Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۲ھ -جون ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

6 - 12
عصری طلبہ کی موسم گرما کی تعطیلات کا ایک بہترین مصرف !
عصری طلبہ کی موسم گرما کی تعطیلات کا ایک بہترین مصرف

بچپن اورجوانی زندگی کے دو ایسے مرحلے ہیں جو مستقبل کی بنیاد بنتے ہیں، بچے قوم کا سرمایہ اور نوجوان قوم کے معمار ہوا کرتے ہیں، انسانی زندگی کے یہ دو دور تربیت کا انتہائی اہم زمانہ ہوتے ہیں، اس زمانے میں اگر صحیح دینی تربیت نصیب ہوجائے، اچھے اور صالح ہمنشین مل جائیں اور پاکیزہ ماحول میسر آجائے تو یہ ایک مسلمان نوجوان کی نشو ونما کا آغاز ہوتا ہے، اسلاف اوراکابر کے حالات اور ان کے واقعات زندگی میں اس اجمال کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے، اور اگر خدانخواستہ اس بچپن وجوانی کے دور میں صحیح تربیت نہ ہوسکے، غلط ماحول ملے اور برے دوستوں کا ساتھ ہوجائے تو یہ خطرے کی پہلی گھنٹی ہوتی ہے۔
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تاثریّا می رود دیوار کج
یعنی تعمیر کرنے والا اگر پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دے تو یہ دیوار ثریّا(تارے) کی بلندی کو ہی کیوں نہ پہنچ جائے، ٹیڑھی ہی کھڑی ہوگی۔چنانچہ اس دور کی اسی اہمیت کی بناء پر قرآن وحدیث میں بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کے سلسلے میں صرف اشارات ہی نہیں، بلکہ واضح تصریحات ملتی ہیں، بطور نمونہ چند آیات واحادیث ملاحظہ ہوں:
۱…”یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ“ (التحریم:۶)
ترجمہ:۔”اے ایمان والو! تم اپنے کو اور اپنے گھروالوں کو اس آگ سے بچاؤ ،جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں“۔
اس آیت کے تحت امام ابوبکر جصاص رازینے لکھا ہے کہ اہل واولاد کو دین کی، بھلائی کی اور ضروری آداب کی تعلیم دینا لازم اور واجب ہے۔ (احکام القرآن ۳/۶۲۴) اور علامہ آلوسی  نے بعض سلف کا قول نقل کیا ہے کہ:
”اشد الناس عذاباً یوم القیمة من جہل اہلہ“۔ (روح المعانی۱۰/۶)
ترجمہ:۔”قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب اس شخص کو ہوگا (جس کی تربیت نہ ہونے کی بنا پر) اس کے گھر والے (بنیادی امور دینیہ سے) جاہل رہیں“۔
۲…سورہٴ کہف میں اصحاب کہف کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا :
”إِنَّہُمْ فِتْیَةٌ أٰمَنُوْا بِرَبِّہِمْ وَزِ دْنَاہُمْ ہُدًی“ (الکہف:۱۳)
ترجمہ:۔”وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اور ترقی دی“۔
امام ابن کثیر  نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کی جوانی کا بطور خاص اس لئے ذکر فرمایا ہے کہ نوجوانوں میں حق کی قبولیت اور راہ ہدایت پر چلنے کا زیادہ جذبہ ہوتا ہے اور وہی معاشرے کا کار آمد پرزہ ہوتے ہیں، برخلاف بوڑھوں کے کہ وہ اپنی روش پر چلنے کی وجہ سے اخلاق وعادات میں پختگی کی انتہاء تک پہنچ چکے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ خود صحابہ کرام میں پہلے پہل دین اسلام کی دعوت کو قبول کرنے والے اکثر نوجوان ہی تھے۔ (تفسیر ابن کثیر ۳/۱۰۰)
۳…”علموا الصبی الصلوة ابن سبع سنین واضربوہ علیہا ابن عشرة“
(ترمذی:۱/۹۳)
ترجمہ:۔”نبی کریم ا نے فرمایا:بچے کوسات برس کی عمر میں نماز سکھاؤ اور دس برس کی عمر میں (نہ پڑھنے پر) مارو“۔
فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ یہی حکم روزہ کا بھی ہوگا اور اس میں حکمت یہ ہے کہ بچے کو بچپن میں ہی عبادت کی عادت پڑجائے، تاکہ وہ بلوغ تک عبادت وطاعت اور معاصی سے اجتناب کا عادی بن جائے۔ (تفسیر ابن کثیر ۴/۵۰۲)
نیز یہ بھی لکھا ہے کہ نہ پڑھنے کی صورت میں لکڑی وغیرہ سے نہ مارے بلکہ ہاتھ سے مارے۔ (معارف السنن ۴/۳۵)
۴…”سبعة یظلہم الله فی ظلہ یوم لاظل إلا ظلہ: إمام عادل، وشاب نشأ فی عبادة الله، ورجل قلبہ معلّق بالمسجد إذ خرج منہ حتی یعود إلیہ، ورجلان تحابّا فی الله اجتمعا علیہ وتفرقا علیہ، ورجل ذکر الله خالیاً ففاضت عیناہ، ورجل دعتہ امرأة ذات حسب وجمال فقال: إنی أخاف الله، ورجل تصدّق بصدقة فأخفاہا حتی لاتعلم شمالہ ما تنفق یمینہ“۔ (مشکوٰة:۶۸)
یعنی سات اشخاص کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنا سایہٴ رحمت عطا فرمائیں گے، جس دن اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا ، ایک عادل بادشاہ، دوسرا وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پلابڑھا ہو، تیسرا وہ شخص جس کا دل مسجد سے نکلنے کے بعد دوبارہ مسجد آنے تک وہیں اٹکاہوا ہو، چوتھے وہ دو افراد جن کی آپس کی محبت محض اللہ کی رضا کے لئے ہو، اسی پر ان کا اجتماع ہو اور اسی پر افتراق، پانچواں وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگیں، چھٹا وہ شخص جس کو کوئی اعلیٰ حسب نسب کی مالک خوبصورت عورت (گناہ کی) دعوت دے اور وہ کہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف (اس گناہ سے مانع) ہے، ساتواں وہ شخص جو چھپ کر اس طرح صدقہ کرے کہ بائیں ہاتھ کو بھی یہ خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا“۔
مذکورہ بالا آیات واحادیث اور ان جیسی دیگربے شمار احادیث میں اولاد کی اصلاح وتربیت کا اہتمام کرنے کی بھر پور ترغیب وتاکید فرمائی گئی ہے ۔ ہمارے اساتذہ کے استاذ حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید نے ایک عرب عالم شیخ عبد اللہ ناصح علوان  کی کتاب کا اردو میں ترجمہ فرمایا تھا، جو ”اسلام اور تربیت اولاد“ کے نام سے چھپ چکا ہے، اس میں اس موضوع پر مستقل کتاب کی صورت میں کافی مواد موجود ہے۔دورِ حاضر میں فتنوں کا ایک سیلاب امنڈتا چلا آرہا ہے، ہرصبح ایک نیا فتنہ لے کر آتی ہے اور ہرشام ایک تازہ فتنہ چھوڑ کر رخصت ہوتی ہے، ہرطرف علمی، فکری اور تہذیبی حملوں کا طوفان برپا ہے، نبی کریم ا نے فرمایا تھا:
”إنی لأری الفتن تقع خلال بیوتکم کوقع المطر “۔ (مشکوٰة:۴۶۲)
ترجمہ:۔”میں دیکھ رہا ہوں کہ فتنے تمہارے گھروں میں بارش کی طرح برس رہے ہیں“۔
آج دیگر چیزوں سے قطع نظر الیکٹرونک میڈیا کی صورت میں یہ پیش گوئی حرف بحرف صادق ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
عصری تعلیم گاہوں میں موسم گرما کی تعطیلات کا آغاز ہوتے ہی طلبہ کی ان تعطیلات سے فائدہ اٹھانے کے لئے مختلف عنوانات سے پروگرام شروع ہوجاتے ہیں، پرفریب نعروں اور خوش کن وعدوں کے ذریعے اپنی طرف مائل کرنے والے بے شمار دشمنانِ اسلام میدان میں آکھڑے ہوتے ہیں، اور ”سمر کیمپ“ کے نام پر نہ جانے کیا کچھ ہورہا ہے۔ عصری طلبہ کے تعلیمی سلسلے کا یہ وقفہ بھی انتہائی اہم ہوتا ہے، اس وقت کا درست یا غلط استعمال ان کی آئندہ تعلیمی زندگی کو صحیح رخ پر بھی لاسکتا ہے اور غلط رخ کی طرف بھی دھکیل سکتا ہے، طلبہ کی ایک بڑی تعداد فرصت کے ان لمحات کو فضول سرگرمیوں ، بری محفلوں یا انٹرنیٹ کیفوں میں گزار کر مزید انحطاط وپستی کا شکار ہوجاتی ہے، جس کے اثرات ان کی اگلی تعلیمی زندگی پر انتہائی بھیانک ہوتے ہیں، ایسے اخلاق سوز ماحول میں والدین کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں کہ وہ اپنی اولاد پر نگاہیں مرکوز رکھیں، ان کی مصروفیات پر کڑی نظر رکھیں اور ان کے اوقات کو کسی صحیح مصرف میں لگائیں، نیز امت کے علماء ومصلحین کے فرائض میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے کہ وہ مستقبل کے معماروں کے ان لمحات کو دینی ترقی کا ذریعہ بنانے کے لئے اصلاحی وتربیتی پروگرام شروع کریں۔
امت مسلمہ کے علماء ومشائخ ہمیشہ سے امت کے اجتماعی مسائل کا حل سوچتے اور ممکنہ تدابیر اختیار کرتے آئے ہیں، کچھ عرصہ قبل ہماری جامعہ کے اکابر اساتذہ نے کافی غور وفکر اور سوچ وبچار کے بعد عصری طلبہ کی موسم گرما کی تعطیلات کو دینی ماحول اور اخلاقی تربیت کا موقع فراہم کرنے کے لئے ایک کورس کا آغاز فرمایا، ۲۰۰۲ء میں کراچی کی ایک مسجد سے شروع ہونے والا یہ کورس چند سالوں میں صرف شہر کی مختلف مساجد میں ہی نہیں، بلکہ ملک کے کئی شہروں اور دور دراز کے دیہی علاقوں تک عام ہوچکا ہے اور اس کی بدولت ایمانی اور روحانی فضائیں قائم ہورہی ہیں، حتی کہ کئی بیرونی ممالک میں بھی اس کورس کا آغاز ہوچکا ہے، کورس کی ابتداء میں کوئی باقاعدہ نصاب مرتب نہیں کیا گیا تھا،رفتہ رفتہ جامعہ ہی کے اساتذہ کی نگرانی میں طلبہ کی ذہنی استعداد کے مطابق ایک تدریجی نصاب مرتب ہوگیا، جس میں قرآن کریم کی منتخب آیات کا ترجمہ وتفسیر، چنیدہ احادیث اور ان کی تشریح، اسلام کے بنیادی احکام ومسائل، مسنون دعائیں اور عربی زبان کا شوق دلانے کے لئے مکالمے وغیرہ جمع کئے گئے ہیں، چند ہی سالوں میں اس سلسلے کے بہترین فوائد وثمرات محسوس کئے گئے، طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی اور ایمان وعمل میں ایسی بہتری اور ترقی محسوس کی کہ وہ معاشرے کے بہترین افراد اور اسکول وکالج کے اچھے مسلمان طلبہ ثابت ہوئے، بہت سوں نے حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کی، والدین نے بھی اپنے بچوں کی عمدہ تربیت پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا اور یقینا ایسے بچے اپنے والدین کے لئے دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک اور آخرت میں ابدی سرخروئی کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔
جامعہ کے اساتذہ کی طرف سے اس کورس کا آغاز درحقیقت ایک ”دعوت فکر“ ہے اور قوم کے سرمایہ کی دینی واخلاقی تربیت کے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا ایک مثالی نمونہ ہے، اس راہ میں نہ تو تجارتی مقاصد پیش نظر ہیں اور نہ ہی کسی خاص نصاب کی قید، نصاب کی ترتیب واشاعت بھی دراصل ایک بنیادی ضرورت کی تکمیل ہے، جامعہ کے اساتذہ اس سلسلے کی ہر مفید تجویز کا خیر مقدم کریں گے اور ہر رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے، جو حضرات اس بارے میں مشورہ کرنا چاہیں تو اساتذہ ان کی راہنمائی فرمائیں گے۔ داعیان ِ ملت اور مصلحین ِ امت کو اس فکر کے اپنانے کی دعوتِ عام ہے۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۲ھ -جون: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: غلاموں سے متعلق اسلام کے رہنما احکام !
Flag Counter