے کہ وہ قیدیوں کے ساتھ کس طرح کا معاملہ کرے۔ بنوہوازن کے قیدیوں کو غنیمت کے طور پر صحابہ کرام میں تقسیم کردیا گیا، مگر جب ان لوگوں نے ان کی رہائی کی بات آپ ا کے سامنے رکھی تو آپ ا نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ انہیں واپس کردیا جائے۔ (۱۱)
حضورا نہیں چاہتے تھے کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنایاجائے۔ اگر کوئی ان کی رہائی کے بارے میں ذرا بھی پہل کرتا تو آپ ا آگے بڑھ کر آزاد کردیتے تھے۔ جو لوگ کسی طرح سے بھی آزادی حاصل کرنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے اور قیدیوں کا سردار بھی انہیں رہا نہ کروانا چاہتا تھا، انہیں آپ ا نے بہ شکل مجبوری غلام کی حیثیت سے مسلمانوں میں تقسیم کردیا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا۔ ان قیدیوں کے ساتھ صحابہ کرام بڑی شفقت ومہربانی سے پیش آتے تھے۔ خود روکھا کھانے پر اکتفا کرتے اور انہیں عمدہ کھانا فراہم کرتے تھے۔ ان قیدیوں میں بعض کا بیان ہے کہ مسلمانوں کے اس لطف وکرم کو دیکھ کر ہمیں غیرت آنے لگی تھی۔ (۱۲)
غلام بھی انسان تھے۔ حوادث زمانہ نے ان کے مقام ومعیار کو پست کردیا،اگر اسلام ان کے ساتھ ہمدردی نہ کرتا تو کون ان کی حالت زار پر آنسو بہاتا؟۔ چنانچہ اسلام نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ یہ تمہارے حسن سلوک کے محتاج ہیں۔ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”وَاعبُدُوا اللهَ وَلَاتُشرِکُوا بِہ شَیئاً وَبِالوَالِدَینِ إحسَاناً وَبِذِی القُربیٰ وَالیَتَامیٰ وَالمَسَاکِینِ وَالجَارِ ذِی القُربیٰ وَالجَارِ الجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنبِ وَابنِ السَّبِیل وَمَا مَلَکَت أیمَانُکُم إنَّ اللهَ لَایُحِبُّ مَن کَانَ مُختَالاً فَخُورًا“۔ (النساء:۳۶)
ترجمہ:۔”اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو،قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافروں سے، ان لونڈیوں اور غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو۔ یقین جانو اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے“۔
سیرت نبوی ا کا مطالعہ کریں تو جگہ جگہ ایسی مثالیں نظر سے گزرتی ہیں کہ آپ ا نے غلاموں کی حد درجہ توقیر فرمائی اور ان کے ساتھ شفقت ومحبت کا معاملہ کیا ہے۔ آپ ا کی محبت اس مظلوم طبقہ کے لئے اتنی گہری اور وسعت لئے ہوئے تھی کہ غلام ان کی جگہ اپنے والدین کی محبت کو ہیچ پاتے تھے، اس کی واضح مثال یہ ہے کہ حضرت زید بن حارثہ کو جب ان کے گھر والے لینے کے لئے آئے تو انہوں نے نبی ا کی محبت میں اپنے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ (۱۳)
حضور اکرم ا کو غلاموں کی ہر وقت فکر رہتی تھی کہ مبادا انہیں کوئی اذیت پہنچائے اور ان کی حق تلفی کرے۔ ہروقت آپ ا اپنے اصحاب کو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید فرماتے رہتے تھے، یہاں تک کہ مرض الموت کے وقت بھی صحابہ کرام کو نصیحت کرتے ہیں:
”نماز کو لازم پکڑو اور جو باندی اور غلام تمہارے قبضہ میں ہیں، ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو“۔(۱۴)
غلام کو غلام کہہ کر نہ پکارا جائے
اللہ کے رسول ا نے غلاموں کو ”غلام“ کہہ کر پکار نے سے بھی منع کیا ہے، اس میں حقارت کا جو پہلو مضمر ہے، وہ واضح ہے۔ آپ ا نے غلاموں کے لئے بڑے ہی خوب صورت القاب وضع کئے اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت فرمایا:
”تم میں سے کوئی ”میرا غلام“ یا میری ”باندی“ نہ کہے اور نہ غلام ”میرا رب“ کہے۔ مالک کو ”میرے بچے“ ، ”میری بچی“ کہنا چاہئے اور غلام کو چاہئے کہ ”میرا سردار“ یا ”سردارنی“کہے۔ کیوں کہ تم سب مملوک ہو اور رب تو سب کا اللہ تعالیٰ ہے“۔ (۱۵)
غلامی انسان کی فطرت میں داخل نہیں، یہ ایک اتفاقی حادثہ ہے۔ اسلام نے اس کی وجہ سے غلاموں کو دل برداشتہ ہونے سے روکا ہے اور ان کے لئے حوصلہ افزا الفاظ استعمال کئے ہیں۔ آج کی نام نہاد ومہذب قوم غلامی کی لعنت ختم کرنے کے باوجود اپنے ماتحت لوگوں کے ساتھ بڑا ہی اذیت ناک رویہ اختیار کرتی ہے اور انہیں کسی خاطر میں نہیں لاتی اور ان کے ساتھ جس زیادتی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اس کے ذکر سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جب کہ اسلام اپنے خادموں کو بھی گھر کا ایک فرد شمار کراتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں غلام اپنے لئے آزادی کی بجائے غلامی کو ہی پسند کرتے تھے، وہ جانتے تھے کہ آزادی کے بعد انہیں وہ حمایت نہیں مل سکے گی اور اس استحسان کی نظر سے محروم ہوجائیں گے جو انہیں غلامی کی حالت میں حاصل ہے۔ آزادی کے بعد وہ خود ذمہ دار ہوں گے، جب کہ غلامی کی صورت میں معاشرہ ان کا محافظ ہے۔
غلاموں کو مارنے کی ممانعت اور آزاد کردینے کا حکم
غلاموں سے بھی اگر کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو انہیں زدوکوب کرنے کے بجائے معاف کردینا چاہئے۔ نبی اکرم ا نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے غلام کو مارے تو اللہ کو یاد کرلے۔ (۱۶) یعنی مارنے والا اللہ سے خوف کرے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے حضرت ابو مسعود  کسی بات پر اپنے غلام کو ماررہے تھے۔ حضور ا نے انہیں ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو فرمایا: جتنا تم کو اپنے غلام پر قابو ہے، اللہ اس سے زیادہ تم پر قدرت رکھتا ہے۔ حضرت ابو مسعود کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں نے اپنے غلام کو کبھی نہیں مارا۔ (۱۷) اس طرح کی بہت سی مثالیں کتب احادیث میں ملتی ہیں۔ غلاموں کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ غلاموں کو مارنے اور بلاوجہ ستانے میں یہ لوگ لذت محسوس کرتے تھے، یہاں تک کہ ایک خاص کھیل میں غلام آقا کے حکم سے ہارنے والے غلام کی بوٹی بوٹی کردیتا تھا اور تماشائی اس پر دادِ شجاعت دیتے تھے۔ (۱۸)
عمر بن الحکم اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اللہ کے رسول ا کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی لونڈی کے بارے میں عرض کیا کہ وہ میری بکریاں چراتی ہے۔ ایک دن ایک بکری گم ہوگئی۔ میں نے سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ بھیڑیے نے کھالیا۔ مجھے بہت افسوس ہوا،انسان ہی تھا، غصہ آگیا اور لونڈی کے چہرے پر تھپڑ ماردیا۔ کیا اسی آن اس کو آزاد کردوں؟ رسول ا نے اس کو بلاکر پوچھا: اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمان پر۔ پھرپوچھا: میں کون ہوں؟ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ا ہیں۔ رسول اللہا نے فرمایا: اس کو آزاد کردو۔ (۱۹)
ایک روایت میں ہے کہ ایک لونڈی حضرت عمر کے پاس آئی۔ اس کو اس کے مالک نے آگ سے جلا کر زخمی کردیا تھا، حضرت عمر نے اس کو آزاد کروادیا۔ (۲۰)
معاویہ بن سوید روایت کرتے ہیں کہ میرے گھر ایک غلام تھا، میں نے ا سکو مارا، پھر والد کے خوف سے گھر سے بھاگ گیا، ظہر کے وقت آیا اور والد کے پیچھے نماز پڑھی۔ بعد نماز والد نے مجھ کو اور غلام کو بلایا، غلام کو حکم دیا کہ تم اپنا بدلہ لے لو، اس نے مجھ کو معاف کردیا۔ اس کے بعد والد نے یہ واقعہ بیان کیا کہ رسول اللہ ا کے زمانے میں ہمارے خاند ان”بنی مقرن“ میں صرف ایک غلام تھا، ہم میں سے کسی نے اس کو ماردیا۔ رسول اللہ اکو معلوم ہوا تو آپ ا نے فرمایا: اس کو آزاد کردو۔ لوگوں نے عرض کیا: اس کے سوا ہمارے پاس اور کوئی خادم نہیں ہے۔ آپ ا نے فرمایا: اچھا، جب تک دوسرے خادم کا انتظام نہ ہوجائے اس سے کام لو، لیکن جیسے ہی انتظام ہوجائے، اس کو آزاد کردو۔(۲۱)
غلاموں کی غلطیوں کو معاف کردینا بڑے ہی اجر کا کام ہے
جس طرح ایک عام آدمی سے کوئی غلطی ہوسکتی ہے، اسی طرح غلاموں سے غلطیوں کا صادر ہونا کوئی مستبعد نہیں۔ مگر یہ منصفانہ بات نہیں کہ عام آدمیوں کی غلطیوں کو نظر انداز کردیا جائے اور غلاموں سے کوئی غلطی سرزد ہو تو تازیانے لگائے جائیں۔ نبی اکرم ا کی تعلیمات میں یہ وصف بھی نظر آتا ہے کہ آپ ا نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اگر غلام سے بھی کوئی غلطی ہوجائے تو اسے سزا دینے کے بجائے معاف کردیا جائے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضورا کی خدمت میں آیا اور دریافت کیا کہ ہم غلاموں کو کتنی بار معاف کردیا کریں؟ آپ ا اس کی بات سن کر خاموش رہے۔ اس نے پھر کہا کتنی مرتبہ اسے معاف کریں؟ آپ ا اب بھی خاموش رہے۔ جب اس نے تیسری بار یہی سوال کیا تو آپ ا نے فرمایا:”ہر روز ستر مرتبہ اسے اس کی غلطی پر معاف کردیا کرو“۔(۲۲)
کیا اسلام کے علاوہ کسی بھی مذہب یا شریعت نے اپنے غلام اور خادموں کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہوگا اور اپنے ماننے والوں سے کہا ہوگا کہ اسے اتنی بار معاف کردیا کرو؟ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ مالک کے لئے پنکھا جھلنے کے دوران اگر خادم کو ذرا سی اونگھ آگئی تو اسے اس گستاخی کی پاداش میں مارمار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔(۲۳)
آقا جو کھائے اور پہنے وہی اپنے غلاموں کو کھلائے اورپہنائے
دوسری قوموں کے لوگ اپنے غلاموں کو کھانے کے لئے بس اتنا ہی دیتے، جس سے ان کی سانس برقرار رہے اور ان سے مشقت کے کام اتنے لئے جاتے کہ وہ بے دم ہوکر رہ جاتے، لیکن یہ اسلام کا کارنامہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم اپنے غلاموں کو وہی کھلاؤ اور پہناؤ جو تم خود کھاتے اور پہنتے ہو۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول ا نے فرمایا:
”تمہارے بھائی تمہارے خدمت گارہیں، اللہ نے انہیں تمہارے ما تحت کردیا ہے، پس جس شخص کا بھائی اس کے ماتحت ہو، اسے چاہئے کہ جو چیز خود کھائے، اسی میں سے اسے بھی کھلائے اور جوپوشاک خود پہنے، ویسا ہی اسے بھی پہنائے اور ان پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈالے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور اگر ان کی طاقت سے زیادہ کام لیا جائے تو پھر ان کی مدد کردیا کرو“۔(۲۴)
ہرانسان الگ الگ خصوصیت اور صلاحیت کا حامل ہے۔ کوئی اپنی خوبیوں سے بہت جلد اپنے مالک کا محبوب بن جاتا ہے اور کوئی ایسا کرنے میں ناکام ہوتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے نفرت کی جائے اور اس کے ساتھ زیادتی کی جائے۔
غلاموں کے اندر بھی ایسا ہوسکتا ہے، اس کی بنا پر انہیں مارنا، پیٹنا نہیں چاہئیے اور نہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا چاہئے۔ آپ ا نے فرمایا:
”اور جو غلام تمہارے منشاء کے مطابق ہو، اس کو تم وہی کھلاؤ اور پہناؤ جو تم خود کھاتے اور پہنتے ہو اور جو غلام منشا کے برعکس ہو، اس کو بیچ دو اور اللہ کے بندوں کو عذاب نہ دو“۔(۲۵)
شارح مسلم علامہ نووی فرماتے ہیں: اس حدیث میں جو حکم دیا گیا ہے کہ مالک جو کھائے اور پہنے وہی غلام کو کھلائے اور پہنائے، یہ واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے، اس پر علماء کا اجماع ہے۔ واجب یہ ہے کہ رائج دستور کے مطابق اسے کھلائے اور پہنائے اور اس کی دیگر ضروریات کی تکمیل کی جائے اور اگر مالک اپنے تقویٰ یا بخل کی بنا پر رائج دستور یا معیار سے ہٹ کر زندگی گزاررہا ہے تو غلاموں کو اسے قبول کر لینے کے لئے مالک مجبور نہیں کرسکتا اور علماء کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ غلام کی طاقت سے زیادہ کام نہ لیا جائے اور اگر اس طرح کا بوجھ ڈالا جائے تو الگ سے اس کی مدد کر دی جائے۔ (۲۶)
غلاموں سے خدمت گاری کا کام لیا جاتا تھا اور یہی لوگ گھروں کے کام کاج انجام دیتے تھے، مگر ایسا بھی کیا جاتا کہ لوگ ان کے ”حق المحنت“ (مزدوری) فراموش کردیتے تھے۔ خود تو ان کے ہاتھ کا بنایا ہوا لذیذ کھانا کھاتے، مگر اس میں سے کچھ بھی غلاموں کو نہ دیتے۔ آپ ا نے ایسا کرنے سے منع فرمایا:
”جب تم لوگوں میں سے کسی کا خادم اس کے لئے کھانا تیار کرکے لائے تو چونکہ اس نے کھانے کی تیاری میں آگ کی گرمی اور دھوئیں کی تکلیف اٹھائی ہے، اس لئے اس کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھلانا چاہئے اور اگر کھانا کم ہو تو تب بھی اس کے ہاتھ پر ایک دو لقمے رکھ دینا چاہئے“۔(۲۷)
غلاموں کی تعلیم وتربیت پر اجر وثواب
اللہ کے رسول ا نے جس طرح مسلمانوں کے لئے اپنی اولاد کی تعلیم تربیت پر زور دیا اور اسے باعثِ اجر وثواب قرار دیا ہے، اسی طرح غلاموں کی تعلیم وتربیت پر بھی انہیں ابھارا ہے، تاکہ معاشرہ کو ان کے علم وہنر سے فائدہ پہنچے، چنانچہ آپ ا نے فرمایا:
”تین شخص ایسے ہیں جن کو دوہرے اجر ملیں گے۔ ایک وہ جو اپنی باندی کو تعلیم دے اور عمدہ تعلیم دے، اس کو ادب سکھائے اور خوب سکھائے اور اس کو آزاد کرکے خود اس سے نکاح کرلے۔ دوسرا وہ شخص ہے جو اہل کتاب تھا اور پھر اسلام لے آیا۔ تیسرا وہ شخص ہے جو اللہ کا حق ادا کرتا ہے اور سید کی خیر خواہی کرتا ہے“۔(۲۸)
حضور اکرم ا نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنتِ جحش سے کرائی، تاکہ ان کی معاونت سے کتاب وسنت کی تعلیم عام ہوسکے۔ (۲۹)
غلاموں کی شادی بیاہ کی ذمہ داری آقا پر ہے
غلاموں کی شادی کے سلسلے میں اسلام کا موقف یہ ہے کہ ان کی شادی کی فکر کریں۔ غلام اگر مرد ہے تو آقا اس کے حق میں جو بہتر سمجھے جائز حدود میں رہ کر اس کی شادی کرائے۔ اگر باندی ہے تو آقا اپنے تصرف میں رکھے یا اسے آزاد کرکے اس سے خود شادی کرلے یا دوسری جگہ کرادے۔ قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے:
”وَأنکِحُوا الأیَامٰی مِنکُم وَالصَّالِحِینَ مِن عِبَادِکُم وَإمَائِکُم إن یّکُونُوا فُقَرآءَ یُغنِہِمُ اللهُ مِن فَضلِہ“۔ (النور:۳۲)
ترجمہ:۔”تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کردو، اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا“۔
بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد مجرد زندگی گزارنے میں جو مفاسد ہیں، اسلام ان سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس لئے وہ جس طرح دوسرے لوگوں کو شادی کاحکم دیتا ہے، اسی طرح غلاموں کے لئے بھی شادی کو ناگزیر قرار دیتا ہے۔ زمانہٴ جاہلیت کے جراثیم بہرحال اس وقت تک عرب معاشرے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود تھے۔ اس لئے آقا پر ذمہ داری عائد کی کہ ان کی شادی کی فکر کریں اور اس میں حیلے بہانے تلاش نہ کریں۔ ایسی بھی شہادت ملتی ہے کہ لوگ اپنی مرضی سے اپنے غلاموں کی شادی تو کر دیتے تھے، مگر اپنے تصرف سے جب چاہا ان میں تفریق کرادی اور غلاموں کے لئے اس پر عمل کرنا ضروری ہو جاتا۔ آپ ا نے ایسا کرنے سے سختی سے منع کیا۔ (۳۰) ایک حدیث میں غلاموں کی شادی کی ترغیب دلاتے ہوئے اللہ کے رسول ا نے فرمایا:
”جس شخص کے پاس کوئی باندی ہو اور اس کی پرورش کرے اور اس کے ساتھ حسن معاشرت کرے، پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کرلے تو اس کو دو اجر ملیں گے“۔ (۳۱)
لیکن اسی کے ساتھ غلاموں کو بھی تاکید کی کہ جب تمہارے آقا تمہارے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتے تو تمہارے لئے یہ بھی لازم ہے کہ تم ان کی رضامندی کے بغیر ایسا کوئی کام نہ کرو جس سے ان کی دل شکنی ہو۔ اگر وہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس سے بازپرس ہوگی۔ (۳۲)
خطا اور گناہوں کے کفارہ میں غلاموں کی آزادی
اسلام نے غلاموں کی آزادی کی ایک صورت یہ نکالی کہ اگر کسی سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے یا کسی نے کسی کو غلطی سے قتل کردیا توبطور کفارہ غلام کو آزاد کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”وَمَن قَتَلَ مُؤمِناً خَطَاً فَتَحرِیرُ رَقَبَةٍ مُّؤمِنَةٍ وّدِیَة مُّسَلّمَة إلٰی أہلِہ“۔ (النساء:۹۲)
ترجمہ:۔”اور جو شخص کسی مؤمن کو غلطی سے قتل کردے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مؤمن کو غلامی سے آزاد کردے اور مقتول کے ورثا کو خون بہادے“۔
خون بہا کی ادائیگی کے ساتھ تحریر رقبہ کا حکم اپنے آپ میں بڑی معنویت کا حامل ہے۔ چونکہ قاتل نے ایک انسان کا قتل کیا ہے اور اس کی خدمات سے معاشرے کو محروم کردیا ہے، جب وہ ایک غلام کو آزاد کرتا ہے تو گویا اس نے کسی حد تک معاشرہ کو اس کا بدل فراہم کردیا۔ اب یہ غلام آزاد ہوکر اپنی صلاحیتوں سے معاشرے کی اس کمی کو پورا کرے گا۔ اسلام نے ہر اس موقع سے فائدہ اٹھایا جس سے انسانوں کے اس کم زور طبقہ کو آزادی کے حیات آفریں جذبہ سے بہرہ ور کرکے زندوں میں جگہ دی جائے۔ اسی طرح کسی نے کسی ذمی یا معاہد کو غلطی سے قتل کردیا تو وہاں بھی یہی حکم ہے کہ اس کے کفارہ میں غلام کو آزاد کیا جائے۔ (۳۳) قرآن کریم میں یہ حکم بصراحت موجود ہے:
”وَإن کَانَ مِن قَومٍ بَینَکُم وَبَینَہُم مِیثَاق فَدِیَة مُّسَلَّمَة إلٰی أہلِہ وَتَحرِیرُ رَقَبَةٍ مُّؤمِنَةٍ“۔ (النساء:۹۲)
ترجمہ:۔”اور اگر وہ کسی ایسی غیر مسلم قوم کا فرد تھا، جس سے تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو خون بہا دیا جائے گا اور ایک مؤمن غلام کو آزاد کرنا ہوگا“۔
بعض اور گناہوں کے کفارہ میں اللہ کے رسول ا نے حکم دیا کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے۔
قسم کے کفارہ میں غلاموں کی آزادی
کچھ لوگ بغیر سوچے سمجھے قسم کھا لیتے ہیں، پھر بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ اب اگر وہ اپنی قسم کو توڑنا چاہیں، یا جان بوجھ کر توڑ دیں تو اسلام اسے حکم دیتا ہے کہ کفارہ ادا کیا جائے گا۔ کفارہ میں وہ تین امور بالترتیب انجام دے سکتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”لَایُؤَاخِذُکُمُ اللهُ بِاللَّغوِ فِی أیمَانِکُم وَلٰکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأیمَانَ فَکَفَّارَتُہ إطعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِینَ مِن أوسَطِ مَا تُطعِمُونَ أہلِیکُم أو کِسوَتُہُم أو تَحرِیرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّم یِجِد فَصِیَامُ ثَلَاثَةِ أیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَةُ أیمَانِکُم إذَا حَلَفتُم وَاحفَظُوا أیمَانَکُم“ ۔(المائدہ:۸۹)
ترجمہ:۔”تم لوگ جو مہمل قسمیں کھالیتے ہو، ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا، مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو، ان پر وہ مواخذہ کرے گا۔ (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو اوسط درجہ کا کھانا کھلاؤ، جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑے پہناؤ یا ایک غلام آزادکرو اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تووہ تین دن کے روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے، جب کہ تم قسم کھاکر توڑ دو۔ اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو“۔
کفارہٴ صوم میں غلاموں کی آزادی
اگر کسی نے روزہ رکھا اور بغیر کسی شرعی عذر کے جان بوجھ کر اسے توڑ دیا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ غلام آزاد کرے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اللہ کے رسول ا ! میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا ہے، اب کیا حکم ہے؟ اللہ کے رسول ا نے فرمایا: تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے آزاد کرسکو؟ اس نے انکار کیا۔ پھر نبی کریم ا نے پوچھا :تم کیا پے در پے دو مہینے کا روزہ رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ آخر میں آپ ا نے ان سے پوچھا: تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی استطاعت رکھتے ہو؟ اس نے اس بارے میں بھی نفی میں جواب دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک آدمی کھجور کی ایک ٹوکری لے کرآیا، آپ ا نے اس آدمی کو عنایت کردیا اور فرمایا: اسے صدقہ کردو، اس نے کہا صدقہ کا مستحق مجھ سے زیادہ اور کون ہوسکتا ہے؟ اس پر رسول اللہا کو ہنسی آگئی اور آپ ا نے فرمایا: اسے اپنے گھر والوں کو کھلادو۔ (۳۴)
کفارہٴ ظہار میں غلاموں کی آزادی
کچھ لوگ غصے میں آکر اپنی بیوی کو ماں سے تشبیہ دے کر اپنے لئے حرام کر لیتے ہیں، یہ ”ظہار“ کہلاتا ہے۔ ایسا کرنے سے طلاق کی طرح بیوی اس کے نکاح سے تو نہیں نکل جاتی، البتہ فوری طور پر اس کے لئے حرام ہوجاتی ہے، اب اگر وہ اپنی حرام کی ہوئی بیوی کو حلال کرنا چاہے اور اس سے رجوع کرنا چاہے تو اسلام اس پر یہ شرط عائد کرتا ہے کہ وہ اس جرم کی پاداش میں کفارہ ادا کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”وَالَّذِینَ یُظَاہِرُونَ مِن نّسآئِہِم ثُمَّ یَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحرِیرُ رَقَبَةٍ مّن قَبلِ أن یَّتَمآسَّا ذٰلِکُم تُوعَظُونَ بِہ وَاللهُ بِمَا تَعمَلُونَ خَبِیر، فَمَن لَّم یَجِد فَصِیَامُ شَہرَینِ مُتَتَابِعَینِ مِن قَبلِ أن یّتَمآسَّا فَمَن لَّم یَستَطِع فَإطعَامُ سِتّینَ مِسکِیناً“۔ (المجادلہ:۳-۴)
ترجمہ:۔”جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں، پھر اپنی بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، ایک غلام آزاد کرنا ہوگا، اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے، قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جو اس پر قادر نہ ہو تو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے“۔
کفارہ کی ادائیگی میں ترجیح غلاموں کی آزادی کو دی جائے گی، جیساکہ فرمان باری تعالیٰ کی ترتیب سے واضح ہے۔ صاحب مال وحیثیت، روزہ رکھنے یا کفارہ میں مسکینوں کو کھانا کھلانے میں زیادہ دقت محسوس نہیں کریں گے۔ لیکن غلاموں کی آزادی ان کے لئے بہت بڑا مسئلہ بنے گا، کیونکہ اس سے اس کی خدمت اور مالی منفعت کو نقصان پہنچے گا۔
سورج اور چاند گرہن کے وقت غلاموں کی آزادی
سورج اور چاند گرہن کے موقع پر اللہ کے رسول ا نے خصوصی نماز ادا کرنے کی تلقین کی ہے۔ اسی کے ساتھ آپ ا نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ: اگر استطاعت ہو تو غلاموں کو بھی آزاد کردیا کرو، ہو سکتا ہے ایسا کرنے سے جو بلا آنے والی ہے ٹل جائے، چنانچہ ان دونوں مواقع پر غلاموں کے آزاد کرنے کی شہادت ملتی ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر فرماتی ہیں:”رسول اللہا نے حکم دیا کہ سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کیا جائے“۔ (۳۵) چاند گرہن کے وقت غلاموں کی آزادی کے بارے میں وہ فرماتی ہیں:”ہم کو حکم دیا جاتا تھا کہ چاند گرہن کے وقت غلام آزاد کریں“۔ (۳۶)
بعض اور مواقع پر غلاموں کی آزادی
نبی اکرم ا نے اپنے صحابہ کو بعض دوسرے مواقع اور حادثات کے وقت غلاموں کو آزاد کرنے کی تلقین فرمائی، تاکہ اسی بہانے زیادہ سے زیادہ غلاموں کو آزادی مل سکے۔ اس طرح کی مثالیں بہ کثرت ملتی ہیں۔ حضرت عائشہ  کے بھائی عبد الرحمن بن ابی بکر کا انتقال ہوا تو حضرت عائشہ نے ان کے ثواب کے لئے بہ کثرت غلاموں کو آزاد کیا۔ (۳۷) ایک صحابی کی والدہ کا انتقال ہوگیا، وہ غالباً اس وقت موجود نہ تھے، بعد میں انہوں نے اللہ کے رسول ا سے پوچھا کہ میں اپنی والدہ کی طرف سے غلاموں کو آزاد کروں تو اس کا اجر ملے گا کہ نہیں؟ آپ ا نے فرمایا: ہاں۔ (۳۸) ایک موقع پر اللہ کے رسول ا نے حضرت ابوذرغفاری سے فرمایا: ان غلاموں کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو۔ انہوں نے نیکی کا یہ برتاؤ کیا کہ غلام آزاد کردیا۔ (۳۹) ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ اپنے غلام کے ساتھ حضورا کی خدمت میں آرہے تھے، راہ میں ان کا غلام بھٹک گیا، مگر جب یہ رسول ا کی خدمت میں آگئے تو تھوڑی دیر کے بعد وہ غلام بھی آگیا۔ رسول ا نے فرمایا: لو یہ آگیا۔ ابوہریرہ نے اللہ کے رسول ا سے کہا: آپ گواہ رہیئے میں نے اسے آزاد کردیا۔(۴۰)
مآخذ ومراجع:
۱…سید امیر علی ، روح اسلام، اسلامک بک سینٹر، دہلی، ۲۰۰۵ء، ص:۴۰۵
۲…محمد قطب، اسلام اور جدید ذہن کے شبہات، مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی،۱۹۹۰ء ص:۶۲
۳…روح اسلام، ص:۴۱۰
۴…ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، کتاب الاجارہ، باب منع الآجر۔کتاب البیوع
۵…صحیح البخاری، کتاب الرہن، باب فی العتق وفضول۔ ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، کتاب العتق، باب فضل العتق۔ سنن ابوداؤد، کتاب العتق، باب فی ثواب العتق
۶…صحیح البخاری، کتاب العتق، باب ای الرقاب افضل
۷…ابن قیم الجوزی، زاد المعاد، دارالریان للتراث، قاہرہ، ۱۹۸۷ء، ج:۳،ص:۱۰۹-۱۱۰
۸…صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب فی شہود الملائکہ بدر۱۔کتاب العتق، باب اذا اسرا خو الرجل اوعمہ ہل یفادی اذ کان مشرکا۔ کتاب الجہاد، باب فداء المشرکین
۹…ابن ہشام ، سیرة النبی، ج:۲،ص:۲۹۷
۱۰…مسند احمد بن حنبل، ج:۱،ص:۲۴۷
۱۱…صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب قول اللہ ویوم حنین اذا عجیتکم کثرتکتم
۱۲…ابن جریر طبری، تاریخ طبری، دارالمعارف، قاہرہ،۱۹۷۷ء ج:۲،ص:۴۶۰-۴۶۱
۱۳…عز الدین ابن اثیر جزری، اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ، دار الشعب، قاہرہ، ۱۹۷۰ء، ج:۲،ص:۲۸۲
۱۴…سنن ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی الحق المملوک
۱۵…سنن ابوداؤد، کتاب الادب، باب لایقول المملوک ربی وربتی
۱۶…جامع الترمذی، ابواب البر والصلة، باب ماجاء فی اداب الخادم
۱۷…صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب صحبة الممالیک وکفارة… جامع الترمذی، ابواب البر، باب النہی عن ضرب الخدام وشتمہم
۱۸…اسلام اور جدید ذہن کے شبہات، ص:۶۱
۱۹…موطا امام مالک، کتاب العتق والولاء، باب مایجوز من العتق فی الرقاب الواجبة
۲۰…ایضا، باب عتق امہات الاولاد وجامع القضا فی العتاقة
۲۱…صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب صحبة الممالیک وکفارة من یطم عہدہ۔ سنن ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی حق المملوک
۲۲…سنن ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی حق المملوک
۲۳…مولانا اشرف علی تھانوی، المصالح العقلیہ (احکام اسلام عقل کی نظر میں) کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص:۲۵۴
۲۴… صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب قول النبیا العبد اخوانکم فاطعوہم مما تاکلون۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب اطعام المملوک ممایاکل۔ سنن ابوداؤد، ابواب الادب، باب فی الحق المملوک
۲۵…سنن ابوداؤد، ابواب الادب، باب فی حق المملوک
۲۶…یحی بن شرف نووی، شرح صحیح مسلم، دار الریان للتراث، قاہرہ، ۱۹۸۷ء، جز:۱۱، ج:۴،ص:۱۳۳
۲۷…صحیح البخاری، کتاب العتق، باب اذا اتاہ خادمہ لطعامہ
۲۸…صحیح البخاری، کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امتہ واہلہ۔ کتاب الجہاد، باب فضل من اسلم من اہل الناس
۲۹…اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ، ج:۷، ص:۱۲۵
۳۰…سنن ابوداؤد، کتاب الطلاق، باب فی المملوکة تعتق وہی تحت حرا او عبد، کتاب الجہاد، باب فی عبید المشرکین یلحقون بالمشرکین
۳۱… صحیح البخاری، کتاب العتق، باب اذا احسن عبادة ربہ ونصح سیدہ ۔
۳۲…ایضا
۳۳…اسلام اور جدید ذہن کے شبہات
۳۴…صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب اذاجاء رمضان ولم یکن شئ فتصدق علیہ فلیکفر۔ باب المجامع فی رمضان ہل یطعم اہلہ من الکفارة۔ سنن ابوداؤد، کتاب الطلاق، باب فی الظہار
۳۵…صحیح البخاری، کتاب الرہن فی الحضر، باب ما یستحب من العتاقة فی الکسوف والآیات۔
۳۶…ایضا
۳۷…موطا امام مالک، کتاب العتق، باب عتق الحی عن المیت۔
۳۸…ایضا
۳۹…ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، الادب المفرد، باب العفو عن الخادم، المطبعة السلفیة، قاہرہ، ۱۳۷۸ھ، ج:۱،ص:۲۶۰
۴۰…صحیح البخاری، کتاب العتق، باب اذا قال العبد ہو اللہ ونوی العتق والاشہاد فی العتق
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۲ھ -جون: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: لباس کے آداب اور مقاصد !
Flag Counter